تحریک انصاف کا مستقبل
پاکستان کی سیاست کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں کچھ بھی مستقل نہیں ہے
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ تحریک انصاف اور پی پی پی کی لڑائی میں پی پی پی کی سندھ حکومت خطرات کا شکار ہے یا تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کو زیادہ خطرہ ہے۔کون کس کو گرا سکتا ہے۔ لیکن پھر عددی اعتبار سے تحریک انصاف کی حکومت جتنی مرضی کمزور لگے لیکن وہ مضبوط ہے۔ جب کہ عددی اعتبار سے پی پی پی کی سندھ حکومت جتنی مرضی مضبوط لگے وہ کمزور ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ فرق کیا ہے۔ فرق سادہ اور صاف ہے۔ جس کے ساتھ مقتدر قوتیں ہیں وہ کمزور ہوتے ہوئے بھی مضبوط ہے اور جس کے ساتھ مقتدر قوتیں نہیں ہیں وہ مضبوط ہوئے بھی کمزور ہے۔ پاکستان کی سیاست کو سمجھنے کے لیے یہ فرق سمجھنا لازمی ہے۔
پاکستان کی سیاست کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور مقتدر قوتوں کی حمائت بھی مستقل نہیں ہے اور ان کی مخالفت بھی مستقل نہیں ہے۔ دن اور رات کی طرح حمائت بھی بدلتی رہتی ہے۔ کل کے لاڈلے آج کے دشمن ہیں اور آج کے لاڈلوں کا دشمن بننے میں بھی کوئی وقت نہیں لگے گا۔ اس صورتحال میں دیکھیں تو کہیں نہ کہیں آپ کو نظرا ٓئے گا کہ تحریک انصاف کے کمزور ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو فیصلہ ساز قوتوں کی سو فیصد حمائت حاصل نہیں رہی۔ ہمیں تحریک انصاف کے سیاسی فیصلے شکست کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جو واضع اشارہ دے رہے ہیں کہ کئی فیصلے تحریک انصاف کے بغیر بھی ہو رہے ہیں۔
جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تھی اس وقت تحریک انصاف کو بادشاہ گر قوتوں کی سو فیصد سے زیادہ حمائت حاصل تھی۔ اسی لیے آزا د منتخب ہونے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی۔ گیم نمبر پورے نہ ہونے کے باوجود وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ پنجاب کی حکومت بھی آسانی سے بن گئی۔ اپوزیشن تقسیم ہو گئی۔ پی پی پی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لی۔ صدارتی انتخاب میں بھی اسی طرح تحریک انصاف کے امیدوار کو محفوظ راستہ دیا گیا۔ پی پی پی نے یکطرفہ ہی اعتزاز احسن کو کھڑا کر دیا جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہر پھل پک کر تحریک انصاف کی جھولی میں گر رہا تھا۔ وہ مٹی کو ہاتھ ڈال رہے تھے وہ سونا بن رہا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
طاقت کے اسی نشے میں تحریک انصاف نے میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ واقعات اور سیاسی تسلسل میں ایک درست فیصلہ تھا۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ پی پی پی اس پر بھی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لیتی۔ اور کہتی کہ اگر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہ بھی بنایا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ن لیگ کو نیا نام دے دینا چاہیے۔ لیکن گیم بدل گئی۔ پی پی پی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد توڑ دی اور اور وہ ن لیگ کے ساتھ آکر کھڑی ہوگئی۔ شائد تحریک انصاف کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن کیا پی پی پی کے اندر یہ تبدیلی کہیں کسی گیم پلان کا حصہ تو نہیں۔ کہیں تحریک انصاف کو کمزور کرنے اور اس کے پر کاٹنے کا عمل بھی تو نہیں شروع ہوگیا۔
آپ پروڈکشن آرڈر کی گیم ہی دیکھ لیں۔ پہلے خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر پر بھی تحریک انصاف سے وہی غلطی ہوئی جو شہباز شریف کی دفعہ کی تھی۔ پہلے اعلان کر دیا کہ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر نہیں جا ری کیے جائیں گے۔ پھر جاری کرا دیے گئے۔ایسالگ رہا ہے کہ کس ایشو پر کیا فیصلہ ہونا ہے حکومت کو علم میں نہیں ہوتا۔
ایک طرف عمران خان اعلان کرتے جا رہے ہیں کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ دوسری طرف شہباز شریف کو ملنے والی مراعات کو دیکھ لیں۔ منسٹر انکلیو ژ میں گھر دیکھیں ۔ سہولیات دیکھیں ، این آر او کیا ہوتا ہے ۔ نواز شریف کو دیکھ لیں ۔ مرضی کی جیل مل گئی۔ ملاقاتوں میں آسانیاں۔ جیل میں سہولیات۔ یہ سب اسی عمران خان کے دور میں ہو رہا ہے جو اس سب کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے۔ جس کا اعلان تھا کہ میں جیل میں ان کو عام قیدی کی طرح رکھوں گا، اس نے شہباز شریف کو مسنٹر انکلیوژرمیں گھر دیا ہوا ۔ اس سب پر تحریک انساف کی چیخیں بھی صاف سنائی دے رہی ہیں۔ صاف نظرا ٓرہا ہے کہ یہ سب فیصلے عمران خان اور تحریک انصاف کی مرضی سے نہیں ہو رہے۔ فیصلے وہیں ہو رہے ہیں جہاں ہوتے ہیں۔
اب پی پی پی کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ اس ضمن میں بھی تحریک انصاف کے پاس کوئی گیم پلان نہیں تھا۔ شائد انھیں سیاسی کام کرنے کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ ابھی تک انھوں نے کوئی بھی سیاسی کام خود کیا ہی نہیں ہے۔ انھیں تو سب کیے کرائے ملتے رہے ہیں۔ انھوں نے تو ہمیشہ پکی پکائی کھیر ہی کھائی ہے۔ ادھر جے آئی ٹی کی رپورٹ آئی ادھر تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے طبل جنگ بجا دیا۔ نہ کوئی تیاری نہ کوئی ہوم ورک۔ بس لڑائی شروع۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔ کیا حکومت کرنے کا یہ طریقہ ہے۔ کیا ایسے حکومت کی جاتی ہے۔ ایسے حکومت نہیں اپوزیشن کی جاتی ہے۔
دوسری طرف بادشاہ گر قوتوں کو حالات اور صورتحال کا علم ہے۔ وہ تحریک انصاف کی طرح اناڑی نہیں ہیں۔ وہ نہ تجربہ کار نہیں ہیں۔ اس لیے صاف نظر آرہا ہے کہہ سندھ کے محاذ پر بھی تحریک انصاف کامیاب نہیں ہوگی۔ مرا د علی شاہ کو ہٹانے کا خواب فی الحال پورا نہیں ہوگا۔ سندھ حکومت کا گرانے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ لیکن تحریک انصاف کے وزراء کو اس کا شائد علم ہی نہیںتھا۔ وہ طاقت کے نشے میں سندھ پر چڑھائی کے لیے بے تاب نظر آرہے تھے۔
تحریک انصاف کی مرکزی حکومت اور حکومتی عہدیداروں کا یہی خیال تھا کہ بس اب سارے گھوڑے ان کے اصطبل میں پہنچ جائیں گے۔ جیسے مرکز اور پنجاب میں جیتنے والے گھوڑے ان کے اصطبل میں پہنچ گئے۔ فاروڑبلاک کی باتیں شروع کر دی گئیں۔ نام سامنے آنے لگ گئے۔ تحریک انصاف کے انتہا ئی ذمے دار لوگوں نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ پی پی پی کے ارکان سندھ اسمبلی ان سے رابطہ میں ہیں۔ نمبر گیم پوری ہے۔ مراد علی شاہ کو ہٹانے کی تیاری مکمل ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے ایسے ہی سندھ کے دورے کا اعلان کر دیا جیسے فاتح مفتوح علاقے کے دورے کا اعلان کرتا ہے۔
ہم جیسے نا عاقبت اندیش بھی یہی سمجھے کہ بس اب پی پی پی کی چھٹی۔ ہمیں یہ دیکھنا اور سوچنا چاہیے تھا کہ جب شریفوں کے ساتھ محدود مفاہمت ہو رہی ہے تو زرداری کے ساتھ بھی محدود مفاہمت ہو سکتی ہے۔ سندھ حکومت کو سارے بحران کے ساتھ بھی چلایا جا سکتا ہے۔ منی لانڈرنگ کے مقدمے کو چلانے کے لیے سندھ حکومت کو گرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مراد علی شاہ کو قائم رکھ کر بھی منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ ہم بھی تحریک انصاف کی ماضی کی طاقت اور کامیابیوں کے تناظر میں ہی تجزیہ کرنے لگ گئے۔
ہمیں بھی یہی لگاکہ سندھ میں بھی پنجاب اور بلوچستان کی طرز پر سیاسی ڈرائی کلین فیکٹری لگ گئی ہے۔ بس لوگ گورنر ہاؤس سندھ پہنچتے جائیں گے اور ایمان لاتے جائیں گے۔ معافی کی غلطیوں کی معافی ملتی جائے گی۔ اور آگے صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کی جائے گی۔ لوگ تو 31دسمبر کو گرفتاریوں کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی یہی امید تھی کہ بس اب یہ گئے۔ اسی لیے طبل جنگ بجا دیا گیا۔ اسی سے مجھے لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں تحریک انصاف اپنی حمایت کھو رہی ہے۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ اب تحریک انصاف کو سیاسی اسکرپٹ کا پتہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کی چال ناکام ہو جاتی ہے۔ اس لیے اﷲ خیر کرے ۔ لوگ تو قومی حکومت کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں کان اور آنکھیں بند رکھ کر یہ کھیل دیکھنا چاہیے۔
