پیپلز پارٹی کے تحفظات
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کچھ...
KARACHI:
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کچھ تحفظات لاحق ہو گئے ہیں اور سپریم کورٹ میں سوئس حکومت کو لکھے گئے ایک اور خط کے اٹارنی جنرل کی طرف سے کیے گئے انکشاف اور چیف جسٹس پاکستان کے اس پر ریمارکس کے بعد پیپلز پارٹی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے صدارتی استثنیٰ کے ختم ہونے کے بعد بھی سوئس اکاؤنٹس کا مسئلہ پھر اٹھے گا جسے پیپلز پارٹی وزیر اعظم نواز شریف کی انتقامی کارروائی قرار دے گی اور الزام لگائے گی کہ میاں صاحب نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور پیپلز پارٹی سے انتقام لینا شروع کر دیا ہے۔ ابھی (ن) لیگ کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ ہی ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے طنزیہ بیانات شروع ہو گئے ہیں اور خود خورشید شاہ نے کہا ہے کہ غیرملکی قرضے اور امداد مانگنے کا پیپلز پارٹی کا کشکول ڈیڑھ فٹ کا تھا جب کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا یہ کشکول ڈیڑھ میٹر کا ہے۔
بلاول ہاؤس کا ترجمان بھی کراچی میں کیوں خاموش رہتا انھوں نے ایک ماہ کو دو ماہ بنا دیا اور کہہ دیا (ن) لیگ کی حکومت کے دو ماہ میں مہنگائی کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کو یہ بھی خوش فہمی ہے کہ لوگ جلد ہی (ن) لیگ کی حکومت سے بیزار ہو جائیں گے اور پیپلز پارٹی کے دور کو یاد کریں گے۔
سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے دو صوبائی وزراء اور رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے جو پہلی بار اسمبلی میں آئی ہیں اور اجلاس میں محترمہ بے نظیر بھٹو بننے کی کوشش کی ہے نے بھی ابھی سے شریف برادران، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وفاقی حکومت پر الزام تراشی شروع کر دی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ سندھ حکومت وفاقی حکومت کے درمیان محاذ آرائی جلد شروع ہو جائے گی اور ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے تمام رہنما بھی (ن) لیگ کی حکومت پر بے جا الزام تراشی میں پیچھے نہیں رہیں گے اور صدر زرداری نے اپنے ان رہنماؤں کی اگر سرزنش نہ کی تو جلد ہی قوم کو 1988 کے بعد سے دونوں بڑی پارٹیوں میں ہونے والی محاذ آرائی دیکھنے کو ملے گی۔
(ن) لیگ میں بھی رانا ثناء اللہ جیسے رہنما موجود ہیں جو پیپلز پارٹی کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ رانا ثناء اللہ کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کو صدر مملکت کے بھیجے گئے آموں کے تحفے سے کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ رانا ثناء اللہ کا یہ بیان بھی انتہائی غیر ذمے دارانہ تھا جس نے اچھا اثر نہیں چھوڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں سیاسی محاذ آرائی سے گریز سمیت اچھے نکات بھی تھے مگر اس میں یقینی طور پر کوئی ایسا نکتہ نہیں ہو گا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومتوں میں آ کر ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ فراہم کریں گی۔ اگر میثاق جمہوریت میں ایسی کوئی بات ہوتی تو اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں سوئس حکومت کو لکھے جانے والے دوسرے خط کا ذکر نہ کرتے اور (ن) لیگ کی حکومت بھی اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر لیتی۔ کرپشن کو کسی ملک اور معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اقتدار میں آ کر ملکی دولت کو ذاتی جاگیر سمجھ کر لوٹنا، بانٹنا، جائیدادیں اور محل بنانا دنیا کے کسی بھی آئین اور قانون میں جائز نہیں۔ دوسرے ملکوں میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ جن میں سابق صدر اور وزرائے اعظم کو کرپشن ثابت ہونے پر عدالتوں سے سزائیں ملیں مگر پاکستان میں اب تک ایسا نہیں ہوا حالانکہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر کرپشن کے الزامات لگے اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کرپشن کے الزام میں کئی سال جیلوں میں رہے مگر کرپشن کا الزام بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف علی زرداری پر کسی بھی ملکی عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا۔
