اسے یوٹرن نہیں کہتے
اسٹریٹجک پلاننگ صحیح نہیں کی گئی ہو یا سرے سے کی ہی نہیں گئی ہو
یوٹرن کا ایسا ناریل ''اسٹیٹس کو'' کے محافظ سیاست دانوں ، کالم نگاروں اور ٹی وی اینکروں کے ہاتھ لگا ہے کہ اسے اچھال اچھال کر ان کا دل ہی نہیں بھر رہا، یوٹرن کا ناریل اچھل اچھل کر وزیراعظم عمران خان کو مارنے والوں میں خود یوٹرن کے بڑے بڑے ماہر بھی شامل ہیں ۔
مثلاً نواز لیگ کے رہنما شہباز شریف جو 2013 کے الیکشن میں آصف زرداری کو کراچی اور لاڑکانہ کی سڑکوں پہ گھسیٹنے اور پاکستان کا لوٹا مال بر آمد کروانے کے انتخابی وعدے کرتے تھے اور الیکشن کے بعد آصف زرداریکی مخالفت چھوڑ دی مگر 2018 کے الیکشن میں پھر آصف زرداری کے خلاف ایسے ہی نعرے لگائے اور اب آصف زرداری سے محبت کے رشتے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً نواز شریف اور مریم نواز جو 2018 کے الیکشن میں عمران کو آصف زرداری کا بھائی ہونے کے طعنے دیتے تھے گویا آصف زرداری کا بھائی ہونا کوئی معیوب امر ہے اور اب آصف زرداری سے اتحاد کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔ مثلاً خود آصف زرداری جو بار بار پی ٹی آئی حکومت کو کامیاب بنانے کے لیے اس کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہیں اور پھر پی ٹی آئی حکومت کے کرپشن کے خلاف مہم میں کوئی نرمی نہ برتنے پر پی ٹی آئی حکومت کے لتے لیتے نظر آتے ہیں۔
یوٹرن کے اس سارے ہنگامے کا آغاز عمران خان کے اس بیان سے ہوا جس میں انھوں نے اپنے کچھ انتخابی وعدوں کے برعکس لیے جانے والے حکومتی اقدامات کا دفاع یوٹرن کے افادیت بیان کرکے دیا اور اس افادیت کی اہمیت جتلانے کے لیے ہٹلر اور نپولین کی صحیح وقت پہ یوٹرن نہ لینے کے سبب تاریخی ناکامیوں کی مثال دی۔ ویسے وزیراعظم کو دو وجوہات کی بنا پہ یوٹرن کی اصطلاح کی جگہ ''اسٹریٹجک ریٹریٹ'' کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے تھی۔ نمبر ایک تو یہ کہ ٹی وی اینکروں کو کئی ہفتے تو ''اسٹریٹجک ری ٹریٹ'' کی اصطلاح کو سمجھنے میں ہی لگ جاتے تب تک دھول بیٹھ چکی ہوتی۔ نمبر دو یہ کہ غالباً وزیراعظم بھی اسٹریٹجک ری ٹریٹ کے معنوں میں یوٹرن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
چلیے پہلے ہم ذرا اسٹریٹجک ری ٹریٹ المعروف ''یوٹرن'' کا مطلب سمجھتے ہیں اور وہ بھی جنگ عظیم دوئم میں ہٹلرکی ناکامیوں کی مثال سے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسٹریٹجک ری ٹریٹ کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب آدمی صحیح طور پہ اسٹریٹجک پلاننگ نہیں کرسکے اور اسٹریٹجک غلطیاں کرے۔ مثلاً ہٹلر کی اور جرمنی کی دوسری جنگ عظیم میں شکست اور تباہی کی اہم ترین وجوہات میں سے اس کا سوویت یونین (روس) پہ حملہ اور اس حملے کے دوران کی جانے والی اسٹریٹجک غلطیاں تھیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس نے اپنے جنرلزکی تقریباً متفقہ رائے کے برعکس روس پہ حملہ کیا، پھر اس حملے میں بھی کم از کم پانچ ہفتوں کی تاخیر کی گئی جس کے نتیجے میں جرمن افواج کو روس میں اپنے ٹارگٹ حاصل ہونے سے پہلے ہی روس کی شدید سردی کا سامنا کرنا پڑا جس کے لیے ان کے پاس مناسب سازوسامان اور فوجی وردیاں اور بوٹ بھی میسر نہیں تھے، ایک اور بہت بڑی غلطی روس پہ تین مختلف سمتوں سے حملہ تھی جب کہ جرمن جنرل صرف ایک سمت سے (ماسکو کی طرف) سے حملہ کرنا چاہتے تھے، ایک اور فاش غلطی ہٹلر نے اس وقت کی کہ جب کہ جرمن فوجیں روسی دارالحکومت ماسکو سے صرف چند میل کے فاصلے پر تھیں اور چند دنوں میں وہ ماسکو میں داخل ہوسکتی تھیں کہ ہٹلر نے فوج کی پیش قدمی روک کر اس کا بڑا حصہ شمالی اور جنوبی محاذوں پہ بھجوادیا۔
