اسلام کا تصور رسالت
جس طرح قمری مہینے کی پہلی تاریخ کو چاند ہلکی سی کرن کے ساتھ ہلال کی شکل میں نمودار ہوتا ہے
ISLAMABAD:
عقیدہ رسالت دین اسلام کا دوسرا اساسی اصول ہے ۔ رسالت اور رسول کے لفظی معنی پیغام رسانی اور پیغام رساں ہیں۔ لفظ رسالت میں مُرسِل، مُرسَل اور مُرسل اِلیہ یعنی پیغام بھیجنے والا، پیغام لانے والا، پیغام وصول کرنے والا اور پیغام پہنچانے والا، کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
جس طرح قمری مہینے کی پہلی تاریخ کو چاند ہلکی سی کرن کے ساتھ ہلال کی شکل میں نمودار ہوتا ہے پھر اس کی نمود بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ چودہ تاریخ کو پورا چاند بدر کی شکل میں نکل آتا ہے اور اس کی روشنی ہر سو پھیل جاتی ہے ، اسی طرح ہدایت الٰہی کا چاند، ہلال کی شکل میں حضرت آدمؑ کے ساتھ دنیا میں چمکا ۔ پھر ہر زمانے میں مختلف انبیا کرام علیہم السلام کے ذریعے ہدایت کے چاند کی شکلیں ضرورت کے مطابق بڑھتی اور بدلتی رہیں حتیٰ کہ ہدایت کا مکمل چاند بدر کی شکل میں ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں نمودار ہوا اور جو نور آفتاب الٰہی کی بدولت تاقیامت روشن رہے گا۔ جس طرح چاند ایک لیکن روشنی کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح رسالت کا منصب ایک لیکن تقسیم نور ہدایت کے اعتبار سے اس کی حیثیتیں ہر زمانے، ہر دور اور ہر قوم میں مختلف رہی ہیں۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد مصطفیٰؐ تک جتنے بھی انبیا و رسل دنیا میں مختلف قوموں کے درمیان مبعوث ہوئے سب ایک ہی تھے۔
آپؐ کا اور سب کا تعلق رب سے اور جماعت مرسلین ہی سے تھا۔ اس طرح ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں۔ سب ادب اور احترام کے یکساں مستحق ہیں۔رسالت اکائی ہے اس کی جدائی کی مذہباً، عقلاً اور اصولاً اجازت قطعاً نہیں۔ اور جو ایسا کرے وہ کافر ہی نہیں پکا کافر ہے، لیکن رسالت کی اس حقیقت وحدت کے باوجود آپؐ اور دوسرے انبیا میں تقسیم کار اور تقسیم ہدایت کے لحاظ سے جوہری فرق ہے، ایسا ہی فرق جو چاند کی ہلالی، درمیانی اور بدری شکلوں میں ہے یا جو فرق جز اور کل میں ہے۔ کسی رسول کی حیثیت نور ہدایت کے نالے کی سی، کسی کی نہر اور کسی کی دریا کی سی تھی لیکن آپؐ کی ذات ہدایت کا بحر ذخار ہے وہ نور تھے تو آپؐ نور علیٰ نور ہیں وہ نور ہدایت کے اجزا لائے تو آپؐ کل نور ہدایت کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ جس طرح پورے چاند کو بدر کہتے ہیں اسی طرح ہدایت کے پورے چاند کا نام اسلام میں محمدؐ مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ہے۔
اللہ جل جلالہ وعم نوالہ کی جانب سے جتنے بھی انبیا و رسل نسل انسانی کی ہدایت و رہنمائی اور امامت و پیشوائی کے لیے کرہ ارض پر مبعوث ہوئے وہ گوناگوں مناقب، مناصب اور خصوصیات کے مالک تھے ان میں سے چند ایک کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
