حکومتی طرزعمل اور ملکی حالت
ساتھ ہی ساتھ گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ملک بھر میں اور خاص کر صوبہ سندھ میں ایک خطرناک صورتحال اختیارکرلی ہے
وطن عزیزکی معاشی واقتصادی حالت ویسے تو تقریباً ڈیڑھ سال ہی سے معطل ہوکر رہ گئی لیکن اُس میں مزید گراوٹ اور انحطاط پذیری جس تیزی کے ساتھ جولائی 2018ء کے الیکشن کے بعد دیکھنے میں آئی ہے، اُس سے پہلے شاید کبھی دیکھی نہیں گئی ۔ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر ایک مختصر سے وقت میں پہلے کبھی اتنی گری نہ تھی ۔ ضروریات زندگی کی ہرشے اب عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے باوجود اُن اداروں کی خسارے ہیں کہ کم نہیں ہو پا رہے۔
ساتھ ہی ساتھ گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ملک بھر میں اور خاص کر صوبہ سندھ میں ایک خطرناک صورتحال اختیارکرلی ہے، وہ بحران جوگزشتہ حکومت کی کوششوں سے کسی حد تک ٹل گیا تھا اورپچھلے برس سردیوں کے موسم میں بھی کسی ممکنہ لوڈ شیڈنگ سے بچ گیا تھا، اب ایک بار پھر سر اُٹھانے لگا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری انڈسٹری کا پہیہ رک سا گیا ہے بلکہ گھریلوصارفین کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم سمیت اُس کے تمام وزراء عوام الناس کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپوزیشن سے محاذ آرائی میں الجھے ہوئے ہیں ۔
اُن کی کوئی تقریر اورکوئی بھی بیان اپوزیشن کو لعن و طعن کیے بناء پورا نہیں ہوتا ۔ ایک طرف وہ نیب کو ایک آزاد ادارہ بھی کہتے ہیں اوردوسری جانب اُس کے کاموں میں نہ صرف مداخلت کررہے ہیں بلکہ اُس کی کارگذاریوں کا کریڈٹ بھی از خود لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے احتجاج کرنے کو چیخوں سے تشبیہ دے کر اور انھیں چور ڈاکو کہہ کر نفرت اور اشتعال کووہ مزید ہوا دے رہے ہوتے ہیں ۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی لیکن اُس کی رپورٹ کو وہ اپنی کامیابی گردانتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے یہ سب کچھ انھی کی ایماء پر ہو رہا ہے۔ نیب زدہ اپنے لوگو ں کو کھلی چھوٹ اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کو ای سی ایل میں ڈال کر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں گے۔
ای سی ایل میں ڈالے گئے 172 افراد میں سے بیشتر کا تعلق صرف ایک صوبے سے ہی ہے۔اُن کے اِس عمل سے وہ چھوٹے صوبے جو پہلے ہی احساس محرومی کاشکار ہیں ، وہاں صوبائی منافرت، علاقائی تعصب اور علیحدگی پسند رجحانات کو مزید تقویت پہنچنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔حکمرانوں کو ذرہ بھر احساس نہیں ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ ملک کوکس جانب دھکیل رہے ہیں ۔ احتساب کے نام پر وہ ملک کی وحدت وسالمیت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ اُن کی اِن حرکتوں سے منی لانڈرکیا جانے والا پیسہ تو واپس نہیں آئے گا لیکن وطن عزیز خدانخواستہ خانہ جنگی اور انارکی کاشکار ہوسکتا ہے۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ جب یہ ملک ہی باقی نہیں رہے گا تو پھر ایسے احتساب کا کیا فائدہ ۔کرپشن ساری دنیا میں ہو رہی ہے لیکن کسی ملک نے اُس سے بچنے کے لیے ایسے طریقے اختیار نہیں کیے ہیں ، جیسے ہم آج کل کر رہے ہیں ۔
