مجرموں کی جنت
جب قانون کے نام پر جرائم کیے جائیں تو انصاف جرم بن جاتا ہے
طویل علالت کے بعد لندن میں محترمہ کلثوم نواز کے انتقال کے کچھ ہی دنوں بعد جولائی 2018ء میں نواز شریف کو کرپشن کے مقدمے میں دس سال قید، ان کی بیٹی مریم کو سات سال اور داماد صفدر کو ایک سال قید کی سزا ہوئی۔ 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم کو عزیزیہ ریفرنس میں ایک بار پھر سات سال قید، ڈھائی کروڑ ڈالر اور ڈیڑھ ارب روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔ ان کے دونوں بیٹے حسن اور حسین اشتہاری قرار دیے گئے۔ بطور وزیر اعظم نواز شریف کو اختیارات اور حکومتی وسائل کے غلط استعمال کے دیگر الزامات کا سامنا بھی ہے۔
ہمارے سیاست دانوں نے چھوٹے وعدوں، فریب ، دھوکا دہی اور جھوٹ کے بل بوتے پر اقتدار برقرار رکھنے اور عوام کو بیووقوف بنانے کو باقاعدہ ایک فن بنا دیا ہے۔ ''آشیانہ اسکیم'' کے مرکزی کردار، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کا ، جو اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے منصب پر انتخاب آئین سے مذاق کے مترادف ہے۔
یہ کمیٹی پبلک آڈٹس کرتی ہے، پوچھ گچھ کے لیے وزراء، سیکریٹریز یا وزارت کے حکام کو طلب کرتی ہے اور گورنمنٹ بجٹ آڈٹ کے لیے اپنے جمع کردہ شواہد کی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہوگا کہ بادی النظر میں کرپشن کا مرتکب ایک شخص حکومتی اداروں میں کرپشن کی تفتیش کی سربراہی کرے؟ ان کے قریبی ساتھیوں نے کس طرح اپنی سرکاری تنخواہ سے دولت کے انبار اکٹھے کرلیے؟ کیا یہ صاحب اپنے ساتھیوں کا احتساب کرسکتے ہیں؟
لاہور ہائیکورٹ سے بارہا ضمانت قبل از گرفتاری ملنے کے بعد آخر کار 11دسمبر کو سابق وزیر ریلوے سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو نیب نے پیراگون ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ 21دسمبر کو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز کے بعد اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے سعد رفیق نے احتساب کے قوانین کو ''کالا قانون'' کہا، سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے اس کے استعمال کا واویلا کیا۔
انھوں نے یہ بھی یاد دہانی کروادی کہ ''مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی احتساب شفاف نہیں تھا۔'' انھوں نے کہا ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت کو آپس کی لڑائی ختم کرکے غربت ، جہالت اور دیگر چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے، جو ان کی ''آئینی ذمے داریاں'' ہیں، وہ ''چوربازاری'' کا تذکرہ بھول گئے۔
وہ 2012 سے 2016 کے دوران آصف زرداری کی کرپشن کے خلاف اپنی تند و تیز تقاریر یقیناً بھول گئے ہوں گے تبھی انھوں نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی حمایت میں آواز اٹھائی، یہ وہی آصف زرداری ہیں جن کی پارٹی کے بارے میں مسلم لیگ ن اور جواباً ان کی پارٹی نامناسب زبان کا کھلا استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس یوٹرن کے بعد سعد رفیق نے خبردار بھی کیا کہ اگر زرداری کو گرفتار کیا گیا تو''یاد رکھیے گا، ملک میں کشیدگی مزید بڑھ جائے گی۔''
آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپورسمیت دیگر 40افراد سے ''بے نامی'' اکاؤنٹ کے ذریعے مبینہ طور پر ہونے والی 4ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی تفتیش جاری ہے۔ اس معاملے کی تفتیش کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے کک بیکس، رشوت اور کمیشن کے ذریعے جمع کیے گئے کالے دھن سے متعلق سپریم کورٹ میں شواہد کے پلندے جمع کروادیے ہیں، اس میں ''ٹرانزیکشن تھری'' کے ذریعے ہونے والی منی لانڈرنگ کے ثبوت بھی شامل ہیں۔
