خدمت گاروں کی فصل میں اضافہ
آکر اس خدمت گزار ملک پر قبضہ کریں اوراپنی خدمت کرانے پر لگا دیں
فیض احمد فیضؔ اگر زندہ ہوتے تو بڑے شرمندہ ہوتے کیونکہ جس ''چیز'' کے وہ ''جویندہ'' تھے، وہ چیز آج کل الغاروں تلغاروں بلکہ خرواروں پیدا ہو رہی ہے، انھوں نے اپنی ایک ''دکھنی'' غزل میں جو دال مکھنی سے کم دل چکھنی نہیں ہے، اس میں اپنے زمانے سے نالاں ہو کر اگلے زمانے کے یاروں دلداروں بلکہ خدمت گاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے:
'' تھے'' کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے ''غموں'' سے فرصت تھی
سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
مطلب یہ کہ اپنے زمانے سے حد درجہ نالاں تھے، پریشان تھے اور شکوہ کناں تھے اور شعر بر زبان تھے کہ اب ایسے دل والوں، پرسان حالوں اور پوچھنے والوں کا قحط الرجال پڑ گیا جو اپنے روتے بسورتے، چیختے چلاتے، غموں سے یک روزہ، سہ روزہ اور ہفت روزہ چھٹی لے کر دوسروں کے غم خوار، دل دار اور خدمت گار بن جاتے تھے، یقینی طور پر انھوں نے دعائیں بھی مانگی ہوں گی کہ ایک مرتبہ پھر پہلے جیسے دوسروں کا حال احوال پوچھنے والوں، آنسوں پونچھنے والوں، چومنے چمانے والوں اور جھپی لینے والوں کی فصل پیدا ہو جائے اور یہ دعا یقیناً تمام دنیا کی آمین باد سے مستجاب و مقبول ہو گئی ہو۔
وہ اگر دل برداشتہ ہو کر ''لاد چلنے'' میں جلدی نہ کرتے تو آج دیکھتے کہ ان کے آئیڈیل کس بے تحاشہ تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں بلکہ یوں کہئے کہ بن برسات کے کھمبیوں کی بارات ہو گئی ہے۔ شہر شہر گاؤں گاؤں محلے محلے گھر گھر اور دردر اُگ رہے ہیں اور اپنے سارے کام غم و آلام بلکہ درہم ودام اورعیش و آرام تیاگ کر عوام کالانعام بے نیل حرام اور بے لگام کے خدام بنے ہوئے ہیں۔ اور یہ تو ایک طے شدہ اصول ہے کہ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عام خدام عوام کے ساتھ ساتھ مخدوموں کی ایک بڑی تعداد بھی دیواروں پر ،سڑکوں کے کناروں پر اور اخباروں اشتہاروں تک میں سرگرم ہو رہے ہیں، ان کے اندر جذبہ خدمت اتنا زیادہ ہے کہ جگہ جگہ ان کی تصاویر سے مزین دعوت نامے بکھرے ہوئے ہیں کہ آؤ اور ہم سے اپنی خدمت کرواؤ۔
ہمیں تو کچھ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ فیضؔ صاحب کی دعاؤں سے موسم آب و ہوا اور فضا و خلاء میں کچھ ایسی ''تبدیلی'' واقع ہو چکی ہے کہ جسے بھی یہ ہوا لگی ہے وہ خدمت خدمت اور پھر خدمت کرنے کا دیوانہ ہو گیا ہے۔ ایسا کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔ اس بادشاہ کی کہانی تو آپ نے سنی ہو گی جس کے زمانے میں ایک مرتبہ کچھ ایسی بارش ہو گئی کہ جس کے اوپر بھی اس کا چھینٹا پڑا تھا یا جس نے اس کا پانی پیا تھا یا چھوا تھا وہ پاگل ہو گیا، اتفاق سے صرف اس ملک کا بادشاہ اور وزیر بچ گئے تھے، پرانے زمانے میں اکلوتے ملک کا بادشاہ بھی اکلوتا ہوتا تھا اور وہ اپنی طرح وزیر بھی اکلوتا ہی رکھتا تھا، شاید ناداری کی وجہ سے ایفورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن آج کل خدا کے فضل، امریکا کی دعا اورآئی ایم ایف کی برکت سے ممالک اتنے ''مالدار'' ہوتے ہیں کہ بیک وقت کئی کئی بادشاہ اور بے تحاشا وزیر رکھتے ہیں۔ بلکہ فالتو رقومات اور ''افراط زر'' سے بچنے کے لیے وزیروں کے ساتھ ساتھ مشیر معاون اور تالیاں بجانے والے بھی پالتے ہیں تاکہ پاک سرزمین شادباد، منزل مراد کی قوالی برابر چلتی رہے۔