اس تاخیرکا فائدہ اس وقت کے روسی رہنما اسٹالن کو ہوا جس نے اس مہلت سے فائدہ اٹھاکر ماسکو میں لاکھوں روسی فوج اور جنگی سازوسامان پہنچا دیا۔ 1941-42 کی سردیوں میں کی جانیوالی ان اسٹریٹجک غلطیوں کے نتائج 1942 کے وسط سے آنا شروع ہوگئے جب جرمن افواج کو مختلف محاذوں پہ شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور یہی اس وقت کا آغاز تھا کہ جب ہٹلرکو اپنی افواج کی مختلف روسی محاذوں سے یوٹرن لینے یعنی اسٹریٹجک ری ٹریٹ کرنے یعنی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جانے کی بار بار درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے انھیں تباہی سے بچالینا چاہیے تھا جو اس نے نہیں کیا اور انھیں اپنی اپنی پوزیشنوں پہ ڈٹے رہنے کا حکم دیتا رہا، یہ سلسلہ زیادہ تر روسی محاذوں پہ 1942 سے 1944 تک جاری رہا جس کا خمیازہ آخر میں پوری جرمن قوم کو اپنے ملک کی تباہی اور خود ہٹلر کو اپنی جان سے ہاتھ دھوکر بھگتنا پڑا۔ یعنی یوٹرن کا مطلب ہے اسٹریٹجک ری ٹریٹ کہ اگر آپ سے اپنی پلاننگ میں یا کسی اقدام میں اسٹریٹجک غلطیاں ہوگئی ہیں تو ان پہ ڈٹے رہ کر اپنا اور اپنی قوم کا مزید نقصان کروانے کے بجائے اپنی پوزیشن چھوڑدیں اس سے پیچھے ہٹ جائیں اور در اصل یہی وہ بات ہے کہ جو وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیر و مشیر یوٹرن کی اصطلاح کے استعمال سے کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسٹریٹجک ری ٹریٹ المعروف یوٹرن کی اس وقت ضرورت پڑتی ہے جب اسٹریٹجک غلطیاں کی گئی ہوں اور اسٹریٹجک غلطیاں اس وقت ہوتی ہیں جب اسٹریٹجک پلاننگ صحیح نہیں کی گئی ہو یا سرے سے کی ہی نہیں گئی ہو۔
حکومت کے مختلف وزرا کے ایک ہی معاملے پر مختلف سمتوں میں بیانات، حکومتی امور میں واضح پالیسیوں کا ابھی تک وجود میں نہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈرائنگ بورڈ کا رخ کرے مختلف قومی معاملات پہ اسٹریٹجک پلاننگ کے ذریعے پالیسیوں کی تشکیل کرے اور وزارتوں کو سہ ماہی اور ششماہی ٹارگٹس کیمطابق چلائے۔ اسٹریٹجک پلاننگ کے فقدان کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ پچھلے دو تین سالوں سے کرپشن کے خلاف ہونیوالے قانونی اقدامات اور کارروائیوں سے اب ملک کے عام آدمی کو بھی یقین ہوگیا ہے کہ پاکستان کا موجودہ نظام طاقتوروں کو ریلیف دینے کے لیے باریک سے باریک نکتے بھی زیر غور لاتا ہے، یہ نظام نہ ہی ملک کے لوٹے گئے کھربوں روپے بر آمد کرواسکتا ہے اور نہ ہی بڑے بڑے لٹیروں کو قرارواقعی سزا دے سکتا ہے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی سمجھ آنی چاہیے تھی اور یہ بھی کہ اندرون سندھ کی نمایندہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ اور ان کی اتحادی جماعتیں کرپشن کے خلاف نہ موثر قانون سازی ہونے دیںگی نہ ملک کا لوٹا گیا مال بر آمد کروانے کے لیے قانون منظور ہونے دیںگی تو پی ٹی آئی کو لٹیروں سے لوٹی گئی قومی دولت اُگلوانے کی اسٹریٹجی پہلے ہی بنالینی چاہیے تھی جوکہ کہیں نظر نہیں آتی۔ ایک آخری بات یہ کہ وزیراعظم سمیت اس پوری حکومت کو کمیونیکشن یعنی ابلاغ عامہ کے ضمن میں مستقل بنیادوں پہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت پوری حکومت اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتی اور نتیجے میں ہمیں اسٹریٹجک ری ٹریٹ جیسی علمی اصطلاح کی جگہ یوٹرن جیسی سطحی باتیں حکومت کی طرف سے سننے کو ملتی ہیں۔