بے انصافی کا واویلا کرنے والے زرداری اور پیپلز پارٹی کے رہنما ان الزامات سے فرار اختیار نہیں کرسکتے اس لیے کہ مبینہ طور پر ان اکاؤنٹ سے بلاول ہاؤس کے اخراجات، سفری اخراجات وغیرہ حتیٰ کہ کتوں کے راتب کے لیے بھی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ بلاول ہاؤس کے اخراجات سے متعلق ''ایان علی'' کنکشن بھی پایا گیا ہے۔
رکن قومی اسمبلی کے طور پر نیویارک میں اپنے اپارٹمنٹ الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر نہ کرنے کے الزام میں آئین کی دفعہ (1)(f) 62 کے تحت آصف زرداری کی نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے۔ منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق یہ جائیداد 524 ایسٹ 72 اسٹریٹ، اپارٹمنٹ نمبر 37F، نیویارک 10021 کے پتے پر واقع ہے اور حال ہی میں آصف زرداری کے نام سے اس کا پراپرٹی ٹیکس بھی ادا کیا گیا ہے۔ آخر کوئی کیوں قانون کے مطابق اپنی درست تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کرے گا، اگر چھپانے کے لیے کچھ نہ ہو؟2008میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری سے ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے اپنے کالم میں سیما بوئنسکی نے تسلیم کیا تھا کہ وہ ''پینٹ ہاؤس'' اتنا منحوس تھا کہ اسے خریدنے سے پہلے یا بعد میں موت یقینی ہے۔
یہ ایک مکروہ دائرہ تھا جس کی وجہ سے 2008کے بعد حکومتیں بہ آسانی لوٹ مار اور قتل و غارت کرتی رہیں۔ جب کہ مزید سیاسی شخصیات کے جیل جانے کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں، عمران خان کو ان کی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے گرد چور موجود ہیں۔ وہ عمران خان کے کس کام آئیں گے، آج سے 25برس پہلے بھی وہ بدنام تھے اور آج بھی ہیں؟ ''انتقامی احتساب'' کے لیبل سے بچنے کے لیے عمران خان کو ایسے عناصر سے اپنا دامن چھڑانا ہوگا، آغاز ان ''نووارد'' وفاداروں سے کرنا چاہیے جو گزشتہ ہر حکومت کے خدمت گزاروں میں شامل رہے ہیں۔
ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر بدزبانی اور اشتعال انگیزی پر مبنی مہم کے پیچھے کرپشن کا مال لگایا جارہا ہے۔ آپ کے خیال میں بعض میڈیا والے تیزی سے اپنی وفاداریاں کیوں تبدیل کرلیتے ہیں؟ زرداری کی گرفتاری سے متعلق پھیلنے والی افواہوں کے بعد ایک پورا دفاعی میکانزم متحرک ہوجاتا ہے جس میں صحافیوں کو مبہم جوابات دینا ایک معمول ہے۔ عوامی جلسوں میں زرداری نے جو اشتعال انگیز اور جارحانہ لہجہ اپنایا ہے اس کے پیچھے یہی عزائم ہیں کہ اس کے نتیجے میں عوام کو مشتعل کیا جائے اور بے یقینی کو اس سطح تک لے جایا جائے کہ انہونی ہوجائے۔
یہ سوال جائز ہوگا کہ جب کوئی بھی حکومت منی لانڈرنگ اور کرپشن میں سہولت کار بنتی ہے تو آئین کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ یہ رائے رکھنے والے بھی کئی ہیں کہ درحقیت ہمارا آئین عملاً وجود ہی نہیں رکھتا، دنیا کا کون سا دستور ریاستی قوت کا استعمال کرکے لوٹ مار کی اجازت دیتا ہے؟ عمران خان کے خلاف نعرہ زن اور تنقید کرنے والے کے پاس کوئی جواز نہیں، وزیر اعظم بلا شبہ کرپشن کے خلاف مہم کی قیادت کررہے ہیں لیکن مخالفین بھول گئے ہیں کہ تحقیقات اور جرم و سزا سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ تفتیش و تحقیق اور سزا نیب اور عدلیہ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور یہ دونوں ادارے بالکل آزاد ہیں۔
