پاکستان اور برطانیہ میں قیدیوں کی حوالگی کا معاہدہ
پاکستان اس بات کی یقین دہانی بھی کرا رہا ہے کہ مجرم اپنی سزا پوری کریں گے
پاکستان اور برطانیہ نے ایک ترمیم شدہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت ان افراد کو جن پر فردجرم عائد کی جا چکی ہو، انھیں ان کے آبائی ملکوں میں منتقل کرنے کی اجازت ہو گی۔ اس معاہدے سے قیدیوں کو اپنی سزا اپنے آبائی ملکوں کے قریب پوری کرنے کا موقع ملے گا اور رہائی کے بعد وہ اپنے خاندانوں سے مل سکیں گے۔ اس معاہدے پر گزشتہ روز دستخط کیے گئے ۔ اس معاہدے سے سابقہ معاہدے کی تجدید اور توثیق بھی ہو گی کہ تمام مجرم رہائی سے قبل اپنی سزا مکمل کرنے کے پابند ہوں گے۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ 2015میں اس معاہدے کے تحت جن قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا تھا وہ اپنے متعلقہ حکام کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے سزا مکمل کیے بغیر رہا کر دیے گئے تھے جس کی وجہ سے اس معاہدے پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا تاہم اب دونوں ملکوں میں پھر اس معاہدے کو ازسرنو نافذ کر دیا گیا ہے جس سے امید کی جا رہی ہے کہ سزا پانے والے قیدیوں کو اس سے استفادہ ہو گا۔
اس حوالے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اب پاکستان اس بات کی یقین دہانی بھی کرا رہا ہے کہ مجرم اپنی سزا پوری کریں گے اور بین الاقوامی اور مقامی قانون کی مکمل پیروی کی جائے گی۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کا قیدخانوں کا نظام مکمل طور پر قابل اعتماد نہیں ہے جس کے اہم مسائل میں جیلوں میں ضرورت سے زیادہ قیدیوں کو بھرنا، جیلوں کے اندر کرپشن کا ہونا اور اقرباء پروری کا نمایاں ہونا۔ مزیدبرآں عادی مجرموں کا اپنے جیل کے سیل سے مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھنا بھی اچنبھے کی بات نہیں، نیز انھیں ممنوعہ اشیاء بھی جیل کے کمروں میں وافر مقدار میں حاصل ہو جاتی ہیں جن میں موبائل فون بھی شامل ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ اس کے قیدیوں کو سزا کے لیے اپنے ملک میں واپس لایا جائے تو اسے اپنے جیل کے نظام میں مزید اصلاح کرنا ہو گی ۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ 2015میں اس معاہدے کے تحت جن قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا تھا وہ اپنے متعلقہ حکام کی مبینہ کرپشن کی وجہ سے سزا مکمل کیے بغیر رہا کر دیے گئے تھے جس کی وجہ سے اس معاہدے پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا تاہم اب دونوں ملکوں میں پھر اس معاہدے کو ازسرنو نافذ کر دیا گیا ہے جس سے امید کی جا رہی ہے کہ سزا پانے والے قیدیوں کو اس سے استفادہ ہو گا۔
اس حوالے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اب پاکستان اس بات کی یقین دہانی بھی کرا رہا ہے کہ مجرم اپنی سزا پوری کریں گے اور بین الاقوامی اور مقامی قانون کی مکمل پیروی کی جائے گی۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کا قیدخانوں کا نظام مکمل طور پر قابل اعتماد نہیں ہے جس کے اہم مسائل میں جیلوں میں ضرورت سے زیادہ قیدیوں کو بھرنا، جیلوں کے اندر کرپشن کا ہونا اور اقرباء پروری کا نمایاں ہونا۔ مزیدبرآں عادی مجرموں کا اپنے جیل کے سیل سے مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھنا بھی اچنبھے کی بات نہیں، نیز انھیں ممنوعہ اشیاء بھی جیل کے کمروں میں وافر مقدار میں حاصل ہو جاتی ہیں جن میں موبائل فون بھی شامل ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ اس کے قیدیوں کو سزا کے لیے اپنے ملک میں واپس لایا جائے تو اسے اپنے جیل کے نظام میں مزید اصلاح کرنا ہو گی ۔