افغان مفاہمتی عمل میں نئے سیاسی امکانات
اسی انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز کی رپورٹ میں افغان حکومت کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے
NAIROBI:
افغان مسئلہ کے حل میں ایک بڑی پیشرفت افغان حکومت، طالبان اور امریکا کے درمیان باہمی مذاکرات کا آغاز ہے۔ باہمی مذاکرات بنیادی طور پر وہ نکتہ تھا جسے افغان بحران کے حل میں کنجی کی حیثیت دی جاتی ہے۔ افغان امور میں سمجھ بوجھ رکھنے والے تمام سیاسی اہل دانش اس بنیادی نکتہ پر متفق تھے کہ افغانستان کا حل طاقت کے بجائے مذاکرات سے ہی ہو گا۔ ان ہی سیاسی پنڈتوں کے بقول افغان مسئلے کا حل اس وقت تک ممکن اور پائیدار نہیں ہو گا جب تک براہ راست افغان طالبان کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہ بنیں۔ ماضی میں امریکا سمیت دیگر ممالک اور افغان حکومت نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد پر مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ مثبت نتائج نہیں دے سکی۔ امریکا اور افغان حکومت نے پاکستان کو باہر نکال کر بھی مفاہمت کی جو کوشش کی وہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔اس کی بنیادی وجہ فریقین کے درمیان عدم اعتماد تھا۔
اب بھی جو سیاسی دربار امریکا، افغان حکومت اور دیگر ممالک بشمول پاکستان کی مدد سے افغان مفاہمتی عمل میں سجایا گیا ہے اس کی کامیابی کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی ۔کیونکہ افغان مسئلہ کا حل سادہ نہیں۔ مسئلہ محض اب افغانستان کا ہی نہیں بلکہ اس میں خطہ سمیت دیگر باہر کی بڑی طاقتوں کے انفرادی اورباہمی مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہر کوئی فریق بات چیت کا تو حامی ہے مگر اپنے اپنے مفادات کے دائرہ میں بھی قید ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کو یہ داد ملنی چاہیے کہ حالیہ مذاکراتی عمل جو متحدہ عرب امارت میں ہو رہا ہے وہ پاکستان کی کوششوں کا حصہ ہے۔
ایک بات سمجھنی ہو گی کہ اگرچہ تمام فریقین اپنی اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت مذاکرات کا حصہ تو بن گئے ہیں لیکن بظاہر ایسا بھی نظر آتا ہے کہ اس میں کافی پہلو ایسے بھی ہیں جہاں پہلے سے موجود بداعتمادی فوری طور پر کسی بڑے مسئلے کے حل میں نتائج نہ دے سکے۔ ان مذاکرات کی روشنی میں جو کچھ بھی مثبت انداز میں طے ہو گا اس کے لیے ایک وقت درکار ہے۔ اگر امریکا اور افغان حکومت نے مذاکرات اور طاقت دونوں کا استعمال بیک وقت رکھا تو حالات درستگی کے بجائے بگاڑ کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ طالبان اگرچہ مذاکرات کا حصہ ہیں لیکن ان کے اپنے داخلی محاذ پر افغان حکومت اور امریکا کے بارے میں تحفظات ہیں اورکچھ بڑے نام مذاکرات کے حامی نہیں ہیں۔
پاکستان میں موجود افغان امور اور دیگر علاقائی یا عالمی سیاست سے جڑے ایک بڑے تھنک ٹینک ''انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز'' نے مسئلہ افغانستان پر ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے چند پہلو یا نکات اہم ہیں۔ او ل اس تھنک ٹینک کے بقول حالیہ چند مہینوں میں جو افغان مسئلہ کے حل میں نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں وہ امریکا اورپاکستان کی باہمی کوششوں کا نتیجہ اور امید کی کرن ہے، تاہم ان کا نتیجہ اخذ کرنا ابھی مشکل ہوگا۔ دوئم امریکا سمیت دیگر طاقتوں کو یہ احساس مضبوط ہوا کہ افغان طالبان ایک طاقت ہیں اور ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغان طالبان سے براہ راست یہ مذاکراتی عمل افغانستان میں ان کے مستقل کردار کو تسلیم کرتا ہے۔ سوئم وزیر اعظم عمران خان کے بقول پاکستان کو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی کوئی جلدی نہیںکیونکہ ہم افغانستان میں دوبارہ روس کے انخلا کے بعد والی صورتحال پیدا نہیں ہونے دینا چاہتا۔ چہارم ماسکو فارمیٹ میں افغان طالبان اور افغان حکومت دونوں کی شرکت ہے ۔
