انتظامی اختیارات بحال آخری حصہ
ضلع کے اندر کوئی بھی مسئلہ یا واقعہ ہوجاتا تھا تو رات کے دو تین بجے بھی صرف ڈی سی کا دروازہ کھلا رہتا تھا اور۔۔۔
لاہور:
ضلع کے اندر کوئی بھی مسئلہ یا واقعہ ہوجاتا تھا تو رات کے دو تین بجے بھی صرف ڈی سی کا دروازہ کھلا رہتا تھا اور احتجاج کرنیوالے آکر ملتے تھے مگر اس سلسلے میں پولیس کے ایس ایس پی کا دروازہ کبھی میں نے کھلا نہیں دیکھا۔ وہ تو ڈی سی کا فون بھی بڑی مشکل سے اٹھاتے تھے جس کی وجہ سے امن وامان کے سلسلے میں ایس ایس پی کا تعاون کم رہتا تھا اور وہ ہر میٹنگ میں بھی نہیں آتے تھے۔
جس کی وجہ سے چوری ہو یا اور کوئی چھوٹا موٹا واقعہ لوگ ڈی سی کے پاس ہی دوڑتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی دریائے سندھ میں طغیانی ہوتی تھی اور سیلاب کا خطرہ ہوتا تھا تو ڈی سی حضرات اس وقت رات ہو یا بارش اس طرف نکل پڑتے تھے۔ سیلاب کی صورت میں ڈی سی خود لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لیے، پانی کی تیزی اور اس کی شدت کو روکنے والے کام کا جائزہ لیتے تھے۔ صبح سے دوپہر اور رات ہوجاتی تھی ہم لوگ وہاں موجود ہوتے تھے۔ لوگوں کو کھانا پہنچانا ہے، ادویات، بسترے وغیرہ کے کام کی نگرانی بھی خود کرتے تھے۔
اس سلسلے میں جب کوئی منسٹر وزٹ پر آجائے تو اس کا پروٹوکول اور اسے بریفنگ دینے کی تیاری میں آبپاشی والوں کے ساتھ آگے آگے نظر آتے تھے۔ایک مرتبہ ایک بااثر شخص اغواء ہوگیا اس وقت ڈی سی ضلع کے ایک دور علاقے میں تھے جب انھیں پتہ چلا تو وہ وہاں سے نکل کر پولیس کے پاس پہنچ گئے اور پہاڑوں میں ان کے ساتھ ڈاکوؤں کے تعاقب میں چلتے رہے جب کہ پولیس نے کہا کہ آپ نیچے چلے جائیں، مگر انھوں نے کہا کہ نہیں جب تک آپریشن ہے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں تاکہ آپ کا حوصلہ بلند رہے، ڈپٹی کمشنر کی ایک اچھی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر ہفتے یا 15 دن میں ضلع کے مختلف ایریا میں ایک کھلی کچہری کرتے تھے جس کے لیے دو دن پہلے اس علاقے میں اعلان کیا جاتا تھا، اخبار میں اور ریڈیو پر اس کی خبر دی جاتی تھی۔
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس کھلی کچہری میں اتنی بڑی لوگوں کی تعداد شرکت کرتی ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں کھڑے بھی رہتے تھے۔ اس کچہری میں ریونیو، ایگریکلچر، فاریسٹ، صحت، تعلیم، بینکس، فوڈ، شناختی کارڈ بنانیوالے بہرحال ہر وہ ادارہ موجود ہوتا تھا جس کا تعلق عوام کے مسائل اور کام سے ہوتا تھا۔ باری باری لوگ اپنی شکایتیں سناتے تھے اور جس محکمے کے خلاف ہوتی تھی اس کا افسر اس کا جواب دیتا تھا اور اگر کام چھوٹی نوعیت کا ہے تو وہیں حل کردیا جاتا تھا ورنہ افسر کو سختی سے ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ مسئلے کو حل کرکے اس کی اطلاع ڈی سی کو رائٹنگ میں دیں۔ صبح سے شام تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔
