محترمہ فاطمہ جناح کی برسی خاموشی سے گزر گئی ہم پاکستان بنانیوالوں کو بھول گئے ہیں
ملک میں مسلم لیگ کی حکومت ہونے کے باوجود جمہوریت کے چمپیئنز کو خراج عقیدت پیش کرنے کی توفیق تک نہ ہوئی
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ اور محترمہ فاطمہ جناح ؒکی برسی خاموشی سے گزر گئی۔
ملک میں مسلم لیگ کی حکومت ہونے کے باوجود جمہوریت کے چمپیئنز کو خراج عقیدت پیش کرنے کی توفیق تک نہ ہوئی، فاطمہ جناحؒ وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور انہیں مادر ملت کا خطاب دیا گیا، مرحومہ پاکستان کی پہلی خاتون سیاستدان تھیں جنہوں نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو چیلنج کیا تھا، آپ قائداعظم ، مادر ملت ، شہید لیاقت علی خان، مزار اقبال پر پڑی '' وزیٹرز بک '' کو دیکھیں تو گہر ا صدمہ ہو گا، صدر، وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور گورنرز کے حلف اٹھانے کے بعد یا مرحومین کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر ان کے مزاروں پر رسمی حاضری دی جاتی تھی، لیکن اب ہمارے رہنمائوں نے یہ تکلف بھی ختم کر دیا ہے، فاطمہ جناح ؒکوئی عام خاتون نہ تھیں۔
انہوں نے اپنے بھائی قائداعظم محمدعلی جناح ؒکے کندھا سے کندھا ملا کر قیام پاکستان کیلئے دن رات جدوجہد کی ، وہ صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے مقابلے میں اپوزیشن کی متففقہ امیدوار بنیں، مذہبی قائدین جو عورت کی قیادت کیخلاف تھے انہوں نے بھی محترمہ کو لیڈر تسلیم کیا، اس لئے توقع تھی کہ حکومتی اور اپوزیشن رہنما مرحومہ کے یوم وفات پر ان کے مزار پر حاضری دیں گے ، لیکن ہم تو شاید قائد اعظم ؒکو بھی بھول چکے ہیں مادرملت کی کیا بات کریں؟ حکومتی عہدیدار حلف اٹھانے کے بعد ان کے مزار پر حاضری اب ضروری نہیں سمجھتے، اپنی جماعت کو 1906 میںقائم ہونیوالی مسلم لیگ کا تسلسل سمجھے والے مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد ابھی تک مزارقائد پر حاضر نہیں ہوئے، چین کے دورہ سے واپسی کے باوجود ان کے شیڈول میں مزار قائد پر حاضری شامل نہیں۔
شاید وہ کسی وقت معمول کے دورہ پر کراچی آئیں تو مزار قائد پر بھی حاضری کی رسم پوری کر دیں، نواز شریف کوئٹہ کا دورہ کرنے کے باوجود قائد اعظمؒ کی تباہ حال قیام گاہ کا جائزہ لینے کیلئے زیارت نہ جا سکے، دوسری طرف صدر زرداری نے بانیان پاکستان کے مزار پر اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کتنی بار حاضری دی، اس حوالے سے وزیٹرز بک کا ریکارڈ دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے ، ادھر سند ھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ شہر میں ہونے کے باوجود مزار قائد تک نہیں پہنچے البتہ انہوں نے لیاری میں پارٹی استقبالیہ میں شمولتت کو ترجیح ضرور دی، اگلے ماہ یوم آزادی آ رہا ہے پھر ستمبر میں قائد اعظم کا یوم وفات آ رہا ہے شاید ان دنوں مزار قائد پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب ہو پھر کوئی لیڈر بھی مزار پر حاضری دے، بہرکیف موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ ہم فادر آف نیشن اور مدر آف نیشن دونوں کو بھول چکے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے۔
ملک میں مسلم لیگ کی حکومت ہونے کے باوجود جمہوریت کے چمپیئنز کو خراج عقیدت پیش کرنے کی توفیق تک نہ ہوئی، فاطمہ جناحؒ وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا اور انہیں مادر ملت کا خطاب دیا گیا، مرحومہ پاکستان کی پہلی خاتون سیاستدان تھیں جنہوں نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو چیلنج کیا تھا، آپ قائداعظم ، مادر ملت ، شہید لیاقت علی خان، مزار اقبال پر پڑی '' وزیٹرز بک '' کو دیکھیں تو گہر ا صدمہ ہو گا، صدر، وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور گورنرز کے حلف اٹھانے کے بعد یا مرحومین کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر ان کے مزاروں پر رسمی حاضری دی جاتی تھی، لیکن اب ہمارے رہنمائوں نے یہ تکلف بھی ختم کر دیا ہے، فاطمہ جناح ؒکوئی عام خاتون نہ تھیں۔
انہوں نے اپنے بھائی قائداعظم محمدعلی جناح ؒکے کندھا سے کندھا ملا کر قیام پاکستان کیلئے دن رات جدوجہد کی ، وہ صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے مقابلے میں اپوزیشن کی متففقہ امیدوار بنیں، مذہبی قائدین جو عورت کی قیادت کیخلاف تھے انہوں نے بھی محترمہ کو لیڈر تسلیم کیا، اس لئے توقع تھی کہ حکومتی اور اپوزیشن رہنما مرحومہ کے یوم وفات پر ان کے مزار پر حاضری دیں گے ، لیکن ہم تو شاید قائد اعظم ؒکو بھی بھول چکے ہیں مادرملت کی کیا بات کریں؟ حکومتی عہدیدار حلف اٹھانے کے بعد ان کے مزار پر حاضری اب ضروری نہیں سمجھتے، اپنی جماعت کو 1906 میںقائم ہونیوالی مسلم لیگ کا تسلسل سمجھے والے مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف تیسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد ابھی تک مزارقائد پر حاضر نہیں ہوئے، چین کے دورہ سے واپسی کے باوجود ان کے شیڈول میں مزار قائد پر حاضری شامل نہیں۔
شاید وہ کسی وقت معمول کے دورہ پر کراچی آئیں تو مزار قائد پر بھی حاضری کی رسم پوری کر دیں، نواز شریف کوئٹہ کا دورہ کرنے کے باوجود قائد اعظمؒ کی تباہ حال قیام گاہ کا جائزہ لینے کیلئے زیارت نہ جا سکے، دوسری طرف صدر زرداری نے بانیان پاکستان کے مزار پر اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کتنی بار حاضری دی، اس حوالے سے وزیٹرز بک کا ریکارڈ دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے ، ادھر سند ھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ شہر میں ہونے کے باوجود مزار قائد تک نہیں پہنچے البتہ انہوں نے لیاری میں پارٹی استقبالیہ میں شمولتت کو ترجیح ضرور دی، اگلے ماہ یوم آزادی آ رہا ہے پھر ستمبر میں قائد اعظم کا یوم وفات آ رہا ہے شاید ان دنوں مزار قائد پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب ہو پھر کوئی لیڈر بھی مزار پر حاضری دے، بہرکیف موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ ہم فادر آف نیشن اور مدر آف نیشن دونوں کو بھول چکے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے۔