2018
اب اگر غور سے دیکھا جائے تو 2018ء کا یوں پلک جھپکتے میں گزر جانا بھی کسی فریب تماشا سے کم تو نہیں
بہت غور کرنے کے بعد بھی جب یہ معمہ حل نہ ہوا کہ کیا واقعی یہ گزرتا ہوا سال جو اب اپنے الوداعی لمحوں میں ہے گزشتہ برسوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی یعنی غیر معمولی تیزی سے گزرا ہے تو کچھ احباب سے اس الجھن کا ذکر کیا مگر کہیں سے کوئی تسلی بخش یا واضح جواب نہیں مل سکا۔
اگر میڈیا کے حوالے سے دیکھیے تو اس دوران میں سیکڑوں ہی واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن کسی بھی Breaking News کا اثر چند گھنٹوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ملکی سطح پر ہم الیکشن کے ہنگامے سے گزرے اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی، معاشی اور تحقیقی حوالوں سے کئی انقلابات آئے مگر سب کا وصف مشترک ''تیز رفتاری'' ہی ٹھہرا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے سو دنوں کا ہر روز حساب کیا گیا مگر اس کے باوجود ان کے گزرنے کا پتہ نہیں چلا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر انسانی زندگی ہر آنے والے برس میں اگلا گیئر بدلتی جا رہی ہے اور اس تیز رفتاری کی وجہ سے وقت اور فاصلوں کا تصور بھی بعض نئی جہتوں سے ہم کنار ہو رہا ہے۔ ابھی ایک قافلے یا واقعے کی گرد بیٹھنے بھی نہیں پاتی کہ ایک اور امڈا چلا آتا ہے اور یوں گرد بیٹھنے یا ردعمل کے استوار ہونے کا وہ سارا عمل ہی الٹ پلٹ ہوگیا ہے جس کی وساطت سے زندگی کو برتا اور سمجھا جاتا تھا۔
وقت سے کون کہے 'یار' ذرا آہستہ
امریکا کے ٹرمپ اور بھارت کے مودی کی بے چین طبیعتوں اور نسل پرستی کے آزار نے پوری دنیا کو ایک مسلسل عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دوسری طرف چین کی ہمہ گیر ترقی، روس کی انگڑائی اور یورپی یونین کے خود مختاری کے تصور سمیت سمیت ایک سے ایک نیا مسئلہ اکیسویں صدی میں پرانے، رشتوں اور روایتوں کو بدلنے پر تلا کھڑا ہے۔ ایسے میں یوں تو کم و بیش ساری ہی تیسری دنیا اس مخمصے میں گرفتار ہے کہ وہ کیا کرے اور کدھر جائے؟ مگر اس کا سب سے زیادہ اثر مسلمان اکثریت کے علاقوں اور وطن عزیز پاکستان کے اطراف میں عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔
لیبیا اور عراق کی تباہی اور شام اور افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے موجودہ اور متوقع اثرات بھی اس قدر تیزی سے اپنا رنگ دکھا رہے ہیں کہ دنیا کی تقریباً دو تہائی آبادی کا حامل ہمارا خطہ ہر آنے والے دن میں کسی نئے چیلنج کا سامنا کرتا دکھائی دیتا ہے جس کے نتیجے میں مقداری سطح پر تو بے شک دنیا آگے بڑھ رہی ہے لیکن جہاں تک ''معیار'' کا معاملہ ہے صورتحال مختلف بھی ہے اور تشویش ناک بھی کہ یہ سب کچھ بے حد تیزی سے ہو رہا ہے اور یوں پورا ایک سال جس میں بارہ مہینے اور تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں، یوں گزرا کہ 2018 کے آغاز میں لکھی گئی نئے سال کی پہلی نظم کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی اور یہ سال گزر بھی گیا۔
دسمبر کے آخری چند دن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اداس کرنے والے تھے لیکن دیکھا جائے تو وقت کی اس غیر معمولی تیزی کی وجہ سے اس اداسی کی سنگینی کو بھی پاؤں جمانے کے لیے زیادہ جگہ نہیں مل سکی کہ بقول غالبؔ ''درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا'' غالبؔ کے ذکر سے یاد آیا کہ اس بار ایوان صدر اسلام آباد میں غالبؔ کے 221 ویں یوم ولادت کے حوالے سے ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا جو اس اعتبار سے منفرد تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے پیشرو ممنون حسین صاحب کی قائم کردہ روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کا دامن وسیع کیا ہے۔
