ذمے دار ملک یا حکمران
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت غریب اور افراد امیر ہیں تو اس کی ذمے دار بھی حکومت ہی ہے
ایکسپریس کے ممتاز کالم نگار اور تجزیہ کار جاوید چوہدری کے کالموں میں اکثر ان نامور پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر ہوتا ہے ،جو ان کے اپنے مادر وطن میں ان سے روا رکھی جاتی ہیں اور ان کے لیے ایسے حالات پیدا کردیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے حالات سے بدظن ہوکر ازخود جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ممتاز ملکی شخصیت ڈاکٹر سعید اختر کے بعد حال ہی میں دنیا میں مشہور ڈریس ڈیزائنر محمود بھٹی کا ذکر ہوا ہے جو اپنے وطن کی محبت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کراپنا سرمایہ لے کر واپس لے آئے تھے جس وطن نے محمود بھٹی کو روزگار، شناخت اور عزت دی تھی۔
مگر اپنے وطن میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے شدید مایوس ہوکر اتنے مجبور ہوئے کہ انھیں نہ صرف پاکستان چھوڑ کر پیرس واپس جانا پڑا بلکہ اپنے وطن سے اتنے بدظن کردیے گئے کہ وہ روتے ہوئے اپنا وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے جس میں انھوں نے انتہائی غربت میں ہوش سنبھالا تھا ۔ لاوارثوں کی طرح وہ ایک سرکاری اسپتال میں بیماری کاٹ چکے تھے اور روزگار کے لیے پیرس جا بسے تھے جہاں انھوں نے غربت میں دھکے کھائے مگر بعد میں ان کی صلاحیت کو دیار غیر میں تسلیم کیا گیا اور وہ دنیا میں اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ پاکستانی حصول روزگار کے لیے 1977 میں ملک خالی ہاتھ چھوڑکرگئے تھے جو 30 سال بعد اپنے ملک میں خالی ہاتھوں واپس نہیں آئے تھے بلکہ دنیا بھر سے کمایا ہوا تمام سرمایہ بھی بینکوں سے قانونی طور پر واپس لائے تھے جہاں آکر انھوں نے لاہور میں جدید اسپتال بنوایا اور لاہور ہی میں وطن عزیز کی پہلی فیشن یونیورسٹی قائم کر رہے تھے کہ پاکستان نے نہیں بلکہ پاکستان میں بااختیار ہوجانے والوں نے ان کا جینا حرام کردیا اور انھیں اپنے ملک سے اس قدر متنفر کردیا گیا کہ ملک واپسی کا فیصلہ 30 سال بعد کرنے والے نے اپنا ہی ملک ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کا نہایت دکھ والا فیصلہ دنوں میں کرلیا۔
اپنا ملک ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے والے اب پاکستانی بن کر نہیں بلکہ سابق پاکستانی بن کر اور یہ طے کرکے گئے کہ اب وہ دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کو بتائیں گے کہ وہ بھی اب محمود بھٹی کی طرح سابق پاکستانی بن جائیں کیونکہ اب پاکستان ان کا ملک نہیں بلکہ ان کا اپنا ملک وہ ہے جہاں وہ رہتے ہیں اور جو ملک انھیں روزگار، شناخت اور عزت دے رہا ہے، وہی اب ان کا اپنا ملک ہے جہاں ان کی کوئی بھی سرکاری ادارہ عزت نفس مجروح کرنے کا سوچتا بھی نہیں بلکہ انھیں روزگار کے ساتھ مکمل احترام بھی دیتا ہے۔
کسی غیر یا اپنے ہی ملک میں روزگار حاصل کرنے کا حق تو ہر شخص کو ہے مگر اس کے لیے لازم ہے کہ وہ وہاں کے قوانین پر عمل و احترام تو ضرورکرے مگر اس وقت وہ جہاں بھی رہ رہا ہے اس ملک کی عزت پر بھی حرف نہ آنے دے بلکہ اس میں میں رہنے کا حق بھی ادا کرے اورکسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہو۔ وہاں کے عائد ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرے تو وہاں کا کوئی حکومتی ادارہ یا بااثر شخص اس کی بے عزتی کا حق رکھتا ہے نہ اس کے کھانے پینے، پہننے اور شہری و مذہبی آزادی میں مداخلت کرسکتا ہے اور وہاں عزت سے رہنا اس کا حق ہے۔
پاکستان تو کسی بھی حد تک رفاہی مملکت نہیں ہے اور دنیا کے جن ممالک میں حکومت وہاں کے رہنے والوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے تو انھیں بنیادی سہولیات بھی مفت فراہم کرتی ہے اور وہاں بے روزگاروں اور بیماروں تک کا خیال رکھنا ان ممالک کی ذمے داری میں شمار ہوتا ہے۔