ہر نبی اور رسول ہر حال میں گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان و بشر تھے۔ خالق سے واصل ہونے کے باوجود مخلوق میں شامل تھے۔ نوع کے اعتبار سے نہ وہ جن تھے نہ فرشتے اور نہ ہی رحمن کا مادی ظہور، بلکہ انسان تھے ۔ رسول کی انسانیت آدمیت اور بشریت میں الوہیت کا ذرہ برابر شائبہ تک نہ تھا۔ دعویٰ رسالت کے حق میں دلیل دعویٰ کے طور پر اللہ نے جو معجزات اور کمالات کے ساتھ اپنے رسولوں کو نوازا انھیں دیکھ کرکہیں آنکھیں دھوکہ نہ کھا جائیں عقل گمراہ نہ ہوجائے قرآن نے رسول کے بشری اور انسانی پہلوکو واضح صاف اور روشن انداز میں پیش کیا تاکہ انسان ناقص کے ذہن ناقص میں رسالت کی الوہیت میں شرکت کے امکانات خیالات، احساسات اور سوالات ابھرنے کی قطعاً گنجائش باقی نہ رہے اور اللہ کی وحدانیت ہر ضرب سے محفوظ رہے۔فرمان الٰہی ہے:
''ہم نے تم سے پہلے جن رسولوں کو بھیجا تھا وہ بھی آدمی تھے جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو ہم نے ان رسولوں کو ایسے جسم نہیں دیے تھے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ وہ غیر فانی تھے۔'' (سورۃ الانبیا آیت8۔7)
''اور ہم نے تم سے پہلے بھی رسول بھیجے تھے اور ان کے لیے ہم نے بیویاں بھی پیدا کی تھیں اور ان کو اولاد بھی دی تھی۔'' (سورۃ الرعد آیت 38)
رسول فضل وکمال کے مالک تھے۔ ذہنی، علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی لاجواب قوت پرواز میں اپنی مثال آپ تھے۔ عام انسان ان کی خاک پا بھی نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح دانا اور نادان، بینا اور نابینا، عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح رسول اور عام انسان چاہے وہ کتنا ہی صاحب زہد وتقویٰ، فہم وذکا ہو، دونوں میں جوہری اور روحانی قد کے لحاظ سے زمین اورآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اللہ ، رسول اور عام انسان تینوں کے مقام جدا جدا ہیں۔ نبوت کی حقیقت وھب ہے کسب نہیں ۔ جو اسے وھبی کی بجائے کسبی سمجھتا ہے وہ وہمی، ظنی اور خیالی ہے۔ یہ منصب عبادت، ریاضت اور چاہت سے حاصل نہیں ہوتا ۔ یہ تو اللہ کی نعمت اور رحمت تھی۔
نبی کی زبان، نفس عقل اور وجدان کی نہیں، وحی کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس کے قول وعمل سے ہمیشہ حق کا ظہور ہوتا ہے کیونکہ اس کے قول و فعل کا ماخذ، منبع اور سرچشمہ حق تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے وہ وہی کہتا ہے جس کی اس پر وحی ہوتی ہے۔ نبی کے کلام پر اللہ کا نام ہوتا ہے۔
معصومیت اور صالحیت ہر نبی کی خصوصیت تھی ۔اس کے خیالات، جذبات اور حرکات پر اللہ کی حکومت ہوتی ہے۔ وہ ہمہ وقت اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے اللہ اس کی عصمت اور طہارت کا ضامن ہوتا ہے۔ جس کی حفاظت کی ضمانت اللہ دے اس کو نفس اور شیطان کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی قوت اور قدرت نہیں رکھتے۔اس کی ذات، اللہ کے سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ سے پاک اور تفکر اور تدبرکی اجتہادی غلطی سے مبرا ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ہر آن اللہ کی امان میں ہوتا ہے۔
بشریت، اصطفائیت، حقانیت اور معصومیت ان چار عناصر سے بنتی ہے نبوت۔ لیکن نبوت کی روح اطاعت ہے۔ رسالت اور اطاعت لازم و ملزوم ہیں۔ اطاعت مقصد اور رسالت ذریعہ ہے۔ اطاعت کے تقاضے اور مطالبے کے بغیر انبیا کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
