آئی ایم ایف کی مزید غلامی

کچھ سادہ لوح اب تک جمہوریت کو ’’عوام کے ذریعے‘ عوام کے لیے سمجھتے ہیں‘‘ حالانکہ یہ سرمائے کے ذریعے اور...

shaikhjabir@gmail.com

کچھ سادہ لوح اب تک جمہوریت کو ''عوام کے ذریعے' عوام کے لیے سمجھتے ہیں'' حالانکہ یہ سرمائے کے ذریعے اور سرمائے کے لیے ہے۔ بعض اسلام پسند اس غلط فہمی میں تھے کہ شاید جمہوریت کے ذریعے اسلام آ سکتا ہے وہ صدر مرسی کے حال سے عبرت و نصیحت حاصل کر سکتے ہیں۔ بعینہ ہمارے محبان وطن اس خوش فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ ہر نئی آنے والی جمہوری حکومت ان کے آزار کا علاج کرنے آتی ہے۔ وہ اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہیں کہ جمہوریتیں اس لیے نہیں ہوا کرتیں۔ جمہوریتیں سرمائے کے اور ایک خاص طرز فکر اور طرز زندگی کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ اگر اصل اصول یا مقصد کو زک پہنچنے کا اندیشہ بھی ہو تو جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔

یہی سبب ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہماری نوزائیدہ حکومت نے بھی اسی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے سب سے پہلے تو یہ اعلان کیا کہ ''خزانہ خالی ہے۔'' وزیر اعظم اور وزیر خزانہ دونوں ہم آواز تھے کہ ''خزانہ خالی ہے۔'' کسی بھی ملک کے لیے یہ ایک تشویشناک بات ہے۔ اب اگر خزانہ خالی ہے تو اسے فوراً بھرنا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے سربراہان جن کی تجوریاں اور بینک بیلنس خود کسی خزانے سے کم نہیں اپنا سب کچھ خزانے میں جمع کروا دیتے لیکن ظاہر ہے بندہ بشر سیاست میں اس لیے تو نہیں آتا کہ اپنا سب کچھ گنوا دے وہ تو کمانے آتا ہے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں۔

اچھا پھر ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ دیکھا جائے کہ خزانہ خالی کس نے کیا؟ ظاہر ہے جو آپ سے پہلے خزانے کے مالک بن بیٹھے تھے۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ جن افراد نے خزانہ خالی کیا انھیں پکڑیں، ان سے خزانہ دوبارہ بھروائیں اور انھیں اس جرم کی قرار واقعی سزا عدالتوں سے دلوائیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے (کیوں کہ وہ آپ کے ''پیٹی بھائی'' بھی تو ہیں'' تو آپ کو خزانہ خالی کرنے کا شریک مجرم بھی سمجھا جاتا سکتا ہے۔ اصول تو یہی ہے۔ جرم کی اعانت بھی جرم ہے۔ خزانہ خالی کرنا اگر قومی جرم ہے تو باوجود اختیار اور اقتدار کے ایسے مجرمین کو کہ جن کی اکثریت اس ملک میں ہے کسی باز پرس کے بغیر ہی چھوڑ دیا جائے تو کیا یہ اعانت جرم نہ ہو گی؟

اب جمہوریت کا حسن ملاحظہ فرمایے کہ ان تمام عملی اقدامات سے ہٹ کر روایتی حکومتوں کی طرح خزانہ بھرنے کی ٹھانی گئی۔ ٹیکس دہندگان پر ٹیکسوں کا بوجھ مزید بڑھا کر نیز کشکول گدائی مزید وسیع کر کے۔ گویا مقروض قوم کو ایک جانب سے نچوڑنا تو دوسری جانب سے اسے مزید مقروض کرتے چلتے بننا۔ اگر عوام کے ہاتھوں میں فیصلے کا اختیار مان بھی لیا جائے تو کیا کوئی اپنے ہی خلاف ایسے صریح نقصان دہ اقدامات رو بہ عمل لا سکتا ہے؟