اسی انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز کی رپورٹ میں افغان حکومت کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں مختلف قومیتیں، کابل اورگرد نواح تک حکومت کی رٹ، افغان طالبان اور وار لارڈز کی موجودگی اور کچھ عناصر کی داعش سے وابستگی، قومی فوج اورمضبوط معیشت کا نہ ہونا ہے۔کیونکہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بقول افغان حکومت نہ تو امریکی یا غیر ملکی امداد کے بغیر کھڑی ہو سکتی ہے اور نہ ہی امریکی فوج کے انخلا کے بعد حالات سے نمٹنا ممکن ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جو عناصر طالبان میں افغان حکومت کے حامی نہیں وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور افغان طالبان کے ماسکو اور ایران سے تعلقات بھی کچھ مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ افغانستان میں افغان اور بھارت گٹھ جوڑ پر پاکستان میں بھی تشویش پائی جاتی ہے ۔ ان کے بقول افغانستان، پاکستان او ربھارت کے درمیان ٹرانزٹ تجارت، امن فارمولہ طے کرنے سے قبل الزام تراشی کا سلسلہ بند کرنا، تمام فریقین کا کردار حتمی طور پر طے کرنا، مسئلہ کے حل میں کٹھ پتلیاں ختم کرنا، دو طرفہ قیدیوں کی رہائی، سیز فائر، طالبان کے زیراثر علاقوں میں ان کی بالادستی کو تسلیم کرنا یقینی طور پر افغان مسئلہ کے حل اور اقتدار کی شراکت داری کو ممکن بناسکتا ہے۔
اس رپوٹ سے ہٹ کر اس پہلو کو بھی سمجھنا ہوگا کہ بھارت افغان گٹھ جوڑ بھی افغان حکومت کو کسی ایسے فارمولے پر متفق ہونے میں مدد نہیں دے گا جو پاکستان کے اثرنفوز کو بڑھائے یا اس کی اہمیت کو پیدا کرے۔ افغان حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارت کی حمایت میں کھل کر پاکستان دشمنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ حال ہی میں افغان صدر نے جو بڑی تقرریاں کی ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہمیشہ سے پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان مخالفت کی جو شدت غالب ہے اس میں دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ خود بھارت بھی ہے۔
پاکستان نے جس انداز سے افغان طالبان کو مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا ہے وہ اہم ہے اور اس کی امریکا سمیت افغان حکومت کو قدر کرنی چاہیے۔ پاکستان کے ساتھ اس رویہ یا طرز عمل سے گریز کیا جائے جو ماضی میں ہوا۔کیونکہ افغان طالبان بھی جو امریکا اورافغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں اس میں پاکستان سمیت کچھ اورممالک نے ضامن کا کردار ادا کیا ہے اوران کے بقو ل مذاکرات میں جو بھی حتمی فیصلے ہوںگے اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔
امریکی صدر کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے انخلا پر جو بات سامنے آئی ہے اس سے بھی افغان حکومت پریشان ہے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم میں بھی یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ اسی طرح سیاسی پنڈتوں کے بقول امریکا اور بالخصوص ٹرمپ پالیسی کا بنیادی نکتہ سب سے پہلے امریکا کے مفادات ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کا افغانستان سے فوری انخلا بحران کا حل ہے یا اور زیادہ بگاڑ دے گا۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ٹرمپ سے ہٹ کر پینٹاگون کی پالیسی کیا ہو گی یا دونوں ایک ہی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکا نے چین، ایران، روس کے تعاون کی بھی بات کی ہے اور اس کو احساس ہے کہ ان کی مدد کے بغیر افغان حل پائیدار نہیں ہوگا۔
پاکستان کی افغان مسئلے کے حل میں دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ پاکستان افغان مسئلہ کو جہاں خطہ کا مسئلہ سمجھتا ہے وہیں براہ راست پاکستان کا داخلی استحکام بھی پرامن افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کی پوری کوشش ہو گی کہ حالیہ مذاکرات میں افغان مسئلہ کا ایسا حل سامنے لائے جو مثبت بھی ہو اور فیصلہ کن بھی۔اچھی بات یہ ہے کہ امریکا سمیت دیگر بڑی طاقتو ںکو اب اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان کو باہر نکال کر افغان مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔بہرحال افغانستان کے تناظر میں اچھی خبروں کے باوجود ہمیں بڑی توجہ سے طویل مدتی اورمختصر مدتی منصوبہ بندی اور فریقین کے درمیان باہمی اعتماد کے ماحول کو زیادہ مضبوط بنانا ہوگا، کیونکہ اسی میں افغان مسئلہ کا پرامن حل موجود ہے۔