جب کہ اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ رسالت کی حکمت وجود باری تعالیٰ کی شہادت اور سفر حیات میں اس کے احکامات کی اطاعت ہے۔ مذکورہ بالا چار عناصر ترکیبی جن سے کے نبوت کا تانا بانا بنا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس لیے بیان فرمائے کہ نبی کی ذات پر غیر مشکوک اور غیر متزلزل یقین ہوجائے اور انسان بلاخوف وخطر یقین اور اطمینان کے ساتھ ان کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی بسرکرکے فلاح و سعادت حاصل کرسکے۔ اس کی ذات کو امت کے لیے مثال قرار دینے کا مطلب اس کی قیادت و امامت اور پیشوائی و رہنمائی کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اس کے بتائے ہوئے رنگوں کو زندگی کے مختلف خانوں میں بھرا جائے اس کے لائے ہوئے نور ہدایت سے زندگی کی شب تاریک کو منور کیا جائے۔ جس کی واحد شکل اطاعت رسول ہے جو نبی کو مطاع نہیں مانتا وہ حقیقت میں نبی پر ایمان ہی نہیں رکھتا اور بالکل نہیں جانتا کہ رسالت کسے کہتے ہیں۔ ہر نبی نے اپنی اطاعت کا مطالبہ کیا۔
مختصراً یہ تھیں رسالت کی گونا گوں خصوصیات میں سے چند ایک خصوصیات۔ ان کے علاوہ انبیا و رسل شارح، شارع، معلم، مبلغ، ہادی، داعی، مزکی، بشیر اور نذیر وغیرہ بھی تھے۔ ہر نبی اپنے اپنے زمانے میں اسلام کا پیکر مجسم تھے۔ اپنی اپنی امت کے لیے ''اسوہ حسنہ'' تھے زندگی کا ہر پہلو ان کے دامن سے وابستہ کرنا تھا۔ نبی کی ذات وہ معیار تھی جس کے مطابق ان کی امت کو اپنی زندگیوں کو ڈھالنا تھا تاکہ حقیقی راحت و سکون اور فلاح و سعادت حاصل کرسکیں۔
عقیدہ رسالت دین اسلام کا دوسرا اساسی اصول ہے ۔ رسالت اور رسول کے لفظی معنی پیغام رسانی اور پیغام رساں ہیں۔ لفظ رسالت میں مُرسِل، مُرسَل اور مُرسل اِلیہ یعنی پیغام بھیجنے والا، پیغام لانے والا، پیغام وصول کرنے والا اور پیغام پہنچانے والا، کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
جس طرح قمری مہینے کی پہلی تاریخ کو چاند ہلکی سی کرن کے ساتھ ہلال کی شکل میں نمودار ہوتا ہے پھر اس کی نمود بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ چودہ تاریخ کو پورا چاند بدر کی شکل میں نکل آتا ہے اور اس کی روشنی ہر سو پھیل جاتی ہے ، اسی طرح ہدایت الٰہی کا چاند، ہلال کی شکل میں حضرت آدمؑ کے ساتھ دنیا میں چمکا ۔ پھر ہر زمانے میں مختلف انبیا کرام علیہم السلام کے ذریعے ہدایت کے چاند کی شکلیں ضرورت کے مطابق بڑھتی اور بدلتی رہیں حتیٰ کہ ہدایت کا مکمل چاند بدر کی شکل میں ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں نمودار ہوا اور جو نور آفتاب الٰہی کی بدولت تاقیامت روشن رہے گا۔ جس طرح چاند ایک لیکن روشنی کے لحاظ سے اس کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح رسالت کا منصب ایک لیکن تقسیم نور ہدایت کے اعتبار سے اس کی حیثیتیں ہر زمانے، ہر دور اور ہر قوم میں مختلف رہی ہیں۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد مصطفیٰؐ تک جتنے بھی انبیا و رسل دنیا میں مختلف قوموں کے درمیان مبعوث ہوئے سب ایک ہی تھے۔
