کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیل ہو رہی ہے
طالبان نے اس کے بعد ہیبت اللہ اخونزادہ کوافغان طالبان کا امیر منتخب کیا
SHABQADAR:
پاکستان کی طرف سے افغان طالبان رہنمائوں کو بالآخر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات پرآمادہ کرنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے امیدکی کرن نظر آئی ہے۔امریکا کے خصوصی نمایندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان رہنمائوں کے درمیان مذاکرات 18 دسمبرکو ابو ظہبی(متحدہ عرب امارات) میں ہوئے۔
پہلے یہ بات چیت دوحہ میں طے تھی مگر قطر اورخلیجی ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مقام تبدیل کرکے ابو ظہبی کا چنائوکیا گیا۔پاکستان متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا تھاکیونکہ طالبان کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیںاور یہ دونوں ملک افغان طالبان کی کچھ مالی مدد بھی کرتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا نے حقانی گروپ کو سامنے بٹھا کر اس سے بات چیت کی، حالانکہ اقوام متحدہ کی طرف سے انھیں دہشتگرد قرار دیا جا چکا ہے۔
خلیل زاد نے بات چیت کو ''نتیجہ خیز'' قرار دیا، مگرکسی بھی فریق کی طرف سے بات چیت کے اگلے دورکے بارے میں نہ توکوئی مخصوص وقت بتایا گیا اور نہ یہ تفصیل دی گئی کہ ان میں کن معاملات پر اتفاق رائے ہوا۔ فریقین نے قیدیوں کی رہائی کا ذکرکیا، خلیل زاد نے امریکن یونیورسٹی آف افغانستان کے دو پروفیسروں کی رہائی کے لیے کہا جنھیں طالبان نے اگست2016 میں اغوا کیا تھا ۔اس کے بدلے میں حقانی گروپ نے انس حقانی کی رہائی کا مطالبہ کیا، جو اس گروپ کے لیڈر سراج الدین حقانی کے بھائی ہیں۔ انس کو افغان انٹیلی جنس نے2014 میں گرفتارکیا تھا۔
بات چیت کی کامیابی کا اصل اشارہ، فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی سے ملے گا۔کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں پیشرفت ہوئی ہے۔ افغان طالبان کے لیے بڑی اور اچھی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے 7,000 امریکی فوجی واپس بلا رہے ہیں۔ اس کا مطلب افغانستان میں امریکا کی موجودگی میں 50 فیصد کمی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے وزیر دفاع میٹس استعفا دے چکے ہیں۔
اس سے قبل، افغان طالبان،امریکا، چین اور روس کے درمیان چار فریقی مذاکرات کی راہ ہموارکرنے کے لیے پاکستان کی کوشش اس وجہ سے ناکام ہو ئی تھی کہ افغان انٹیلیجنس نے یہ راز فاش کردیا تھاکہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر، ملا عمرکئی ماہ پہلے پاکستان کے ایک اسپتال میں انتقال کرچکے ہیں اور اس کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ملاعمرکا ایک نقلی خط گمنام طریقے سے تقسیم کرایا گیا۔اس واقعے نے افغان طالبان کواپنی تحریک کے نئے امیر اختر منصور کے اعلان پر مجبورکیا،جومئی2016 میں اس وقت امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے جب وہ ایران کی سرحد عبورکرکے پاکستانی علاقے میں سفر کر رہے تھے۔عام طور سے باورکیا جاتا تھا کہ اختر منصور امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کے حق میں نہیں تھے اور اسی لیے امریکیوں نے انھیں راستے سے ہٹا دیا۔
طالبان نے اس کے بعد ہیبت اللہ اخونزادہ کوافغان طالبان کا امیر منتخب کیا، وہ افغان سرحد کے قریب پاکستان کے ایک گائوں میں مدرسہ چلاتے تھے۔ یہ حقیقت کہ ملا عمرکا انتقال پاکستان کے ایک اسپتال میں ہوا،ان کے بعد منتخب ہونے والے امیر ملا اختر منصور ایران کے ساتھ ملنے والے ایک سرحدی شہر میں ڈرون حملے میں مارے گئے، اُس وقت ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا، جس پر وہ متعدد بار متحدہ امارات کا سفرکرچکے تھے اور یہ کہ افغان طالبان کا نیا لیڈر پاکستان میں رہائش پذیر تھا اور ایک کیمپ چلا رہا تھا۔ امریکا اور افغان حکومت کے ان الزامات کو سچ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان، افغان طالبان رہنمائوں کو پناہ دیتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے قبائلی علاقوں میں حقانی گروپ کے لیڈروں کی موجودگی کی بھی تردید کی گئی، حالانکہ اسے بخوبی علم تھا کہ افغانستان اور امریکا ہماری تردید پر یقین نہیں کرتے۔