افغان مسئلہ کے حل میں ایک بڑی پیشرفت افغان حکومت، طالبان اور امریکا کے درمیان باہمی مذاکرات کا آغاز ہے۔ باہمی مذاکرات بنیادی طور پر وہ نکتہ تھا جسے افغان بحران کے حل میں کنجی کی حیثیت دی جاتی ہے۔ افغان امور میں سمجھ بوجھ رکھنے والے تمام سیاسی اہل دانش اس بنیادی نکتہ پر متفق تھے کہ افغانستان کا حل طاقت کے بجائے مذاکرات سے ہی ہو گا۔ ان ہی سیاسی پنڈتوں کے بقول افغان مسئلے کا حل اس وقت تک ممکن اور پائیدار نہیں ہو گا جب تک براہ راست افغان طالبان کسی مذاکراتی عمل کا حصہ نہ بنیں۔ ماضی میں امریکا سمیت دیگر ممالک اور افغان حکومت نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد پر مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ مثبت نتائج نہیں دے سکی۔ امریکا اور افغان حکومت نے پاکستان کو باہر نکال کر بھی مفاہمت کی جو کوشش کی وہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکی۔اس کی بنیادی وجہ فریقین کے درمیان عدم اعتماد تھا۔
اب بھی جو سیاسی دربار امریکا، افغان حکومت اور دیگر ممالک بشمول پاکستان کی مدد سے افغان مفاہمتی عمل میں سجایا گیا ہے اس کی کامیابی کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی ۔کیونکہ افغان مسئلہ کا حل سادہ نہیں۔ مسئلہ محض اب افغانستان کا ہی نہیں بلکہ اس میں خطہ سمیت دیگر باہر کی بڑی طاقتوں کے انفرادی اورباہمی مفادات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہر کوئی فریق بات چیت کا تو حامی ہے مگر اپنے اپنے مفادات کے دائرہ میں بھی قید ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کو یہ داد ملنی چاہیے کہ حالیہ مذاکراتی عمل جو متحدہ عرب امارت میں ہو رہا ہے وہ پاکستان کی کوششوں کا حصہ ہے۔
ایک بات سمجھنی ہو گی کہ اگرچہ تمام فریقین اپنی اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت مذاکرات کا حصہ تو بن گئے ہیں لیکن بظاہر ایسا بھی نظر آتا ہے کہ اس میں کافی پہلو ایسے بھی ہیں جہاں پہلے سے موجود بداعتمادی فوری طور پر کسی بڑے مسئلے کے حل میں نتائج نہ دے سکے۔ ان مذاکرات کی روشنی میں جو کچھ بھی مثبت انداز میں طے ہو گا اس کے لیے ایک وقت درکار ہے۔ اگر امریکا اور افغان حکومت نے مذاکرات اور طاقت دونوں کا استعمال بیک وقت رکھا تو حالات درستگی کے بجائے بگاڑ کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔ طالبان اگرچہ مذاکرات کا حصہ ہیں لیکن ان کے اپنے داخلی محاذ پر افغان حکومت اور امریکا کے بارے میں تحفظات ہیں اورکچھ بڑے نام مذاکرات کے حامی نہیں ہیں۔
پاکستان میں موجود افغان امور اور دیگر علاقائی یا عالمی سیاست سے جڑے ایک بڑے تھنک ٹینک ''انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز'' نے مسئلہ افغانستان پر ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے چند پہلو یا نکات اہم ہیں۔ او ل اس تھنک ٹینک کے بقول حالیہ چند مہینوں میں جو افغان مسئلہ کے حل میں نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں وہ امریکا اورپاکستان کی باہمی کوششوں کا نتیجہ اور امید کی کرن ہے، تاہم ان کا نتیجہ اخذ کرنا ابھی مشکل ہوگا۔ دوئم امریکا سمیت دیگر طاقتوں کو یہ احساس مضبوط ہوا کہ افغان طالبان ایک طاقت ہیں اور ان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ افغان طالبان سے براہ راست یہ مذاکراتی عمل افغانستان میں ان کے مستقل کردار کو تسلیم کرتا ہے۔ سوئم وزیر اعظم عمران خان کے بقول پاکستان کو افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی کوئی جلدی نہیںکیونکہ ہم افغانستان میں دوبارہ روس کے انخلا کے بعد والی صورتحال پیدا نہیں ہونے دینا چاہتا۔ چہارم ماسکو فارمیٹ میں افغان طالبان اور افغان حکومت دونوں کی شرکت ہے ۔