شعر و ادب کی حرمت اور عزت کا یہ احترام یقینا قابل ستائش ہے۔ بس اتنا ہے کہ غالبؔ نے جس زبان میں (فارسی کے علاوہ) شاعری کی تھی اور جو اب ہماری قومی اور رابطے کی زبان ہے اس کے مستقبل کی طرف بھی کچھ توجہ کر لی جائے کہ ایک اندازے کے مطابق انگریزی میڈیم اسکولوں کے فروغ کے باعث آیندہ دس برس میں ہمارے 20% کے قریب طلبہ اردو رسم الخط اور اس کے ادب سے اس قدر دور ہو جائیں گے کہ غالبؔ کے اشعار تو ایک طرف اس کا نام بھی شاید ان کے حافظے میں نہ رہے۔ خدانخواستہ کیسا برا وقت ہو گا۔ جب ہماری اگلی نسلیں غالبؔ کے ان جیسے اشعار سے ناآشنا ہو جائیں گی کہ
بندگی میں بھی وہ آزادۂ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
ہاں کھائیو مت، فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی
وفاداری، بشرطِ استواری اصلِِ ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجیے
ستم بہائے متاع ہنر ہے، کیا کہیے
گل غنچگی میں غرقۂ دریائے رنگ ہے
اے آگہی فریبِِ، تماشا کہاں نہیں
اب اگر غور سے دیکھا جائے تو 2018ء کا یوں پلک جھپکتے میں گزر جانا بھی کسی فریب تماشا سے کم تو نہیں۔ رہی بات یہ کہ 2019دنیا اور بالخصوص ہمارے لیے کیا لے کر آیا ہے تو اس کے لیے دوا اور دعا دونوں کی ضرورت ہے۔ اس مشاعرے کے سامعین میں اسد عمر، فواد چوہدری اور شبلی فراز بھی موجود تھے۔ تینوں کا تعلق حکومت وقت یعنی تحریک انصاف سے ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ وہ اور ان کی جماعت اس آنے والے سال میں زندگی کے ہر شعبے میں ''انصاف'' کو غیر مشروط انداز میں قائم کرنے کے لیے اپنا کام پوری محنت اور ایمانداری سے کریں گے اور اس کے ہر دن کو اپنی قوم کے لیے ایک مبارک اور باعمل دن بنائیں گے اور غالبؔ کے اس شعر کو ایک ایسی تعبیر سے روشناس کرائیں گے جو ہم سب کے لیے باعث ترقی و امن ہو۔
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اگر میڈیا کے حوالے سے دیکھیے تو اس دوران میں سیکڑوں ہی واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن کسی بھی Breaking News کا اثر چند گھنٹوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ملکی سطح پر ہم الیکشن کے ہنگامے سے گزرے اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی، معاشی اور تحقیقی حوالوں سے کئی انقلابات آئے مگر سب کا وصف مشترک ''تیز رفتاری'' ہی ٹھہرا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے سو دنوں کا ہر روز حساب کیا گیا مگر اس کے باوجود ان کے گزرنے کا پتہ نہیں چلا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر انسانی زندگی ہر آنے والے برس میں اگلا گیئر بدلتی جا رہی ہے اور اس تیز رفتاری کی وجہ سے وقت اور فاصلوں کا تصور بھی بعض نئی جہتوں سے ہم کنار ہو رہا ہے۔ ابھی ایک قافلے یا واقعے کی گرد بیٹھنے بھی نہیں پاتی کہ ایک اور امڈا چلا آتا ہے اور یوں گرد بیٹھنے یا ردعمل کے استوار ہونے کا وہ سارا عمل ہی الٹ پلٹ ہوگیا ہے جس کی وساطت سے زندگی کو برتا اور سمجھا جاتا تھا۔
وقت سے کون کہے 'یار' ذرا آہستہ
امریکا کے ٹرمپ اور بھارت کے مودی کی بے چین طبیعتوں اور نسل پرستی کے آزار نے پوری دنیا کو ایک مسلسل عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دوسری طرف چین کی ہمہ گیر ترقی، روس کی انگڑائی اور یورپی یونین کے خود مختاری کے تصور سمیت سمیت ایک سے ایک نیا مسئلہ اکیسویں صدی میں پرانے، رشتوں اور روایتوں کو بدلنے پر تلا کھڑا ہے۔ ایسے میں یوں تو کم و بیش ساری ہی تیسری دنیا اس مخمصے میں گرفتار ہے کہ وہ کیا کرے اور کدھر جائے؟ مگر اس کا سب سے زیادہ اثر مسلمان اکثریت کے علاقوں اور وطن عزیز پاکستان کے اطراف میں عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔
