چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کا پینڈورا باکس
حکمران تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کھل کر ایک دوسرے کے خلاف گلے پھاڑ کر بیان بازی میں مصروف ہی
خاصے عرصے کے بعد قلم اٹھانے کو دل چاہا ، آپ پوچھیں گے ، چن کتھاں گزارآئی رات وے، تو اس کا جواب یہ ہے ،ہیں بہت تلخ بندہ مزدور کے اوقات،چلیں ، سارے سوال جواب چھوڑتے ہوئے ،آج کے حالات پر آتے ہیں۔ آج کل سیاست کا ماحول سخت گرم ہے۔ نواز شریف دوبارہ جیل میں ہیں ،ادھر جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ، آصف علی زرداری، فریال تالپور اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سمیت 172 کاروباری اور سیاسی شخصیات کا نام ای سی ایل میں ڈالے جانے کے بعد ملکی سیاست میں ایک حشر برپا ہے۔
حکمران تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کھل کر ایک دوسرے کے خلاف گلے پھاڑ کر بیان بازی میں مصروف ہیں۔ سندھ حکومت گرانے اور بچانے کی باتیں بلند آہنگ میں سنائی دے رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں آنے کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ پیپلزپارٹی نے یہ مطالبہ رد کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے باقاعدہ ملاقات کی اور انھیں واضح الفاظ میں بتا دیا کہ وہ ان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور کسی کو ان کی حکومت گرانے کی اجازت نہیں دینگے۔ بلاول بھٹو زرداری کا اس قدر جارحانہ رویہ پہلے کبھی مشاہدے میں نہیں آیا، آصف علی زرداری بھی خاصے جارحانہ موڈ میں ہیں۔ بہرحال پاکستان خصوصاً سندھ میں سیاستدان تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں۔
اﷲ خیر کرے ،کشیدگی اور تناؤ کے اس دوراہے پر جذباتی فیصلوں سے گریز ہی کیا جائے تو یہی صائب مشورہ ہو سکتا ہے، آگے دوستوں کی مرضی ، یہ تو پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ صورتحال کو کیسے ڈی فیوز کرتے ہیں۔ اس گرماگرمی کے ماحول میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کر کے سیاست میں نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ مصطفی نواز کھوکھر کا بیان کچھ یوں ہے کہ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ہم پر ایسا دھبہ لگا ہے جسے ہم دھونا چاہتے ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس دھبے کو دھونے کے لیے بہت جلد صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر ان کو چیئرمین شپ سے ہٹا دینگے، اس کے لیے بس (ن) لیگ ہمارا ساتھ دے تو یہ ممکن ہو سکے گا، ان کے ساتھ ہی پروگرام میں بیٹھے مسلم لیگ (ن) کے مصدق ملک نے کہا کہ جو بھی جمہوری عمل اور تقاضے ہونگے اس میں اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن جماعتیں مل کر فیصلہ کریں گی تو اس کو آگے بڑھایا جائے گا تاہم فیصلہ پارٹی لیول پر ہو گا۔
چیئرمین سینیٹ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کر کے اور یہ کہہ کر کہ سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے ہم پر ایسا دھبہ لگا ہے جسے ہم دھونا چاہتے ہیں، ایک طرح سے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ان الزامات کو تسلیم کر لیا جن میں کہا گیا تھاکہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی اور اس عمل میں آصف علی زرداری نے اہم کردار ادا کیا، بہرحال سب جانتے ہیں کہ صادق سنجرانی کو پیپلز پارٹی نے بلوچستان کا نمایندہ سمجھ کر سپورٹ کیا اور اس دن بلاول نے یہ بات خود کی تھی لیکن کل کے ٹی وی پروگرام میں جوکہا گیا۔
اس سے یہی تاثر پیدا ہوا کہ آصف علی زرداری نے بلوچستان اسمبلی کے ارکان کو خریدا۔ اس صورتحال پر بعض حلقے یہاں تک کہہ رہے کہ ایسا تاثر پیدا کر کے درحقیقت بلوچستان اسمبلی کو داغدار کیا گیا بلکہ مصطفی نواز کھوکھر نے پورے بلوچستان کو بے عزت کیا۔ بعض حلقے یہ سوال بھی اٹھا رہے کہ مصطفی نواز کھوکھر ، فواد چوہدری کے ساتھ دوستی نبھانے کے چکر میں یا شاید ان کے کہنے پر ایسی باتیں کررہے ہیں کیونکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے فواد چوہدری کو اسی اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے سینیٹ کے اجلاس میں شریک ہونے سے روک دیا تھا چونکہ وہ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر دوست ہیں تو اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصطفی کھوکھر ان سے دوستی کی خاطر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کو خراب کررہے ہیں ۔