مثلاً نواز لیگ کے رہنما شہباز شریف جو 2013 کے الیکشن میں آصف زرداری کو کراچی اور لاڑکانہ کی سڑکوں پہ گھسیٹنے اور پاکستان کا لوٹا مال بر آمد کروانے کے انتخابی وعدے کرتے تھے اور الیکشن کے بعد آصف زرداریکی مخالفت چھوڑ دی مگر 2018 کے الیکشن میں پھر آصف زرداری کے خلاف ایسے ہی نعرے لگائے اور اب آصف زرداری سے محبت کے رشتے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً نواز شریف اور مریم نواز جو 2018 کے الیکشن میں عمران کو آصف زرداری کا بھائی ہونے کے طعنے دیتے تھے گویا آصف زرداری کا بھائی ہونا کوئی معیوب امر ہے اور اب آصف زرداری سے اتحاد کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔ مثلاً خود آصف زرداری جو بار بار پی ٹی آئی حکومت کو کامیاب بنانے کے لیے اس کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہیں اور پھر پی ٹی آئی حکومت کے کرپشن کے خلاف مہم میں کوئی نرمی نہ برتنے پر پی ٹی آئی حکومت کے لتے لیتے نظر آتے ہیں۔
یوٹرن کے اس سارے ہنگامے کا آغاز عمران خان کے اس بیان سے ہوا جس میں انھوں نے اپنے کچھ انتخابی وعدوں کے برعکس لیے جانے والے حکومتی اقدامات کا دفاع یوٹرن کے افادیت بیان کرکے دیا اور اس افادیت کی اہمیت جتلانے کے لیے ہٹلر اور نپولین کی صحیح وقت پہ یوٹرن نہ لینے کے سبب تاریخی ناکامیوں کی مثال دی۔ ویسے وزیراعظم کو دو وجوہات کی بنا پہ یوٹرن کی اصطلاح کی جگہ ''اسٹریٹجک ریٹریٹ'' کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے تھی۔ نمبر ایک تو یہ کہ ٹی وی اینکروں کو کئی ہفتے تو ''اسٹریٹجک ری ٹریٹ'' کی اصطلاح کو سمجھنے میں ہی لگ جاتے تب تک دھول بیٹھ چکی ہوتی۔ نمبر دو یہ کہ غالباً وزیراعظم بھی اسٹریٹجک ری ٹریٹ کے معنوں میں یوٹرن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
چلیے پہلے ہم ذرا اسٹریٹجک ری ٹریٹ المعروف ''یوٹرن'' کا مطلب سمجھتے ہیں اور وہ بھی جنگ عظیم دوئم میں ہٹلرکی ناکامیوں کی مثال سے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسٹریٹجک ری ٹریٹ کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب آدمی صحیح طور پہ اسٹریٹجک پلاننگ نہیں کرسکے اور اسٹریٹجک غلطیاں کرے۔ مثلاً ہٹلر کی اور جرمنی کی دوسری جنگ عظیم میں شکست اور تباہی کی اہم ترین وجوہات میں سے اس کا سوویت یونین (روس) پہ حملہ اور اس حملے کے دوران کی جانے والی اسٹریٹجک غلطیاں تھیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس نے اپنے جنرلزکی تقریباً متفقہ رائے کے برعکس روس پہ حملہ کیا، پھر اس حملے میں بھی کم از کم پانچ ہفتوں کی تاخیر کی گئی جس کے نتیجے میں جرمن افواج کو روس میں اپنے ٹارگٹ حاصل ہونے سے پہلے ہی روس کی شدید سردی کا سامنا کرنا پڑا جس کے لیے ان کے پاس مناسب سازوسامان اور فوجی وردیاں اور بوٹ بھی میسر نہیں تھے، ایک اور بہت بڑی غلطی روس پہ تین مختلف سمتوں سے حملہ تھی جب کہ جرمن جنرل صرف ایک سمت سے (ماسکو کی طرف) سے حملہ کرنا چاہتے تھے، ایک اور فاش غلطی ہٹلر نے اس وقت کی کہ جب کہ جرمن فوجیں روسی دارالحکومت ماسکو سے صرف چند میل کے فاصلے پر تھیں اور چند دنوں میں وہ ماسکو میں داخل ہوسکتی تھیں کہ ہٹلر نے فوج کی پیش قدمی روک کر اس کا بڑا حصہ شمالی اور جنوبی محاذوں پہ بھجوادیا۔