آپؐ کا اور سب کا تعلق رب سے اور جماعت مرسلین ہی سے تھا۔ اس طرح ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں۔ سب ادب اور احترام کے یکساں مستحق ہیں۔رسالت اکائی ہے اس کی جدائی کی مذہباً، عقلاً اور اصولاً اجازت قطعاً نہیں۔ اور جو ایسا کرے وہ کافر ہی نہیں پکا کافر ہے، لیکن رسالت کی اس حقیقت وحدت کے باوجود آپؐ اور دوسرے انبیا میں تقسیم کار اور تقسیم ہدایت کے لحاظ سے جوہری فرق ہے، ایسا ہی فرق جو چاند کی ہلالی، درمیانی اور بدری شکلوں میں ہے یا جو فرق جز اور کل میں ہے۔ کسی رسول کی حیثیت نور ہدایت کے نالے کی سی، کسی کی نہر اور کسی کی دریا کی سی تھی لیکن آپؐ کی ذات ہدایت کا بحر ذخار ہے وہ نور تھے تو آپؐ نور علیٰ نور ہیں وہ نور ہدایت کے اجزا لائے تو آپؐ کل نور ہدایت کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ جس طرح پورے چاند کو بدر کہتے ہیں اسی طرح ہدایت کے پورے چاند کا نام اسلام میں محمدؐ مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ہے۔
اللہ جل جلالہ وعم نوالہ کی جانب سے جتنے بھی انبیا و رسل نسل انسانی کی ہدایت و رہنمائی اور امامت و پیشوائی کے لیے کرہ ارض پر مبعوث ہوئے وہ گوناگوں مناقب، مناصب اور خصوصیات کے مالک تھے ان میں سے چند ایک کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
ہر نبی اور رسول ہر حال میں گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان و بشر تھے۔ خالق سے واصل ہونے کے باوجود مخلوق میں شامل تھے۔ نوع کے اعتبار سے نہ وہ جن تھے نہ فرشتے اور نہ ہی رحمن کا مادی ظہور، بلکہ انسان تھے ۔ رسول کی انسانیت آدمیت اور بشریت میں الوہیت کا ذرہ برابر شائبہ تک نہ تھا۔ دعویٰ رسالت کے حق میں دلیل دعویٰ کے طور پر اللہ نے جو معجزات اور کمالات کے ساتھ اپنے رسولوں کو نوازا انھیں دیکھ کرکہیں آنکھیں دھوکہ نہ کھا جائیں عقل گمراہ نہ ہوجائے قرآن نے رسول کے بشری اور انسانی پہلوکو واضح صاف اور روشن انداز میں پیش کیا تاکہ انسان ناقص کے ذہن ناقص میں رسالت کی الوہیت میں شرکت کے امکانات خیالات، احساسات اور سوالات ابھرنے کی قطعاً گنجائش باقی نہ رہے اور اللہ کی وحدانیت ہر ضرب سے محفوظ رہے۔فرمان الٰہی ہے:
''ہم نے تم سے پہلے جن رسولوں کو بھیجا تھا وہ بھی آدمی تھے جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو ہم نے ان رسولوں کو ایسے جسم نہیں دیے تھے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ وہ غیر فانی تھے۔'' (سورۃ الانبیا آیت8۔7)
''اور ہم نے تم سے پہلے بھی رسول بھیجے تھے اور ان کے لیے ہم نے بیویاں بھی پیدا کی تھیں اور ان کو اولاد بھی دی تھی۔'' (سورۃ الرعد آیت 38)
رسول فضل وکمال کے مالک تھے۔ ذہنی، علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی لاجواب قوت پرواز میں اپنی مثال آپ تھے۔ عام انسان ان کی خاک پا بھی نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح دانا اور نادان، بینا اور نابینا، عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے، اسی طرح رسول اور عام انسان چاہے وہ کتنا ہی صاحب زہد وتقویٰ، فہم وذکا ہو، دونوں میں جوہری اور روحانی قد کے لحاظ سے زمین اورآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اللہ ، رسول اور عام انسان تینوں کے مقام جدا جدا ہیں۔ نبوت کی حقیقت وھب ہے کسب نہیں ۔ جو اسے وھبی کی بجائے کسبی سمجھتا ہے وہ وہمی، ظنی اور خیالی ہے۔ یہ منصب عبادت، ریاضت اور چاہت سے حاصل نہیں ہوتا ۔ یہ تو اللہ کی نعمت اور رحمت تھی۔