سندھ کے لوگ بلاول سے ان کی والدہ اور نانا کی وجہ سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ زرداری کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہیں۔ ایک مرتبہ انھیں یہ یقین دہانی ہوجائے کہ زرداری ان کے اور ان کے خاندان کے لیے خطرہ نہیں رہا، ہم ان کی نام نہاد عوامی حمایت کو ہوا میں تحلیل ہوتے دیکھ لیں گے۔ اس ٹولے کے دل میں ملک کی ذرہ بھر محبت نہیں، انھیں انجام سے ہم کنار ہونا چاہیے۔ بالخصوص سرکاری منصب پر فائز کسی بھی شخص کے جھوٹ، جعل سازی اور چور بازاری میں ملوث ہونے کی صورت میں قانون کے مطابق اسے تاحیات منصب سے محروم کردینا چاہیے۔
ایسے لوگوں سے فائدہ اٹھانے والوں، ان کی خاطر جھوٹی گواہیاں دینے والوں اور قانون کو گمراہ کرنے والے کو بھی جیل بھیج دینا چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ منٹی لانڈرنگ میں سزا یافتہ افراد کی بیرون ملک تمام جائیداد ضبط ہونی چاہیے ، اب تو کئی مغربی حکومتیں بھی ایسے قوانین بنا چکی ہیں جن میں وہاں منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے بنائے گئے اثاثوں کو بھی اسی عمل کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
ذرا حیرت نہیں ہوتی جب آئینی بالادستی کے علم بردار ، جی ہاں! رضا ربانی کی جانب نظر اٹھتی ہے۔ موصوف کا ضمیر زرداری اور ان کے ساتھیوں کی کرپشن پرآنکھ ، کان اور زباں بند کیے گہری نیند سویا رہتا ہے۔
جرائم اور کرپشن کی سرپرستی کرنے والی حکومتوں کی دنیا میں کوئی آئینی وقعت نہیں ہوتی۔ جب قانون کے نام پر جرائم کیے جائیں تو انصاف جرم بن جاتا ہے۔ ریاست کے خلاف کرپشن کھلی بغاوت ہے، اس کی معاونت اور دفاع آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کچھ ماہ قبل اپنے ایک مضمون میں اسی تناظر میں پاکستان کو ''گینگسٹر کی جنت'' کہا تھا۔ جنت ہو یا پناہ گاہ، کرپٹ عناصر کے لیے پاکستان دونوں ہی صورت میں جائے عافیت بنا ہوا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
ہمارے سیاست دانوں نے چھوٹے وعدوں، فریب ، دھوکا دہی اور جھوٹ کے بل بوتے پر اقتدار برقرار رکھنے اور عوام کو بیووقوف بنانے کو باقاعدہ ایک فن بنا دیا ہے۔ ''آشیانہ اسکیم'' کے مرکزی کردار، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کا ، جو اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے منصب پر انتخاب آئین سے مذاق کے مترادف ہے۔
یہ کمیٹی پبلک آڈٹس کرتی ہے، پوچھ گچھ کے لیے وزراء، سیکریٹریز یا وزارت کے حکام کو طلب کرتی ہے اور گورنمنٹ بجٹ آڈٹ کے لیے اپنے جمع کردہ شواہد کی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہوگا کہ بادی النظر میں کرپشن کا مرتکب ایک شخص حکومتی اداروں میں کرپشن کی تفتیش کی سربراہی کرے؟ ان کے قریبی ساتھیوں نے کس طرح اپنی سرکاری تنخواہ سے دولت کے انبار اکٹھے کرلیے؟ کیا یہ صاحب اپنے ساتھیوں کا احتساب کرسکتے ہیں؟
لاہور ہائیکورٹ سے بارہا ضمانت قبل از گرفتاری ملنے کے بعد آخر کار 11دسمبر کو سابق وزیر ریلوے سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو نیب نے پیراگون ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ 21دسمبر کو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز کے بعد اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے سعد رفیق نے احتساب کے قوانین کو ''کالا قانون'' کہا، سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے اس کے استعمال کا واویلا کیا۔
