منی لانڈرنگ کیس وزیر اعلیٰ سندھ اپنے منصب پر برقرار رہ سکیں گے

کیا وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اپنے منصب پر برقرار رہ سکیں گے اور کیا پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی حکومت بچا سکے گی؟

کیا وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اپنے منصب پر برقرار رہ سکیں گے اور کیا پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی حکومت بچا سکے گی؟

جعلی بینک اکاؤنٹس از خود نوٹس کیس المعروف منی لانڈرنگ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) کی رپورٹ آنے کے فوراً بعد پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو گرانے کی جو کوششیں شروع کی تھیں، سپریم کورٹ کے ریمارکس کے بعد فوری طور پر غیر موثر ہو گئی ہیں اور سندھ میں سیاسی تبدیلی کے لیے جو طوفان کھڑا کیا گیا تھا، وہ تھم گیا ہے۔ لیکن یہ سوال ابھی تک اپنی جگہ موجود ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں آگے جو کارروائی ہو گی، کیا اس سے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اپنے منصب پر برقرار رہ سکیں گے اور کیا پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی حکومت بچا سکے گی؟

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کی گئی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے گذشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 172 اہم شخصیات کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں ڈال دیئے گئے تھے۔

ان میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ، سندھ کے دو وزراء امتیاز احمد شیخ اور مکیش کمار چاولہ، بزنس ٹائیکون ملک ریاض، انور مجید، عبدالغنی انصاری ، ندیم مانڈوی والا، سندھ کے بیورو کریٹس سہیل راجپوت، آغا واصف، ثاقب سومرو، غلام مصطفی پھل، قاضی جان محمد اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔ ای سی ایل میں نام ڈالنے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔

انہوں نے نہ صرف وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا بلکہ ایسی سرگرمیاں شروع کر دیں جن سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ سندھ حکومت کو گرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ گھوٹکی جا کر گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) کے رہنما سردار علی گوہر خان مہر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد بھی یہ تاثر دینا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان سندھ اسمبلی ناراض ہیں اور وہ سردار علی گوہر خان مہر کے رابطے میں ہیں۔


سردار علی گوہر خان مہر پیپلز پارٹی کا فارورڈ بلاک بنانے کے لیے کام کریں گے اور سندھ اسمبلی کے 186 ارکان کے ایوان میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ختم ہو جائے گی۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے گھوٹکی اور پھر کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ کرپٹ لوگوں کی معاونت اور ان کا دفاع کر رہی ہے۔

اس سے سیاسی حلقوں میں خدشہ پیدا ہوا کہ گورنر سندھ آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت صدر مملکت کو رپورٹ دیں گے کہ آئین کے مطابق سندھ میں معاملات نہیں چلائے جا رہے اور صدر مملکت سندھ میں گورنر راج نافذ کر دیں گے۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت خاص طور پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیانات سے بھی یہی لگ رہا تھا کہ وفاقی حکومت سندھ میں کوئی مہم جوئی کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ سندھ میں پی ٹی آئی کی قیادت نے قوم پرست رہنماؤں سے بھی رابطے شروع کر دیئے ہیں تاکہ سندھ حکومت کے خلاف کسی کارروائی کی صورت میں پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ کارڈ استعمال ہو تو اس کا توڑ کیا جائے۔

گذشتہ پیر کو سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے جو ریمارکس دیئے، ان سے پی ٹی آئی کی کوششوں پر پانی پھر گیا۔ چیف جسٹس نے جے آئی ٹی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔ اسے تحقیقات کے لیے کہا گیا تھا، نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے نہیں۔ وزیر اعلی سندھ کا نام ای سی ایل میں ڈال کر ان کی ساکھ کو دھبہ لگایا گیا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی ہدایت کی کہ وفاقی کابینہ ای سی ایل پر نظرثانی کرے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی واضح کیاکہ صرف رپورٹ کی بنیاد پر حکومت گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ کوئی آئین سے باہر نہ نکلے، اگر گورنر راج لگا تو ایک منٹ میں اڑ جائے گا۔

چیف جسٹس کے ان ریمارکس کے بعد پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری اور پی ٹی آئی کے ر ہنماؤں نے یہ وضاحت کی کہ انہوں نے گورنر راج کی کبھی بات نہیں کی ۔ وزیر اعلی سندھ کا نام چونکہ جے آئی ٹی میں شامل تھا، اس لیے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ ایم کیو ایم نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ وہ سندھ حکومت کو گرانے کا حصہ نہیں بنے گی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے دفاعی پوزیشن اختیار نہیں کی۔گذشتہ ہفتے محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت پر گڑھی خدا بخش میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری ، بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے ہر صورت حال کا مطالبہ کرنے کا عندیہ دیا۔ بلاول بھٹو نے عوام سے کہا کہ وہ نئی جنگ کی تیاری کریں۔ گڑھی خدا بخش میں عوام اور کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی اور پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

سندھ میں سیایس تبدیلی کی افواہیں اگرچہ دم توڑ چکی ہیں لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ہونے والی قانونی کارروائی جیسے جیسے آگے بڑھے گی، سیاسی پیچیدگیوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس بات کا احساس پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی ہے۔ منی لانڈرنگ کیس سندھ سمیت پورے ملک کی سیاست پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
Load Next Story