روزہ میرا ایمان ہے غالبؔ لیکن
روزہ خور لوگ بس افطاری میں حصہ بٹا کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے روزہ داروں کے ثواب میں حصہ بٹا لیا ہے۔
وہ مہینہ جس کا بہت انتظار تھا بالآخر آن ہی پہنچا۔ ویسے اس مہینے کے سلسلے میں انتظار کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ارے ہمارے ہجری مہینوں میں یہی تو ایک مہینہ ہے جس کا بطور خاص انتظار کیا جاتا ہے۔ خیر صوم و صلوۃ کے پابند لوگ تو اپنے جوش دینداری میں اس مہینے کا انتظار کرتے ہیں مگر وہ لوگ بھی تو ہیں جو اپنے تصور افطار کے ساتھ اس مبارک مہینے کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم روزہ داروں کے ساتھ افطاری میں شریک ہو کر تھوڑے بہت ثواب کے حقدار بن جائیں گے۔ ثواب کے حقدار بنیں نہ بنیں بہر حال بقدر لب و دنداں روزہ داروں کی افطاری میں حصہ بٹانے کے حقدار ضرور بن جاتے ہیں۔ سو روایت رمضان کی یہ چلی آ رہی ہے کہ صوم و صلوۃ کے پابند شرفا روزے رکھتے ہیں' تراویح پڑھتے ہیں اور بقدر ضرورت افطاری اور سحری کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ روزہ خور لوگ بس افطاری میں حصہ بٹا کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے روزہ داروں کے ثواب میں حصہ بٹا لیا ہے۔
روزہ نہ رکھنے کے سو بہانے۔ صاحب کیا کیا جائے بیماری پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ یا یہ کہ ہم تو ان دنوں حالت سفر میں ہیں۔ کچھ بہانے غالبؔ نے یاروں کے لیے مہیا کیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے؎
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
چلیے یہاں تک مان لیا مگر کھانے پینے کا بندوبست ہو تو پھر روزہ نہ رکھنے کا کیا جواز ہے۔ غالبؔ نے ایسوں کے لیے بھی جواز مہیا کر دیا ہے؎
سامان خور و خواب کہاں سے لاؤں
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں
روزہ مرا ایمان ہے غالبؔ' لیکن
خس خانہ و برفاب کہاں سے لاؤں
غالبؔ کے زمانے میں گرمیوں کے تپتے دنوں میں آرام کے منجملہ اسباب میں سب سے بڑھ کر خس خانہ و برفاب ہی تھے۔ اور ہاں اے سی فریج کا ٹھنڈا پانی اور بجلی کا پنکھا۔ لیکن لوڈشیڈنگ نے آرام کے ان اسباب کا سارا مزہ کر کرا کر دیا۔ ایک بجلی کے نہ آنے سے آرام کے سارے اسباب معطل ہو جاتے ہیں۔ پھر تو خس خانہ و برفاب کا زمانہ ہی خوب بلکہ بہت خوب تھا۔ اس زمانے میں آرام کے جیسے کیسے بھی اسباب تھے ان میں اس طرح کی کھنڈت نہیں پڑتی تھی جیسی ہمارے زمانے میں پڑتی ہے۔ ارے وہ زمانہ کتنا اچھا زمانہ تھا کہ اس زمانہ میں واپڈا نام کا کوئی بکھیڑا نہیں تھا۔ نہ لوڈشیڈنگ کا ٹنٹا نہ پانی کی قلت کا جھگڑا۔ کنوئیں موجود تھے۔ بس گھر میں ایک ڈول اور رسی ہونی چاہیے۔ پھر اگر سقا آئیں بائیں شائیں کرے تو اسے بھی ڈول رسی کی مار مار سکتے تھے۔ اور گھروں میں لیمپ نہیں تو لالٹین تو لازمی ہوا ہی کرتی تھی۔ ویسے تو غریب غربا مٹی کے دیے سے بھی کام چلا لیتے تھے۔ ہمیں تو اس نئی روشنی نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ نئی روشنی کیا خوب آئی کہ اس کے ساتھ لوڈشیڈنگ کا دم چھلا بھی آ گیا۔ بس؎
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
چراغ گل۔ بتی غائب۔ ادھر پنکھے نے بھی جواب دیدیا۔ سمجھ لیجیے کہ یہ نیا ظلمات ہے۔