بعض حلقوں کی پختہ رائے ہے کہ آصف علی زرداری نے ہمیشہ بلوچستان کا خیال رکھا ہے اور وہ کبھی اپنے لگائے پودے کو خراب نہیں کرینگے اور اپنی پارٹی کو بلوچستان کے لوگوں کے سامنے متنازعہ نہیں بنائینگے کیونکہ پیپلز پارٹی ہی پہلی بار بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ لائی۔ ویسے بھی صادق سنجرانی نے ایسا کوئی غلط یا خلاف ضابطہ کام نہیں کیا ہے جسکی بنا پر انھیں روز روز بلیک میل کیا جاتا رہے۔ اقتدار کی راہ داریوں میں گھومنے پھرنے والوں کو یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصطفی کھوکھر صرف اور صرف اپنی جگہ پی ٹی آئی میں پکی کرنے کے چکر میں ہیں تاکہ احتساب سے بچ سکیں اور یاد رکھیں کہ مصطفی کے والد بھی پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ رہے ہیں۔
آصف زرداری کبھی بلوچستان کو اپنے مخالف نہیں کرینگے ۔ انھوں نے اپنی تقاریر میں کبھی ایسی بات نہیں کی۔ وہ فخریہ کہتے ہیں کہ وہ بلوچ ہیں اور انھوں نے آغاز حقوق بلوچستان کی داغ بیل ڈالی تھی۔ ویسے بھی آصف علی زرداری کی شہرت مفاہمت کے بادشاہ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں تبدیلی اور چیئرمین وڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پہلے میاں نواز شریف نے رضاربانی کو چیئرمین بنوانے کی پیشکش کی تھی جسے بوجہ آصف علی زرداری نے قبول نہیں کیا۔ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو صادق سنجرانی کسی آمر کے نہیں بلکہ خود آصف علی زرداری کے منتخب کرائے ہوئے چیئرمین سینیٹ ہیں۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ آصف علی زرداری موجودہ حالات میں صادق سنجرانی کو چیئرمین شپ سے ہٹانے کے لیے مسلم لیگ (ن) سے ہاتھ ملائیں گے۔ بقول مصطفی نواز کھوکھر اگر پیپلز پارٹی نے بلوچستان اسمبلی میں خرید وفروخت کی جب کہ اس کا ایک بھی سینیٹر بلوچستان سے نہیں تھا تو اس کا مطلب یہی ہو سکتاہے کہ آصف علی زرداری کو متنازعہ کیا جارہاہے۔
حکمران تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کھل کر ایک دوسرے کے خلاف گلے پھاڑ کر بیان بازی میں مصروف ہیں۔ سندھ حکومت گرانے اور بچانے کی باتیں بلند آہنگ میں سنائی دے رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل میں آنے کے بعد پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ پیپلزپارٹی نے یہ مطالبہ رد کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے باقاعدہ ملاقات کی اور انھیں واضح الفاظ میں بتا دیا کہ وہ ان پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور کسی کو ان کی حکومت گرانے کی اجازت نہیں دینگے۔ بلاول بھٹو زرداری کا اس قدر جارحانہ رویہ پہلے کبھی مشاہدے میں نہیں آیا، آصف علی زرداری بھی خاصے جارحانہ موڈ میں ہیں۔ بہرحال پاکستان خصوصاً سندھ میں سیاستدان تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں۔
اﷲ خیر کرے ،کشیدگی اور تناؤ کے اس دوراہے پر جذباتی فیصلوں سے گریز ہی کیا جائے تو یہی صائب مشورہ ہو سکتا ہے، آگے دوستوں کی مرضی ، یہ تو پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ صورتحال کو کیسے ڈی فیوز کرتے ہیں۔ اس گرماگرمی کے ماحول میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کر کے سیاست میں نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ مصطفی نواز کھوکھر کا بیان کچھ یوں ہے کہ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ہم پر ایسا دھبہ لگا ہے جسے ہم دھونا چاہتے ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس دھبے کو دھونے کے لیے بہت جلد صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر ان کو چیئرمین شپ سے ہٹا دینگے، اس کے لیے بس (ن) لیگ ہمارا ساتھ دے تو یہ ممکن ہو سکے گا، ان کے ساتھ ہی پروگرام میں بیٹھے مسلم لیگ (ن) کے مصدق ملک نے کہا کہ جو بھی جمہوری عمل اور تقاضے ہونگے اس میں اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن جماعتیں مل کر فیصلہ کریں گی تو اس کو آگے بڑھایا جائے گا تاہم فیصلہ پارٹی لیول پر ہو گا۔