لیبیا اور عراق کی تباہی اور شام اور افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی سے پیدا ہونے والی صورتحال کے موجودہ اور متوقع اثرات بھی اس قدر تیزی سے اپنا رنگ دکھا رہے ہیں کہ دنیا کی تقریباً دو تہائی آبادی کا حامل ہمارا خطہ ہر آنے والے دن میں کسی نئے چیلنج کا سامنا کرتا دکھائی دیتا ہے جس کے نتیجے میں مقداری سطح پر تو بے شک دنیا آگے بڑھ رہی ہے لیکن جہاں تک ''معیار'' کا معاملہ ہے صورتحال مختلف بھی ہے اور تشویش ناک بھی کہ یہ سب کچھ بے حد تیزی سے ہو رہا ہے اور یوں پورا ایک سال جس میں بارہ مہینے اور تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں، یوں گزرا کہ 2018 کے آغاز میں لکھی گئی نئے سال کی پہلی نظم کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی اور یہ سال گزر بھی گیا۔
دسمبر کے آخری چند دن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اداس کرنے والے تھے لیکن دیکھا جائے تو وقت کی اس غیر معمولی تیزی کی وجہ سے اس اداسی کی سنگینی کو بھی پاؤں جمانے کے لیے زیادہ جگہ نہیں مل سکی کہ بقول غالبؔ ''درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا'' غالبؔ کے ذکر سے یاد آیا کہ اس بار ایوان صدر اسلام آباد میں غالبؔ کے 221 ویں یوم ولادت کے حوالے سے ایک مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا جو اس اعتبار سے منفرد تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے پیشرو ممنون حسین صاحب کی قائم کردہ روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کا دامن وسیع کیا ہے۔
شعر و ادب کی حرمت اور عزت کا یہ احترام یقینا قابل ستائش ہے۔ بس اتنا ہے کہ غالبؔ نے جس زبان میں (فارسی کے علاوہ) شاعری کی تھی اور جو اب ہماری قومی اور رابطے کی زبان ہے اس کے مستقبل کی طرف بھی کچھ توجہ کر لی جائے کہ ایک اندازے کے مطابق انگریزی میڈیم اسکولوں کے فروغ کے باعث آیندہ دس برس میں ہمارے 20% کے قریب طلبہ اردو رسم الخط اور اس کے ادب سے اس قدر دور ہو جائیں گے کہ غالبؔ کے اشعار تو ایک طرف اس کا نام بھی شاید ان کے حافظے میں نہ رہے۔ خدانخواستہ کیسا برا وقت ہو گا۔ جب ہماری اگلی نسلیں غالبؔ کے ان جیسے اشعار سے ناآشنا ہو جائیں گی کہ
بندگی میں بھی وہ آزادۂ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
ہاں کھائیو مت، فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی
وفاداری، بشرطِ استواری اصلِِ ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجیے
ستم بہائے متاع ہنر ہے، کیا کہیے
گل غنچگی میں غرقۂ دریائے رنگ ہے
اے آگہی فریبِِ، تماشا کہاں نہیں
اب اگر غور سے دیکھا جائے تو 2018ء کا یوں پلک جھپکتے میں گزر جانا بھی کسی فریب تماشا سے کم تو نہیں۔ رہی بات یہ کہ 2019دنیا اور بالخصوص ہمارے لیے کیا لے کر آیا ہے تو اس کے لیے دوا اور دعا دونوں کی ضرورت ہے۔ اس مشاعرے کے سامعین میں اسد عمر، فواد چوہدری اور شبلی فراز بھی موجود تھے۔ تینوں کا تعلق حکومت وقت یعنی تحریک انصاف سے ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ وہ اور ان کی جماعت اس آنے والے سال میں زندگی کے ہر شعبے میں ''انصاف'' کو غیر مشروط انداز میں قائم کرنے کے لیے اپنا کام پوری محنت اور ایمانداری سے کریں گے اور اس کے ہر دن کو اپنی قوم کے لیے ایک مبارک اور باعمل دن بنائیں گے اور غالبؔ کے اس شعر کو ایک ایسی تعبیر سے روشناس کرائیں گے جو ہم سب کے لیے باعث ترقی و امن ہو۔
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے