ڈالر اور روپیہ کون چڑھا کون گرا
چوہے کا تو صرف بہانہ تھا لیکن ہمارا روپیہ واقعی ’’بیمار شمار‘‘ ہے
اس بات سے تو شاید کسی منکرین و کافرین کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ ہم پاکستانی باتوں باتوں کے ''غنی'' دانش کے دھنی اور فن گفتار کے ''فنی'' ہوتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں ہمارا دعویٰ تقریباً وہی غالبؔ والا ہے کہ
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
آکے کہہ دے کوئی اس ''سہرے'' سے بڑھ کر ''سہرا''
تازہ ترین ''سہرا'' جو ہم رقم کر رہے ہیں وہ ڈالر اور روپے کا سہرا ہے۔ تمام خبریں جو آ رہی ہیں اس میں سارا الزام یا ساری صفات ڈالر میں ڈالی جا رہی ہیں جو بہت ہی غلط ہیں۔ ڈالر مہنگا ہوا، ڈالر چڑھ گیا، ڈالر نے چھلانگ لگائی، ڈالر نے یہ کیا، ڈالر نے وہ کیا ؟ حالانکہ یہ سب کچھ غلط ہے۔ محض لوگوں کی ڈالر پسندی، ڈالر پرستی اور ڈالر ستائی ہے۔ ڈالر تو اسی جگہ کھڑا ہے جہاں پہلے بلکہ اس سے پہلے بلکہ اس سے بھی اور پہلے سے بھی پہلے کھڑا تھا۔
ڈالر کا منہ دیکھو اور اس کی اتنی دھما چوکڑی دیکھو۔ یہ صرف اور صرف ڈالر کی طرف داری ہے۔ لیکن ہم سخن فہم ہیں اس لیے صاف صاف کہے دیتے ہیں کہ یہ کارنامہ ڈالر کا نہیں ہمارے اس غریب کس مپرس اور بیچارے ''روپے'' کا ہے۔ یہ ہمارا روپیہ ہے جو ہماری طرح خاکسارانہ طبیعت رکھتا ہے اس لیے بیچارا مسلسل نیچے پھسل کر ڈالر کو بلندی پر چڑھائے دے رہا ہے بلکہ اس کا یہ کہنا بھی بنتا ہے کہ
ہم کو دعائیں دو تمہیں ڈالر بنا دیا
دنیا جانتی ہے بلندی کا اندازہ ''پستی'' سے لگایا جاتا اگر پستی نہ ہو تو بلندی کہاں سے آئے گی۔ یہ سمندر کی پستی ہے کہ پہاڑوں کا شملہ اونچا کرتی ہے بلکہ پڑوسی ملک کا جو ایک مقام ''شملہ'' ہے یہ بھی غالباً پہاڑوں کا شملہ ہے۔ لیکن اگر سمندر اٹھ کر اس کے برابر آ جائے یا سمندر میں اس سے بھی بڑا شملہ کسی پہاڑی چوٹی کی صورت میں ابھر آئے تو شملہ کا کیا شملہ رہ جائے گا۔ کیونکہ ہونے کو تو کچھ بھی ممکن ہے حالات ساز گار ہوں تو پی ٹی آئی کو پٹائی بھی بنایا جا سکتا ہے۔
ایک مرغی سے پولٹری فارم بھی بنایا جا سکتا ہے، ایک اینٹ پر تاج محل بھی کھڑا کیا جا سکتا ہے اور چندے سے ڈیم بھی تعمیر ہو سکتے ہیں بلکہ قرض لے کر ایک کروڑ دکان اور ایک کروڑ نوکریاں بھی بھیک میں دی جا سکتی ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے اور اس پر ہمیں بہت غصہ ہے اتنا غصہ ہے کہ ایک عرصے سے ''روپیہ'' کے ساتھ ہماری بات چیت بند ہے اور اس کا ''منہ'' دیکھنے کے روا دار بھی نہیں بلکہ یوں کہیے کہ اس کا منہ کفن میں بھی نہیں دیکھیں گے جو آج کل کی بات ہے۔ کہ آخر خاکساری کی بھی حد ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے ڈالر کے ہم پر بہت احسانات ہیں بلکہ ابتدائے دوستی سے ہم پر احسانات لاد رہا ہے۔ہمارے بڑوں کی خدمت میں دن رات مصروف رہتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اس کے احسانات کے بدلے خود کو اتنا گرا دیں کہ جہاں ہماری خبر خود کو بھی نہ آئے۔