پاکستان کی سیاست کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور مقتدر قوتوں کی حمائت بھی مستقل نہیں ہے اور ان کی مخالفت بھی مستقل نہیں ہے۔ دن اور رات کی طرح حمائت بھی بدلتی رہتی ہے۔ کل کے لاڈلے آج کے دشمن ہیں اور آج کے لاڈلوں کا دشمن بننے میں بھی کوئی وقت نہیں لگے گا۔ اس صورتحال میں دیکھیں تو کہیں نہ کہیں آپ کو نظرا ٓئے گا کہ تحریک انصاف کے کمزور ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو فیصلہ ساز قوتوں کی سو فیصد حمائت حاصل نہیں رہی۔ ہمیں تحریک انصاف کے سیاسی فیصلے شکست کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جو واضع اشارہ دے رہے ہیں کہ کئی فیصلے تحریک انصاف کے بغیر بھی ہو رہے ہیں۔
جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تھی اس وقت تحریک انصاف کو بادشاہ گر قوتوں کی سو فیصد سے زیادہ حمائت حاصل تھی۔ اسی لیے آزا د منتخب ہونے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی۔ گیم نمبر پورے نہ ہونے کے باوجود وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ پنجاب کی حکومت بھی آسانی سے بن گئی۔ اپوزیشن تقسیم ہو گئی۔ پی پی پی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لی۔ صدارتی انتخاب میں بھی اسی طرح تحریک انصاف کے امیدوار کو محفوظ راستہ دیا گیا۔ پی پی پی نے یکطرفہ ہی اعتزاز احسن کو کھڑا کر دیا جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہر پھل پک کر تحریک انصاف کی جھولی میں گر رہا تھا۔ وہ مٹی کو ہاتھ ڈال رہے تھے وہ سونا بن رہا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
طاقت کے اسی نشے میں تحریک انصاف نے میاں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ واقعات اور سیاسی تسلسل میں ایک درست فیصلہ تھا۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ پی پی پی اس پر بھی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لیتی۔ اور کہتی کہ اگر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہ بھی بنایا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ن لیگ کو نیا نام دے دینا چاہیے۔ لیکن گیم بدل گئی۔ پی پی پی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد توڑ دی اور اور وہ ن لیگ کے ساتھ آکر کھڑی ہوگئی۔ شائد تحریک انصاف کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن کیا پی پی پی کے اندر یہ تبدیلی کہیں کسی گیم پلان کا حصہ تو نہیں۔ کہیں تحریک انصاف کو کمزور کرنے اور اس کے پر کاٹنے کا عمل بھی تو نہیں شروع ہوگیا۔
آپ پروڈکشن آرڈر کی گیم ہی دیکھ لیں۔ پہلے خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر پر بھی تحریک انصاف سے وہی غلطی ہوئی جو شہباز شریف کی دفعہ کی تھی۔ پہلے اعلان کر دیا کہ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر نہیں جا ری کیے جائیں گے۔ پھر جاری کرا دیے گئے۔ایسالگ رہا ہے کہ کس ایشو پر کیا فیصلہ ہونا ہے حکومت کو علم میں نہیں ہوتا۔
ایک طرف عمران خان اعلان کرتے جا رہے ہیں کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ دوسری طرف شہباز شریف کو ملنے والی مراعات کو دیکھ لیں۔ منسٹر انکلیو ژ میں گھر دیکھیں ۔ سہولیات دیکھیں ، این آر او کیا ہوتا ہے ۔ نواز شریف کو دیکھ لیں ۔ مرضی کی جیل مل گئی۔ ملاقاتوں میں آسانیاں۔ جیل میں سہولیات۔ یہ سب اسی عمران خان کے دور میں ہو رہا ہے جو اس سب کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے۔ جس کا اعلان تھا کہ میں جیل میں ان کو عام قیدی کی طرح رکھوں گا، اس نے شہباز شریف کو مسنٹر انکلیوژرمیں گھر دیا ہوا ۔ اس سب پر تحریک انساف کی چیخیں بھی صاف سنائی دے رہی ہیں۔ صاف نظرا ٓرہا ہے کہ یہ سب فیصلے عمران خان اور تحریک انصاف کی مرضی سے نہیں ہو رہے۔ فیصلے وہیں ہو رہے ہیں جہاں ہوتے ہیں۔