اسی انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز کی رپورٹ میں افغان حکومت کے مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں مختلف قومیتیں، کابل اورگرد نواح تک حکومت کی رٹ، افغان طالبان اور وار لارڈز کی موجودگی اور کچھ عناصر کی داعش سے وابستگی، قومی فوج اورمضبوط معیشت کا نہ ہونا ہے۔کیونکہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بقول افغان حکومت نہ تو امریکی یا غیر ملکی امداد کے بغیر کھڑی ہو سکتی ہے اور نہ ہی امریکی فوج کے انخلا کے بعد حالات سے نمٹنا ممکن ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جو عناصر طالبان میں افغان حکومت کے حامی نہیں وہ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور افغان طالبان کے ماسکو اور ایران سے تعلقات بھی کچھ مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ افغانستان میں افغان اور بھارت گٹھ جوڑ پر پاکستان میں بھی تشویش پائی جاتی ہے ۔ ان کے بقول افغانستان، پاکستان او ربھارت کے درمیان ٹرانزٹ تجارت، امن فارمولہ طے کرنے سے قبل الزام تراشی کا سلسلہ بند کرنا، تمام فریقین کا کردار حتمی طور پر طے کرنا، مسئلہ کے حل میں کٹھ پتلیاں ختم کرنا، دو طرفہ قیدیوں کی رہائی، سیز فائر، طالبان کے زیراثر علاقوں میں ان کی بالادستی کو تسلیم کرنا یقینی طور پر افغان مسئلہ کے حل اور اقتدار کی شراکت داری کو ممکن بناسکتا ہے۔
اس رپوٹ سے ہٹ کر اس پہلو کو بھی سمجھنا ہوگا کہ بھارت افغان گٹھ جوڑ بھی افغان حکومت کو کسی ایسے فارمولے پر متفق ہونے میں مدد نہیں دے گا جو پاکستان کے اثرنفوز کو بڑھائے یا اس کی اہمیت کو پیدا کرے۔ افغان حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارت کی حمایت میں کھل کر پاکستان دشمنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ حال ہی میں افغان صدر نے جو بڑی تقرریاں کی ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہمیشہ سے پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان مخالفت کی جو شدت غالب ہے اس میں دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ خود بھارت بھی ہے۔
پاکستان نے جس انداز سے افغان طالبان کو مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا ہے وہ اہم ہے اور اس کی امریکا سمیت افغان حکومت کو قدر کرنی چاہیے۔ پاکستان کے ساتھ اس رویہ یا طرز عمل سے گریز کیا جائے جو ماضی میں ہوا۔کیونکہ افغان طالبان بھی جو امریکا اورافغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں اس میں پاکستان سمیت کچھ اورممالک نے ضامن کا کردار ادا کیا ہے اوران کے بقو ل مذاکرات میں جو بھی حتمی فیصلے ہوںگے اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔
امریکی صدر کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے انخلا پر جو بات سامنے آئی ہے اس سے بھی افغان حکومت پریشان ہے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم میں بھی یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔ اسی طرح سیاسی پنڈتوں کے بقول امریکا اور بالخصوص ٹرمپ پالیسی کا بنیادی نکتہ سب سے پہلے امریکا کے مفادات ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کا افغانستان سے فوری انخلا بحران کا حل ہے یا اور زیادہ بگاڑ دے گا۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ٹرمپ سے ہٹ کر پینٹاگون کی پالیسی کیا ہو گی یا دونوں ایک ہی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکا نے چین، ایران، روس کے تعاون کی بھی بات کی ہے اور اس کو احساس ہے کہ ان کی مدد کے بغیر افغان حل پائیدار نہیں ہوگا۔
پاکستان کی افغان مسئلے کے حل میں دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ پاکستان افغان مسئلہ کو جہاں خطہ کا مسئلہ سمجھتا ہے وہیں براہ راست پاکستان کا داخلی استحکام بھی پرامن افغانستان سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کی پوری کوشش ہو گی کہ حالیہ مذاکرات میں افغان مسئلہ کا ایسا حل سامنے لائے جو مثبت بھی ہو اور فیصلہ کن بھی۔اچھی بات یہ ہے کہ امریکا سمیت دیگر بڑی طاقتو ںکو اب اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان کو باہر نکال کر افغان مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔بہرحال افغانستان کے تناظر میں اچھی خبروں کے باوجود ہمیں بڑی توجہ سے طویل مدتی اورمختصر مدتی منصوبہ بندی اور فریقین کے درمیان باہمی اعتماد کے ماحول کو زیادہ مضبوط بنانا ہوگا، کیونکہ اسی میں افغان مسئلہ کا پرامن حل موجود ہے۔