اور یہ ہم کوئی سنی سنائی بات نہیں کر رہے ہیں۔ آپ جتنے لوگ ہمارا یہ کالم پڑھ رہے ہیں ایمان سے کہیں کہ آپ نے کبھی اپنے ''روپے'' کی شکل تک دیکھی کہ بیچارا کہاں ہے کس حال میں ہے کہیں ہے بھی یا نہیں۔ مطلب کہ:
اڑ گیا مقصد کا پنچھی رہ گئے ''پر'' ہاتھ میں
جی ہاں ہم سرخ نیلے پیلے ''پروں'' کی بات کر رہے ہیں جن کے بارے میں مرشد نے کہا ہے۔
''نقد'' فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریرکا
''کاغذی'' ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
وہ زمانے لد گئے جب خلیل خان روپیہ اڑایا کرتے اور اس کے ''سر، پر، پیر'' تینوں ہوا کرتے تھے۔ آج کل تو مارے شرمندگی کے نہ جانے کہاں کہاں کس کس کونے میں چھپتا پھر رہا ہے۔
کچھ ایسی بات اڑی ہے ہمارے ''گاؤ ں'' میں
کہ چھپتے پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاؤں میں
بلکہ ہمیں تو ایسا لگنے لگا ہے جیسے ہمارا روپیہ برف کا بنا ہوا ہو کہ ہوا کے ہر ہر جھونکے سے پگھل پگھل کر دبلا ہو رہا ہو اور آج کل تو تقریباً ''لو'' چل رہی ہے کس چیز کی؟ یہ ہم نہیںبتائیں گے کیونکہ آپ خود ہی وہ دن دیکھنے والے ہیں جس کا خدشہ انور مسعود نے ظاہر کیا تھا
یہی معیار دیانت ہو تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
اور آج کل خوب دھوپ نکلی ہوئی ہے مطلع پاکستان پر وہ آفتاب عالمتاب جلوہ گر ہو چکا ہے جس کے لیے ہزاروں سال نرگس پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی تھی۔
''پروں'' کے بارے میں مرشد نے کچھ اور باتیں کہیں ہیں:
مگر غبار ہوئے ''پر'' ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یا پھر یوں بھی کہہ لیں کہ
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا، ہوس بال و پر گئی
خیر پروں کی بات کو تو رہنے ہی دیجیے۔ کہ بچارے روپے کے ''پر'' نکالے گئے ہوئے تو نئے پر پیدا ہونے کی امید ہو سکتی تھی لیکن اس کے ''پر'' تو ''کاٹے'' گئے ہیں اور کاٹے ہوئے''پر'' خود بھی اڑنے کے قابل نہیں ہوتے اورنئے ''پروں'' کو نکلنے نہیں دیتے۔
آخرش اصل بات یہ بتانا ہے کہ یہ جو اخباروں میں اشتہاروں میں شہروں اور بازاروں اور گلیوں چوباروں میں ''ڈالر'' کی چھلانگوں اونچی پرواز اور چیمپئن شپ کی باتیں ہو رہی ہیں کم ازکم یہ تو نہ کیجیے۔ ہاں بیچارے روپے کی ''صحت'' کے بارے میں جو چاہو کہتے رہیے۔ کیونکہ ڈالر اور روپے کا معاملہ اس ہاتھی اورچوہے کا سا ہو چکا ہے۔ چوہے کو جب ہاتھی نے اپنی عمر چھ ماہ بتائی تو چوہے نے جواب میں جو کچھ کہا تھا وہی ہمیں بھی اپنے ''بیمار شمار'' روپیہ کے بارے میں کہنا چاہیے کہ عمر تو میری بھی چھ ماہ ہی ہے لیکن میں ذرا بیمار شمار رہتا ہوں۔
چوہے کا تو صرف بہانہ تھا لیکن ہمارا روپیہ واقعی ''بیمار شمار'' ہے۔ فی الحال تو یہاں وہاں سے ''خون کے بوتل'' مانگ مانگ کر اسے زندہ رکھا جا رہا ہے لیکن آخر کب تک کہ بدقسمتی سے ایک تواس کا خون ''او نیگٹیو گروپ'' کا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک طرف اس کو خون چڑھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس کے جسم میں یہاں وہاں بڑی ظالم اور خون خوار قسم کی''جونکیں'' بھی چمٹی ہوئی ہیں۔ یہ چند لوگ جن کا گروپ ہمارے روپے سے ملتا ہے یہ آخر کب تک خون دیتے رہیں گے۔ جب کہ بدقسمتی یہ ہے کہ او نیگٹیو گروپ چڑھایا تو ہر کسی کو جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے صرف ''او نیگٹیو گروپ'' ہی درکار ہوتا ہے۔