اس کے علاوہ تجاوزات ہٹانا ہو تو بھی ڈی سی اپنے مجسٹریٹ کی پاور استعمال کرکے شہر اور محلوں سے انھیں ہٹایا کرتے تھے، اگر کوئی کسی چیز میں ملاوٹ کرتا ہے، بلیک میل کرتا ہے، جلسے جلوس نکالتا ہے اور امن وامان کی صورت حال بگاڑتا ہے تو وہ موجود ہوتا ہے اور اس میں ہڑتال وغیرہ ہو، کوئی سیاسی لڑائی جھگڑا ہو تو بھی صلح کرانے کے لیے بیچ میں ڈی سی آتا ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک عوامی افسر ہے جسے ضلع کے پورے عوام کو ایک نظر سے دیکھنا ہوتا ہے اور اس کے دکھ اور سکھ میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے دفتر اور گھر کا دروازہ 24 گھنٹے کھلا رہتا تھا۔
خاص طور پر سی ایس ایس کے افسر زیادہ پراعتماد اور جرأت مند ہوتے ہیں جنھیں کبھی کبھی امن وامان کو بحال رکھنے کے لیے بڑے اہم اور سخت اقدامات بھی لینے پڑتے ہیں جس سے انھیں سیاسی طور پر بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایک مرتبہ جب ڈپٹی کمشنر اقبال احمد بابلانی تھے انھوں نے ایک دن کہا کہ ڈی سی ٹین جہاز میں پاکستان میں باہر ممالک کے فوجی ٹریننگ کرنیوالے اپنی بیگمات اور بچوں کے ساتھ موئن جو دڑو گھومنے آرہے ہیں جنھیں ایک بریفنگ لاڑکانہ کے بارے میں دینی ہے اور ان کے وزٹ کا منٹ ٹو منٹ پروگرام چلانا ہے۔
یہ کام مشکل نظر آرہا تھا مگر بابلانی نے ایک میٹنگ بلوائی جس میں سارے متعلقہ افسران کو بلوایا گیا۔ ہر افسر کو ایک ایک کام سونپ دیا گیا۔ اس سلسلے میں کھانے کا پروگرام، ایئرپورٹ پر انھیں ریسیو کرنا، ادھر سے موئن جو دڑو سائٹ پر لے آنا، وزٹ کروانا اور کھانے کے بعد تحفے پیش کرنا، ہلکی انٹرٹینمنٹ پروگرام اور پھر واپس ایئرپورٹ پر انھیں الوداع کہنا۔ اس میں ایک دستاویز کی مدد سے لاڑکانہ کی ہسٹری، جیوگرافی، شخصیتیں، موسم، پیداوار وغیرہ کی انفارمیشن ڈال کر ایک چھوٹی کتاب بھی بنائی گئی تھی جس میں لاڑکانہ کے بارے میں تصویریں بھی تھیں وہ مہمانوں کے حوالے کیا گیا۔
بچوں، بیگمات اور آرمی افسران کو سندھ کے ثقافتی تحفے بھی دیے گئے۔ یہ سارا پروگرام اپنے شیڈول کے مطابق ہوگیا اور خاص طور پر جو بریفنگ تھی وہ تو بالکل اپنے وقت پر ختم ہوئی۔ اس سارے پروگرام کا اختتام بڑی خوش اسلوبی سے پورا ہونے پر مہمانوں نے ڈی سی کا اور حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا جس کے لیے ڈی سی کے لیے محکمہ ڈیفنس پاکستان نے ایک تعریفی لیٹر بھی دیا تھا۔ اس طرح کے کئی پروگرام ڈی سی کی سربراہی میں ہوتے رہے تھے اور اس میں باقی ٹیم کے لوگوں کی مدد شامل تھی۔ جس میں سرفہرست ایس ڈی ایم اور مختار کار ہوتے تھے جن کی کمانڈ ڈی سی خود کرتے تھے۔
ڈپٹی کمشنر حکومت کا ایک ایسا حصہ ہے جو حکومت کے بنائے گئے قانون کو عمل میں لانے کے لیے مثبت ہے اور اس کا رویہ عوام کے ساتھ دوستانہ اور عوامی ہوتا ہے اور ہر آدمی چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کا دروازہ کھٹکھٹاسکتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنی حیثیت خاص طور پر بابلانی صاحب نے ایسی بنائی تھی کہ لوگ اس کے ٹرانسفر پر جلوس نکالنے کے لیے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک ڈی سی محمد ہاشم میمن تھا جس کے زمانے میں بھٹو صاحب کے صاحبزادے شاہ نواز کی لاش لاڑکانہ آئی تھی اور حکومت وقت بہت پریشان تھی کہ نہ جانے کیا ہنگامہ ہوگا مگر محمد ہاشم نے بذات خود ایئرپورٹ جاکر لاش کے ساتھ ساتھ چلتے رہے اور نؤں ڈیرو کے قریب بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان مین تدفین تک رہے اور ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ کوئی نقصان ہو۔