ہاں لیجیے اب کے جو بلاکشوں نے رمضان کا پچھلے برسوں سے بڑھ کر انتظار کیا تھا اس کی وجہ بھی سن لیجیے۔ نوآمدہ حکومت کی طرف سے ایک مژدہ سننے میں آیا تھا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں بجلی نہیں جائے گی۔ یعنی یہ ثواب کمانے کا مہینہ ہے۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب معطل رہے گا۔ بس پھر کیا تھا۔ سوکھے دھانوں پہ پانی پڑ گیا۔ وہ لوگ بھی جو روزے سے دم چراتے تھے کس بیتابی سے رمضان کا انتظار کر رہے تھے۔ مگر رمضان کے آتے آتے اس خوشخبری میں ایک تبدیلی ہوئی پچھلی خبر کی تردید نہیں ہوئی۔ اس میں ترمیم ہو گئی۔ یہ کہ افطار' سحر' اور تراویح کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ مگر یہ تو کوئی خوشخبری نہ ہوئی۔ یہ تو واپڈا کی وضعداری چلی آتی ہے کہ رمضان کے موسم میں افطار اور سحر و نیز تراویح کے اوقات میں لوڈشیڈنگ میں وقفہ آ جاتا ہے۔ تو اس میں نو آمدہ حکومت نے تو اپنی طرف سے کوئی کمال نہیں دکھایا۔
ہاں رمضان کے سلسلہ میں ایک روایت یہ بھی چلی آتی ہے کہ اعلان کیا جاتا ہے رمضان میں کھانے پینے کی چیزیں سستی ملیں گی۔ اس سے مہنگائی کے ستم زدوں کی بہت تسلی ہو جاتی ہے مگر یہ تسلی عارضی ہوتی ہے۔ روزوں کے آتے آتے پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی میں رمضان کی خوشی میں تھوڑا اور اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر کچھ اشیائے خوردنی کے نرخ کم بھی کیے جاتے ہیں تو اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ خریداروں کی اتنی لمبی قطار لگ جاتی ہے کہ اس میں روزہ دار کا حال پہلے ہی روزے سے بے حال ہوتا ہے قطار میں کھڑے کھڑے مزید بے حال ہو جاتا ہے۔ اصل میں اس رعایت سے فائدہ بھی وہی مخلوق اٹھا سکتی ہے اور اٹھاتی ہے جو ایسی دھکا پیل میں اپنے لیے رستہ بنانے کا تجربہ رکھتی ہے۔ روزہ داروں کا شمار اس مخلوق میں نہیں ہوتا۔
بہر حال رمضان کی اپنی ایک روایت چلی آتی ہے، وہ انشاء اللہ اب کے برقرار رہے گی۔ رمضان کی آمد سے پہلے روزہ داروں کو کچھ خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں۔ روزہ دار توقع باندھتے ہیں کہ اس برس منافع خور انھیں نہیں ستائیں گے۔ افطار و سحر کا ساماں انھیں شاید نرم نرخوں پر مہیا ہو گا۔ مگر روزوں کے آغاز کے ساتھ ہی ایسی ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ دہائی دی جاتی ہے کاروباری رمضان کے احترام میں ذرا زیادہ منافع خوری پر اتر آئے ہیں۔ چند دن یہ شور مچتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ روزہ دار بازار کی چڑھی قیمتوں سے مصالحت کر لیتے ہیں اور جیسے کیسے افطار و سحر کا انتظام کر لیتے ہیں۔ پھر عید کی خریداری کی گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے۔ اس گہما گہمی میں لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ عید کی خوشی ہی کچھ اس رنگ کی ہے کہ اس میں دم بھر کے لیے سارے غم غلط ہو جاتے ہیں اور ساری پریشانیاں معطل ہو جاتی ہیں۔
روزہ نہ رکھنے کے سو بہانے۔ صاحب کیا کیا جائے بیماری پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ یا یہ کہ ہم تو ان دنوں حالت سفر میں ہیں۔ کچھ بہانے غالبؔ نے یاروں کے لیے مہیا کیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے؎
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
چلیے یہاں تک مان لیا مگر کھانے پینے کا بندوبست ہو تو پھر روزہ نہ رکھنے کا کیا جواز ہے۔ غالبؔ نے ایسوں کے لیے بھی جواز مہیا کر دیا ہے؎
سامان خور و خواب کہاں سے لاؤں
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں
روزہ مرا ایمان ہے غالبؔ' لیکن
خس خانہ و برفاب کہاں سے لاؤں