انھوں نے یہ بھی یاد دہانی کروادی کہ ''مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی احتساب شفاف نہیں تھا۔'' انھوں نے کہا ہے کہ حزب اختلاف اور حکومت کو آپس کی لڑائی ختم کرکے غربت ، جہالت اور دیگر چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے، جو ان کی ''آئینی ذمے داریاں'' ہیں، وہ ''چوربازاری'' کا تذکرہ بھول گئے۔
وہ 2012 سے 2016 کے دوران آصف زرداری کی کرپشن کے خلاف اپنی تند و تیز تقاریر یقیناً بھول گئے ہوں گے تبھی انھوں نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی حمایت میں آواز اٹھائی، یہ وہی آصف زرداری ہیں جن کی پارٹی کے بارے میں مسلم لیگ ن اور جواباً ان کی پارٹی نامناسب زبان کا کھلا استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس یوٹرن کے بعد سعد رفیق نے خبردار بھی کیا کہ اگر زرداری کو گرفتار کیا گیا تو''یاد رکھیے گا، ملک میں کشیدگی مزید بڑھ جائے گی۔''
آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپورسمیت دیگر 40افراد سے ''بے نامی'' اکاؤنٹ کے ذریعے مبینہ طور پر ہونے والی 4ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی تفتیش جاری ہے۔ اس معاملے کی تفتیش کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی نے کک بیکس، رشوت اور کمیشن کے ذریعے جمع کیے گئے کالے دھن سے متعلق سپریم کورٹ میں شواہد کے پلندے جمع کروادیے ہیں، اس میں ''ٹرانزیکشن تھری'' کے ذریعے ہونے والی منی لانڈرنگ کے ثبوت بھی شامل ہیں۔
بے انصافی کا واویلا کرنے والے زرداری اور پیپلز پارٹی کے رہنما ان الزامات سے فرار اختیار نہیں کرسکتے اس لیے کہ مبینہ طور پر ان اکاؤنٹ سے بلاول ہاؤس کے اخراجات، سفری اخراجات وغیرہ حتیٰ کہ کتوں کے راتب کے لیے بھی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ بلاول ہاؤس کے اخراجات سے متعلق ''ایان علی'' کنکشن بھی پایا گیا ہے۔
رکن قومی اسمبلی کے طور پر نیویارک میں اپنے اپارٹمنٹ الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر نہ کرنے کے الزام میں آئین کی دفعہ (1)(f) 62 کے تحت آصف زرداری کی نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے۔ منظر عام پر آنے والی دستاویزات کے مطابق یہ جائیداد 524 ایسٹ 72 اسٹریٹ، اپارٹمنٹ نمبر 37F، نیویارک 10021 کے پتے پر واقع ہے اور حال ہی میں آصف زرداری کے نام سے اس کا پراپرٹی ٹیکس بھی ادا کیا گیا ہے۔ آخر کوئی کیوں قانون کے مطابق اپنی درست تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کرے گا، اگر چھپانے کے لیے کچھ نہ ہو؟2008میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری سے ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے اپنے کالم میں سیما بوئنسکی نے تسلیم کیا تھا کہ وہ ''پینٹ ہاؤس'' اتنا منحوس تھا کہ اسے خریدنے سے پہلے یا بعد میں موت یقینی ہے۔
یہ ایک مکروہ دائرہ تھا جس کی وجہ سے 2008کے بعد حکومتیں بہ آسانی لوٹ مار اور قتل و غارت کرتی رہیں۔ جب کہ مزید سیاسی شخصیات کے جیل جانے کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں، عمران خان کو ان کی ضرورت ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے گرد چور موجود ہیں۔ وہ عمران خان کے کس کام آئیں گے، آج سے 25برس پہلے بھی وہ بدنام تھے اور آج بھی ہیں؟ ''انتقامی احتساب'' کے لیبل سے بچنے کے لیے عمران خان کو ایسے عناصر سے اپنا دامن چھڑانا ہوگا، آغاز ان ''نووارد'' وفاداروں سے کرنا چاہیے جو گزشتہ ہر حکومت کے خدمت گزاروں میں شامل رہے ہیں۔
ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر بدزبانی اور اشتعال انگیزی پر مبنی مہم کے پیچھے کرپشن کا مال لگایا جارہا ہے۔ آپ کے خیال میں بعض میڈیا والے تیزی سے اپنی وفاداریاں کیوں تبدیل کرلیتے ہیں؟ زرداری کی گرفتاری سے متعلق پھیلنے والی افواہوں کے بعد ایک پورا دفاعی میکانزم متحرک ہوجاتا ہے جس میں صحافیوں کو مبہم جوابات دینا ایک معمول ہے۔ عوامی جلسوں میں زرداری نے جو اشتعال انگیز اور جارحانہ لہجہ اپنایا ہے اس کے پیچھے یہی عزائم ہیں کہ اس کے نتیجے میں عوام کو مشتعل کیا جائے اور بے یقینی کو اس سطح تک لے جایا جائے کہ انہونی ہوجائے۔
یہ سوال جائز ہوگا کہ جب کوئی بھی حکومت منی لانڈرنگ اور کرپشن میں سہولت کار بنتی ہے تو آئین کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ یہ رائے رکھنے والے بھی کئی ہیں کہ درحقیت ہمارا آئین عملاً وجود ہی نہیں رکھتا، دنیا کا کون سا دستور ریاستی قوت کا استعمال کرکے لوٹ مار کی اجازت دیتا ہے؟ عمران خان کے خلاف نعرہ زن اور تنقید کرنے والے کے پاس کوئی جواز نہیں، وزیر اعظم بلا شبہ کرپشن کے خلاف مہم کی قیادت کررہے ہیں لیکن مخالفین بھول گئے ہیں کہ تحقیقات اور جرم و سزا سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ تفتیش و تحقیق اور سزا نیب اور عدلیہ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور یہ دونوں ادارے بالکل آزاد ہیں۔
سندھ کے لوگ بلاول سے ان کی والدہ اور نانا کی وجہ سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ زرداری کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہیں۔ ایک مرتبہ انھیں یہ یقین دہانی ہوجائے کہ زرداری ان کے اور ان کے خاندان کے لیے خطرہ نہیں رہا، ہم ان کی نام نہاد عوامی حمایت کو ہوا میں تحلیل ہوتے دیکھ لیں گے۔ اس ٹولے کے دل میں ملک کی ذرہ بھر محبت نہیں، انھیں انجام سے ہم کنار ہونا چاہیے۔ بالخصوص سرکاری منصب پر فائز کسی بھی شخص کے جھوٹ، جعل سازی اور چور بازاری میں ملوث ہونے کی صورت میں قانون کے مطابق اسے تاحیات منصب سے محروم کردینا چاہیے۔
ایسے لوگوں سے فائدہ اٹھانے والوں، ان کی خاطر جھوٹی گواہیاں دینے والوں اور قانون کو گمراہ کرنے والے کو بھی جیل بھیج دینا چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ منٹی لانڈرنگ میں سزا یافتہ افراد کی بیرون ملک تمام جائیداد ضبط ہونی چاہیے ، اب تو کئی مغربی حکومتیں بھی ایسے قوانین بنا چکی ہیں جن میں وہاں منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے بنائے گئے اثاثوں کو بھی اسی عمل کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
ذرا حیرت نہیں ہوتی جب آئینی بالادستی کے علم بردار ، جی ہاں! رضا ربانی کی جانب نظر اٹھتی ہے۔ موصوف کا ضمیر زرداری اور ان کے ساتھیوں کی کرپشن پرآنکھ ، کان اور زباں بند کیے گہری نیند سویا رہتا ہے۔
جرائم اور کرپشن کی سرپرستی کرنے والی حکومتوں کی دنیا میں کوئی آئینی وقعت نہیں ہوتی۔ جب قانون کے نام پر جرائم کیے جائیں تو انصاف جرم بن جاتا ہے۔ ریاست کے خلاف کرپشن کھلی بغاوت ہے، اس کی معاونت اور دفاع آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کچھ ماہ قبل اپنے ایک مضمون میں اسی تناظر میں پاکستان کو ''گینگسٹر کی جنت'' کہا تھا۔ جنت ہو یا پناہ گاہ، کرپٹ عناصر کے لیے پاکستان دونوں ہی صورت میں جائے عافیت بنا ہوا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)