اس تاخیرکا فائدہ اس وقت کے روسی رہنما اسٹالن کو ہوا جس نے اس مہلت سے فائدہ اٹھاکر ماسکو میں لاکھوں روسی فوج اور جنگی سازوسامان پہنچا دیا۔ 1941-42 کی سردیوں میں کی جانیوالی ان اسٹریٹجک غلطیوں کے نتائج 1942 کے وسط سے آنا شروع ہوگئے جب جرمن افواج کو مختلف محاذوں پہ شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور یہی اس وقت کا آغاز تھا کہ جب ہٹلرکو اپنی افواج کی مختلف روسی محاذوں سے یوٹرن لینے یعنی اسٹریٹجک ری ٹریٹ کرنے یعنی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جانے کی بار بار درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے انھیں تباہی سے بچالینا چاہیے تھا جو اس نے نہیں کیا اور انھیں اپنی اپنی پوزیشنوں پہ ڈٹے رہنے کا حکم دیتا رہا، یہ سلسلہ زیادہ تر روسی محاذوں پہ 1942 سے 1944 تک جاری رہا جس کا خمیازہ آخر میں پوری جرمن قوم کو اپنے ملک کی تباہی اور خود ہٹلر کو اپنی جان سے ہاتھ دھوکر بھگتنا پڑا۔ یعنی یوٹرن کا مطلب ہے اسٹریٹجک ری ٹریٹ کہ اگر آپ سے اپنی پلاننگ میں یا کسی اقدام میں اسٹریٹجک غلطیاں ہوگئی ہیں تو ان پہ ڈٹے رہ کر اپنا اور اپنی قوم کا مزید نقصان کروانے کے بجائے اپنی پوزیشن چھوڑدیں اس سے پیچھے ہٹ جائیں اور در اصل یہی وہ بات ہے کہ جو وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیر و مشیر یوٹرن کی اصطلاح کے استعمال سے کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسٹریٹجک ری ٹریٹ المعروف یوٹرن کی اس وقت ضرورت پڑتی ہے جب اسٹریٹجک غلطیاں کی گئی ہوں اور اسٹریٹجک غلطیاں اس وقت ہوتی ہیں جب اسٹریٹجک پلاننگ صحیح نہیں کی گئی ہو یا سرے سے کی ہی نہیں گئی ہو۔
حکومت کے مختلف وزرا کے ایک ہی معاملے پر مختلف سمتوں میں بیانات، حکومتی امور میں واضح پالیسیوں کا ابھی تک وجود میں نہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ڈرائنگ بورڈ کا رخ کرے مختلف قومی معاملات پہ اسٹریٹجک پلاننگ کے ذریعے پالیسیوں کی تشکیل کرے اور وزارتوں کو سہ ماہی اور ششماہی ٹارگٹس کیمطابق چلائے۔ اسٹریٹجک پلاننگ کے فقدان کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ پچھلے دو تین سالوں سے کرپشن کے خلاف ہونیوالے قانونی اقدامات اور کارروائیوں سے اب ملک کے عام آدمی کو بھی یقین ہوگیا ہے کہ پاکستان کا موجودہ نظام طاقتوروں کو ریلیف دینے کے لیے باریک سے باریک نکتے بھی زیر غور لاتا ہے، یہ نظام نہ ہی ملک کے لوٹے گئے کھربوں روپے بر آمد کرواسکتا ہے اور نہ ہی بڑے بڑے لٹیروں کو قرارواقعی سزا دے سکتا ہے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی سمجھ آنی چاہیے تھی اور یہ بھی کہ اندرون سندھ کی نمایندہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ اور ان کی اتحادی جماعتیں کرپشن کے خلاف نہ موثر قانون سازی ہونے دیںگی نہ ملک کا لوٹا گیا مال بر آمد کروانے کے لیے قانون منظور ہونے دیںگی تو پی ٹی آئی کو لٹیروں سے لوٹی گئی قومی دولت اُگلوانے کی اسٹریٹجی پہلے ہی بنالینی چاہیے تھی جوکہ کہیں نظر نہیں آتی۔ ایک آخری بات یہ کہ وزیراعظم سمیت اس پوری حکومت کو کمیونیکشن یعنی ابلاغ عامہ کے ضمن میں مستقل بنیادوں پہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت پوری حکومت اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتی اور نتیجے میں ہمیں اسٹریٹجک ری ٹریٹ جیسی علمی اصطلاح کی جگہ یوٹرن جیسی سطحی باتیں حکومت کی طرف سے سننے کو ملتی ہیں۔