پشاورمیں آئی جی اسلام آباد کی بہو کے قتل کا مقدمہ درج بھائی اور بھاوج گرفتار
میں آئی جی خیبر پختونخوا سے لے کر محرر تک گیا لیکن کسی نے بھی میری بہو کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی، بنیامین
آئی جی اسلام آباد پولیس بن یامین کی بہو وحیدہ بی بی کے قتل کی ایف آئی آر یونیورسٹی ٹاون تھانہ پشاور میں درج کرلی گئی، پولیس نے قتل میں نامزد بھائی اور بھاوج کو گرفتار کر لیا۔
آئی جی اسلام آباد پولیس بن یامین کی بہو وحیدہ بی بی عرف پلوشہ 19 مئی کو پشاور میں واقع اپنے میکے میں پراسرار طور پر جاں بحق ہوگئی تھیں، پوسٹ مارٹم پورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وحیدہ بی بی کی موت کی وجہ تشدد یا زہر نہیں ہے ان کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد وحیدہ بی بی کی والدہ زاہدہ بی بی نے وقوعہ کے 2 ماہ بعد مقتولہ کے والد دریا خان، بھائی خالد اور بھاوج فوزیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی، جس پر پشاور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مقتولہ کے بھائی خالد اور اس کی بیوی فوزیہ کو گرفتار کر لیا۔
دوسری جانب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آئی جی اسلام آباد بن یامین کی بہو کے قتل کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ وحیدہ بی بی کی موت طبی نہیں تھی اس بنیاد پر ایف آئی آر درج ہونا چاہئے تھی، ان کا کہنا تھا کہ 19 مئی کو واقعہ پیش آیا پھر ایف آئی آر 10جولائی کو کیوں درج کی گئی، جس پر آئی جی خیبر پختونخوا کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ وحیدہ بی بی کے جسم پر تشدد کے نشان نہیں تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کا مقدمہ درج نہ کرنے کا رویہ قابل تذلیل ہے ،پولیس کو حق نہیں کہ وہ مقدمہ درج نہ کرے، ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا مقدمے میں اثر انداز ہونے کا مقصد شواہد کا ضائع کرنا ہے، عدالت نے خیبر پختونخوا حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت نے اب تک کیا کاروائی عمل میں لائی ہے، جس پر آئی جی خیبر پختونخوا کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ پولیس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ شواہد ضائع ہوں۔
اس موقع پر آئی جی اسلام آباد بن یامین نے عدالت میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایک تو میری بہو چل بسی، دوسری عزت بھی سربازار نیلام ہوئی، میں نے جب بہو کی نعش دیکھی تو مجھے لگا اس کو زہر دیا گیا ہے اور جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں آئی جی خیبر پختونخوا سے لے کر محرر تک گیا لیکن کسی نے بھی میری بہو کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو تحریری طور پر آئی جی کے پی کے کو مقدمہ درج کرنے کا کہنا چاہیے تھا، اس موقع پر ایس پی اسلام آباد جمیل ہاشمی نے بھی سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرادیا، ان کا کہنا تھا کہ واقعہ میں ان کا کوئی کردارنہیں ہے، عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آئی جی اسلام آباد پولیس بن یامین کی بہو وحیدہ بی بی عرف پلوشہ 19 مئی کو پشاور میں واقع اپنے میکے میں پراسرار طور پر جاں بحق ہوگئی تھیں، پوسٹ مارٹم پورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وحیدہ بی بی کی موت کی وجہ تشدد یا زہر نہیں ہے ان کی موت دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد وحیدہ بی بی کی والدہ زاہدہ بی بی نے وقوعہ کے 2 ماہ بعد مقتولہ کے والد دریا خان، بھائی خالد اور بھاوج فوزیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی، جس پر پشاور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مقتولہ کے بھائی خالد اور اس کی بیوی فوزیہ کو گرفتار کر لیا۔
دوسری جانب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آئی جی اسلام آباد بن یامین کی بہو کے قتل کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ وحیدہ بی بی کی موت طبی نہیں تھی اس بنیاد پر ایف آئی آر درج ہونا چاہئے تھی، ان کا کہنا تھا کہ 19 مئی کو واقعہ پیش آیا پھر ایف آئی آر 10جولائی کو کیوں درج کی گئی، جس پر آئی جی خیبر پختونخوا کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ وحیدہ بی بی کے جسم پر تشدد کے نشان نہیں تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کا مقدمہ درج نہ کرنے کا رویہ قابل تذلیل ہے ،پولیس کو حق نہیں کہ وہ مقدمہ درج نہ کرے، ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا مقدمے میں اثر انداز ہونے کا مقصد شواہد کا ضائع کرنا ہے، عدالت نے خیبر پختونخوا حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت نے اب تک کیا کاروائی عمل میں لائی ہے، جس پر آئی جی خیبر پختونخوا کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ پولیس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ شواہد ضائع ہوں۔
اس موقع پر آئی جی اسلام آباد بن یامین نے عدالت میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایک تو میری بہو چل بسی، دوسری عزت بھی سربازار نیلام ہوئی، میں نے جب بہو کی نعش دیکھی تو مجھے لگا اس کو زہر دیا گیا ہے اور جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں آئی جی خیبر پختونخوا سے لے کر محرر تک گیا لیکن کسی نے بھی میری بہو کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو تحریری طور پر آئی جی کے پی کے کو مقدمہ درج کرنے کا کہنا چاہیے تھا، اس موقع پر ایس پی اسلام آباد جمیل ہاشمی نے بھی سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرادیا، ان کا کہنا تھا کہ واقعہ میں ان کا کوئی کردارنہیں ہے، عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