راجہ پرویز اشرف کو سپریم کورٹ نے کرپشن میں وزیر بجلی کی حیثیت سے بدعنوان قرار دیا تھا جب کہ یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان پر لگے کرپشن کے الزامات سے کون واقف نہیں ہے۔ کرپشن کے الزامات عدالتوں میں ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ کرپشن کرنے والا کوئی ثبوت نہیں چھوڑتا اور اگر اتفاق سے پکڑ میں آ بھی جائے تو سیاسی انتقامی کارروائی کا پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر وفاقی حکومت نے سوئس حکومت کو لکھے گئے خط کی جو تحقیقات شروع کروائی ہے اس پر اپوزیشن لیڈر نے الزامات کی روایتی سیاست شروع کر دی ہے حالانکہ (ن) لیگ کی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حکومت سے جو کچھ بھی ورثے میں ملا ہے وہ خود پیپلز پارٹی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی حکومت اپنے 5 سالوں میں اربوں کھربوں ڈالر کے غیر ملکی قرضے چڑھا کر گئی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر نومولود بھی 85 ہزار روپے کا مقروض پیدا ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کے علاوہ ملک ہی میں دیے جانے والے گردشی قرضے بھی پی پی حکومت سے (ن) لیگ کی حکومت کو تحفے میں ملے ہیں جن کی ادائیگی کی ذمے داری اب پی پی کی نہیں مسلم لیگ (ن) کی ذمے داری بن چکی ہے۔ خالی خزانہ ورثے میں ملنے والی حکومت نے اگر پی پی دور میں لیے جانے والے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی نہ کی تو پاکستان کو دیوالیہ قرار دیے جانے کا قوی امکان تھا جس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑ گیا ہے اور حکومت کو بہت سے بڑے غیرملکی قرض کی ادائیگی کے لیے خورشید شاہ کے بقول ڈیڑھ میٹر لمبا کشکول پھیلانا پڑگیا ہے۔
موجودہ حکومت کے بڑے کشکول کی ذمے دار بھی پی پی کی سابق حکومت ہے جس نے ڈھائی سال نوٹ چھاپ چھاپ کر ملکی روپے کی ویلیو گرائی اور ڈالر کی بڑھوائی جس سے قرضوں میں اضافہ ہوا اور بعد میں کشکول لے کر دنیا میں پھرنا وفاقی حکومت کی اولین ترجیح رہی کیونکہ نئے لیے گئے قرضے پی پی حکومت نے وزیروں مشیروں کی فوج پالنے، اپنوں کو نوازنے اور اللوں تللوں پر خرچ کیے اور انھیں پتہ تھا کہ یہ قرضے 2013میں آنے والی نئی حکومت کو ادا کرنا پڑیں گے۔
اپنے ہی لیے ہوئے قرضوں کی واپسی پی پی کا درد سر نہیں بلکہ اب (ن) لیگ کی ذمے داری ہے جس پر اب خورشید شاہ طنز کر رہے ہیں جو انھیں زیب نہیں دیتا۔ گزشتہ 5 سالوں میں کرپشن کے ذریعے جس طرح ملک کو لوٹا گیا اور موجودہ معاشی تباہی تک پہنچایا گیا اس کی منصفانہ تحقیقات نہ ہوئیں تو یہ دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت ثابت ہو گی اور تحقیقات سے بچنے کے لیے پی پی کو تحفظات ابھی سے لاحق ہو گئے ہیں۔
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کچھ تحفظات لاحق ہو گئے ہیں اور سپریم کورٹ میں سوئس حکومت کو لکھے گئے ایک اور خط کے اٹارنی جنرل کی طرف سے کیے گئے انکشاف اور چیف جسٹس پاکستان کے اس پر ریمارکس کے بعد پیپلز پارٹی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے صدارتی استثنیٰ کے ختم ہونے کے بعد بھی سوئس اکاؤنٹس کا مسئلہ پھر اٹھے گا جسے پیپلز پارٹی وزیر اعظم نواز شریف کی انتقامی کارروائی قرار دے گی اور الزام لگائے گی کہ میاں صاحب نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور پیپلز پارٹی سے انتقام لینا شروع کر دیا ہے۔ ابھی (ن) لیگ کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ ہی ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے طنزیہ بیانات شروع ہو گئے ہیں اور خود خورشید شاہ نے کہا ہے کہ غیرملکی قرضے اور امداد مانگنے کا پیپلز پارٹی کا کشکول ڈیڑھ فٹ کا تھا جب کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا یہ کشکول ڈیڑھ میٹر کا ہے۔
بلاول ہاؤس کا ترجمان بھی کراچی میں کیوں خاموش رہتا انھوں نے ایک ماہ کو دو ماہ بنا دیا اور کہہ دیا (ن) لیگ کی حکومت کے دو ماہ میں مہنگائی کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہو گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں کو یہ بھی خوش فہمی ہے کہ لوگ جلد ہی (ن) لیگ کی حکومت سے بیزار ہو جائیں گے اور پیپلز پارٹی کے دور کو یاد کریں گے۔
سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے دو صوبائی وزراء اور رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے جو پہلی بار اسمبلی میں آئی ہیں اور اجلاس میں محترمہ بے نظیر بھٹو بننے کی کوشش کی ہے نے بھی ابھی سے شریف برادران، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وفاقی حکومت پر الزام تراشی شروع کر دی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ سندھ حکومت وفاقی حکومت کے درمیان محاذ آرائی جلد شروع ہو جائے گی اور ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے تمام رہنما بھی (ن) لیگ کی حکومت پر بے جا الزام تراشی میں پیچھے نہیں رہیں گے اور صدر زرداری نے اپنے ان رہنماؤں کی اگر سرزنش نہ کی تو جلد ہی قوم کو 1988 کے بعد سے دونوں بڑی پارٹیوں میں ہونے والی محاذ آرائی دیکھنے کو ملے گی۔