پاناما لیکس میں ہمارے علاوہ دنیا کے بہت سے ملکوں کا نام بھی شامل تھا ، لیکن کیا وہاں اِس طرح کی کوئی ایک کارروائی بھی کی گئی ۔ ہمارے یہاں جس وزیراعظم کا نام بھی اُس میں براہ راست شامل نہیں تھا اُسے تو ہم نے سپریم کورٹ کے ایک حکم سے پہلے ہی فارغ کردیا ۔ پھر اِس پر بھی بس نہ چلا تو اُسے من پسند افراد پر مشتمل جی آئی ٹی بناکر 11سال قید بامشقت کی سزا بھی سنادی، حالانکہ جب یہ معاملہ اُٹھایا گیا تھا تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پاناما اسکینڈل میں شامل تمام 480 افراد کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ جسے یہ کہہ کر منظور کرلیاگیا کہ چونکہ میاں صاحب وزیراعظم ہیں لہذا سب سے پہلے اُن کے خلاف تحقیقات ہونگی اور پھر باقی دوسروں کے خلاف ۔ لیکن دیکھا یہ گیا کہ صرف ایک شخص کو نشانہ بنا کر اورمطلوبہ مقاصد حاصل کرکے باقی کسی اور کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیںکی گئی ۔
ہمارے ملک میں احتساب کا عمل کبھی بھی اِس لیے کامیاب نہیں ہو پاتا کہ وہ مکمل غیر جانبدارانہ ، بلاامتیاز اور شفاف نہیں ہوتا ۔ احتساب کی آڑ میں ہمیشہ امتیازی اور یکطرفہ سلوک روا رکھا گیا۔ادارے جس کسی کو سزا دینا چاہتے ہیں صرف اُسی کو نشانہ بناکراپنے مقاصد تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن اِس ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں کر پاتے۔ اِس طرح یہ سارا احتسابی عمل مشکوک اور انتقامی شکل اختیارکر جاتا ہے جسے نہ عوام قبول کر پاتے ہیں اور نہ خواص ۔ بلکہ اُلٹا اداروں پر سے لوگوں کا اعتبار مجروح ہوجاتا ہے۔
آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ خان صاحب ببانگ دہل کرپشن کے خلاف جہاد کرنے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن اپنے لوگوں کو اُس سے بچا کر وہ جہاد جیسے مقدس لفظ کو بھی بد نام کرتے پھر رہے ہیں۔ اورتو اور انصاف کی فراہمی پر متعین ادارے بھی حکومتی افراد پر نہ صرف ہلکا ہاتھ رکھ رہے ہیں بلکہ اُن سے مکمل طور پر صرف نظرکرنے کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج یہ شور شرابا ہمارے کانوں کو بے شک اچھا لگ رہا ہو لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اِس طرح کی جانبدارانہ احتساب کی کبھی بھی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہوا کرتی ۔ سال دو سال کے بعدجب ہم اِس کی سحر انگیزی سے باہر نکلیں گے تو پتا چلے گا کہ یہ بھی ایک پرانی قسم کا حربہ تھا جسے اپنے مخالفین کو دبانے اور نیچا دکھانے کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کیاگیا مگر اُس سے حاصل کچھ بھی نہ ہوا ۔
یہاں جب کسی کے خلاف کوئی کارروائی کرنا مقصود ہو، تو اُس کے سارے جرائم کھول کر سامنے رکھ دیے جاتے ہیں اورجسے بچانا ہوتواُس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ ماضی میں ہم نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بھی ایسا ہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ 12مئی 2007ء کے سانحے سے لے کر بلدیہ فیکٹری میں آگ لگانے جیسے کیس تک متحدہ پرکیا کیاالزا م نہیں لگائے گئے لیکن نتیجہ وہی صفرکا صفر ۔ اب نہ وہ کیس کہیں چل رہے ہیں اور نہ کوئی فائل کھلی ہوئی ہے۔جتنے ملزمان پکڑے گئے وہ نہ مجرم گردانے گئے اور نہ معصوم ۔ متحدہ کی شیرازہ بندی کے بعد لگتا ہے وہ سارے کے سارے خاموشی سے چپ چاپ رہا بھی کردیے گئے اورعوام کو اچھا خاصہ بے وقوف بنادیا گیا ۔