ہمارے وزیر خزانہ کا کمال دیکھیے کہ قرضے اتارنے کے لیے بھی مزید قرضے حاصل کر لیے گئے۔ قوم کو مقروض کر دینے کو اپنا قابل فخر کارنامہ سمجھ رہے ہیں۔ 3 سال کے لیے آئی ایم ایف سے 15 ارب 30 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کر لیا گیا ہے۔ اسحق ڈار صاحب کا فرمانا ہے کہ تنقید کرنے والے نادہندہ ہونے سے بچنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ بتا دیں تو قرض نہیں لیں گے۔ گویا ڈار صاحب کسی راستے کی تلاش میں سخت بے چین ہیں۔ انھیں اور ان کی حکومت کو کوئی راستہ نہیں مل پا رہا۔ یہ وہی طریقہ (واردات) ہے جو گزشتہ سب حکومتوں کا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ ڈار صاحب کے نزدیک نادہندہ ہونا گویا کوئی بہت بری بات ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کئی ممالک نے اپنے قرضے ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آج اس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے میں کیا کوئی قباحت ہے؟ آخر آزادی کے علمبردار قرض کی غلامی سے نجات کیوں نہیں حاصل کر لیتے؟ کیوں آئی ایم ایف کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں؟ ہمیں اور ہماری آیندہ نسلوں کو بھی غلام بنا رہے ہیں۔ ہم جو بھی کماتے ہیں وہ تو باہر چلا جاتا ہے۔ ہر شہری 75 ہزار کا پہلے ہی مقروض تھا اب یہ قرض نہ جانے اور کتنا بڑھ گیا ہو گا۔


ستر کی دہائی میں جب ''اوپیک'' کے ممالک نے تیل کی قیمتیں بڑھا کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا تو اسی وقت سے یہ رقم ہوشیار بینکرز کی نظروں میں آ گئی۔ خاص ترکیب اور ترتیب سے اس رقم کے زیادہ تر حصے کو صنعتی ممالک کے بینکوں نے سرمایہ کاری کے نام پر حاصل کر لیا۔ مجموعی طور پر یہ رقم بہت زیادہ تھی جو صرف صنعتوں کی بڑھوتری کے لیے استعمال کرنے پر بہت زیادہ رہتی۔ اس رقم کی سرمایہ کاری کے لیے ایک خاص ترکیب استعمال کی گئی۔ بینکوں نے آئی ایم ایف کے ذریعے یہ رقم افراد اور اداروں کے بجائے حکومتوں کو قرض دینا شروع کر دی۔ یہ تمام تر قرضے ''اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام'' کے تحت دیے گئے۔ ترقی پذیر ممالک کو اس دولت کو ان تعیشات کے حصول کے لیے خرچ کرنا تھا جو صنعتی ممالک کے کارخانے بنا رہے تھے۔ یوں گھوم پھر کر مزید منافعے کے ساتھ یہ رقم پھر دوبارہ صنعتی ممالک کے بینکوں میں پہنچ جاتی۔

عاقبت نااندیش، حریص اور بدعنوان حکمرانوں کو تعیشات کے جال میں ایسا پھنسایا گیا کہ وہ قرض پر قرض لیتے چلے گئے۔ ستر کی دہائی میں اس طرح کے قرض افراط کے ساتھ دیے گئے اور وہ بھی بہت ہی کم شرح سود پر۔ 80 کی دہائی میں منظر اچانک تبدیل ہوا۔ امریکا نے افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں تیزی سے اضافہ کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ترقی پذیر ممالک کے حکمران جو امریکی بینکوں سے خوب سارے قرض لے کر رقم ہڑپ کر چکے تھے انھیں بہت زیادہ سود ادا کرنا پڑا۔ قرض بڑھتا رہا اور حکمران ''قرض کی مئے'' پیتے رہے۔ 1980 میں ترقی پذیر ممالک پر کل قرض 567 بلین امریکی ڈالر تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1980 سے 1992 کے دوران ترقی پذیر ممالک نے جو رقم بینکوں کو ادا کی وہ مجموعی طور پر 1662 بلین امریکی ڈالر بنتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قرض ادا ہو جاتے اور اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کے دعوؤں اور وعدوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں زبردست انقلابی ترقیاں ہو جانی چاہیے تھیں لیکن ہوا اس کے برعکس۔