اس کامیابی میں ہاشم صاحب کا ہاتھ تھا اور اس کی ذہنی تدبیر اور دلیرانہ فیصلے تھے۔ انھوں نے پولیس کو جانے والے راستے سے بہت دور رکھا تھا اور کہا تھا کہ جب تک وہ نہ کہیں کوئی بھی آگے نہیں آئے گا کیونکہ ضلع مجسٹریٹ کی اپیل پر فورس کارروائی کرتی ہے۔ اس جلوس میں اور تدفین کے موقعے پر لوگ جذبات میں آکر بہت کچھ کہہ رہے تھے مگر سب کچھ ہاشم نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سہنے کی جرأت پیدا کی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھٹو خاندان اور باقی لوگ جذبات میں ہیں انھیں اپنا غصہ نکالنے دو اور کچھ بھی واقعہ پیش نہیں آئے گا، صبر اور تحمل سے کام لے کر اس نے اس موقعے کو آسانی سے گزار دیا۔
اس کے علاوہ ضلع میں کوئی بھی قومی دن کو منایا جاتا تھا تو اس میں ڈی سی سارے افسران اور شہری لوگوں کو بلاکر پروگرام کو حتمی شکل دیتا تھا جیساکہ 14 اگست، 23 مارچ، کوئی نمائش، میلہ، کھیلوں کے پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور پروگراموں کو نہ صرف کامیاب بناتے تھے بلکہ لوگوں میں ولولہ اور جوش پیدا کرتے تھے کہ حب الوطنی سے پیار کرو۔ نوجوان نسل کے لیے بہت سارے پروگرام کرواتے تھے جس کی وجہ سے سوسائٹی کا ہر فرد یہ کہتا تھا کہ انھیں اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرنا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر ضلع کے لیے ایک دفاعی لائن تھا اور ہمیشہ حکومت سے کچھ نہ کچھ لانے کے لیے کاوشیں کرتا نظر آتا تھا۔آج بھی اسی جذبہ کی تجدید کی ضرورت ہے۔خلق خدا ریلیف کی منتظر ہے۔
ضلع کے اندر کوئی بھی مسئلہ یا واقعہ ہوجاتا تھا تو رات کے دو تین بجے بھی صرف ڈی سی کا دروازہ کھلا رہتا تھا اور احتجاج کرنیوالے آکر ملتے تھے مگر اس سلسلے میں پولیس کے ایس ایس پی کا دروازہ کبھی میں نے کھلا نہیں دیکھا۔ وہ تو ڈی سی کا فون بھی بڑی مشکل سے اٹھاتے تھے جس کی وجہ سے امن وامان کے سلسلے میں ایس ایس پی کا تعاون کم رہتا تھا اور وہ ہر میٹنگ میں بھی نہیں آتے تھے۔
جس کی وجہ سے چوری ہو یا اور کوئی چھوٹا موٹا واقعہ لوگ ڈی سی کے پاس ہی دوڑتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی دریائے سندھ میں طغیانی ہوتی تھی اور سیلاب کا خطرہ ہوتا تھا تو ڈی سی حضرات اس وقت رات ہو یا بارش اس طرف نکل پڑتے تھے۔ سیلاب کی صورت میں ڈی سی خود لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لیے، پانی کی تیزی اور اس کی شدت کو روکنے والے کام کا جائزہ لیتے تھے۔ صبح سے دوپہر اور رات ہوجاتی تھی ہم لوگ وہاں موجود ہوتے تھے۔ لوگوں کو کھانا پہنچانا ہے، ادویات، بسترے وغیرہ کے کام کی نگرانی بھی خود کرتے تھے۔
