ڈیپ اسٹیٹ اور پیپلز پارٹی

پاناما لیکس عیاں ہوئی تو ملک میں ایک دفعہ پھر سیاست دانوں کے خلاف احتساب کا معاملہ تیزی پکڑگیا

tauceeph@gmail.com

'' لاڈلے کے پھٹے ڈھولوں نے آج پھر للکارا ہے لہٰذا ہم انھیں اکیلے ہی منہ دیں گے، ہم ان کے بنائے ہوئے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے۔ شہیدوں کے خون کی قسم تمہاری سازشوں اور جھوٹ سے لڑوں گا۔ عوام نئی جنگ کی تیاری کریں۔زرداری گرفتار ہوئے تو نتائج اچھے نہیں ہوںگے۔

ادارے حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ الف لیلیٰ کی کہانی ہے۔ سیاسی انتقامی کارروائیوں کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو انصاف نہ ملا۔'' پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹوکی برسی کے موقعے پر آصف زرداری اور بلاول نے حکومت کو یوں للکارا ۔ سابق صدر زرداری کے صدارتی امیدوار بیرسٹر اعتزاز احسن اب تحریک انصاف حکومت کی وکالت میں لگ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ احتساب کا موجودہ سلسلہ درست ہے مگر سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ وزیراطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری منی لانڈرنگ کی فیکٹریاں چلا رہے تھے اب ان کی بقیہ عمر جیلوں میں گزرے گی۔ اب فواد چوہدری سندھ کی حکومت کی تبدیلی کے مشن پر نکلے ہیں جو اس نظام کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ خیر سے سپریم کورٹ کی بروقت رولنگ آگئی۔

جب پاناما لیکس عیاں ہوئی تو ملک میں ایک دفعہ پھر سیاست دانوں کے خلاف احتساب کا معاملہ تیزی پکڑگیا۔ اس سے پہلے نیب نے سندھ رینجرز کے تعاون سے سندھ میں احتساب کی کارروائی شروع کی تھی۔ ان میں کچھ سیاستدان تھے اور کچھ بیوروکریٹ۔ آصف زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی اور ایک بیوروکریٹ منظور کاکا اور سابق وزیر شرجیل میمن ملک سے جانے میں کامیاب ہوئے۔ آصف زرداری نے وزیر اعظم نواز شریف سے رابطے کی کوشش کی ، مگر نواز شریف اس وقت اپنے وزیر داخلہ نثار علی خان کے نرغے میں تھے، یوں وہ زرداری کی مدد کے لیے نہیں آئے۔ آصف زرداری نے اسلام آباد میں مقتدرہ کے خلاف ایک سخت تقریرکی تھی، انھیں دبئی جانے کی اجازت مل گئی۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور آصف زرداری میں کچھ مفاہمت ہوئی۔ زرداری واپس آئے۔ ان کی ایماء پر شرجیل میمن بھی واپس آئے، سپریم کورٹ نے انھیں جیل بھیج دیا۔

اچانک پاناما اسکینڈل سامنے آیا ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح اپنے گرد بنے جانے والے تاروں کی سمت کو پہچان نہیں پائے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے مشورے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کرائی جائے ، اس کے باوجود سپریم کورٹ میں چلے گئے، یوں ان کا پورا خاندان ایک نئے بحران کا شکار ہوا ۔ آصف زرداری مقتدرہ قوتوں کی نئی ڈاکٹرائن کو نہیں سمجھ پائے۔ انھوں نے نواز شریف کے خلاف محاذ گرم کیا، پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن، قمر الزمان کائرہ، شیری رحمن، فواد چوہدری، نعیم الحق اور عمران خان کے بیانات میں فرق کرنا مشکل ہوا ۔ اس وقت سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور فرحت اﷲ بابر نے ایک درست مؤقف اختیارکیا ۔ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو مجروح نہیں ہونا چاہیے مگر یہ دونوں رہنما پیپلز پارٹی میں تنہا رہ گئے۔ فرحت اﷲ بابر آصف زرداری کے ترجمان کی حیثیت سے مستعفیٰ ہوئے۔ آصف زرداری مقتدرہ کے روڈ میپ پر صدق دل سے عمل پیرا ہوئے۔

بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی تبدیلی میں بھی انھوں نے خوب حصہ لیا۔ اپنے مشیر ڈاکٹر قیوم سومروکوکوئٹہ بھیج دیا۔ پیپلز پارٹی کا بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی رکن نہیں تھا مگر زرداری قدوس بزنجوکو وزیر اعلیٰ بنانے کی مہم میں شامل رہے اور بلوچستان کے اراکین اسمبلی کو کراچی مدعو کیا۔ زرداری صاحب کی ایماء پر سینیٹ کے انتخابات میں خیبر پختون خوا اسمبلی پر سرمایہ کاری کی گئی۔ پیپلز پارٹی کو اس سرمایہ کاری کا فائدہ ہوا اورکچھ سینیٹر منتخب ہوئے۔ آصف زرداری کا نعرہ تھا سینیٹ کی چیئرمین شپ مسلم لیگ ن کے حوالے نہیں کی جائے گی۔