(ن) لیگ میں بھی رانا ثناء اللہ جیسے رہنما موجود ہیں جو پیپلز پارٹی کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ رانا ثناء اللہ کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کو صدر مملکت کے بھیجے گئے آموں کے تحفے سے کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ رانا ثناء اللہ کا یہ بیان بھی انتہائی غیر ذمے دارانہ تھا جس نے اچھا اثر نہیں چھوڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں سیاسی محاذ آرائی سے گریز سمیت اچھے نکات بھی تھے مگر اس میں یقینی طور پر کوئی ایسا نکتہ نہیں ہو گا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومتوں میں آ کر ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ فراہم کریں گی۔ اگر میثاق جمہوریت میں ایسی کوئی بات ہوتی تو اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں سوئس حکومت کو لکھے جانے والے دوسرے خط کا ذکر نہ کرتے اور (ن) لیگ کی حکومت بھی اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر لیتی۔ کرپشن کو کسی ملک اور معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اقتدار میں آ کر ملکی دولت کو ذاتی جاگیر سمجھ کر لوٹنا، بانٹنا، جائیدادیں اور محل بنانا دنیا کے کسی بھی آئین اور قانون میں جائز نہیں۔ دوسرے ملکوں میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ جن میں سابق صدر اور وزرائے اعظم کو کرپشن ثابت ہونے پر عدالتوں سے سزائیں ملیں مگر پاکستان میں اب تک ایسا نہیں ہوا حالانکہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف پر کرپشن کے الزامات لگے اور موجودہ صدر آصف علی زرداری کرپشن کے الزام میں کئی سال جیلوں میں رہے مگر کرپشن کا الزام بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف علی زرداری پر کسی بھی ملکی عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا۔
راجہ پرویز اشرف کو سپریم کورٹ نے کرپشن میں وزیر بجلی کی حیثیت سے بدعنوان قرار دیا تھا جب کہ یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان پر لگے کرپشن کے الزامات سے کون واقف نہیں ہے۔ کرپشن کے الزامات عدالتوں میں ثابت کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ کرپشن کرنے والا کوئی ثبوت نہیں چھوڑتا اور اگر اتفاق سے پکڑ میں آ بھی جائے تو سیاسی انتقامی کارروائی کا پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر وفاقی حکومت نے سوئس حکومت کو لکھے گئے خط کی جو تحقیقات شروع کروائی ہے اس پر اپوزیشن لیڈر نے الزامات کی روایتی سیاست شروع کر دی ہے حالانکہ (ن) لیگ کی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حکومت سے جو کچھ بھی ورثے میں ملا ہے وہ خود پیپلز پارٹی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی حکومت اپنے 5 سالوں میں اربوں کھربوں ڈالر کے غیر ملکی قرضے چڑھا کر گئی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر نومولود بھی 85 ہزار روپے کا مقروض پیدا ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ غیر ملکی قرضوں کے علاوہ ملک ہی میں دیے جانے والے گردشی قرضے بھی پی پی حکومت سے (ن) لیگ کی حکومت کو تحفے میں ملے ہیں جن کی ادائیگی کی ذمے داری اب پی پی کی نہیں مسلم لیگ (ن) کی ذمے داری بن چکی ہے۔ خالی خزانہ ورثے میں ملنے والی حکومت نے اگر پی پی دور میں لیے جانے والے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی نہ کی تو پاکستان کو دیوالیہ قرار دیے جانے کا قوی امکان تھا جس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑ گیا ہے اور حکومت کو بہت سے بڑے غیرملکی قرض کی ادائیگی کے لیے خورشید شاہ کے بقول ڈیڑھ میٹر لمبا کشکول پھیلانا پڑگیا ہے۔
موجودہ حکومت کے بڑے کشکول کی ذمے دار بھی پی پی کی سابق حکومت ہے جس نے ڈھائی سال نوٹ چھاپ چھاپ کر ملکی روپے کی ویلیو گرائی اور ڈالر کی بڑھوائی جس سے قرضوں میں اضافہ ہوا اور بعد میں کشکول لے کر دنیا میں پھرنا وفاقی حکومت کی اولین ترجیح رہی کیونکہ نئے لیے گئے قرضے پی پی حکومت نے وزیروں مشیروں کی فوج پالنے، اپنوں کو نوازنے اور اللوں تللوں پر خرچ کیے اور انھیں پتہ تھا کہ یہ قرضے 2013میں آنے والی نئی حکومت کو ادا کرنا پڑیں گے۔
اپنے ہی لیے ہوئے قرضوں کی واپسی پی پی کا درد سر نہیں بلکہ اب (ن) لیگ کی ذمے داری ہے جس پر اب خورشید شاہ طنز کر رہے ہیں جو انھیں زیب نہیں دیتا۔ گزشتہ 5 سالوں میں کرپشن کے ذریعے جس طرح ملک کو لوٹا گیا اور موجودہ معاشی تباہی تک پہنچایا گیا اس کی منصفانہ تحقیقات نہ ہوئیں تو یہ دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت ثابت ہو گی اور تحقیقات سے بچنے کے لیے پی پی کو تحفظات ابھی سے لاحق ہو گئے ہیں۔