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
آکے کہہ دے کوئی اس ''سہرے'' سے بڑھ کر ''سہرا''
تازہ ترین ''سہرا'' جو ہم رقم کر رہے ہیں وہ ڈالر اور روپے کا سہرا ہے۔ تمام خبریں جو آ رہی ہیں اس میں سارا الزام یا ساری صفات ڈالر میں ڈالی جا رہی ہیں جو بہت ہی غلط ہیں۔ ڈالر مہنگا ہوا، ڈالر چڑھ گیا، ڈالر نے چھلانگ لگائی، ڈالر نے یہ کیا، ڈالر نے وہ کیا ؟ حالانکہ یہ سب کچھ غلط ہے۔ محض لوگوں کی ڈالر پسندی، ڈالر پرستی اور ڈالر ستائی ہے۔ ڈالر تو اسی جگہ کھڑا ہے جہاں پہلے بلکہ اس سے پہلے بلکہ اس سے بھی اور پہلے سے بھی پہلے کھڑا تھا۔
ڈالر کا منہ دیکھو اور اس کی اتنی دھما چوکڑی دیکھو۔ یہ صرف اور صرف ڈالر کی طرف داری ہے۔ لیکن ہم سخن فہم ہیں اس لیے صاف صاف کہے دیتے ہیں کہ یہ کارنامہ ڈالر کا نہیں ہمارے اس غریب کس مپرس اور بیچارے ''روپے'' کا ہے۔ یہ ہمارا روپیہ ہے جو ہماری طرح خاکسارانہ طبیعت رکھتا ہے اس لیے بیچارا مسلسل نیچے پھسل کر ڈالر کو بلندی پر چڑھائے دے رہا ہے بلکہ اس کا یہ کہنا بھی بنتا ہے کہ
ہم کو دعائیں دو تمہیں ڈالر بنا دیا
دنیا جانتی ہے بلندی کا اندازہ ''پستی'' سے لگایا جاتا اگر پستی نہ ہو تو بلندی کہاں سے آئے گی۔ یہ سمندر کی پستی ہے کہ پہاڑوں کا شملہ اونچا کرتی ہے بلکہ پڑوسی ملک کا جو ایک مقام ''شملہ'' ہے یہ بھی غالباً پہاڑوں کا شملہ ہے۔ لیکن اگر سمندر اٹھ کر اس کے برابر آ جائے یا سمندر میں اس سے بھی بڑا شملہ کسی پہاڑی چوٹی کی صورت میں ابھر آئے تو شملہ کا کیا شملہ رہ جائے گا۔ کیونکہ ہونے کو تو کچھ بھی ممکن ہے حالات ساز گار ہوں تو پی ٹی آئی کو پٹائی بھی بنایا جا سکتا ہے۔
ایک مرغی سے پولٹری فارم بھی بنایا جا سکتا ہے، ایک اینٹ پر تاج محل بھی کھڑا کیا جا سکتا ہے اور چندے سے ڈیم بھی تعمیر ہو سکتے ہیں بلکہ قرض لے کر ایک کروڑ دکان اور ایک کروڑ نوکریاں بھی بھیک میں دی جا سکتی ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے اور اس پر ہمیں بہت غصہ ہے اتنا غصہ ہے کہ ایک عرصے سے ''روپیہ'' کے ساتھ ہماری بات چیت بند ہے اور اس کا ''منہ'' دیکھنے کے روا دار بھی نہیں بلکہ یوں کہیے کہ اس کا منہ کفن میں بھی نہیں دیکھیں گے جو آج کل کی بات ہے۔ کہ آخر خاکساری کی بھی حد ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے ڈالر کے ہم پر بہت احسانات ہیں بلکہ ابتدائے دوستی سے ہم پر احسانات لاد رہا ہے۔ہمارے بڑوں کی خدمت میں دن رات مصروف رہتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اس کے احسانات کے بدلے خود کو اتنا گرا دیں کہ جہاں ہماری خبر خود کو بھی نہ آئے۔
اور یہ ہم کوئی سنی سنائی بات نہیں کر رہے ہیں۔ آپ جتنے لوگ ہمارا یہ کالم پڑھ رہے ہیں ایمان سے کہیں کہ آپ نے کبھی اپنے ''روپے'' کی شکل تک دیکھی کہ بیچارا کہاں ہے کس حال میں ہے کہیں ہے بھی یا نہیں۔ مطلب کہ:
اڑ گیا مقصد کا پنچھی رہ گئے ''پر'' ہاتھ میں