میاں نواز شریف نے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب پر درست حکمت عملی اختیار کی اور میاں رضا ربانی کو متفقہ چیئرمین بنانے کی پیشکش کی۔ یہ جمہوری اداروں کے استحکام اور سیاستدانوں کے خلاف منتقل ہونے والی کارروائیوں کو بچانے کے لیے بہترین حکمت عملی تھی، مگر شاید زرداری کسی اور نئے آنے والے فیصلوں کی تابعداری پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے نواز شریف سے ذاتی مخاصمت رکھنے والے بیرسٹر اعتزاز احسن کو نامزد کیا اور مسلم لیگ ن کی مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات سے انکار کیا۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر پارلیمانی کمیٹی میں زیرِ غور احتساب بل کے مسودے میں جنرلوں اور ججوں کے احتساب کی شق شامل کرنا چاہتے تھے مگر انھیں کمیٹی سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے باشعور کارکن بھی زرداری کی اس حکمت عملی پر حیرت زدہ تھے۔ اس وقت بلاول بھٹوکا رویہ متوازن اور سیاسی تھا۔

آصف زرداری اس زمانے میں بار بار کہتے تھے کہ انتخابات کے بعد نئی حکومت میں بڑا حصہ پیپلز پارٹی کا ہوگا، شاید انھیں انتخابات کے لیے جو روڈ میپ دکھایا گیا تھا، اس روڈ میپ میں جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہونے والے بااثر اراکین اسمبلی کو پیپلز پارٹی میں شامل کرانا یا اتحاد کرانا تھا، مگر فیصلہ تو عمران خان کے لیے وزیر اعظم ہاؤس کے تمام راستے کھولنے کا تھا، یوں پیپلز پارٹی صرف اندرون سندھ تک محدود ہوگئی ۔ پیپلز پارٹی نے اپنا سب سے مضبوط گڑھ لیاری کھو دیا۔ ایک بار پھر زرداری کے تجارتی شراکت دار لپیٹ میں آگئے، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنادی۔ جب 2018کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو بعض دور اندیش صحافی اور دانشور یہ سوچتے تھے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں نئی پالیسی اختیار کرے گی۔ سندھ کی حکومت کو مکمل طور پر شفاف بنایا جائے گا۔

اچھی طرز حکومت لازمی ہوگی، کوئی ایسا فرد وزیر نہیں بنے گا جس پرکسی قسم کی بدعنوانی کا الزام ہو یا ملوث ہونے کا خدشہ ہو، مگر یہ امیدیں پھر ختم ہوگئیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے شفاف طرز حکومت کے لیے ادارہ بنانے پر توجہ نہ دی۔ ان کی دونوں بہنیں سندھ اسمبلی میں آگئیں، ایک وزیر بن گئی۔ سندھ حکومت میں رشوت کا ریٹ بڑھ گیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن وغیرہ عملی طور پر معطل رہے، جو کام سندھ کی حکومت کے کرنے کے تھے وہ عدلیہ کو کرنا پڑے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی کو جدید خطوط پر استوارکرنے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔

لیاری میں انتخاب کی شکست کے بعد نئے سرے سے پارٹی کی تنظیم کو منظم کرنے کا مرحلہ شروع ہونا چاہیے تھا اور اگر واقعی بلاول کو دھاندلی سے ہرایا گیا ہے تو لیاری میں وارڈوں کی سطح سے ایک طرح کی مزاحمت کا اظہار ہونا چاہیے تھا۔ یہ بھی خیال تھا کہ اب بلاول مکمل طور پر خودمختار ہوںگے۔ بلاول کی پنجاب میں کارکردگی ان کی والدہ کے روایتی مخالفین نے بھی سراہا تھا۔ یہ واضح تھا کہ پیپلز پارٹی کی تنظیم اب تک 70کی دہائی کی طرح کی ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے اتحادیوں، طلبہ یونینوں، ٹریڈ یونین، کسان، دانشوروں، صحافیوں اور خواتین کی تنظیموں سے ناتا توڑ لیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت محض چند غریبوں کو منتخب اداروں میں بھیج کر اس تاثر کو برقرار رکھنا چاہتی ہے کہ وہ غریبوں کی جماعت ہے۔

امکان ہے کہ آصف زرداری جلد گرفتار ہونگے۔ آصف زرداری نے 27 دسمبر کے جلسے میں مختصر خطاب کے دوران سخت لہجہ اختیارکیا ہے۔ بلاول بھٹو نے پہلی دفعہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کا ذکرکیا ہے جب کہ سندھ سے بھی لاپتہ افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے مگر آصف زرداری ''ڈیپ اسٹیٹ'' کے فلسفے کو سمجھ نہیں پائے۔ انھوں نے اچھی طرز حکومت اور شفاف نظام کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ یہ بات درست ہے کہ حقیقی ایجنڈا ملک میں صدارتی نظام لانے کا ہے۔ حکومت کے سب سے بڑے قانون کے افسر اٹارنی جنرل انور منصور صدارتی نظام کی مسلسل وکالت کرتے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس بیانیے کو تقویت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کی ناقص پالیسی کی بناء پر ہی ملتی ہے اور یہ جماعتیں بڑی سیاسی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

اب سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس عوام کو دینے کو کچھ نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کا سندھ حکومت کو نیب کی طاقت کے ذریعے تبدیل کرنے کا کھیل خطرناک ثابت ہوگا اور اس کا سارا فائدہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو ہوگا ۔ بہرحال اگر پیپلز پارٹی اب بھی جوڑ توڑکی سیاست کو چھوڑکر اور عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہے تو ڈیپ اسٹیٹ کے بیانیے کو شکست ہوسکتی ہے۔
Load Next Story