ڈاکٹر سلیم اختر

آداب کی نزاکتوں کو نہ صرف اچھی طرح سے سمجھتے ہیں بلکہ ان پر عمل کرکے بھی دکھاتے ہیں

Amjadislam@gmail.com

ارادہ تو یہی تھا کہ 2019کا پہلا کالم ان امیدوں کے حوالے سے لکھا جائے جو کسی نہ کسی حوالے سے اس سے وابستہ کی جاسکتی ہیں مگر ایک بار پھر دسمبر کی ستمگاری آڑے آئی۔ 30دسمبر کی شام کو اردو کے مشہور محقق، نقاد، افسانہ نگار اور سب سے بڑھ کر ایک بہت عزیز سینئر دوست ڈاکٹر سلیم اختر کے انتقال کی خبر آئی مگر ابھی ان کے جنازے میں شرکت کرکے گھر واپس پہنچا ہی تھا کہ کراچی سے برادرم محمد اشرف شاہین نے اپنے اسکول فیلو اور ہمارے مشترکہ دوست شیخ محمد ادریس کی رحلت کی اطلاع دی۔ دونوں دوست بہت عرصے سے صاحب فراش تھے اور اس قدر علیل تھے کہ ان کے تمام وابستگان ذہنی طور پر اس خبر کے لیے تیار بھی تھے مگر ذہنی تیاری اور عملی واقفیت میں جو فرق ہوتا ہے وہ ایسے موقعوں پر بہت کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ سو صورتحال یہ ہے کہ 72 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی دونوں مرحومین کی شکلیں بار بار آنکھوں میں لہرا سی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر سلیم اختر کی خودنوشت سوانح عمری ''نشان جگر سوختہ'' کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ایک سیلف میڈ انسان تھے اور انھیں یہ عزت کسی اتفاق سے نہیں بلکہ بہت محنت، مسلسل کوشش اور اپنے آپ پر مکمل اعتماد کی وجہ سے ملی ہے۔ سنگ میل پبلی کیشنز کے شو روم میں ان کی لکھی ہوئی کتابوں کا بہت بڑا گوشہ معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے مثالی کہا جاسکتا ہے۔

وہ عام زندگی میں بہت ہنس مکھ اور کم گو لیکن خوش گفتار آدمی تھے مگر جہاں تک اپنے نظریات سے کمٹمنٹ اور دوست داری کا تعلق ہے وہ غیر معمولی طور پر مضبوط اعصاب کے مالک اور یاریاں نبھانے کے قائل تھے اور یوں ان کی دشمنیاں اور نظریاتی وابستگی بھی آخر دم تک ان کی شخصیت کا ایک اہم حصہ بنے رہے۔ ان کا مطالعہ پہلے بھی بہت وسیع اور متنوع تھا لیکن جب سے انھوں نے اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کا ڈول ڈالا وہ گنتی کے ان چند لوگوں میں بھی سرفہرست ہوگئے جو معاصر ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ پورے سال میں چھپنے والی ہر اچھی بری اور چھوٹی بڑی کتاب کا مطالعہ تو ایک طرف ان کا ریکارڈ رکھنا بھی اپنی جگہ پر ایک تقریباً ناممکن کام ہے لیکن ڈاکٹر سلیم اختر نے نہ صرف اس ناممکن کو ممکن کردکھایا بلکہ اردو تنقید میں ایک نئی روایت کا آغاز بھی کیا کہ ہر سال جنوری میں وہ سال گزشتہ میں چھپنے والی کتابوں کا نہ صرف احاطہ کرتے تھے بلکہ زیادہ اہم کتابوں کے بارے میں ایک ایسی جچی تلی تنقیدی رائے کا بھی اظہار کرتے تھے جس سے اس کتاب کا مطالعہ بیک وقت آسان اور توجہ طلب ہوجاتا تھا۔

ان کی طویل تدریسی زندگی کا بیشتر حصہ ایم اے اردو کی کلاسوں کو پڑھاتے گزرا۔ چنانچہ بطور استاد اور نقاد تو ان کی شخصیت اور کام کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان کے تخلیقی جوہر یعنی افسانہ نگاری پر نسبتاً بہت کم توجہ دی گئی۔ نفسیات اور بالخصوص جنسی نفسیات ایسے شعبے ہیں جو ہمارے ادب میں بوجوہ ایک متنازع اور ممنوعہ موضوع رہے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں اردو زبان و ادب کی حد تک منٹو کے بعد شاید ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانے ہی ایسے ہیں جنھیں عالمی ادب کے سامنے اعتماد کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔

انھوں نے بعض بہت نازک اور انوکھے موضوعات پر بہت کمال کی کہانیاں لکھی ہیں۔ نفسیات، نئے پن اور اظہار کی آزادی سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنے بچوں کے نام بھی ''جودت' اور ''سائیکی'' رکھے جو ان سے پہلے اگر کسی نے رکھے ہوں تو یہ کم از کم میرے علم سے باہر ہے۔ دیکھنے میں وہ قدرے طویل قامت اور خوش وضع انسان تھے۔ مبارک احمد مرحوم کی طرح وہ بھی ان چند دور جدید کے لکھاریوں میں سے تھے جنہوں نے سائیکل کی سواری کے ساتھ تعلق کو ہر طرح کی بہتر سواری کے حصول کے باوجود ہمیشہ قائم رکھا۔ کبھی اپنے آپ کو محفل میں دانستہ طور پر نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے مگر اس کے باوجود ہر محفل میں ان کی موجودگی کا احساس غالب رہتا تھا۔ میں نے کئی ٹی وی پروگراموں اور ادبی مذاکروں میں ان کے ساتھ شرکت کی ہے اور ان کو اس بہت محدود گروہ میں پایا ہے جو دوسرے کو اپنی بات کرنے کا پورا موقع دیتے ہیں اور اختلاف رائے کے آداب کی نزاکتوں کو نہ صرف اچھی طرح سے سمجھتے ہیں بلکہ ان پر عمل کرکے بھی دکھاتے ہیں۔


وہ گزشتہ تقریباً دو سال سے فالج سمیت کئی امراض میں مبتلا تھے جسکی وجہ سے ان کا آنا جانا اور گھر سے نکلنا بہت محدود ہوگیا تھا جو ان کے لیے اس وجہ سے اور زیادہ تکلیف دہ تھا کہ وہ فطری طور پر مجلس اور تحرک کو پسند کرتے تھے۔ بیماری کی اس نوعیت اور طوالت نے ان کی خوش گفتاری، مطالعے کی عادت اور محفل پسندی کو بھی بہت بری طرح سے متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے آخری دنوں میں ان کے مزاج میں تلخی اور ڈپریشن کا اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا اور کچھ قریبی دوستوں کے مطابق وہ کبھی کبھی اس طرح کی زندگی پر خودکشی کو ترجیح دینے کی باتیں بھی کرنے لگے تھے۔

اس دوران میں میری ان سے بہت کم ملاقات رہی کہ زیادہ تر فون پر ہی بات ہوجاتی تھی جو عام طور پر حال چال پوچھنے یا کسی موضوع یا کتاب کے بارے میں کسی انفارمیشن تک محدود رہتی تھی۔ اس لیے میں اس بات کی تردید یا تائید کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اپنے کسی عزیز اور بالخصوص خوش گفتار اور زندگی سے بھر پور انسان کو ایسی بے بسی کی حالت میں دیکھنا میرے لیے ایک بہت مشکل کام ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے آنے سے متعلقہ شخص وقتی طور پر ہی صحیح خوش اور پرسکون ہوگا میں ایسا کرنہیں پاتا۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی میت کے سرہانے سائیکی بیٹی اور عزیزی جودت کے ساتھ کھڑے ہونے کے دوران بھی یہ احساس بار بار ذہن کو کچوکے دیتا رہا کہ مجھے ان سے مسلسل ملتے رہنا چاہیے تھا۔

ڈاکٹر سلیم اختر کی سو کے قریب کتابوں کا ذخیرہ اب ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ اردو دنیا کے لیے بھی ایک قیمتی ورثہ ہے کہ ایسے مسلسل اور بھرپور لکھنے والے اب اگلے وقتوں کی باتوں جیسے ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی اس محنت کا صلہ بلاشبہ ان کی زندگی میں بھی عزت، مقبولیت اور محبت کی شکل میں کسی نہ کسی حد تک انھیں ملتا رہا لیکن اب وقت ہے کہ ان کے کام کو وہ مقام دیا جائے جس کا وہ صحیح معنوں میں حق دار ہے اور ان کے نام کو زندہ اور محفوظ رکھا جائے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن پر یہ مصرعہ بالکل صادق آتا ہے کہ

اے اہل زمانہ قدر کرو

نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم
Load Next Story