جب بھی امریکی اور افغان حکومت نے اس بات پراصرار کیا کہ پاکستان کو مزید اقدامات کرنے چاہئیں، پاکستانی حکومت نے اس ساری بحث کا رخ پاکستانی طالبان کے خلاف آپریشن کی طرف موڑ دیا اور یہ موقف اختیارکیا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے گناہ شہریوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں سمیت 70,000 افرادکی جانوں کی قربانی دی ہے۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ ابتدا میں پاکستانی طالبان ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق تھے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ اس وقت ان کے خلاف ہوگئی جب انھوں نے اپنے ہی آقائوں کے خلاف بغاوت کردی اور Frankenstein (1818 میں شایع ہونے والے میری شیلی کے ناول کا افسانوی کردار) بن گئے۔
ہم یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کو 123 بلین امریکی ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ امریکا اور باقی دنیا اس خانہ جنگی میں پاکستان کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کا اعتراف نہیں کرتی ،کیونکہ جب ان لوگوں کی طرف سے یہ باتیں کی جا رہی تھیں کہ پاکستان ، افغان طالبان اور حقانی گروپ کو پناہ گاہیں دے رہا ہے تو ہم دہشت گردوں کی ایک مختلف قسم کی بات کر رہے تھے، جو اصل میں پاکستانی تھے اور انھوں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کر رکھا تھا۔
ان پاکستانی دہشت گرد گروپوں کا، جو اسامہ بن لادن کے نظریہ سے متاثر تھے،خیال تھا کہ انھیں بندوق کے ذریعے پاکستان میںاسلامی خلافت قائم کرنی ہے، لہٰذا عمران خان کی یہ بات غلط ہے کہ ہم پاکستان میں دوسروں کی جنگ لڑتے رہے ہیں ،جیسا کہ اس سے پہلے بتایا جاچکا ہے ہم صرف ان لوگوں کے خلاف لڑے جنھوں نے اس حد تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی رٹ کو چیلنج کیا تھا کہ انھوں نے جی ایچ کیو اور دوسری فوجی تنصیبات تک پر حملے کیے۔
اس بار پاکستان ،افغان طالبان رہنمائوں کو ابوظہبی میں مذاکرات کی میز پر لے آیا ۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ انھوں نے افغانستان میں افغان طالبان اور حقانی گروپ کی شورش کی حمایت کرنے کی پالیسی واقعی تبدیل کردی ہے اور یہ یقین کرنا چھوڑ دیا ہے کہ وہ 90کی دہائی کی طرح کابل میں طالبان کی زیر قیادت حکومت قائم کرسکتے ہیں ۔90 کے عشرے میں پاکستان کے علاوہ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا ۔
لگتا ہے کہ سوچ کی اس تبدیلی میں چین اور روس کی طرف سے اہم کردار ادا کیا گیا ہے جو پاکستان کو یہ سمجھاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں پر انحصار ختم کردے ۔
پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ افغانستان نے اُن پاکستانی دہشتگردوں کو پناہ دی جو اپنے خلاف آپریشن کے بعد سرحد پار بھاگ گئے تھے۔ افغان انٹیلیجنس پاکستانی طالبان کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر یہ دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہے کہ وہ افغان طالبان کو روکے جو افغان اور امریکی فوج کے کیمپوں پر سرگرمی سے حملے کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کو لائن آف کنٹرولLoC پربھارت کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں پر بھی پریشانی ہے اور وہ بیک وقت مشرقی اور مغربی محاذوں پرگرما گرمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
تاہم عمران خان کی حکومت مغربی اور مشرقی پڑوسیوں کے ساتھ دو مسلسل کامیابیوں کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تائید سے ہی ایسا کرسکتے تھے، لگتا ہے کہ امریکیوں کو بھی یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ خارجہ پالیسی کے ان معاملات پر اختیارکس کے پاس ہے،کیونکہ زلمے خلیل زاد نے ابوظہبی مذاکرات کے بعد پہلی ملاقات،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے نہیں بلکہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ سے کی تھی۔
