تیرہ سال بعد انتظامی اختیارات بحال… پہلا حصہ

جس طرح سے صوبائی حکومتیں صوبے کے انتظامات چلانے کے لیے چیف سیکریٹری، سیکریٹریز اور ذیلی افسران انتظامات چلاتے ہیں

جس طرح سے صوبائی حکومتیں صوبے کے انتظامات چلانے کے لیے چیف سیکریٹری، سیکریٹریز اور ذیلی افسران انتظامات چلاتے ہیں، ضلع سطح پر کام کرنے کا انداز کچھ ان سے مختلف ہوتا ہے اس میں ڈپٹی کمشنر حکومتی کمانڈر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سب ڈویژنل مجسٹریٹ (اسسٹنٹ کمشنر) اور مختار کار اس کے اہم بازو ہوتے ہیں۔ ریونیو کے کاموں کی حد تک تو ان کا ایک الگ کام ہے مگر جب انھیں مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں تو پھر ان کے کام کرنے کی وسعت اور ذمے داری وسیع ہو جاتی ہے۔

مجسٹریٹ کے اختیارات کے بغیر ڈپٹی کمشنر بھی عام افسران جیسا بن جاتا ہے۔ آج سے 13 سال پہلے جب لوکل باڈیز کے نظام کا انعقاد ہوا جس میں پرویز مشرف نے ایک Devolution Plan کے تحت ناظم کو اختیارات دے کر ضلع انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا تھا جو یوسی لیول تک ناظم کہلاتے تھے۔ الیکشن کے ذریعے منتخب ہونے والوں میں سے ایک ناظم اور دوسرا نائب ناظم بنائے گئے تھے جس کی وجہ سے ڈپٹی کمشنرز کو ان کا ضلع لیول پر سیکریٹری بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جوڈیشل مجسٹریٹ آنے سے ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنر اور مختارکاروں کے مجسٹریٹ والے اختیارات ختم کر دیے گئے تھے جس سے ضلع اور تحصیل میں کام کی نوعیت بدل گئی اور ان افسران کے پر کٹ گئے۔

لیکن میرے چالیس سالہ تجربے نے اس بات کو صحیح نہیں مانا تھا کیونکہ ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ انفارمیشن آفیسر کی حیثیت میں ہمیشہ ساتھ رہا ہوں اور میں نے ضلع کے اندر ڈپٹی کمشنر کے نظام کو ایک مضبوط اور موثر نظام پایا ہے کیونکہ جب ڈپٹی کمشنر اور اس کے ماتحت اسسٹنٹ کمشنرز اور مختار کام کرتے تھے تو نتیجہ اتنا جلدی اور آسانی سے ملتا تھا کہ عام پبلک سے لے کر افسران تک مطمئن ہوتے تھے۔ اس نظام کو سیاسی طور پر ختم کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے عام آدمی کو انصاف ملنا دشوار ہو گیا تھا اور کرپشن گراس روٹ لیول پر آ گئی تھی۔ افسران تو گورنمنٹ کے ملازم تھے وہ حکم کے پابند تھے اور تھوڑا بہت ڈرتے تھے اور حساب کتاب میں گڑبڑ کی گنجائش کم رکھتے تھے مگر جب منتخب کونسلرز، یوسی لیول تک ناظم بن کے آئے تو اس میں وہ اپنے آپ کو علاقے کا بادشاہ سمجھنے لگے اور دیے گئے فنڈز کا استعمال بغیر کسی ڈر کے اس طرح سے خرچ کرنے لگے کہ جیسے وہ ان کی ذاتی ملکیت ہو۔

ناظم انتظامی چیزوں کو سمجھ نہیں پاتا تھا اور افسران ان سے تعاون نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ سے جو ایک نظام قائم تھا وہ آہستہ آہستہ ٹوٹنا اور بکھرنا شروع ہو گیا جسے حکومت نے خود بھی محسوس کیا مگر اس نظام کو اس لیے جاری رکھا کہ اس سے ان کے سیاسی مقاصد بندھے ہوئے ہیں۔ جب ڈپٹی کمشنر جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی تھا اسے صبح سویرے سے رات دیر گئے تک کام ہی کام ہوتا تھا جس کے لیے میں آپ کو کچھ بتاتا چلوں کہ جب میں رات کو اپنے گھر پہنچ کر کھانا کھا کر سو جاتا تھا تو رات کے 3 بجے پی ٹی سی ایل کے فون کی گھنٹی بجتی تھی، آدھی رات کو جب بھی فون کی گھنٹی بجتی تھی تو میں سمجھ جاتا تھا کہ یہ ڈی سی کا فون ہو گا کہ صبح کوئی بڑا وی وی آئی پی آ رہا ہو گا۔ یہی ہوا ڈی سی نے کہا کل پرائم منسٹر صبح آٹھ بجے موئن جو دڑو ایئر پورٹ پر پہنچ رہے ہیں آپ میڈیا کی کوریج کا بندوبست کریں۔ میں اسی وقت پی ٹی وی والوں کو، ریڈیو پاکستان،اے پی پی، اخباری نمایندوں کو فون کرنا شروع کرتا تھا اور اس درمیان تیار بھی ہو رہا ہوتا تھا۔