ملک کے اندر ہونے والے حالیہ احتساب کی شفافیت کا اندازہ تو اِس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کی خلاف کیے جانے والے تمام کے تمام کیسوں کے فیصلے اُن کے حق میں چلے آرہے ہیں۔ وہ چاہے بنی گالہ میں تجاوزات کا معاملہ ہو یا پھرزلفی بخاری کو اپنا مشیر بنانے کا ۔ دونوں فیصلے اُن کے صوابدیدی اختیارکے حوالے کردیے گئے۔ عدل وانصاف کی ایسی سنہری مثالیں ہمیں بھلا اورکہاں دیکھنا نصیب ہونگی ۔ خان صاحب کے اپنے بنی گالہ کے محل کے لیے منی ٹریل اُن کی سابقہ بیوی کے ایک خط کی صورت میں توقبولیت کا درجہ حاصل کرلے لیکن میاں صاحب کے کیس میں قطری شہزادے کاایسا ہی کوئی خط قابل قبول قرار نہ پائے۔
میاں صاحب پرکرپشن کا ایک الزام بھی ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا لیکن انھیں دو کیسوں میں اٹھارہ سال کی سزا ضرور سنادی گئی ۔ اُن کے بھائی شہباز شریف بھی ایسے ہی مشکوک الزامات کے تحت گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے نیب کی حوالات میں بند ہیں مگرنیب انھیں ابھی تک کرپٹ اور بدعنوان ثابت نہیں کر پایا۔ یہی حال ڈاکٹر عاصم حسین کے کیس میں بھی دیکھا گیا تھا۔ دوسال تک انھیں قید رکھ کر اُن کے مالی معاملات کھنگال ڈالے گئے لیکن حاصل کچھ نہ ہوا اورپھر مجبوراً انھیںرہاکرکے بیرون ملک بھی جانے دے دیاگیا۔متحدہ کے دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرنے اور 480ارب روپے کی کرپشن کے سارے الزامات بھی اُن کی رہائی سے ہوا ہوگئے۔
خان صاحب حکومت میں نئے نئے ہیں اوراُن کی سوچ اوراُن کی فکر میں ابھی سنجیدگی کا بہت بڑا فقدان ہے۔وہ صرف بچکانہ جذبات سے خود کو اور اپنے چاہنے والوں کو بہلا رہے ہیں ۔ اُن کے اِس طریقہ کار اور طرز عمل سے ملک کس طرف جا رہا ہے انھیں اِس کی کوئی پرواہ نہیں۔کراچی ایک بار پھر دہشت گردی کا شکار ہونے لگا ہے اور وہ صرف احتساب کی رعنائیوں اور سحر مستیوں میں کھوئے ہوئے ہیں ۔اُن کی معاشی دانشوروں میںمشتمل اقتصادی ٹیم کا بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوٹ چکا ہے ۔ لیکن انھیںملک کی ابترہوتی مالی حالت کا قطعاً کوئی احساس نہیں ہے۔ افسوس کہ انھیں جب ہوش آئے گا تو جب تک اِس ملک کا بہت کچھ نقصان ہوچکا ہوگا اور وہ اُس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے قبل ازوقت الیکشن کرانے کا ڈول ڈال رہے ہوں گے۔
ساتھ ہی ساتھ گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ملک بھر میں اور خاص کر صوبہ سندھ میں ایک خطرناک صورتحال اختیارکرلی ہے، وہ بحران جوگزشتہ حکومت کی کوششوں سے کسی حد تک ٹل گیا تھا اورپچھلے برس سردیوں کے موسم میں بھی کسی ممکنہ لوڈ شیڈنگ سے بچ گیا تھا، اب ایک بار پھر سر اُٹھانے لگا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری انڈسٹری کا پہیہ رک سا گیا ہے بلکہ گھریلوصارفین کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم سمیت اُس کے تمام وزراء عوام الناس کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپوزیشن سے محاذ آرائی میں الجھے ہوئے ہیں ۔
اُن کی کوئی تقریر اورکوئی بھی بیان اپوزیشن کو لعن و طعن کیے بناء پورا نہیں ہوتا ۔ ایک طرف وہ نیب کو ایک آزاد ادارہ بھی کہتے ہیں اوردوسری جانب اُس کے کاموں میں نہ صرف مداخلت کررہے ہیں بلکہ اُس کی کارگذاریوں کا کریڈٹ بھی از خود لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے احتجاج کرنے کو چیخوں سے تشبیہ دے کر اور انھیں چور ڈاکو کہہ کر نفرت اور اشتعال کووہ مزید ہوا دے رہے ہوتے ہیں ۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی لیکن اُس کی رپورٹ کو وہ اپنی کامیابی گردانتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے یہ سب کچھ انھی کی ایماء پر ہو رہا ہے۔ نیب زدہ اپنے لوگو ں کو کھلی چھوٹ اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کو ای سی ایل میں ڈال کر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں گے۔