پاکستان کی طرف سے افغان طالبان رہنمائوں کو بالآخر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات پرآمادہ کرنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے امیدکی کرن نظر آئی ہے۔امریکا کے خصوصی نمایندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان رہنمائوں کے درمیان مذاکرات 18 دسمبرکو ابو ظہبی(متحدہ عرب امارات) میں ہوئے۔
پہلے یہ بات چیت دوحہ میں طے تھی مگر قطر اورخلیجی ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مقام تبدیل کرکے ابو ظہبی کا چنائوکیا گیا۔پاکستان متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا تھاکیونکہ طالبان کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیںاور یہ دونوں ملک افغان طالبان کی کچھ مالی مدد بھی کرتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا نے حقانی گروپ کو سامنے بٹھا کر اس سے بات چیت کی، حالانکہ اقوام متحدہ کی طرف سے انھیں دہشتگرد قرار دیا جا چکا ہے۔
خلیل زاد نے بات چیت کو ''نتیجہ خیز'' قرار دیا، مگرکسی بھی فریق کی طرف سے بات چیت کے اگلے دورکے بارے میں نہ توکوئی مخصوص وقت بتایا گیا اور نہ یہ تفصیل دی گئی کہ ان میں کن معاملات پر اتفاق رائے ہوا۔ فریقین نے قیدیوں کی رہائی کا ذکرکیا، خلیل زاد نے امریکن یونیورسٹی آف افغانستان کے دو پروفیسروں کی رہائی کے لیے کہا جنھیں طالبان نے اگست2016 میں اغوا کیا تھا ۔اس کے بدلے میں حقانی گروپ نے انس حقانی کی رہائی کا مطالبہ کیا، جو اس گروپ کے لیڈر سراج الدین حقانی کے بھائی ہیں۔ انس کو افغان انٹیلی جنس نے2014 میں گرفتارکیا تھا۔
بات چیت کی کامیابی کا اصل اشارہ، فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی سے ملے گا۔کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں پیشرفت ہوئی ہے۔ افغان طالبان کے لیے بڑی اور اچھی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے 7,000 امریکی فوجی واپس بلا رہے ہیں۔ اس کا مطلب افغانستان میں امریکا کی موجودگی میں 50 فیصد کمی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے وزیر دفاع میٹس استعفا دے چکے ہیں۔
اس سے قبل، افغان طالبان،امریکا، چین اور روس کے درمیان چار فریقی مذاکرات کی راہ ہموارکرنے کے لیے پاکستان کی کوشش اس وجہ سے ناکام ہو ئی تھی کہ افغان انٹیلیجنس نے یہ راز فاش کردیا تھاکہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر، ملا عمرکئی ماہ پہلے پاکستان کے ایک اسپتال میں انتقال کرچکے ہیں اور اس کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ملاعمرکا ایک نقلی خط گمنام طریقے سے تقسیم کرایا گیا۔اس واقعے نے افغان طالبان کواپنی تحریک کے نئے امیر اختر منصور کے اعلان پر مجبورکیا،جومئی2016 میں اس وقت امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے جب وہ ایران کی سرحد عبورکرکے پاکستانی علاقے میں سفر کر رہے تھے۔عام طور سے باورکیا جاتا تھا کہ اختر منصور امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کے حق میں نہیں تھے اور اسی لیے امریکیوں نے انھیں راستے سے ہٹا دیا۔
طالبان نے اس کے بعد ہیبت اللہ اخونزادہ کوافغان طالبان کا امیر منتخب کیا، وہ افغان سرحد کے قریب پاکستان کے ایک گائوں میں مدرسہ چلاتے تھے۔ یہ حقیقت کہ ملا عمرکا انتقال پاکستان کے ایک اسپتال میں ہوا،ان کے بعد منتخب ہونے والے امیر ملا اختر منصور ایران کے ساتھ ملنے والے ایک سرحدی شہر میں ڈرون حملے میں مارے گئے، اُس وقت ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا، جس پر وہ متعدد بار متحدہ امارات کا سفرکرچکے تھے اور یہ کہ افغان طالبان کا نیا لیڈر پاکستان میں رہائش پذیر تھا اور ایک کیمپ چلا رہا تھا۔ امریکا اور افغان حکومت کے ان الزامات کو سچ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان، افغان طالبان رہنمائوں کو پناہ دیتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے قبائلی علاقوں میں حقانی گروپ کے لیڈروں کی موجودگی کی بھی تردید کی گئی، حالانکہ اسے بخوبی علم تھا کہ افغانستان اور امریکا ہماری تردید پر یقین نہیں کرتے۔