خیر تو وہ بادشاہ اور وزیر جو پاگل ہونے سے بچ گئے تھے بہت ہی حیران پریشان، ناطقہ سر بگریباں اور انگشت بدندان ہو گئے۔ کہ ان کی ہر بات پر لوگ ٹھٹھے لگا کر پاگل پاگل پکارتے تھے، بادشاہ نے وزیر سے با تدبیر بن کر کوئی تدبیر لڑانے کا کہا کہ کہیں یہ سارے سیانے مل کر ہم نمانوں کو تکا بوٹی اور بیر بہوٹی نہ کر دیں۔
وزیر باتدبیر نے غور کے حوض میں چھلانگ لگائی اورغوطے پر غوطے لگانے لگا آخر کار دس بارہ غوطوں کے بعد وہ چلایا آئی گاٹ اٹ، آئی گاٹ اٹ ۔ اور بادشاہ کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی ایک مٹکے کے پاس گیا جس میں اس خاص بارش کا پانی جمع تھا جو کسی کو بھی ''سیانا'' بنانے کی تاثیر رکھتا تھا۔ ایک جام بادشاہ کو پیش کرتے ہوئے ایک خود غٹا غٹ پیتے ہوئے کہا کہ اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں۔
ہمیں بھی کچھ ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہاں بھی ایسا ''کچھ نہ کچھ'' ہوا ہے ویسے بھی سائنس کا زمانہ ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کہ ایک دم سارے لوگوں کو ''خدمت'' کا بخار چڑھ گیا ہے۔ بلکہ ہمارا خیال تو ایک اور طرف بھی جا رہا ہے کہ کہیں کسی بیرونی ہاتھ نے ڈینگی کی طرح کوئی خدمت بخار کا مچھر ایجاد کرکے اپنے یہاں چھوڑا ہو۔ تاکہ تمام لوگ ''خدمت'' میں مصروف ہوکر نچنت ہو جائیں اور وہ آکر اس خدمت گزار ملک پر قبضہ کریں اوراپنی خدمت کرانے پر لگا دیں۔
ہو سکتا ہے بالکل ہو سکتا ہے کیونکہ آج کے زمانے میں ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے ورنہ ایک دم ہر منہ میں زبان رکھنے والے کا یوں ''خدمت قوالی'' گانا ۔
آپ سے کیا پردہ ہم تو آج کل اپنے گھر سے باہر قدم رکھنے سے بھی ڈرنے لگے ہیں ایک دو مرتبہ ایسا ہوا بھی ہے کہ :
گھر سے نکلے تھے حوصلہ کرکے
لوٹ آئے خدا خدا کرکے
ایک دو نہیں بلکہ چار پانچ خدمت گاروں نے ہمیں گھیر لیا اور اپنی اپنی طرف کھینچ کھینچ کر ہم سے کچھ خدمت کروانے کی استدعا کرنے لگے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہمیں بروقت ایک تدبیر سوجھ گئی، لرزنے کانپنے لگے اور پھر چکرا کر خود کو ایسا گرایا جیسے گولی لگی ہو۔ خدمت گاروں کو جب احساس ہوا کہ واقعی اب ہمیں خدمت کی ضرورت پڑ گئی۔ تو فوراً ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ اٹھ کر گھر میں گھستے گھستے ہم نے دیکھا کہ تھوڑی دوری پر وہ ایک اور آدمی کو گھیرے ہوئے خدمت کرانے کا تقاضا کر رہے تھے جس کے سر پر چارے کا ایک بھاری گٹھٹر تھا۔ لیکن خدمت گزار اسے روک کر خدمت کرانے پر تلے ہوئے تھے۔
آپ نے پرانے زمانے کے اکثر ادیبوں کے ایسے مضامین پڑھے ہوں گے جن میں انھوں نے ''کسی نہ کسی'' سے ''بچاؤ'' کی فریاد کی ہے۔
کسی نے دوستوں سے، کسی نے دشمنوں سے، کسی نے رشتہ داروں، کسی نے بیوی سے، کسی نے کتوں سے۔چنانچہ ہمارا بھی کچھ ارادہ ہو رہا ہے کہ ایساکوئی مضمون لکھیں بلکہ لکھیں کیا لکھ تو رہے ہیں بلکہ لکھ چکے ہیں بس ایسا کوئی خدا کا نیک بندہ چاہیے جو اسے پڑھے اور ہمیں ان خدمت گاروں اور خدمت گزاروں سے چھڑائے۔لیکن ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجیے یہ کام جتنا لگتا ہے اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ موجودہ نرخنامے کے مطابق ایسی تمام چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جو ''نجات دہندہ''اشیا کی ذیل میں آتی ہیں ''گریس بند'' نجات دہندہ کلاشن کوف کی قیمت ایک ہی چھلانگ میں تگنی ہو چکی ہے بلکہ اس کے بچے یعنی کارتوس بھی چھلانگ لگا چکے ہیں ۔''کام کی'' مطلب یہ کہ ''ہمارے سلسلے'' میں کام کی دوسری چیزوں کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔
