چینی قونصل خانے پر حملہ اور بم دھماکوں نے سکیورٹی کی صورت حال پر سوالات اٹھا دیئے

نومبر اور دسمبر شہر قائد پر بھاری، شہری خوف کا شکار، ’’بڑوں‘‘ کو سر جوڑنا ہوں گے

نومبر اور دسمبر شہر قائد پر بھاری، شہری خوف کا شکار، ’’بڑوں‘‘ کو سر جوڑنا ہوں گے

نومبر اور رواں ماہ دسمبر امن و امان کے حوالے سے شہرِ قائد کے لئے زیادہ اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ چین کے قونصل خانے پر ہونے والے حملے نے تو عالمی میڈیا کو بھی متوجہ کرلیا، لیکن اس سانحہ میں جاں باز سپاہیوں نے شہادتیں دے کر دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا اور انہیں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا، جس کا اعتراف چینی قونصل جنرل اور چینی عوام نے بھی کیا، تاہم چین جیسے دوست ملک کے قونصل خانے پر حملے نے سکیورٹی پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

23 نومبر کی صبح شہر کے اس پوش علاقے کلفٹن میں کار سوار دہشت گرد گھوم رہے تھے، جہاں چپے چپے پر سکیورٹی کی غرض سے سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، جن میں پولیس، ٹریفک پولیس اور عام شہریوں کی جانب سے لگائے گئے ہر قسم کے کیمرے شامل ہیں، یہاں ہونے والی ہر نقل و حرکت کیمروں میں ریکارڈ ہوتی ہے لیکن اس قدر سکیورٹی کے باوجود دہشت گرد ایک کار میں سوار ہو کر بڑے آرام سے چین کے قونصل خانے تک پہنچ گئے۔ تحقیقات کے مطابق حملہ آور حب کے راستے سے کراچی پہنچے اور ماڑی پور روڈ، ٹاور، مائی کلاچی روڈ اور بوٹ بیسن سے گزرتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جگہ جگہ پولیس کے ناکے ، اسنیپ چیکنگ ، گشت ، انٹیلی جنس یہ سب اس وقت کہاں تھا؟ یہ بھی اطلاعات موصول ہوئیں کہ مذکورہ حملہ آور حملے سے آدھے گھنٹے قبل بھی چیک پوسٹ پر آئے اور سکیورٹی گارڈ سے بات چیت کر کے گاڑی میں بیٹھ کر قونصلیٹ کھلنے کا انتظار کرتے رہے ۔ اگر سکیورٹی ادارے چوکس ہوتے، انٹیلیجنس نیٹ ورک فعال ہوتا اور اسنیپ چیکنگ مؤثر انداز میں کی جارہی ہوتی تو یقینی طور پر یہ دہشت گرد یہاں تک پہنچنے سے بہت پہلے ہی پکڑے جاتے کیوں کہ گاڑی کے اندر ہی ان کا تمام اسلحہ ، دستی بم اور دیگر سامان رکھا ہوا تھا، یہاں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ حب سے لے کر شہر کے پوش علاقے کلفٹن تک پہنچتے ہوئے انہیں کسی مقام پر پولیس کی جانب سے چیک نہیں کیا جا سکا۔

نومبر کے آخری ہفتے کے اُس دن کو قائد آباد کے باسی شاید زندگی بھر نہ بھول سکیں، جب مارکیٹ میں ایک ٹھیلے کے نیچے نصب کیا گیا بم زودار دھماکے سے پھٹا، جو 2 معصوم انسانی جانیں نگل گیا جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ دہشت گردوں نے یہاں بھی زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کی غرض سے ایک دھماکے کے بعد دوسرا بم رکھا لیکن وہ پولیس و رینجرز کی نظروں میں آگیا اور فوری طور پر اسے جائے وقوعہ سے لے جا کر متصل میدان میں ناکارہ بنا دیا گیا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب تک محض خوش قسمتی پر انحصار کرتے رہیں گے.


بم ڈسپوزل یونٹ کے مطابق کسی ٹیکنیکل فالٹ کے باعث بم پھٹ نہیں سکا تھا، لیکن اگر دوسرا دھماکا ہو جاتا تو بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا اندیشہ تھا۔ دوسری جانب 2 دسمبر بروز اتوار کی رات 3 بجکر 22 منٹ پر جب آدھے سے زیادہ شہر نیند کی وادی میں تھا تب اچانک ڈیفنس خیابان مجاہد کے علاقے میں زور دار دھماکا ہوا اور کار کے پرخچے اڑگئے، کار میں انتہائی مہلک بم کی صورت میں گیس کے 6 سلنڈر رکھے گئے تھے جو خوش قسمتی سے پھٹ نہیں سکے.

