بدعنوانی کے خلاف حکومتی کارروائیاں

پیپلزپارٹی کے مختلف عہدوں پر تبدیلی کے احکامات

پیپلزپارٹی کے مختلف عہدوں پر تبدیلی کے احکامات فوٹو : فائل

11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے بیش تر مرکزی راہ نماؤں نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیئے تھے، جس کی وجہ وفاق و صوبوں میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

صدر پاکستان نے بھی صوبائی صدور کو عہدوں میں تبدیلی لانے کے احکامات دیے، جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے، پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کے صدر قائم علی شاہ نے عہدوں میں تبدیلی کی ابتدا لاڑکانہ سے کر دی ہے۔ پہلے مرحلے میں انہوں نے مایوس کن کارکردگی پر پیپلزپارٹی ضلع لاڑکانہ کے سینئر نائب صدر شفقت کو عہدے سے ہٹا کر نائب صدر خیر محمد شیخ کو سینئر نائب صدر مقرر کیا ہے، جب کہ پارٹی کے سینئر راہ نما عبدالستار موریو کو نائب صدر مقرر کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔ نومقرر نائب صدر عبدالستار موریو نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر مملکت نے کراچی میں ایک اجلاس میں وزیر اعلا سندھ کو خصوصی ہدایات دی ہیں تاکہ پیپلزپارٹی ایسے اقدام کرے جس سے پارٹی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال اور بہتر ہو سکے۔ صدر مملکت نے منتخب نمائندوں کو مختلف ٹاسک بھی دیئے، جب کہ وزیر اعلا سندھ سید قائم علی شاہ کو سندھ بھر میں قبضہ کی گئیں۔

محکمہ زراعت و جنگلات کی زمین جوکہ لاکھوں ایکڑ میں ہے کا فوری تفصیلی ریکارڈ بنا کر پیش کرنے کی ہدایات دیں۔ جس کے بعد قبضہ مافیا سے مذاکرات اور تنبیہ کے ذریعے وہی زمین سندھ کے غریب، مستحق خواتین اور مرد و خواتین کسانوں میں تقسیم کی جائے گی۔ صدر کا کہنا تھا کہ وہ صدارت کی مدت میعاد پوری ہونے سے قبل آرڈیننس کے ذریعے قبضہ کی گئی سرکاری زمینیں غریبوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ذرایع کے مطابق مستقبل قریب میں پاکستان پیپلزپارٹی سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا ودیگر میں بھی بڑے بڑے عہدوں پر تبدیلی کی جائے گی، جس کا مقصد پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ حکومت و بدعنوانی لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔

منتخب نمائندے ہوں اور کرپشن کی کہانی نہ ہو عجیب سی بات لگتی ہے۔ ایسا ہی کچھ شہروں کو ترقی یافتہ بنانے اور شہریوں کو سڑکیں، نکاسی آب کے بہتر نظام سمیت دیگر سہولیات دینے والے وفاقی ادارے پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پاک پی ڈبلیو) میں بھی ہوا ہے، جہاں مبینہ طور پر 50 کروڑ روپے سے زاید کی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے، جوکہ پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین قومی اسمبلی فریال تالپور، شاہد حسین بھٹو، رمیش لعل، نذیر بھگیو کی جانب سے پیپلز پروگرام ون اور ٹو کے تحت مبینہ طور من پسند ٹھیکے داروں کو کروڑوں روپے کی جاری کی گئی ترقیاتی اسکیموں میں ہوا ہے، کیوں کہ ضلع لاڑکانہ اور قمبر شہداد کوٹ میں 5 سال قبل شروع کی گئیں، 200 سے زاید ترقیاتی اسکیموں میں سے بیش تر اب تک مکمل نہیں ہوئیں اور محکمے کی جانب سے مذکورہ اسکیموں کی مکمل ایڈوانس ادائیگی بھی کر دی گئی ہے۔