'' تھے'' کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے ''غموں'' سے فرصت تھی
سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
مطلب یہ کہ اپنے زمانے سے حد درجہ نالاں تھے، پریشان تھے اور شکوہ کناں تھے اور شعر بر زبان تھے کہ اب ایسے دل والوں، پرسان حالوں اور پوچھنے والوں کا قحط الرجال پڑ گیا جو اپنے روتے بسورتے، چیختے چلاتے، غموں سے یک روزہ، سہ روزہ اور ہفت روزہ چھٹی لے کر دوسروں کے غم خوار، دل دار اور خدمت گار بن جاتے تھے، یقینی طور پر انھوں نے دعائیں بھی مانگی ہوں گی کہ ایک مرتبہ پھر پہلے جیسے دوسروں کا حال احوال پوچھنے والوں، آنسوں پونچھنے والوں، چومنے چمانے والوں اور جھپی لینے والوں کی فصل پیدا ہو جائے اور یہ دعا یقیناً تمام دنیا کی آمین باد سے مستجاب و مقبول ہو گئی ہو۔
وہ اگر دل برداشتہ ہو کر ''لاد چلنے'' میں جلدی نہ کرتے تو آج دیکھتے کہ ان کے آئیڈیل کس بے تحاشہ تعداد میں پیدا ہو رہے ہیں بلکہ یوں کہئے کہ بن برسات کے کھمبیوں کی بارات ہو گئی ہے۔ شہر شہر گاؤں گاؤں محلے محلے گھر گھر اور دردر اُگ رہے ہیں اور اپنے سارے کام غم و آلام بلکہ درہم ودام اورعیش و آرام تیاگ کر عوام کالانعام بے نیل حرام اور بے لگام کے خدام بنے ہوئے ہیں۔ اور یہ تو ایک طے شدہ اصول ہے کہ ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عام خدام عوام کے ساتھ ساتھ مخدوموں کی ایک بڑی تعداد بھی دیواروں پر ،سڑکوں کے کناروں پر اور اخباروں اشتہاروں تک میں سرگرم ہو رہے ہیں، ان کے اندر جذبہ خدمت اتنا زیادہ ہے کہ جگہ جگہ ان کی تصاویر سے مزین دعوت نامے بکھرے ہوئے ہیں کہ آؤ اور ہم سے اپنی خدمت کرواؤ۔
ہمیں تو کچھ ایسا محسوس ہو تا ہے کہ فیضؔ صاحب کی دعاؤں سے موسم آب و ہوا اور فضا و خلاء میں کچھ ایسی ''تبدیلی'' واقع ہو چکی ہے کہ جسے بھی یہ ہوا لگی ہے وہ خدمت خدمت اور پھر خدمت کرنے کا دیوانہ ہو گیا ہے۔ ایسا کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔ اس بادشاہ کی کہانی تو آپ نے سنی ہو گی جس کے زمانے میں ایک مرتبہ کچھ ایسی بارش ہو گئی کہ جس کے اوپر بھی اس کا چھینٹا پڑا تھا یا جس نے اس کا پانی پیا تھا یا چھوا تھا وہ پاگل ہو گیا، اتفاق سے صرف اس ملک کا بادشاہ اور وزیر بچ گئے تھے، پرانے زمانے میں اکلوتے ملک کا بادشاہ بھی اکلوتا ہوتا تھا اور وہ اپنی طرح وزیر بھی اکلوتا ہی رکھتا تھا، شاید ناداری کی وجہ سے ایفورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن آج کل خدا کے فضل، امریکا کی دعا اورآئی ایم ایف کی برکت سے ممالک اتنے ''مالدار'' ہوتے ہیں کہ بیک وقت کئی کئی بادشاہ اور بے تحاشا وزیر رکھتے ہیں۔ بلکہ فالتو رقومات اور ''افراط زر'' سے بچنے کے لیے وزیروں کے ساتھ ساتھ مشیر معاون اور تالیاں بجانے والے بھی پالتے ہیں تاکہ پاک سرزمین شادباد، منزل مراد کی قوالی برابر چلتی رہے۔
خیر تو وہ بادشاہ اور وزیر جو پاگل ہونے سے بچ گئے تھے بہت ہی حیران پریشان، ناطقہ سر بگریباں اور انگشت بدندان ہو گئے۔ کہ ان کی ہر بات پر لوگ ٹھٹھے لگا کر پاگل پاگل پکارتے تھے، بادشاہ نے وزیر سے با تدبیر بن کر کوئی تدبیر لڑانے کا کہا کہ کہیں یہ سارے سیانے مل کر ہم نمانوں کو تکا بوٹی اور بیر بہوٹی نہ کر دیں۔