جب بھی امریکی اور افغان حکومت نے اس بات پراصرار کیا کہ پاکستان کو مزید اقدامات کرنے چاہئیں، پاکستانی حکومت نے اس ساری بحث کا رخ پاکستانی طالبان کے خلاف آپریشن کی طرف موڑ دیا اور یہ موقف اختیارکیا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے گناہ شہریوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں سمیت 70,000 افرادکی جانوں کی قربانی دی ہے۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ ابتدا میں پاکستانی طالبان ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق تھے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ اس وقت ان کے خلاف ہوگئی جب انھوں نے اپنے ہی آقائوں کے خلاف بغاوت کردی اور Frankenstein (1818 میں شایع ہونے والے میری شیلی کے ناول کا افسانوی کردار) بن گئے۔
ہم یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کو 123 بلین امریکی ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ امریکا اور باقی دنیا اس خانہ جنگی میں پاکستان کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کا اعتراف نہیں کرتی ،کیونکہ جب ان لوگوں کی طرف سے یہ باتیں کی جا رہی تھیں کہ پاکستان ، افغان طالبان اور حقانی گروپ کو پناہ گاہیں دے رہا ہے تو ہم دہشت گردوں کی ایک مختلف قسم کی بات کر رہے تھے، جو اصل میں پاکستانی تھے اور انھوں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کر رکھا تھا۔
ان پاکستانی دہشت گرد گروپوں کا، جو اسامہ بن لادن کے نظریہ سے متاثر تھے،خیال تھا کہ انھیں بندوق کے ذریعے پاکستان میںاسلامی خلافت قائم کرنی ہے، لہٰذا عمران خان کی یہ بات غلط ہے کہ ہم پاکستان میں دوسروں کی جنگ لڑتے رہے ہیں ،جیسا کہ اس سے پہلے بتایا جاچکا ہے ہم صرف ان لوگوں کے خلاف لڑے جنھوں نے اس حد تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی رٹ کو چیلنج کیا تھا کہ انھوں نے جی ایچ کیو اور دوسری فوجی تنصیبات تک پر حملے کیے۔
اس بار پاکستان ،افغان طالبان رہنمائوں کو ابوظہبی میں مذاکرات کی میز پر لے آیا ۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ انھوں نے افغانستان میں افغان طالبان اور حقانی گروپ کی شورش کی حمایت کرنے کی پالیسی واقعی تبدیل کردی ہے اور یہ یقین کرنا چھوڑ دیا ہے کہ وہ 90کی دہائی کی طرح کابل میں طالبان کی زیر قیادت حکومت قائم کرسکتے ہیں ۔90 کے عشرے میں پاکستان کے علاوہ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا ۔
لگتا ہے کہ سوچ کی اس تبدیلی میں چین اور روس کی طرف سے اہم کردار ادا کیا گیا ہے جو پاکستان کو یہ سمجھاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں پر انحصار ختم کردے ۔
پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ افغانستان نے اُن پاکستانی دہشتگردوں کو پناہ دی جو اپنے خلاف آپریشن کے بعد سرحد پار بھاگ گئے تھے۔ افغان انٹیلیجنس پاکستانی طالبان کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر یہ دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہے کہ وہ افغان طالبان کو روکے جو افغان اور امریکی فوج کے کیمپوں پر سرگرمی سے حملے کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کو لائن آف کنٹرولLoC پربھارت کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں پر بھی پریشانی ہے اور وہ بیک وقت مشرقی اور مغربی محاذوں پرگرما گرمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
تاہم عمران خان کی حکومت مغربی اور مشرقی پڑوسیوں کے ساتھ دو مسلسل کامیابیوں کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تائید سے ہی ایسا کرسکتے تھے، لگتا ہے کہ امریکیوں کو بھی یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ خارجہ پالیسی کے ان معاملات پر اختیارکس کے پاس ہے،کیونکہ زلمے خلیل زاد نے ابوظہبی مذاکرات کے بعد پہلی ملاقات،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے نہیں بلکہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ سے کی تھی۔