جی ہاں ہم سرخ نیلے پیلے ''پروں'' کی بات کر رہے ہیں جن کے بارے میں مرشد نے کہا ہے۔
''نقد'' فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریرکا
''کاغذی'' ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
وہ زمانے لد گئے جب خلیل خان روپیہ اڑایا کرتے اور اس کے ''سر، پر، پیر'' تینوں ہوا کرتے تھے۔ آج کل تو مارے شرمندگی کے نہ جانے کہاں کہاں کس کس کونے میں چھپتا پھر رہا ہے۔
کچھ ایسی بات اڑی ہے ہمارے ''گاؤ ں'' میں
کہ چھپتے پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاؤں میں
بلکہ ہمیں تو ایسا لگنے لگا ہے جیسے ہمارا روپیہ برف کا بنا ہوا ہو کہ ہوا کے ہر ہر جھونکے سے پگھل پگھل کر دبلا ہو رہا ہو اور آج کل تو تقریباً ''لو'' چل رہی ہے کس چیز کی؟ یہ ہم نہیںبتائیں گے کیونکہ آپ خود ہی وہ دن دیکھنے والے ہیں جس کا خدشہ انور مسعود نے ظاہر کیا تھا
یہی معیار دیانت ہو تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
اور آج کل خوب دھوپ نکلی ہوئی ہے مطلع پاکستان پر وہ آفتاب عالمتاب جلوہ گر ہو چکا ہے جس کے لیے ہزاروں سال نرگس پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی تھی۔
''پروں'' کے بارے میں مرشد نے کچھ اور باتیں کہیں ہیں:
مگر غبار ہوئے ''پر'' ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یا پھر یوں بھی کہہ لیں کہ
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا، ہوس بال و پر گئی
خیر پروں کی بات کو تو رہنے ہی دیجیے۔ کہ بچارے روپے کے ''پر'' نکالے گئے ہوئے تو نئے پر پیدا ہونے کی امید ہو سکتی تھی لیکن اس کے ''پر'' تو ''کاٹے'' گئے ہیں اور کاٹے ہوئے''پر'' خود بھی اڑنے کے قابل نہیں ہوتے اورنئے ''پروں'' کو نکلنے نہیں دیتے۔
آخرش اصل بات یہ بتانا ہے کہ یہ جو اخباروں میں اشتہاروں میں شہروں اور بازاروں اور گلیوں چوباروں میں ''ڈالر'' کی چھلانگوں اونچی پرواز اور چیمپئن شپ کی باتیں ہو رہی ہیں کم ازکم یہ تو نہ کیجیے۔ ہاں بیچارے روپے کی ''صحت'' کے بارے میں جو چاہو کہتے رہیے۔ کیونکہ ڈالر اور روپے کا معاملہ اس ہاتھی اورچوہے کا سا ہو چکا ہے۔ چوہے کو جب ہاتھی نے اپنی عمر چھ ماہ بتائی تو چوہے نے جواب میں جو کچھ کہا تھا وہی ہمیں بھی اپنے ''بیمار شمار'' روپیہ کے بارے میں کہنا چاہیے کہ عمر تو میری بھی چھ ماہ ہی ہے لیکن میں ذرا بیمار شمار رہتا ہوں۔
چوہے کا تو صرف بہانہ تھا لیکن ہمارا روپیہ واقعی ''بیمار شمار'' ہے۔ فی الحال تو یہاں وہاں سے ''خون کے بوتل'' مانگ مانگ کر اسے زندہ رکھا جا رہا ہے لیکن آخر کب تک کہ بدقسمتی سے ایک تواس کا خون ''او نیگٹیو گروپ'' کا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک طرف اس کو خون چڑھایا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس کے جسم میں یہاں وہاں بڑی ظالم اور خون خوار قسم کی''جونکیں'' بھی چمٹی ہوئی ہیں۔ یہ چند لوگ جن کا گروپ ہمارے روپے سے ملتا ہے یہ آخر کب تک خون دیتے رہیں گے۔ جب کہ بدقسمتی یہ ہے کہ او نیگٹیو گروپ چڑھایا تو ہر کسی کو جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے صرف ''او نیگٹیو گروپ'' ہی درکار ہوتا ہے۔