وزیر باتدبیر نے غور کے حوض میں چھلانگ لگائی اورغوطے پر غوطے لگانے لگا آخر کار دس بارہ غوطوں کے بعد وہ چلایا آئی گاٹ اٹ، آئی گاٹ اٹ ۔ اور بادشاہ کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی ایک مٹکے کے پاس گیا جس میں اس خاص بارش کا پانی جمع تھا جو کسی کو بھی ''سیانا'' بنانے کی تاثیر رکھتا تھا۔ ایک جام بادشاہ کو پیش کرتے ہوئے ایک خود غٹا غٹ پیتے ہوئے کہا کہ اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں۔
ہمیں بھی کچھ ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہاں بھی ایسا ''کچھ نہ کچھ'' ہوا ہے ویسے بھی سائنس کا زمانہ ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کہ ایک دم سارے لوگوں کو ''خدمت'' کا بخار چڑھ گیا ہے۔ بلکہ ہمارا خیال تو ایک اور طرف بھی جا رہا ہے کہ کہیں کسی بیرونی ہاتھ نے ڈینگی کی طرح کوئی خدمت بخار کا مچھر ایجاد کرکے اپنے یہاں چھوڑا ہو۔ تاکہ تمام لوگ ''خدمت'' میں مصروف ہوکر نچنت ہو جائیں اور وہ آکر اس خدمت گزار ملک پر قبضہ کریں اوراپنی خدمت کرانے پر لگا دیں۔
ہو سکتا ہے بالکل ہو سکتا ہے کیونکہ آج کے زمانے میں ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے ورنہ ایک دم ہر منہ میں زبان رکھنے والے کا یوں ''خدمت قوالی'' گانا ۔
آپ سے کیا پردہ ہم تو آج کل اپنے گھر سے باہر قدم رکھنے سے بھی ڈرنے لگے ہیں ایک دو مرتبہ ایسا ہوا بھی ہے کہ :
گھر سے نکلے تھے حوصلہ کرکے
لوٹ آئے خدا خدا کرکے
ایک دو نہیں بلکہ چار پانچ خدمت گاروں نے ہمیں گھیر لیا اور اپنی اپنی طرف کھینچ کھینچ کر ہم سے کچھ خدمت کروانے کی استدعا کرنے لگے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہمیں بروقت ایک تدبیر سوجھ گئی، لرزنے کانپنے لگے اور پھر چکرا کر خود کو ایسا گرایا جیسے گولی لگی ہو۔ خدمت گاروں کو جب احساس ہوا کہ واقعی اب ہمیں خدمت کی ضرورت پڑ گئی۔ تو فوراً ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ اٹھ کر گھر میں گھستے گھستے ہم نے دیکھا کہ تھوڑی دوری پر وہ ایک اور آدمی کو گھیرے ہوئے خدمت کرانے کا تقاضا کر رہے تھے جس کے سر پر چارے کا ایک بھاری گٹھٹر تھا۔ لیکن خدمت گزار اسے روک کر خدمت کرانے پر تلے ہوئے تھے۔
آپ نے پرانے زمانے کے اکثر ادیبوں کے ایسے مضامین پڑھے ہوں گے جن میں انھوں نے ''کسی نہ کسی'' سے ''بچاؤ'' کی فریاد کی ہے۔
کسی نے دوستوں سے، کسی نے دشمنوں سے، کسی نے رشتہ داروں، کسی نے بیوی سے، کسی نے کتوں سے۔چنانچہ ہمارا بھی کچھ ارادہ ہو رہا ہے کہ ایساکوئی مضمون لکھیں بلکہ لکھیں کیا لکھ تو رہے ہیں بلکہ لکھ چکے ہیں بس ایسا کوئی خدا کا نیک بندہ چاہیے جو اسے پڑھے اور ہمیں ان خدمت گاروں اور خدمت گزاروں سے چھڑائے۔لیکن ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجیے یہ کام جتنا لگتا ہے اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ موجودہ نرخنامے کے مطابق ایسی تمام چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جو ''نجات دہندہ''اشیا کی ذیل میں آتی ہیں ''گریس بند'' نجات دہندہ کلاشن کوف کی قیمت ایک ہی چھلانگ میں تگنی ہو چکی ہے بلکہ اس کے بچے یعنی کارتوس بھی چھلانگ لگا چکے ہیں ۔''کام کی'' مطلب یہ کہ ''ہمارے سلسلے'' میں کام کی دوسری چیزوں کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