قبائلی علاقے ’پاٹا‘ میں قوانین کا نفاذ صوبائی اسمبلی میں بل منظور

اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو دوبارہ بھی ایوان میں ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی گئی۔

اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو دوبارہ بھی ایوان میں ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی گئی۔

خیبرپختونخوا حکومت کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ پچیسویں آئینی ترمیم کے بعد صوبہ کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کی پرانی حیثیت ختم ہوگئی ہے اور وہ اب صوبہ کا ریگولر حصہ بن گئے ہیں۔

جس کی وجہ سے وہاں مذکورہ آئینی ترمیم سے قبل نافذ قوانین کا تسلسل جاری رکھنا ضروری تھا یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے حکومت نے مذکورہ قوانین کو سابقہ پاٹا میں جاری رکھنے سے متعلق بل اسمبلی سے منظور کرا لیا حالانکہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو دوبارہ بھی ایوان میں ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی گئی۔

تاکہ یہ بل موخر ہوجائے لیکن اس بات کا اندازہ حکومت کو بھی تھا کہ سات مہینوں سے سابقہ پاٹا میں شامل علاقے قوانین کے نفاذ کے بغیر ہی چل رہے ہیں اورکسی بھی وقت کوئی بھی آئینی وقانون پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے جس سے بچنے کے لیے وہاں ماضی میں نافذ قوانین کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو مذکورہ بل ایوان سے منظور کرانا ہی تھا اوراس بات کو مدنظررکھتے ہوئے حکومت نے اپنے ملاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بھرپور طریقے سے اعتماد میں بھی لیا۔

صوبہ کے موجودہ وزیراعلیٰ محمودخان کا اپنا تعلق بھی ملاکنڈ ڈویژن سے ہے اور اگر مذکورہ بل سے ملاکنڈ ڈویژن کو کوئی مسلہ درپیش ہوتا تو یقینی طور پر سب سے پہلے وہ خود اور ان کے ہمراہ صوبہ کے وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی اس پر صدائے احتجاج بلند کرتے تاہم ایسا نہیں ہوا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس بل کے حوالے سے ملاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کے وہاں ٹیکسوں کے نفاذ سے متعلق جو خدشات ہیں۔

وہ درست نہیں کیونکہ پانچ سالوں کے لیے ملاکنڈ ڈویژن کو ٹیکسوں کے نفاذ سے استثنیٰ دیاجا چکا ہے اور یہ استثنیٰ سابقہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت کی جانب سے اقتدار سے رخصت ہونے سے پہلے دیا گیا تھا جبکہ اس وقت تو صوبہ کے ساتھ مرکز میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جو سابقہ فاٹا ہو یا پاٹا،ان میں سے کسی بھی علاقے کو کسی بھی حوالے سے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ اس کی کوشش ہوگی کہ ایسے اقدامات کرے جس سے اس کی گرفت سابقہ فاٹا پر بھی مضبوط ہو سکے اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ ان علاقوں کے لیے معمول سے ہٹ کر اقدامات کیے جائیں ۔

وزیراعظم کے دورہ وزیرستان کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے بھی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا اورصوبائی وزراء نے بھی قبائلی اضلاع کے دورے شروع کردیئے ہیں جس سے یقینی طور پر ان علاقوں کے صوبہ میں عملی طور پر ضم ہونے کی راہ ہموار ہوگی اور ان علاقوں کے باسیوں میں جو احساس تنہائی پایا جاتا ہے اس کاخاتمہ ہوگا۔


صوبائی حکومت کو جہاں قبائلی اضلاع کے لیے مختلف اقدامات سرعت کے ساتھ کرنے ہونگے وہیں بجٹ میں کیے گئے اعلانات اور پھر ساتھ ہی پانچ سالہ ترقیاتی روڈ میپ میں اعلان کردہ اقدامات کے حوالے سے بھی کام شروع کرنا ہوگا کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں سے متعلق پانچ سالہ روڈ میپ کا اعلان ہونے کے بعد سب کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں کہ کب عملی طور پر کام شروع ہوگا؟ جس کے لیے تمام محکموں اورحکومتی ٹیم کے ارکان کو مل کر کام کرنا ہوگا جس کے لیے یقینی طور پر سب ایک ہی صفحے پر ہیں تاہم اس ضمن میں وزیراعلیٰ کو سالانہ ترقیاتی پروگرام کے جائزہ اجلاسوں کی طرز پر پانچ سالہ ترقیاتی روڈ میپ جائزہ اجلاسوں کا انعقاد بھی کرنا ہوگا تاکہ معاملات مناسب رفتار سے چل سکیں۔

چونکہ یہ پانچ سالہ ترقیاتی پروگرام بھی صوبائی حکومت کا ہی ہے اور اسی صوبائی حکومت نے اس پر نظر بھی رکھنی ہوگی تب ہی اس پر عمل درآمد شروع ہو سکے گا تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعلیٰ نے اپنے کاندھوں پر محکموں کے حوالے سے جو اضافی بوجھ اٹھا رکھا ہے اسے وہ اتارتے ہوئے اپنے ساتھیوں میں تقسیم کریں لیکن اس وقت تک صورت حال یہ ہے کہ چاہنے کے باوجود صوبائی کابینہ اور حکومتی ٹیم میں توسیع نہیں ہو پا رہی حالانکہ جن تین شخصیات کے حوالے سے مسلہ سمجھاجا رہا تھا ان کے بھائیوں اور صاحبزادے کو قائمہ کمیٹیوں اور خصوصی ''بندوبست'' کے تحت ایڈجیسٹ کر لیا گیا ہے اور سمجھا یہ گیا کہ اب کابینہ اور حکومتی ٹیم میں توسیع کی راہ صاف ہوگئی ہے۔