اس سلسلے میں جب کوئی منسٹر وزٹ پر آجائے تو اس کا پروٹوکول اور اسے بریفنگ دینے کی تیاری میں آبپاشی والوں کے ساتھ آگے آگے نظر آتے تھے۔ایک مرتبہ ایک بااثر شخص اغواء ہوگیا اس وقت ڈی سی ضلع کے ایک دور علاقے میں تھے جب انھیں پتہ چلا تو وہ وہاں سے نکل کر پولیس کے پاس پہنچ گئے اور پہاڑوں میں ان کے ساتھ ڈاکوؤں کے تعاقب میں چلتے رہے جب کہ پولیس نے کہا کہ آپ نیچے چلے جائیں، مگر انھوں نے کہا کہ نہیں جب تک آپریشن ہے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں تاکہ آپ کا حوصلہ بلند رہے، ڈپٹی کمشنر کی ایک اچھی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر ہفتے یا 15 دن میں ضلع کے مختلف ایریا میں ایک کھلی کچہری کرتے تھے جس کے لیے دو دن پہلے اس علاقے میں اعلان کیا جاتا تھا، اخبار میں اور ریڈیو پر اس کی خبر دی جاتی تھی۔
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس کھلی کچہری میں اتنی بڑی لوگوں کی تعداد شرکت کرتی ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں کھڑے بھی رہتے تھے۔ اس کچہری میں ریونیو، ایگریکلچر، فاریسٹ، صحت، تعلیم، بینکس، فوڈ، شناختی کارڈ بنانیوالے بہرحال ہر وہ ادارہ موجود ہوتا تھا جس کا تعلق عوام کے مسائل اور کام سے ہوتا تھا۔ باری باری لوگ اپنی شکایتیں سناتے تھے اور جس محکمے کے خلاف ہوتی تھی اس کا افسر اس کا جواب دیتا تھا اور اگر کام چھوٹی نوعیت کا ہے تو وہیں حل کردیا جاتا تھا ورنہ افسر کو سختی سے ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ مسئلے کو حل کرکے اس کی اطلاع ڈی سی کو رائٹنگ میں دیں۔ صبح سے شام تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔
اس کے علاوہ تجاوزات ہٹانا ہو تو بھی ڈی سی اپنے مجسٹریٹ کی پاور استعمال کرکے شہر اور محلوں سے انھیں ہٹایا کرتے تھے، اگر کوئی کسی چیز میں ملاوٹ کرتا ہے، بلیک میل کرتا ہے، جلسے جلوس نکالتا ہے اور امن وامان کی صورت حال بگاڑتا ہے تو وہ موجود ہوتا ہے اور اس میں ہڑتال وغیرہ ہو، کوئی سیاسی لڑائی جھگڑا ہو تو بھی صلح کرانے کے لیے بیچ میں ڈی سی آتا ہے۔ اس لیے کہ یہ ایک عوامی افسر ہے جسے ضلع کے پورے عوام کو ایک نظر سے دیکھنا ہوتا ہے اور اس کے دکھ اور سکھ میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے دفتر اور گھر کا دروازہ 24 گھنٹے کھلا رہتا تھا۔
خاص طور پر سی ایس ایس کے افسر زیادہ پراعتماد اور جرأت مند ہوتے ہیں جنھیں کبھی کبھی امن وامان کو بحال رکھنے کے لیے بڑے اہم اور سخت اقدامات بھی لینے پڑتے ہیں جس سے انھیں سیاسی طور پر بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایک مرتبہ جب ڈپٹی کمشنر اقبال احمد بابلانی تھے انھوں نے ایک دن کہا کہ ڈی سی ٹین جہاز میں پاکستان میں باہر ممالک کے فوجی ٹریننگ کرنیوالے اپنی بیگمات اور بچوں کے ساتھ موئن جو دڑو گھومنے آرہے ہیں جنھیں ایک بریفنگ لاڑکانہ کے بارے میں دینی ہے اور ان کے وزٹ کا منٹ ٹو منٹ پروگرام چلانا ہے۔
یہ کام مشکل نظر آرہا تھا مگر بابلانی نے ایک میٹنگ بلوائی جس میں سارے متعلقہ افسران کو بلوایا گیا۔ ہر افسر کو ایک ایک کام سونپ دیا گیا۔ اس سلسلے میں کھانے کا پروگرام، ایئرپورٹ پر انھیں ریسیو کرنا، ادھر سے موئن جو دڑو سائٹ پر لے آنا، وزٹ کروانا اور کھانے کے بعد تحفے پیش کرنا، ہلکی انٹرٹینمنٹ پروگرام اور پھر واپس ایئرپورٹ پر انھیں الوداع کہنا۔ اس میں ایک دستاویز کی مدد سے لاڑکانہ کی ہسٹری، جیوگرافی، شخصیتیں، موسم، پیداوار وغیرہ کی انفارمیشن ڈال کر ایک چھوٹی کتاب بھی بنائی گئی تھی جس میں لاڑکانہ کے بارے میں تصویریں بھی تھیں وہ مہمانوں کے حوالے کیا گیا۔
بچوں، بیگمات اور آرمی افسران کو سندھ کے ثقافتی تحفے بھی دیے گئے۔ یہ سارا پروگرام اپنے شیڈول کے مطابق ہوگیا اور خاص طور پر جو بریفنگ تھی وہ تو بالکل اپنے وقت پر ختم ہوئی۔ اس سارے پروگرام کا اختتام بڑی خوش اسلوبی سے پورا ہونے پر مہمانوں نے ڈی سی کا اور حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا جس کے لیے ڈی سی کے لیے محکمہ ڈیفنس پاکستان نے ایک تعریفی لیٹر بھی دیا تھا۔ اس طرح کے کئی پروگرام ڈی سی کی سربراہی میں ہوتے رہے تھے اور اس میں باقی ٹیم کے لوگوں کی مدد شامل تھی۔ جس میں سرفہرست ایس ڈی ایم اور مختار کار ہوتے تھے جن کی کمانڈ ڈی سی خود کرتے تھے۔
ڈپٹی کمشنر حکومت کا ایک ایسا حصہ ہے جو حکومت کے بنائے گئے قانون کو عمل میں لانے کے لیے مثبت ہے اور اس کا رویہ عوام کے ساتھ دوستانہ اور عوامی ہوتا ہے اور ہر آدمی چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کا دروازہ کھٹکھٹاسکتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنی حیثیت خاص طور پر بابلانی صاحب نے ایسی بنائی تھی کہ لوگ اس کے ٹرانسفر پر جلوس نکالنے کے لیے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک ڈی سی محمد ہاشم میمن تھا جس کے زمانے میں بھٹو صاحب کے صاحبزادے شاہ نواز کی لاش لاڑکانہ آئی تھی اور حکومت وقت بہت پریشان تھی کہ نہ جانے کیا ہنگامہ ہوگا مگر محمد ہاشم نے بذات خود ایئرپورٹ جاکر لاش کے ساتھ ساتھ چلتے رہے اور نؤں ڈیرو کے قریب بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان مین تدفین تک رہے اور ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ کوئی نقصان ہو۔
اس کامیابی میں ہاشم صاحب کا ہاتھ تھا اور اس کی ذہنی تدبیر اور دلیرانہ فیصلے تھے۔ انھوں نے پولیس کو جانے والے راستے سے بہت دور رکھا تھا اور کہا تھا کہ جب تک وہ نہ کہیں کوئی بھی آگے نہیں آئے گا کیونکہ ضلع مجسٹریٹ کی اپیل پر فورس کارروائی کرتی ہے۔ اس جلوس میں اور تدفین کے موقعے پر لوگ جذبات میں آکر بہت کچھ کہہ رہے تھے مگر سب کچھ ہاشم نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سہنے کی جرأت پیدا کی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھٹو خاندان اور باقی لوگ جذبات میں ہیں انھیں اپنا غصہ نکالنے دو اور کچھ بھی واقعہ پیش نہیں آئے گا، صبر اور تحمل سے کام لے کر اس نے اس موقعے کو آسانی سے گزار دیا۔
اس کے علاوہ ضلع میں کوئی بھی قومی دن کو منایا جاتا تھا تو اس میں ڈی سی سارے افسران اور شہری لوگوں کو بلاکر پروگرام کو حتمی شکل دیتا تھا جیساکہ 14 اگست، 23 مارچ، کوئی نمائش، میلہ، کھیلوں کے پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور پروگراموں کو نہ صرف کامیاب بناتے تھے بلکہ لوگوں میں ولولہ اور جوش پیدا کرتے تھے کہ حب الوطنی سے پیار کرو۔ نوجوان نسل کے لیے بہت سارے پروگرام کرواتے تھے جس کی وجہ سے سوسائٹی کا ہر فرد یہ کہتا تھا کہ انھیں اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرنا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر ضلع کے لیے ایک دفاعی لائن تھا اور ہمیشہ حکومت سے کچھ نہ کچھ لانے کے لیے کاوشیں کرتا نظر آتا تھا۔آج بھی اسی جذبہ کی تجدید کی ضرورت ہے۔خلق خدا ریلیف کی منتظر ہے۔