حالاں کہ کار میں آئی ای ڈی ڈیوائس بھی نصب تھی۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز میلوں دور تک سنائی دی، مذکورہ کار اتوار کی شام 6 بجے کے قریب جمشید کوارٹر کے علاقے جہانگیر روڈ سے چوری کی گئی تھی، جسے دہشت گردوں نے چند ہی گھنٹوں میں ایک انتہائی خوفناک بم کی شکل میں نہ صرف تبدیل کر دیا بلکہ ڈیفنس کے پوش علاقے میں واقعے ایک خالی پلاٹ پر جا کر پارک بھی کر دیا۔ یہاں دوبارہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چوری کی جانے والی کار سڑک پر تو بم میں تبدیل نہیں کی جا سکتی تھی، یقیناً کار کو دہشت گرد اپنے کسی نہ کسی خفیہ مقام پر لے گئے، جہاں انھوں نے کار میں ایمپرووائس ایکسپلوزیو ڈیوائس (آئی ای ڈی) کو نصب کرنے کے ساتھ ساتھ دھماکے میں شدت پیدا کرنے کے لیے اس میں ایل پی جی گیس سلنڈر رکھ کر بم کو ان کے ساتھ منسلک کر دیا، پھر چوری شدہ کار شہر کی سڑکوں پر گھومتی ہوئی ڈیفنس میں لاکر پارک بھی کر دی گئی، اس تمام صورتحال نے انٹیلیجنس کی کارکردگی کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔

8 دسمبر کی رات بھی کراچی کے شہریوں کے لیے کوئی اچھی نوید نہیں لائی اور گلستان جوہر میں بم دھماکا ہوگیا ، بم دھماکا اس وقت ہوا جب ایم کیو ایم پاکستان کے تحت محفل میلاد کی تقریب جاری تھی، دہشت گردوں کی جانب سے نصب کیے جانے والے بم دھماکے سے فٹ پاتھ میں ڈیڑھ فٹ سے زائد چوڑا اور گہرا گڑھا پڑ گیا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بم کتنا طاقتور تھا، تاہم اس دھماکے میں خوش قسمتی سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی لیکن خاتون سمیت 8 افراد زخمی ضرور ہوئے۔ دھماکے کے وقت ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر اور وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی اور رکن اسمبلی خواجہ اظہار الحسن سمیت دیگر کئی رہنما ، عہدیداران اور کارکنان بھی موجود تھے۔ یہاں پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک پروگرام کا انعقاد سڑک پر کیا جارہا ہے تو سکیورٹی کہاں تھی؟ بم ڈسپوزل سے سرچنگ کیوں نہیں کرائی گئی؟ پولیس حکام کہتے ہیں کہ انھیں مطلع کیے بغیر ہی پروگرام منعقد کیا گیا لیکن اتنا کہہ دینے سے اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار نہیں کی جاسکتی۔

اس ساری صورت حال پر اگر غوروفکر کیا جائے تو معلوم ہو گاکہ یہ تمام واقعات ایک منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے، ملزمان اپنے ہدف تک باآسانی پہنچے اور سوائے قونصلیٹ حملے کے تمام ہی ملزمان راہ فرار اختیار کرگئے، ان ملزمان نے کہیں نہ کہیں بیٹھ کر منصوبے بھی بنائے ہوں گے ، ان کے کوئی نہ کوئی ہینڈلر اور سہولت کار بھی ہوں گے ، انھیں ہدف تک پہنچنے میں کسی نے مدد بھی کی ہوگی ، ان کے لیے کسی نے سرمایہ کاری بھی کی ہوگی۔ پھر کیا شہر کے داخلی راستوں سے جو چاہے ، جب چاہے اور جو کچھ لانا چاہے لاسکتا ہے؟ یہ تمام سوالات اس وقت حل ہوں گے جب انٹیلیجنس نیٹ ورک فعال ہوگا۔ کروڑوں روپے کا بجٹ انٹیلی جنس اور اسی قسم کے دیگر اداروں کو دیے جاتے ہیں لیکن دہشت گرد ایک واقعہ کر کے ان کی تمام تر کاوشوں اور صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹتے رہتے ہیں ، ہمیں اتنا چوکس رہنا ہوگا کہ سانپ جیسے ہی آئے تو اسے بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے اور فوراً پکڑ کر اسے گردن سے مروڑ کر کچل دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ کبھی کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔

شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے جہاں شہریوں کو خوف میں مبتلا کر دیا وہیں پر اسٹریٹ کرائمز کا جن بھی کسی کے قابو نہیں آرہا۔ کراچی پولیس چیف کا عہدہ سنھبالنے کے بعد ڈاکٹر امیر شیخ کو ٹریفک پولیس کا بھی سربراہ بنایا گیا ہے، لیکن شہر میں دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں تھم رہی ہیں نہ ٹریفک جام کا مسئلہ حل ہو پا رہا ہے۔ بہتر ہے کہ کراچی پولیس چیف شہر میں امن و امان کی صورت حال پر توجہ دیں یا پھر شہریوں کو ٹریفک جام کے مسائل سے چھٹکارا دلانے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن دو کشتیوں کی سواری میں وہ نہ تو شہر میں دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکے اور نہ ہی ٹریفک جام کے مسائل پر توجہ دے سکیں گے۔
Load Next Story