جس کے بعد وزیراعظم و پارٹی چیئرمین کی منظوری سے توسیع کر لی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا جسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ مسائل ابھی ختم نہیں ہوئے بلکہ موجود ہیں اور ان پر قابو پانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اطلاعات یہ بھی موجود ہیں کہ جن کے حوالے سے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ انھیں ٹھکانے لگا دیا گیا ہے وہ مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ خود بھلے صوبائی حکومت اور صوبہ کے معاملات میں شامل ہوں یا نہ ہوں اپنے خاندان کے افراد کے توسط سے وہ شامل رہیں۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو وزیراعظم عمران خان سے رجوع کرنا پڑے گاکیونکہ ان کی مداخلت کے بغیر اندرونی طور پرجو مشکلات پائی جاتی ہیں وہ شاید ہی ختم ہو پائیں اور جب وزیراعظم پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے اس معاملے میں مداخلت کرینگے تو نہ صرف یہ کہ دو وزراء کو شامل کرتے ہوئے کابینہ کو مکمل کیاجا سکے گا بلکہ ساتھ ہی تین مشیروں اور معاونین خصوصی کی تقرری کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی،اسی صورت حال کی وجہ سے اب تک پارلیمانی سیکرٹریوں کی تقرری بھی نہیں ہوسکی۔

گو کہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ شاید اس مرتبہ یا تو پارلیمانی سیکرٹریوں کی تقرری کی ہی نہ جائے اور اگر کی بھی گئی تو صرف ان ہی محکموں کے لیے کی جائے گی جن کے بارے میں حکومت ضرورت محسوس کرے گی تاہم اس حوالے سے حکومت جو بھی پالیسی اپناتی ہے اس کا فیصلہ ممکنہ طور پر کابینہ اور حکومتی ٹیم میں توسیع کے بعد ہی ہو پائے گا حالانکہ اراکین اسمبلی کی جانب سے پارلیمانی سیکرٹریوں کی تقرری کے حوالے سے دباؤ موجود ہے کہ یہ کام فوری طور پر کیا جائے۔اس وقت متحدہ مجلس عمل کی صورت حال یہ ہے کہ عام انتخابات کے بعد ایم ایم اے پارلیمان کی حد تک تو موجود ہے کیونکہ اس میں شامل جماعتوں کے جو ارکان انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں وہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن اس سے ہٹ کر ایم ایم اے منظر سے غائب ہے۔

جمعیت علماء اسلام (ف) ملین مارچ کے نام پر ملک کے مختلف شہروں میں اجتماعات کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اب27 جنوری کو جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اپنے ہوم ڈسٹرکٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں ملین مارچ کا انعقاد کرتے ہوئے شوآف پاور کرنا چاہتے ہیں تاہم ملین مارچ کے نام پر منعقد ہونے والے یہ اجتماعات صرف اور صرف جمعیت علماء اسلام (ف) ہی کے پروگرامات ہیں ان میں نہ تو جماعت اسلامی شریک نظر آتی ہے اور نہ ہی ایم ایم اے میں شامل دیگر جماعتیں جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی کے مرکزی اور صوبائی امراء جن پروگراموں کا انعقاد کر رہے ہیں وہ بھی صرف جماعت اسلامی ہی کے پروگرام ہیں جس کو دیکھتے ہوئے کہاجا سکتا ہے کہ عملی طور پر ایم ایم اے ایک مرتبہ پھر کوما کی حالت میں چلا گیا ہے کیونکہ اس کی ضرورت صرف عام انتخابات کی حد تک محسوس کی گئی تھی اورعام انتخابات میں اس کا استعمال کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس سے جان چھڑالی گئی ہے جس سے یقینی طور پر کوئی اچھا پیغام نہیں جا رہا۔

اس سال کے دوران نہ صرف یہ کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے بلکہ ساتھ ہی قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات بھی منعقد ہونگے جن کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کو بھرپور تیاری کرنی ہوگی اس لیے اگر ایم ایم اے یونہی بکھرا رہا تو اس صورت میں جے یوآئی (ف)اور جماعت اسلامی کو بلدیاتی انتخابات ہوں یا چاہے قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات، ان کے لیے ان دونوں پارٹیوں کو اپنے طور پر مختلف جماعتوں کے ساتھ ایڈجیسٹمنٹ کرنی ہوگی جس سے بچنے اور مذہبی جماعتوں کو یکجا رکھنے کے لیے ایم ایم اے میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں جے یوآئی(ف) اور جماعت اسلامی کو مشترکہ طور پر بھی مختلف پروگراموں اور جلسوں کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ اتحاد کو تقویت بھی ملے اور یہ چلتا بھی رہے۔
Load Next Story