چیئرمین سینیٹ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کر کے اور یہ کہہ کر کہ سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے ہم پر ایسا دھبہ لگا ہے جسے ہم دھونا چاہتے ہیں، ایک طرح سے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ان الزامات کو تسلیم کر لیا جن میں کہا گیا تھاکہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی اور اس عمل میں آصف علی زرداری نے اہم کردار ادا کیا، بہرحال سب جانتے ہیں کہ صادق سنجرانی کو پیپلز پارٹی نے بلوچستان کا نمایندہ سمجھ کر سپورٹ کیا اور اس دن بلاول نے یہ بات خود کی تھی لیکن کل کے ٹی وی پروگرام میں جوکہا گیا۔
اس سے یہی تاثر پیدا ہوا کہ آصف علی زرداری نے بلوچستان اسمبلی کے ارکان کو خریدا۔ اس صورتحال پر بعض حلقے یہاں تک کہہ رہے کہ ایسا تاثر پیدا کر کے درحقیقت بلوچستان اسمبلی کو داغدار کیا گیا بلکہ مصطفی نواز کھوکھر نے پورے بلوچستان کو بے عزت کیا۔ بعض حلقے یہ سوال بھی اٹھا رہے کہ مصطفی نواز کھوکھر ، فواد چوہدری کے ساتھ دوستی نبھانے کے چکر میں یا شاید ان کے کہنے پر ایسی باتیں کررہے ہیں کیونکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے فواد چوہدری کو اسی اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے سینیٹ کے اجلاس میں شریک ہونے سے روک دیا تھا چونکہ وہ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر دوست ہیں تو اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصطفی کھوکھر ان سے دوستی کی خاطر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کو خراب کررہے ہیں ۔
بعض حلقوں کی پختہ رائے ہے کہ آصف علی زرداری نے ہمیشہ بلوچستان کا خیال رکھا ہے اور وہ کبھی اپنے لگائے پودے کو خراب نہیں کرینگے اور اپنی پارٹی کو بلوچستان کے لوگوں کے سامنے متنازعہ نہیں بنائینگے کیونکہ پیپلز پارٹی ہی پہلی بار بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ لائی۔ ویسے بھی صادق سنجرانی نے ایسا کوئی غلط یا خلاف ضابطہ کام نہیں کیا ہے جسکی بنا پر انھیں روز روز بلیک میل کیا جاتا رہے۔ اقتدار کی راہ داریوں میں گھومنے پھرنے والوں کو یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصطفی کھوکھر صرف اور صرف اپنی جگہ پی ٹی آئی میں پکی کرنے کے چکر میں ہیں تاکہ احتساب سے بچ سکیں اور یاد رکھیں کہ مصطفی کے والد بھی پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ رہے ہیں۔
آصف زرداری کبھی بلوچستان کو اپنے مخالف نہیں کرینگے ۔ انھوں نے اپنی تقاریر میں کبھی ایسی بات نہیں کی۔ وہ فخریہ کہتے ہیں کہ وہ بلوچ ہیں اور انھوں نے آغاز حقوق بلوچستان کی داغ بیل ڈالی تھی۔ ویسے بھی آصف علی زرداری کی شہرت مفاہمت کے بادشاہ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں تبدیلی اور چیئرمین وڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پہلے میاں نواز شریف نے رضاربانی کو چیئرمین بنوانے کی پیشکش کی تھی جسے بوجہ آصف علی زرداری نے قبول نہیں کیا۔ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو صادق سنجرانی کسی آمر کے نہیں بلکہ خود آصف علی زرداری کے منتخب کرائے ہوئے چیئرمین سینیٹ ہیں۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ آصف علی زرداری موجودہ حالات میں صادق سنجرانی کو چیئرمین شپ سے ہٹانے کے لیے مسلم لیگ (ن) سے ہاتھ ملائیں گے۔ بقول مصطفی نواز کھوکھر اگر پیپلز پارٹی نے بلوچستان اسمبلی میں خرید وفروخت کی جب کہ اس کا ایک بھی سینیٹر بلوچستان سے نہیں تھا تو اس کا مطلب یہی ہو سکتاہے کہ آصف علی زرداری کو متنازعہ کیا جارہاہے۔