سونے پر سہاگہ کہ متعدد اسکیموں جن میں گاؤں وکیاسانگی تادھامراہ، جیل روڈ سے آریجا، گاؤں کھیڈ کرتا کورکانی تک کی شاہ راہیں پرانی اسکیموں میں شامل ہونے کے باوجود مکمل نہیں ہوئیں، جن کی ادائیگی بھی ہوچکی اور انہیں اسکیموں کو دوبارہ نئی این آئی ٹیز (نوٹس انوائیٹڈ ٹینڈرز) میں بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں کنگا میں سی سی بلاک کے علاوہ شہداد کوٹ میں اقلیتی مذہب کے دربار موہن داس کی ترقیاتی اسکیمیں بھی شامل ہیں، جو مکمل نہیں، جب کہ گاؤں وڈا مہر، یوسی پٹھان، یوسی رتو کوٹ، یوسی بیڑو چانڈیو، یوسی رشید وگن کی اسکیمیں بھی توجہ کی منتظر ہیں، تاہم منتخب نمایندے ہیںکہ جنہیں لگتا ہے کہ شہریوں کے معاملات کی فکر نہیں۔ لاڑکانہ کے شہریوں نے کہا کہ وہ ذرایع ابلاغ کے شکر گزار ہیں، کیوں کہ ایسی بدعنوانی کے شرم ناک حقائق انہی کے ذریعے منظر عام پر آئے، جن میں کہیں نہ کہیں بالواسطہ یا بلا واسطہ منتخب نمائندے ملوث اور ذمے دار ہوتے ہیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی حکومتیں اور منتخب نمائندے اپنے صوبوں اور حلقوں کی عوام کے مسائل حل کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں، لیکن اب یہ فلسفہ دم توڑچکا ہے، اب تو صرف ان کے مسائل حل ہوں گے یا ہوتے ہیں جو منتخب نمائندوں کی آمد یا ان کے جلسے جلوسوں میں ان کے حق میں نعرے بازی کریں، تعریفوں کے پل باندھیں۔ چاہے وہ اہل ہوں یا نہ ہوں، ملازمتیں بھی انہیں کو ہی ملیں گی جو صرف خوشامدیں کرے گا۔ لاڑکانہ کا کوئی محکمہ ایسا نہیں جہاں بدعنوانی، اقربا پروری، سفارش،انتقامی کارروائیاں نہ ہوں۔ پچھلے دنوں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ میں 50 کروڑ سے زاید کی کرپشن ہوئی، اینٹی کرپشن نے چھاپہ مارا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ایف آئی اے کراچی کی ٹیم نے چھاپہ مارا 70 کروڑ کی خرد برد کا انکشاف ہوا، سارا آفس ریکارڈ ضبط ہوا لیکن پھر سب اچھا ہوگیا۔

محکمہ تعلیم لاڑکانہ کے چار بالا افسران کو کراچی نیب کے افسران نے گرفتار کیا، ایک ارب سے زائد کی کرپشن کا معاملہ تھا تاہم باوثوق ذرایع کے مطابق مبینہ طور پر 3 افسران کو دو کروڑ کے عوض چھوڑ دیا گیا، جب کہ چوتھے افسر کے ساتھ بھی 3 کروڑ روپے میں ڈیل مکمل ہو چکی ہے جوکہ جلد باعزت رہا ہو جائیں گے۔ ٹی ایم اے باقرانی وڈوکری میں 5 روز سے ملازمین کی ہڑتال جاری ہے۔ 35 کروڑ روپے کی خردبرد کی اطلاعات پر سیکریٹری لوکل گورنمنٹ نے انکوائری کے احکامات دے رکھے ہیں، کمشنر لاڑکانہ غلام مصطفی اپھل اور ایڈمنسٹریٹر ٹی ایم اے ڈوکری عبدالحکیم پنہیار نے تحقیقات کے بعد ڈوکری کے 950 ملازمین میں سے 583 کو جعلی ملازم قرار دیا، جوکہ سابق ٹی ایم او عبدالرشید ملک کے دور 2012ء میں رکھے گئے، جنہیں لاکھوں روپے ماہانہ تن خواہیں بھی جاری کی گئیں۔

ذرایع ابلاغ کو ان معاملات کا پتہ تب چلا جب ڈوکری کے عوام اور ٹی ایم اے ڈوکری کے ملازمین اپنے اپنے مطالبات کے لیے سراپا احتجاج بنے۔ ٹی ایم اے ڈوکری کا ماہانہ بجٹ ایک کروڑ 23 لاکھ روپے، جب کہ تن خواہیں ایک کروڑ 17 لاکھ لیکن صفائی ستھرائی، سیوریج کے نظام کی بہتری، ترقیاتی اسکیموں کا سارا بجٹ بھی تن خواہوں میں دیا جا رہا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ ایک تحصیل کا ٹی ایم او بغیر کسی سیاسی آشیرباد کے کروڑوں کی کرپشن کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ اگر ایک تحصیل کے چھوٹے سے افسر کی یہ حالت ہے تو بڑے افسر کیا نہیں کر سکتے اور انہیں پوچھنے والا کون ہے اس ساری تمہید کا خاص مقصد یہ ہے کہ یہ سارے معاملات براہ راست سیاسی، حکم راں جماعت اور ان کے منتخب نمائندوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ایک عام شہری یہ کہنے پر حق بجانب ہے کہ اگر وہ بھی کچھ نہیں کرتے تو ضرور وہ بھی اس بدعنوانی میں برابر کے شریک ہیں۔

گزشتہ دنوں بھی وزیراعلا سندھ کے دورہ لاڑکانہ کے فوری بعد صدر زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی لاڑکانہ آئی تھیں اور انہوں نے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں سمیت تمام محکموں کے ضلعی افسران کا ہنگامی اجلاس طلب کیا، جس میں سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو، ایم این اے رمیش لعل، نذیر بگھیو، محمد ایازسومرو ، رکن سندھ اسمبلی خورشید جونیجو، محمد علی بھٹو ودیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں فریال تالپورنے تمام کام میرٹ پر کرنے کی ہدایات کی تھیں۔
Load Next Story