مگر اس کے علاوہ ڈی سی اپنے ایس ڈی ایمز، مختارکاروں، ایس ایس پی کو فون کرتے تھے کہ ایئرپورٹ پر سیکیورٹی کا انتظام، لوگوں کے بیٹھنے، پرائم منسٹر کو استقبال کرنے والی شخصیات سے رابطہ کرنا، انھیں بلانا، سرکٹ ہاؤس میں رہنے کے انتظامات اور کھانے اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات کرنا ایک بڑا کام ہوتا تھا اور جب آپ صبح 7:30 بجے ایئرپورٹ پہنچیں گے تو ہر چیز تیار ہو گی اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسا کہ ڈی سی کے پاس جادو کی چھڑی ہے کہ سارے اتنے بڑے انتظام 6 گھنٹے رات میں ہو جاتے تھے۔

اب ہوتا یہ تھا کہ انتظامی چین اس طرح سے بنی ہوئی تھی کہ بڑے سے چھوٹا افسر یا ملازم اپنی ذمے داری سمجھتا تھا۔ رات ہی رات میں شامیانے لگانے والے، کرسیاں، قنات لگانے والوں کو رات کو گھر سے بلوایا جاتا، اہم شخصیات کو فون کر کے بتایا جاتا تھا کہ کل انھیں ایئرپورٹ آنا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی فہرست ناموں کی ہوتی تھی جسے آئی بی والے اسی وقت رات کو سکھر سے تیار کر کے پاس بنا کر لاتے تھے جنھیں ایئرپورٹ اور سرکٹ ہاؤس لوگوں اور افسران کو دی جاتی تھی۔ میں اپنے میڈیا کی لسٹ دے کر ان کی پاسز لے لیتا تھا اور میڈیا والے میرے دفتر آ کر لے جاتے تھے جنھیں ڈی سی کی طرف سے دی گئیں وین میں ایئرپورٹ، سرکٹ ہاؤس یا پھر جہاں پر پروگرام ہوتا تھا وہاں لے جاتا تھا۔ اس وی وی آئی پی وزٹ میں رات ہی رات میں افسران کو مختلف وی آئی پیز کا کنڈکٹنگ افسر بنایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کھانے کا انتظام وغیرہ کرنے والوں کی کسی کی سربراہی میں کمیٹیاں بنائی جاتی تھیں وہ کام کو سنبھال لیتے تھے۔ اس خرچے کے لیے ہر ایک تعاون کرتا تھا اور جب وزٹ ختم ہو جاتا تو ان کے بل کلیئر کیے جاتے تھے۔

ڈپٹی کمشنر حکومتی نظام کا اہم افسر ہے جو حکومت کے ضلع سطح پر کھڑے ہو جانے والے مسائل چٹکی میں حل کر دیتا تھا جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ ہر کمیٹی کا سربراہ یا چیئرمین ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر جیسے اب رمضان المبارک آرہا ہے تو اس کے لیے ڈپٹی کمشنر ایک اجلاس بلواتے تھے جس میں اپنے افسران کے علاوہ جتنے بھی گوشت، مچھلی، سبزیاں اور دوسرے اشیاء فروش، شہر کے معزز لوگ شرکت کرتے تھے ۔ انھیں یہ کہا جاتا تھا کہ رمضان المبارک ہمارے لیے ایک مقدس مہینہ ہے اس میں چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ نہ کی جائے۔ اس سلسلے میں ایس ڈی ایم اور مختارکار کے پاس مجسٹریٹ کے اختیار ہوتے تھے اور جو قیمتیں میٹنگ میں طے ہوتی تھیں اگر ان سے زیادہ پیسے وصول کرنے والوں کو وہیں پر جرمانہ کرتے تھے یا پھر انھیں گرفتار کر کے کیس داخل کیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں مارکیٹ کمیٹی روزانہ اشیاء کے نرخ چیک کرتی تھی۔ ڈپٹی کمشنر خود بھی اچانک پورے ضلع میں چھاپے لگاتے تھے، ریٹ لسٹ چیک کرنا، لوگوں سے ملنا اور مہنگائی کے بارے میں پوچھنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔بارشوں اور سیلاب کے امکانات کے پیش نظر ایک مہینہ پہلے ہی میٹنگز کی جاتی تھیں جن کی صدارت ڈی سی کرتے تھے جس میں آبپاشی، صحت، میونسپل کمیٹی، فارسٹ، این جی اوز، پولیس اور علاقے کے با اثر لوگوں کو بلایا جاتا تھا۔

ہر محکمہ اپنی ضروریات اور مسائل بتاتا تھا جسے پورا کرنے کے لیے ڈی سی اوپر افسران بالا کو خط کے ذریعے اور فون سے آگاہ کرتے تھے۔ جب بارش ہو گئی تو وہ خود نکل پڑتے پورا لاڑکانہ شہر اور ضلع کے باقی علاقے گھوم کر مسائل کا حل کرتا تھا۔ کئی مرتبہ ڈی سی اور ایس ڈی ایمز خود گٹر پر کھڑے ہو کر صاف کرواتے تھے، اگر گندہ پانی کھینچنے والے الیکٹرک پمپ کام نہیں کرتے تھے یا اس کی بجلی کا کنکشن کٹا ہوا ہوتا تھا تو واپڈا والوں سے بات کر کے گندہ پانی نکالنے والی مشینزکا کنکشن بحال کرواتے تھے۔ (جاری ہے)
Load Next Story