ای سی ایل میں ڈالے گئے 172 افراد میں سے بیشتر کا تعلق صرف ایک صوبے سے ہی ہے۔اُن کے اِس عمل سے وہ چھوٹے صوبے جو پہلے ہی احساس محرومی کاشکار ہیں ، وہاں صوبائی منافرت، علاقائی تعصب اور علیحدگی پسند رجحانات کو مزید تقویت پہنچنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔حکمرانوں کو ذرہ بھر احساس نہیں ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ ملک کوکس جانب دھکیل رہے ہیں ۔ احتساب کے نام پر وہ ملک کی وحدت وسالمیت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ اُن کی اِن حرکتوں سے منی لانڈرکیا جانے والا پیسہ تو واپس نہیں آئے گا لیکن وطن عزیز خدانخواستہ خانہ جنگی اور انارکی کاشکار ہوسکتا ہے۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ جب یہ ملک ہی باقی نہیں رہے گا تو پھر ایسے احتساب کا کیا فائدہ ۔کرپشن ساری دنیا میں ہو رہی ہے لیکن کسی ملک نے اُس سے بچنے کے لیے ایسے طریقے اختیار نہیں کیے ہیں ، جیسے ہم آج کل کر رہے ہیں ۔
پاناما لیکس میں ہمارے علاوہ دنیا کے بہت سے ملکوں کا نام بھی شامل تھا ، لیکن کیا وہاں اِس طرح کی کوئی ایک کارروائی بھی کی گئی ۔ ہمارے یہاں جس وزیراعظم کا نام بھی اُس میں براہ راست شامل نہیں تھا اُسے تو ہم نے سپریم کورٹ کے ایک حکم سے پہلے ہی فارغ کردیا ۔ پھر اِس پر بھی بس نہ چلا تو اُسے من پسند افراد پر مشتمل جی آئی ٹی بناکر 11سال قید بامشقت کی سزا بھی سنادی، حالانکہ جب یہ معاملہ اُٹھایا گیا تھا تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پاناما اسکینڈل میں شامل تمام 480 افراد کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ جسے یہ کہہ کر منظور کرلیاگیا کہ چونکہ میاں صاحب وزیراعظم ہیں لہذا سب سے پہلے اُن کے خلاف تحقیقات ہونگی اور پھر باقی دوسروں کے خلاف ۔ لیکن دیکھا یہ گیا کہ صرف ایک شخص کو نشانہ بنا کر اورمطلوبہ مقاصد حاصل کرکے باقی کسی اور کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیںکی گئی ۔
ہمارے ملک میں احتساب کا عمل کبھی بھی اِس لیے کامیاب نہیں ہو پاتا کہ وہ مکمل غیر جانبدارانہ ، بلاامتیاز اور شفاف نہیں ہوتا ۔ احتساب کی آڑ میں ہمیشہ امتیازی اور یکطرفہ سلوک روا رکھا گیا۔ادارے جس کسی کو سزا دینا چاہتے ہیں صرف اُسی کو نشانہ بناکراپنے مقاصد تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن اِس ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں کر پاتے۔ اِس طرح یہ سارا احتسابی عمل مشکوک اور انتقامی شکل اختیارکر جاتا ہے جسے نہ عوام قبول کر پاتے ہیں اور نہ خواص ۔ بلکہ اُلٹا اداروں پر سے لوگوں کا اعتبار مجروح ہوجاتا ہے۔
آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ خان صاحب ببانگ دہل کرپشن کے خلاف جہاد کرنے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن اپنے لوگوں کو اُس سے بچا کر وہ جہاد جیسے مقدس لفظ کو بھی بد نام کرتے پھر رہے ہیں۔ اورتو اور انصاف کی فراہمی پر متعین ادارے بھی حکومتی افراد پر نہ صرف ہلکا ہاتھ رکھ رہے ہیں بلکہ اُن سے مکمل طور پر صرف نظرکرنے کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ آج یہ شور شرابا ہمارے کانوں کو بے شک اچھا لگ رہا ہو لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اِس طرح کی جانبدارانہ احتساب کی کبھی بھی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہوا کرتی ۔ سال دو سال کے بعدجب ہم اِس کی سحر انگیزی سے باہر نکلیں گے تو پتا چلے گا کہ یہ بھی ایک پرانی قسم کا حربہ تھا جسے اپنے مخالفین کو دبانے اور نیچا دکھانے کے لیے بڑی بے دردی سے استعمال کیاگیا مگر اُس سے حاصل کچھ بھی نہ ہوا ۔