غالبؔ کے زمانے میں گرمیوں کے تپتے دنوں میں آرام کے منجملہ اسباب میں سب سے بڑھ کر خس خانہ و برفاب ہی تھے۔ اور ہاں اے سی فریج کا ٹھنڈا پانی اور بجلی کا پنکھا۔ لیکن لوڈشیڈنگ نے آرام کے ان اسباب کا سارا مزہ کر کرا کر دیا۔ ایک بجلی کے نہ آنے سے آرام کے سارے اسباب معطل ہو جاتے ہیں۔ پھر تو خس خانہ و برفاب کا زمانہ ہی خوب بلکہ بہت خوب تھا۔ اس زمانے میں آرام کے جیسے کیسے بھی اسباب تھے ان میں اس طرح کی کھنڈت نہیں پڑتی تھی جیسی ہمارے زمانے میں پڑتی ہے۔ ارے وہ زمانہ کتنا اچھا زمانہ تھا کہ اس زمانہ میں واپڈا نام کا کوئی بکھیڑا نہیں تھا۔ نہ لوڈشیڈنگ کا ٹنٹا نہ پانی کی قلت کا جھگڑا۔ کنوئیں موجود تھے۔ بس گھر میں ایک ڈول اور رسی ہونی چاہیے۔ پھر اگر سقا آئیں بائیں شائیں کرے تو اسے بھی ڈول رسی کی مار مار سکتے تھے۔ اور گھروں میں لیمپ نہیں تو لالٹین تو لازمی ہوا ہی کرتی تھی۔ ویسے تو غریب غربا مٹی کے دیے سے بھی کام چلا لیتے تھے۔ ہمیں تو اس نئی روشنی نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ نئی روشنی کیا خوب آئی کہ اس کے ساتھ لوڈشیڈنگ کا دم چھلا بھی آ گیا۔ بس؎
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
چراغ گل۔ بتی غائب۔ ادھر پنکھے نے بھی جواب دیدیا۔ سمجھ لیجیے کہ یہ نیا ظلمات ہے۔
ہاں لیجیے اب کے جو بلاکشوں نے رمضان کا پچھلے برسوں سے بڑھ کر انتظار کیا تھا اس کی وجہ بھی سن لیجیے۔ نوآمدہ حکومت کی طرف سے ایک مژدہ سننے میں آیا تھا کہ رمضان کے مبارک مہینے میں بجلی نہیں جائے گی۔ یعنی یہ ثواب کمانے کا مہینہ ہے۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب معطل رہے گا۔ بس پھر کیا تھا۔ سوکھے دھانوں پہ پانی پڑ گیا۔ وہ لوگ بھی جو روزے سے دم چراتے تھے کس بیتابی سے رمضان کا انتظار کر رہے تھے۔ مگر رمضان کے آتے آتے اس خوشخبری میں ایک تبدیلی ہوئی پچھلی خبر کی تردید نہیں ہوئی۔ اس میں ترمیم ہو گئی۔ یہ کہ افطار' سحر' اور تراویح کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ مگر یہ تو کوئی خوشخبری نہ ہوئی۔ یہ تو واپڈا کی وضعداری چلی آتی ہے کہ رمضان کے موسم میں افطار اور سحر و نیز تراویح کے اوقات میں لوڈشیڈنگ میں وقفہ آ جاتا ہے۔ تو اس میں نو آمدہ حکومت نے تو اپنی طرف سے کوئی کمال نہیں دکھایا۔
ہاں رمضان کے سلسلہ میں ایک روایت یہ بھی چلی آتی ہے کہ اعلان کیا جاتا ہے رمضان میں کھانے پینے کی چیزیں سستی ملیں گی۔ اس سے مہنگائی کے ستم زدوں کی بہت تسلی ہو جاتی ہے مگر یہ تسلی عارضی ہوتی ہے۔ روزوں کے آتے آتے پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی میں رمضان کی خوشی میں تھوڑا اور اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر کچھ اشیائے خوردنی کے نرخ کم بھی کیے جاتے ہیں تو اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ خریداروں کی اتنی لمبی قطار لگ جاتی ہے کہ اس میں روزہ دار کا حال پہلے ہی روزے سے بے حال ہوتا ہے قطار میں کھڑے کھڑے مزید بے حال ہو جاتا ہے۔ اصل میں اس رعایت سے فائدہ بھی وہی مخلوق اٹھا سکتی ہے اور اٹھاتی ہے جو ایسی دھکا پیل میں اپنے لیے رستہ بنانے کا تجربہ رکھتی ہے۔ روزہ داروں کا شمار اس مخلوق میں نہیں ہوتا۔
بہر حال رمضان کی اپنی ایک روایت چلی آتی ہے، وہ انشاء اللہ اب کے برقرار رہے گی۔ رمضان کی آمد سے پہلے روزہ داروں کو کچھ خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں۔ روزہ دار توقع باندھتے ہیں کہ اس برس منافع خور انھیں نہیں ستائیں گے۔ افطار و سحر کا ساماں انھیں شاید نرم نرخوں پر مہیا ہو گا۔ مگر روزوں کے آغاز کے ساتھ ہی ایسی ساری امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ دہائی دی جاتی ہے کاروباری رمضان کے احترام میں ذرا زیادہ منافع خوری پر اتر آئے ہیں۔ چند دن یہ شور مچتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ روزہ دار بازار کی چڑھی قیمتوں سے مصالحت کر لیتے ہیں اور جیسے کیسے افطار و سحر کا انتظام کر لیتے ہیں۔ پھر عید کی خریداری کی گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے۔ اس گہما گہمی میں لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ عید کی خوشی ہی کچھ اس رنگ کی ہے کہ اس میں دم بھر کے لیے سارے غم غلط ہو جاتے ہیں اور ساری پریشانیاں معطل ہو جاتی ہیں۔