نبی کی زبان، نفس عقل اور وجدان کی نہیں، وحی کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس کے قول وعمل سے ہمیشہ حق کا ظہور ہوتا ہے کیونکہ اس کے قول و فعل کا ماخذ، منبع اور سرچشمہ حق تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے وہ وہی کہتا ہے جس کی اس پر وحی ہوتی ہے۔ نبی کے کلام پر اللہ کا نام ہوتا ہے۔
معصومیت اور صالحیت ہر نبی کی خصوصیت تھی ۔اس کے خیالات، جذبات اور حرکات پر اللہ کی حکومت ہوتی ہے۔ وہ ہمہ وقت اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے اللہ اس کی عصمت اور طہارت کا ضامن ہوتا ہے۔ جس کی حفاظت کی ضمانت اللہ دے اس کو نفس اور شیطان کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی قوت اور قدرت نہیں رکھتے۔اس کی ذات، اللہ کے سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ سے پاک اور تفکر اور تدبرکی اجتہادی غلطی سے مبرا ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ہر آن اللہ کی امان میں ہوتا ہے۔
بشریت، اصطفائیت، حقانیت اور معصومیت ان چار عناصر سے بنتی ہے نبوت۔ لیکن نبوت کی روح اطاعت ہے۔ رسالت اور اطاعت لازم و ملزوم ہیں۔ اطاعت مقصد اور رسالت ذریعہ ہے۔ اطاعت کے تقاضے اور مطالبے کے بغیر انبیا کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
جب کہ اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ رسالت کی حکمت وجود باری تعالیٰ کی شہادت اور سفر حیات میں اس کے احکامات کی اطاعت ہے۔ مذکورہ بالا چار عناصر ترکیبی جن سے کے نبوت کا تانا بانا بنا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس لیے بیان فرمائے کہ نبی کی ذات پر غیر مشکوک اور غیر متزلزل یقین ہوجائے اور انسان بلاخوف وخطر یقین اور اطمینان کے ساتھ ان کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی بسرکرکے فلاح و سعادت حاصل کرسکے۔ اس کی ذات کو امت کے لیے مثال قرار دینے کا مطلب اس کی قیادت و امامت اور پیشوائی و رہنمائی کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اس کے بتائے ہوئے رنگوں کو زندگی کے مختلف خانوں میں بھرا جائے اس کے لائے ہوئے نور ہدایت سے زندگی کی شب تاریک کو منور کیا جائے۔ جس کی واحد شکل اطاعت رسول ہے جو نبی کو مطاع نہیں مانتا وہ حقیقت میں نبی پر ایمان ہی نہیں رکھتا اور بالکل نہیں جانتا کہ رسالت کسے کہتے ہیں۔ ہر نبی نے اپنی اطاعت کا مطالبہ کیا۔
مختصراً یہ تھیں رسالت کی گونا گوں خصوصیات میں سے چند ایک خصوصیات۔ ان کے علاوہ انبیا و رسل شارح، شارع، معلم، مبلغ، ہادی، داعی، مزکی، بشیر اور نذیر وغیرہ بھی تھے۔ ہر نبی اپنے اپنے زمانے میں اسلام کا پیکر مجسم تھے۔ اپنی اپنی امت کے لیے ''اسوہ حسنہ'' تھے زندگی کا ہر پہلو ان کے دامن سے وابستہ کرنا تھا۔ نبی کی ذات وہ معیار تھی جس کے مطابق ان کی امت کو اپنی زندگیوں کو ڈھالنا تھا تاکہ حقیقی راحت و سکون اور فلاح و سعادت حاصل کرسکیں۔