یہاں جب کسی کے خلاف کوئی کارروائی کرنا مقصود ہو، تو اُس کے سارے جرائم کھول کر سامنے رکھ دیے جاتے ہیں اورجسے بچانا ہوتواُس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ ماضی میں ہم نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بھی ایسا ہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ 12مئی 2007ء کے سانحے سے لے کر بلدیہ فیکٹری میں آگ لگانے جیسے کیس تک متحدہ پرکیا کیاالزا م نہیں لگائے گئے لیکن نتیجہ وہی صفرکا صفر ۔ اب نہ وہ کیس کہیں چل رہے ہیں اور نہ کوئی فائل کھلی ہوئی ہے۔جتنے ملزمان پکڑے گئے وہ نہ مجرم گردانے گئے اور نہ معصوم ۔ متحدہ کی شیرازہ بندی کے بعد لگتا ہے وہ سارے کے سارے خاموشی سے چپ چاپ رہا بھی کردیے گئے اورعوام کو اچھا خاصہ بے وقوف بنادیا گیا ۔
ملک کے اندر ہونے والے حالیہ احتساب کی شفافیت کا اندازہ تو اِس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کی خلاف کیے جانے والے تمام کے تمام کیسوں کے فیصلے اُن کے حق میں چلے آرہے ہیں۔ وہ چاہے بنی گالہ میں تجاوزات کا معاملہ ہو یا پھرزلفی بخاری کو اپنا مشیر بنانے کا ۔ دونوں فیصلے اُن کے صوابدیدی اختیارکے حوالے کردیے گئے۔ عدل وانصاف کی ایسی سنہری مثالیں ہمیں بھلا اورکہاں دیکھنا نصیب ہونگی ۔ خان صاحب کے اپنے بنی گالہ کے محل کے لیے منی ٹریل اُن کی سابقہ بیوی کے ایک خط کی صورت میں توقبولیت کا درجہ حاصل کرلے لیکن میاں صاحب کے کیس میں قطری شہزادے کاایسا ہی کوئی خط قابل قبول قرار نہ پائے۔
میاں صاحب پرکرپشن کا ایک الزام بھی ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا لیکن انھیں دو کیسوں میں اٹھارہ سال کی سزا ضرور سنادی گئی ۔ اُن کے بھائی شہباز شریف بھی ایسے ہی مشکوک الزامات کے تحت گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے نیب کی حوالات میں بند ہیں مگرنیب انھیں ابھی تک کرپٹ اور بدعنوان ثابت نہیں کر پایا۔ یہی حال ڈاکٹر عاصم حسین کے کیس میں بھی دیکھا گیا تھا۔ دوسال تک انھیں قید رکھ کر اُن کے مالی معاملات کھنگال ڈالے گئے لیکن حاصل کچھ نہ ہوا اورپھر مجبوراً انھیںرہاکرکے بیرون ملک بھی جانے دے دیاگیا۔متحدہ کے دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرنے اور 480ارب روپے کی کرپشن کے سارے الزامات بھی اُن کی رہائی سے ہوا ہوگئے۔
خان صاحب حکومت میں نئے نئے ہیں اوراُن کی سوچ اوراُن کی فکر میں ابھی سنجیدگی کا بہت بڑا فقدان ہے۔وہ صرف بچکانہ جذبات سے خود کو اور اپنے چاہنے والوں کو بہلا رہے ہیں ۔ اُن کے اِس طریقہ کار اور طرز عمل سے ملک کس طرف جا رہا ہے انھیں اِس کی کوئی پرواہ نہیں۔کراچی ایک بار پھر دہشت گردی کا شکار ہونے لگا ہے اور وہ صرف احتساب کی رعنائیوں اور سحر مستیوں میں کھوئے ہوئے ہیں ۔اُن کی معاشی دانشوروں میںمشتمل اقتصادی ٹیم کا بھانڈا بیچ چوراہے پر پھوٹ چکا ہے ۔ لیکن انھیںملک کی ابترہوتی مالی حالت کا قطعاً کوئی احساس نہیں ہے۔ افسوس کہ انھیں جب ہوش آئے گا تو جب تک اِس ملک کا بہت کچھ نقصان ہوچکا ہوگا اور وہ اُس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے قبل ازوقت الیکشن کرانے کا ڈول ڈال رہے ہوں گے۔