ان سہولتوں کے حصول کے لیے قوانین پر عمل اور ٹیکسوں کی وقت پر ادائیگی سے ہی یہ سہولتیں سرکاری طور پر حاصل کی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں ہر حکومت یہ رونا روتی آئی ہے کہ ملک میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جب کہ یہ جھوٹ اور اپنے شہریوں پر الزام ہے۔ یہاں غریب سے امیر تک ہر فرد بجلی، گیس و دیگر معاملات میں ہر جگہ ٹیکس ادا کر رہا ہے اور یہ ٹیکس اگر حکومتی خزانے تک نہیں پہنچتا یا کم پہنچتا تو اس کی ذمے دار حکومت اور اس کے ادارے ہیں ۔ سرکاری افسروں کی کرپشن اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے سرکاری نوکریاں اہلیت کم اور رشوت وسفارش پر حاصل کرتے ہیں اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت غریب اور افراد امیر ہیں تو اس کی ذمے دار بھی حکومت ہی ہے ۔ حکومت میں موجود بیوروکریسی کے اعلیٰ افسروں سے لے کر چپڑاسی تک کو ملک سے نہیں کمائی سے پیار ہے اور ملک اور اس کی عزت کی فکر نہیں ۔ چیف جسٹس پاکستان کوکہنا پڑا ہے کہ یہ ملک ہماری معشوقہ کی طرح ہے جس سے عشق کیا جانا چاہیے۔ یہ درست ہے کیونکہ پاکستان ہماری مادر وطن ہے مگر ہمیں اس سے پیار کرنے نہیں دیا جا رہا۔ اس ملک سے پیار کرنے جو نہیں دیا جا رہا اس کا ذمے دار یہ ملک نہیں بلکہ وہ مفاد پرست ہیں جو عوام کو اپنے ہی ملک سے بدظن کرنے کے لیے انھیں تنگ اور رسوا کرتے ہیں۔ انھیں کوئی کام قانونی طریقے سے کرنے نہیں دیا جاتا اور رشوت کے لیے خوامخواہ جائز کاموں میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
رشوت نہ دینے پر جو کام مہینوں میں نہیں ہوتے وہ رشوت لے کر گھنٹوں میں کردیا جاتا ہے تاکہ ملک بدنام اور معیشت تباہ ہوکر ان کا اپنا پیٹ بھر جائے۔ پاکستان کو بد نام کرنے والے مفاد پرستوں اور ملک سے محبت کرنے والے محب الوطنوں کو اس ملک نے بہت کچھ دیا ہے جس کی قدر مفاد پرستوں کو نہیں، اپنے ملک سے بے زار ہونے والوں کو اس مقام پر پاکستان نے نہیں ملک دشمن مفاد پرستوں نے پہنچایا ہے جس کے زیادہ ذمے دار حکمران ہیں جو اس ملک کو لوٹنے آتے ہیں اور عوام کو کہتے ہیں کہ انھیں ملک چھوڑنے سے روکا کس نے ہے؟
مگر اپنے وطن میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے شدید مایوس ہوکر اتنے مجبور ہوئے کہ انھیں نہ صرف پاکستان چھوڑ کر پیرس واپس جانا پڑا بلکہ اپنے وطن سے اتنے بدظن کردیے گئے کہ وہ روتے ہوئے اپنا وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے جس میں انھوں نے انتہائی غربت میں ہوش سنبھالا تھا ۔ لاوارثوں کی طرح وہ ایک سرکاری اسپتال میں بیماری کاٹ چکے تھے اور روزگار کے لیے پیرس جا بسے تھے جہاں انھوں نے غربت میں دھکے کھائے مگر بعد میں ان کی صلاحیت کو دیار غیر میں تسلیم کیا گیا اور وہ دنیا میں اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ پاکستانی حصول روزگار کے لیے 1977 میں ملک خالی ہاتھ چھوڑکرگئے تھے جو 30 سال بعد اپنے ملک میں خالی ہاتھوں واپس نہیں آئے تھے بلکہ دنیا بھر سے کمایا ہوا تمام سرمایہ بھی بینکوں سے قانونی طور پر واپس لائے تھے جہاں آکر انھوں نے لاہور میں جدید اسپتال بنوایا اور لاہور ہی میں وطن عزیز کی پہلی فیشن یونیورسٹی قائم کر رہے تھے کہ پاکستان نے نہیں بلکہ پاکستان میں بااختیار ہوجانے والوں نے ان کا جینا حرام کردیا اور انھیں اپنے ملک سے اس قدر متنفر کردیا گیا کہ ملک واپسی کا فیصلہ 30 سال بعد کرنے والے نے اپنا ہی ملک ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کا نہایت دکھ والا فیصلہ دنوں میں کرلیا۔
