نیا سالکرپٹ سیاستدانوں کو کلین چٹ
حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملزمان کو ’’ریلیف ‘‘مل جائے گا
سال 2018 اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ رخصت ہو گیا اور 2019آگیا، دنیا بھر میں سال نو کی خوشیاں منائی گئیں، یہ خوشیاں اس لیے بھی منائی جاتی ہیں کہ گزشتہ سال جیسا بھی تھا گزر گیا، اب نیا سال نئے جذبے، نئے جوش اور نئے ولولے کے ساتھ گزارنے کی کوششیں کرنی ہیں۔ پاکستان میں بھی 2018 اچھی اور بری یادوں کو اپنے دامن میں سمیٹے تاریخ کا حصہ بن گیا۔ مجموعی طور پر اس سال جہاں کچھ بری خبروں نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا وہیں ملکی حالات اور امن و امان میں قدرے بہتری نے عوام کو ریلیف فراہم کیا۔
گزشتہ سال کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ جنرل الیکشن ہوئے، تحریک انصاف کامیاب ہوئی اور مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ 2018 میں پاکستان کے عوام نے تین حکومتیں دیکھیں، پہلے 5ماہ ن لیگ نے، تین ماہ نگران حکومت نے اور آخری چار میں تحریک انصاف نے حکومت کی۔ اس سال کو اگر کرپشن کے خاتمے کے آغاز کا سال قرار دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ پہلی بار عوام نے ''اعلیٰ سطح احتساب'' کی گونج گرج سنی ۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال کے آغاز میں ہی شروع ہوگیا تھاجب یکم فروری کو نوازشریف وزارت عظمیٰ کے بعد اپنی جماعت کی سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا، اس سے قبل 28 جولائی 2017 کو انھیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنا پڑا تھا۔ جس کے نتیجے میں بطور سربراہ ن لیگ نوازشریف کے دستخط سے جاری سینیٹ کے ٹکٹ بھی مسترد کر دیے گئے۔
یوں نواز لیگ کے امیدوار سینیٹ کے چناؤ میں 'آزاد' قرار پائے۔بعد ازاں مسلم لیگ ن کی قیادت کی مشکلات صرف جائیدادوں اور مبینہ کرپشن کی تحقیقات اور جواب دہی تک محدود نہ رہیں بلکہ 9اپریل کو میاں نوازشریف کے متعدد تنظیمی ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ یہ دس پارلیمنٹرینز تھے، جن میں جنوبی پنجاب سے 6 قومی اور دو رکنِ صوبائی اسمبلی نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا، ان کے ساتھ آزاد رکن نصراللہ دریشک نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ مذکورہ ارکان نے ''جنوبی پنجاب صوبہ محاذ'' کے نام سے اتحاد پر متفق ہوئے۔ اس کے بعد نواز شریف کے خلاف گزشتہ ہفتے نیب کی جانب سے دائر کیے گئے بقیہ دو ریفرنسز کا بھی فیصلہ آیا جس میں انھیں العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید اور جرمانے کی سزا ہوئی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں بری کردیا گیا۔ یہ فیصلے بظاہر تو ایسے لگ رہے تھے کہ ان میں عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لیا جائے گا مگر محض چھوٹی موٹی سزاؤں کے بعد یہی لگتا ہے کہ انھیں کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ اب جب کہ مذکورہ ملزمان کے وکلاء سزاؤں کے خلاف اپیل میں جا رہے ہیں تو حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملزمان کو ''ریلیف ''مل جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تھکا دینے والے ''احتسابی شور'' میں کیا 'احتساب' 2018 کے آخری سورج کی طرح کہیں گم ہونے والا ہے؟ کیونکہ ملزمان کے خلاف پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی ریفرنس نہیں بنتا اور اگر بن جاتا ہے تو اُسے صحیح طرح سے Representنہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ملزمان کو ''کلین چٹ'' مل جاتی ہے ۔کیا یہ نیب کی کمزور پراسیکیوشن کامعاملہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ یقینا بدقسمتی ہے کیوں کہ اگر اب کی بار ہم نے کرپشن کے خلاف جنگ ہار دی تو خاکم بدہن اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا۔
اب ہم ''احتساب'' کے شور شرابے کے ساتھ 2019میں داخل ہو رہے ہیں تو یقین مانیں ایک بار پھر کھٹکا سا لگ رہا ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ یا تو پلی بارگین ہوجائے گی یا انھیں بغیر ریفرنس دائر کیے چھوڑ دیا جائے گا۔ پچھلے چند ماہ کے دوران کرپشن ، اختیارات کے ناجائز استعمال یا آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات میں جو ہائی پروفائل شخصیات گرفتار کی گئیں ، ان کے خلاف کئی ماہ گزر جانے کے باوجودنیب نہ تو انکوائریاں مکمل کر سکا ہے اور نہ ہی اِن کے خلاف ریفرنس دائر کر سکا ہے۔
یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ حقائق ہیں ۔ 'حکومت نے احتساب کا نعرہ لگایا جس کا نتیجہ نہیں نکل سکا،صرف تحقیقات اور ریفرنس دائر کرنے کی خبر آتی ہے، نیب کوئی ایک کیس بتائے جو منطقی انجام تک پہنچا ہو،احد چیمہ اور دیگر کی گرفتاری سے کیا ہوا؟کتنی انکوائریاں ہوئیں؟۔اور جب ہم مغربی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں احتساب کے ادارے بہت مضبوط ہیں، تو انھیں یہ اطلاع دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہاں ادارے مضبوط نہیں بلکہ وہاں کی اخلاقیات مضبوط ہیں ، وہاں پر اگر کسی پر الزام لگتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو کسی سرکاری یا عوامی عہدے سے الگ کر لیتا ہے لیکن یہاں جب تک آپ الزامات کو ثابت نہ کردیں یا جوتے مار کر باہر نہ کر دیں، اُس وقت تک چور ڈھٹائی کے ساتھ احتساب اداروں کے سامنے ڈٹا رہتا ہے۔
لہٰذاہمیں عملی اقدامات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اور یہ سمجھنا ہو گا کہ قومی احتساب بیورو ایک سرکاری اور خود مختار ادارہ ہے جس کے فرائض میں ملک میں بدعنوانی، کرپشن کے خاتمے کے لیے ذمے داروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا شامل ہے، ابھی نیب کے سامنے 150 میگا کرپشن کیسز سامنے ہیں، دیگر سیاستدانوں پر کرپشن کیسز ہیں، 92 فیصد کیسز کی انکوائریاں بھی آخری مراحل میں ہیں، ان میں سے اکثر کی بھی ''تان'' ماضی کی طرح پلی بارگین پر ٹوٹے گی۔ یہ طریقہ کار غلط ہے۔
بہرکیف آج ملکی معیشت بری طرح قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔نئی حکومت آنے کے بعد اندرونی و بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہورہا ہے۔ملک میں پیدا ہونی والا ہر بچہ بھی ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ ان قرضوں کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے۔ اندرون اور بیرون ممالک پڑے پاکستانیوں کے ناجائز اثاثے اس قرض سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ اگر ادارے اپنا اپنا کردار قانون اور آئین کی روح کے مطابق ادا کریں' مصلحت اور دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں تو یہ اثاثے ملک میں واپس لائے جاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمے داری حکومت اور اس کے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذاہمیں اس سال کے آغاز میں ہی یہ عہد کرنا ہوگا کہ 2019میں احتساب کے تمام کیسز کو منطقی انجام تک نہ صرف پہنچانا ہے بلکہ لوٹی ہوئی دولت کو بھی ملک میں واپس لانا ہے ناکہ ملزمان کو اپنی کمزور پراسیکیوشن سے کلین چٹ دینی ہے کہ انھیں آیندہ کے لیے دوبارہ کرپشن کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے۔
گزشتہ سال کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ جنرل الیکشن ہوئے، تحریک انصاف کامیاب ہوئی اور مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ 2018 میں پاکستان کے عوام نے تین حکومتیں دیکھیں، پہلے 5ماہ ن لیگ نے، تین ماہ نگران حکومت نے اور آخری چار میں تحریک انصاف نے حکومت کی۔ اس سال کو اگر کرپشن کے خاتمے کے آغاز کا سال قرار دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ پہلی بار عوام نے ''اعلیٰ سطح احتساب'' کی گونج گرج سنی ۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال کے آغاز میں ہی شروع ہوگیا تھاجب یکم فروری کو نوازشریف وزارت عظمیٰ کے بعد اپنی جماعت کی سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا، اس سے قبل 28 جولائی 2017 کو انھیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنا پڑا تھا۔ جس کے نتیجے میں بطور سربراہ ن لیگ نوازشریف کے دستخط سے جاری سینیٹ کے ٹکٹ بھی مسترد کر دیے گئے۔
یوں نواز لیگ کے امیدوار سینیٹ کے چناؤ میں 'آزاد' قرار پائے۔بعد ازاں مسلم لیگ ن کی قیادت کی مشکلات صرف جائیدادوں اور مبینہ کرپشن کی تحقیقات اور جواب دہی تک محدود نہ رہیں بلکہ 9اپریل کو میاں نوازشریف کے متعدد تنظیمی ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ یہ دس پارلیمنٹرینز تھے، جن میں جنوبی پنجاب سے 6 قومی اور دو رکنِ صوبائی اسمبلی نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا، ان کے ساتھ آزاد رکن نصراللہ دریشک نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ مذکورہ ارکان نے ''جنوبی پنجاب صوبہ محاذ'' کے نام سے اتحاد پر متفق ہوئے۔ اس کے بعد نواز شریف کے خلاف گزشتہ ہفتے نیب کی جانب سے دائر کیے گئے بقیہ دو ریفرنسز کا بھی فیصلہ آیا جس میں انھیں العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید اور جرمانے کی سزا ہوئی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں بری کردیا گیا۔ یہ فیصلے بظاہر تو ایسے لگ رہے تھے کہ ان میں عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لیا جائے گا مگر محض چھوٹی موٹی سزاؤں کے بعد یہی لگتا ہے کہ انھیں کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ اب جب کہ مذکورہ ملزمان کے وکلاء سزاؤں کے خلاف اپیل میں جا رہے ہیں تو حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملزمان کو ''ریلیف ''مل جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تھکا دینے والے ''احتسابی شور'' میں کیا 'احتساب' 2018 کے آخری سورج کی طرح کہیں گم ہونے والا ہے؟ کیونکہ ملزمان کے خلاف پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی ریفرنس نہیں بنتا اور اگر بن جاتا ہے تو اُسے صحیح طرح سے Representنہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ملزمان کو ''کلین چٹ'' مل جاتی ہے ۔کیا یہ نیب کی کمزور پراسیکیوشن کامعاملہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ یقینا بدقسمتی ہے کیوں کہ اگر اب کی بار ہم نے کرپشن کے خلاف جنگ ہار دی تو خاکم بدہن اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا۔
اب ہم ''احتساب'' کے شور شرابے کے ساتھ 2019میں داخل ہو رہے ہیں تو یقین مانیں ایک بار پھر کھٹکا سا لگ رہا ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ یا تو پلی بارگین ہوجائے گی یا انھیں بغیر ریفرنس دائر کیے چھوڑ دیا جائے گا۔ پچھلے چند ماہ کے دوران کرپشن ، اختیارات کے ناجائز استعمال یا آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات میں جو ہائی پروفائل شخصیات گرفتار کی گئیں ، ان کے خلاف کئی ماہ گزر جانے کے باوجودنیب نہ تو انکوائریاں مکمل کر سکا ہے اور نہ ہی اِن کے خلاف ریفرنس دائر کر سکا ہے۔
یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ حقائق ہیں ۔ 'حکومت نے احتساب کا نعرہ لگایا جس کا نتیجہ نہیں نکل سکا،صرف تحقیقات اور ریفرنس دائر کرنے کی خبر آتی ہے، نیب کوئی ایک کیس بتائے جو منطقی انجام تک پہنچا ہو،احد چیمہ اور دیگر کی گرفتاری سے کیا ہوا؟کتنی انکوائریاں ہوئیں؟۔اور جب ہم مغربی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں احتساب کے ادارے بہت مضبوط ہیں، تو انھیں یہ اطلاع دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہاں ادارے مضبوط نہیں بلکہ وہاں کی اخلاقیات مضبوط ہیں ، وہاں پر اگر کسی پر الزام لگتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو کسی سرکاری یا عوامی عہدے سے الگ کر لیتا ہے لیکن یہاں جب تک آپ الزامات کو ثابت نہ کردیں یا جوتے مار کر باہر نہ کر دیں، اُس وقت تک چور ڈھٹائی کے ساتھ احتساب اداروں کے سامنے ڈٹا رہتا ہے۔
لہٰذاہمیں عملی اقدامات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اور یہ سمجھنا ہو گا کہ قومی احتساب بیورو ایک سرکاری اور خود مختار ادارہ ہے جس کے فرائض میں ملک میں بدعنوانی، کرپشن کے خاتمے کے لیے ذمے داروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا شامل ہے، ابھی نیب کے سامنے 150 میگا کرپشن کیسز سامنے ہیں، دیگر سیاستدانوں پر کرپشن کیسز ہیں، 92 فیصد کیسز کی انکوائریاں بھی آخری مراحل میں ہیں، ان میں سے اکثر کی بھی ''تان'' ماضی کی طرح پلی بارگین پر ٹوٹے گی۔ یہ طریقہ کار غلط ہے۔
بہرکیف آج ملکی معیشت بری طرح قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔نئی حکومت آنے کے بعد اندرونی و بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہورہا ہے۔ملک میں پیدا ہونی والا ہر بچہ بھی ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ ان قرضوں کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے۔ اندرون اور بیرون ممالک پڑے پاکستانیوں کے ناجائز اثاثے اس قرض سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ اگر ادارے اپنا اپنا کردار قانون اور آئین کی روح کے مطابق ادا کریں' مصلحت اور دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں تو یہ اثاثے ملک میں واپس لائے جاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمے داری حکومت اور اس کے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذاہمیں اس سال کے آغاز میں ہی یہ عہد کرنا ہوگا کہ 2019میں احتساب کے تمام کیسز کو منطقی انجام تک نہ صرف پہنچانا ہے بلکہ لوٹی ہوئی دولت کو بھی ملک میں واپس لانا ہے ناکہ ملزمان کو اپنی کمزور پراسیکیوشن سے کلین چٹ دینی ہے کہ انھیں آیندہ کے لیے دوبارہ کرپشن کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے۔