قرض سود در سود بڑھتے بڑھتے 1992 میں 1419 بلین ڈالر تک جا پہنچا اور کسی بھی ملک میں معاشی ترقی کا کوئی ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ یہاں تک کہ قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینے کا آغاز کیا گیا۔ اب چونکہ ممالک معاشی غلامی میں جکڑے جا چکے تھے لہٰذا اپنی شرائط منوائی جانے لگیں۔ یہ تمام تر قرض اور یہ تمام تر شرائط خوش نما عنوانات سے دی جاتی تھیں۔ ترقی پذیر ممالک کو معاشی ترقی کا جھانسا دے کر معاشی غلام بنایا گیا لیکن ظاہر ہے کہ حقیقتاً کچھ اور ہی ہوا۔ ایک موقعے پر فرانس کے صدر ''فرانسوا متراں'' نے بڑی سچی بات کہہ دی تھی۔ ''صنعتی ممالک سے افریقا کی جانب سرمائے کا بہاؤ کم ہے بہ نسبت اس سرمائے کے جو افریقا سے صنعتی ممالک کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔'' یہ وہی بات ہے جو ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ ہم کماتے رہتے ہیں اور ہماری ساری کمائی باہر چلی جاتی ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے ہمیں وہ حکمران نصیب ہوں گے بھی کہ نہیں جو اس بہاؤ کو الٹا سکیں۔

آئی ایم ایف کی شرائط اور اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کو بغور دیکھیں۔ آپ کو نظر آئے گا کہ آئی ایم ایف کا پہلا ہدف لوگوں کا طرز زندگی ہوتا ہے۔ افراد کو ایسی رہائشیں، ایسے کھانے، ایسی تعلیم اور ایسے کام کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے جو انسانی تاریخ میں صرف آج کے صنعتی ممالک میں نظر آتی ہیں۔ انھیں ایسے کھانے کھانے اور ایسے پہناوے پہننے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جو ان کے نہیں ہوتے۔ مسابقت، حرص، لالچ اور مقابلے کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے۔ حکومتی زر تلافی، رعایتیں اور خدمات و سہولیات کو ختم کیا جاتا ہے۔ نج کاری کے فروغ کے ساتھ ساتھ پانی جیسی چیز بھی لوگ خرید کر پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومتیں اپنے شہریوں کو بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنے کے بھی قابل نہیں رہ جاتیں۔ دوا ہو، بچوں کا دودھ یا تعلیم سب بکتا ہے۔ مہنگے داموں بکتا ہے۔ صحت، زندگی، موت یہاں تک کہ قبر بھی آپ کو مہنگے داموں ملتی ہے۔ بعض ممالک میں لوگ اپنے مردوں کو بنا تدفین چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔

آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے شکنجے میں آنے والا ایک ملک بھی ان کے اپنے دعوؤں کے تحت بھی نہ تو ترقی کر سکا اور نہ ہی کبھی سودی قرضوں کے شکنجوں سے نکل سکا۔ کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی۔ انگولا، زمبیا، زمبابوے، موزنبیق، ملاروی، نمیبیا کی طرح پاکستان میں بھی جب سے آئی ایم ایف کے سودی قرضے داخل ہوئے ہیں پاکستان کی شرح نمو میں کمی، غربت میں اضافہ، بدعنوانی، بے امنی، معاشی بدحالی اور قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

کشکول توڑنے اور خود انحصاری کے دعوے داروں کے کشکول پچھلوں سے زیادہ بڑے ہیں۔
Load Next Story