اب پی پی پی کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ اس ضمن میں بھی تحریک انصاف کے پاس کوئی گیم پلان نہیں تھا۔ شائد انھیں سیاسی کام کرنے کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ ابھی تک انھوں نے کوئی بھی سیاسی کام خود کیا ہی نہیں ہے۔ انھیں تو سب کیے کرائے ملتے رہے ہیں۔ انھوں نے تو ہمیشہ پکی پکائی کھیر ہی کھائی ہے۔ ادھر جے آئی ٹی کی رپورٹ آئی ادھر تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے طبل جنگ بجا دیا۔ نہ کوئی تیاری نہ کوئی ہوم ورک۔ بس لڑائی شروع۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔ کیا حکومت کرنے کا یہ طریقہ ہے۔ کیا ایسے حکومت کی جاتی ہے۔ ایسے حکومت نہیں اپوزیشن کی جاتی ہے۔
دوسری طرف بادشاہ گر قوتوں کو حالات اور صورتحال کا علم ہے۔ وہ تحریک انصاف کی طرح اناڑی نہیں ہیں۔ وہ نہ تجربہ کار نہیں ہیں۔ اس لیے صاف نظر آرہا ہے کہہ سندھ کے محاذ پر بھی تحریک انصاف کامیاب نہیں ہوگی۔ مرا د علی شاہ کو ہٹانے کا خواب فی الحال پورا نہیں ہوگا۔ سندھ حکومت کا گرانے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ لیکن تحریک انصاف کے وزراء کو اس کا شائد علم ہی نہیںتھا۔ وہ طاقت کے نشے میں سندھ پر چڑھائی کے لیے بے تاب نظر آرہے تھے۔
تحریک انصاف کی مرکزی حکومت اور حکومتی عہدیداروں کا یہی خیال تھا کہ بس اب سارے گھوڑے ان کے اصطبل میں پہنچ جائیں گے۔ جیسے مرکز اور پنجاب میں جیتنے والے گھوڑے ان کے اصطبل میں پہنچ گئے۔ فاروڑبلاک کی باتیں شروع کر دی گئیں۔ نام سامنے آنے لگ گئے۔ تحریک انصاف کے انتہا ئی ذمے دار لوگوں نے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ پی پی پی کے ارکان سندھ اسمبلی ان سے رابطہ میں ہیں۔ نمبر گیم پوری ہے۔ مراد علی شاہ کو ہٹانے کی تیاری مکمل ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے ایسے ہی سندھ کے دورے کا اعلان کر دیا جیسے فاتح مفتوح علاقے کے دورے کا اعلان کرتا ہے۔
ہم جیسے نا عاقبت اندیش بھی یہی سمجھے کہ بس اب پی پی پی کی چھٹی۔ ہمیں یہ دیکھنا اور سوچنا چاہیے تھا کہ جب شریفوں کے ساتھ محدود مفاہمت ہو رہی ہے تو زرداری کے ساتھ بھی محدود مفاہمت ہو سکتی ہے۔ سندھ حکومت کو سارے بحران کے ساتھ بھی چلایا جا سکتا ہے۔ منی لانڈرنگ کے مقدمے کو چلانے کے لیے سندھ حکومت کو گرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مراد علی شاہ کو قائم رکھ کر بھی منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ ہم بھی تحریک انصاف کی ماضی کی طاقت اور کامیابیوں کے تناظر میں ہی تجزیہ کرنے لگ گئے۔
ہمیں بھی یہی لگاکہ سندھ میں بھی پنجاب اور بلوچستان کی طرز پر سیاسی ڈرائی کلین فیکٹری لگ گئی ہے۔ بس لوگ گورنر ہاؤس سندھ پہنچتے جائیں گے اور ایمان لاتے جائیں گے۔ معافی کی غلطیوں کی معافی ملتی جائے گی۔ اور آگے صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کی جائے گی۔ لوگ تو 31دسمبر کو گرفتاریوں کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی یہی امید تھی کہ بس اب یہ گئے۔ اسی لیے طبل جنگ بجا دیا گیا۔ اسی سے مجھے لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں تحریک انصاف اپنی حمایت کھو رہی ہے۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ اب تحریک انصاف کو سیاسی اسکرپٹ کا پتہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کی چال ناکام ہو جاتی ہے۔ اس لیے اﷲ خیر کرے ۔ لوگ تو قومی حکومت کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں کان اور آنکھیں بند رکھ کر یہ کھیل دیکھنا چاہیے۔