اپنا ملک ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے والے اب پاکستانی بن کر نہیں بلکہ سابق پاکستانی بن کر اور یہ طے کرکے گئے کہ اب وہ دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کو بتائیں گے کہ وہ بھی اب محمود بھٹی کی طرح سابق پاکستانی بن جائیں کیونکہ اب پاکستان ان کا ملک نہیں بلکہ ان کا اپنا ملک وہ ہے جہاں وہ رہتے ہیں اور جو ملک انھیں روزگار، شناخت اور عزت دے رہا ہے، وہی اب ان کا اپنا ملک ہے جہاں ان کی کوئی بھی سرکاری ادارہ عزت نفس مجروح کرنے کا سوچتا بھی نہیں بلکہ انھیں روزگار کے ساتھ مکمل احترام بھی دیتا ہے۔
کسی غیر یا اپنے ہی ملک میں روزگار حاصل کرنے کا حق تو ہر شخص کو ہے مگر اس کے لیے لازم ہے کہ وہ وہاں کے قوانین پر عمل و احترام تو ضرورکرے مگر اس وقت وہ جہاں بھی رہ رہا ہے اس ملک کی عزت پر بھی حرف نہ آنے دے بلکہ اس میں میں رہنے کا حق بھی ادا کرے اورکسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہو۔ وہاں کے عائد ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرے تو وہاں کا کوئی حکومتی ادارہ یا بااثر شخص اس کی بے عزتی کا حق رکھتا ہے نہ اس کے کھانے پینے، پہننے اور شہری و مذہبی آزادی میں مداخلت کرسکتا ہے اور وہاں عزت سے رہنا اس کا حق ہے۔
پاکستان تو کسی بھی حد تک رفاہی مملکت نہیں ہے اور دنیا کے جن ممالک میں حکومت وہاں کے رہنے والوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے تو انھیں بنیادی سہولیات بھی مفت فراہم کرتی ہے اور وہاں بے روزگاروں اور بیماروں تک کا خیال رکھنا ان ممالک کی ذمے داری میں شمار ہوتا ہے۔
ان سہولتوں کے حصول کے لیے قوانین پر عمل اور ٹیکسوں کی وقت پر ادائیگی سے ہی یہ سہولتیں سرکاری طور پر حاصل کی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں ہر حکومت یہ رونا روتی آئی ہے کہ ملک میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جب کہ یہ جھوٹ اور اپنے شہریوں پر الزام ہے۔ یہاں غریب سے امیر تک ہر فرد بجلی، گیس و دیگر معاملات میں ہر جگہ ٹیکس ادا کر رہا ہے اور یہ ٹیکس اگر حکومتی خزانے تک نہیں پہنچتا یا کم پہنچتا تو اس کی ذمے دار حکومت اور اس کے ادارے ہیں ۔ سرکاری افسروں کی کرپشن اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے سرکاری نوکریاں اہلیت کم اور رشوت وسفارش پر حاصل کرتے ہیں اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت غریب اور افراد امیر ہیں تو اس کی ذمے دار بھی حکومت ہی ہے ۔ حکومت میں موجود بیوروکریسی کے اعلیٰ افسروں سے لے کر چپڑاسی تک کو ملک سے نہیں کمائی سے پیار ہے اور ملک اور اس کی عزت کی فکر نہیں ۔ چیف جسٹس پاکستان کوکہنا پڑا ہے کہ یہ ملک ہماری معشوقہ کی طرح ہے جس سے عشق کیا جانا چاہیے۔ یہ درست ہے کیونکہ پاکستان ہماری مادر وطن ہے مگر ہمیں اس سے پیار کرنے نہیں دیا جا رہا۔ اس ملک سے پیار کرنے جو نہیں دیا جا رہا اس کا ذمے دار یہ ملک نہیں بلکہ وہ مفاد پرست ہیں جو عوام کو اپنے ہی ملک سے بدظن کرنے کے لیے انھیں تنگ اور رسوا کرتے ہیں۔ انھیں کوئی کام قانونی طریقے سے کرنے نہیں دیا جاتا اور رشوت کے لیے خوامخواہ جائز کاموں میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
رشوت نہ دینے پر جو کام مہینوں میں نہیں ہوتے وہ رشوت لے کر گھنٹوں میں کردیا جاتا ہے تاکہ ملک بدنام اور معیشت تباہ ہوکر ان کا اپنا پیٹ بھر جائے۔ پاکستان کو بد نام کرنے والے مفاد پرستوں اور ملک سے محبت کرنے والے محب الوطنوں کو اس ملک نے بہت کچھ دیا ہے جس کی قدر مفاد پرستوں کو نہیں، اپنے ملک سے بے زار ہونے والوں کو اس مقام پر پاکستان نے نہیں ملک دشمن مفاد پرستوں نے پہنچایا ہے جس کے زیادہ ذمے دار حکمران ہیں جو اس ملک کو لوٹنے آتے ہیں اور عوام کو کہتے ہیں کہ انھیں ملک چھوڑنے سے روکا کس نے ہے؟