پیشے کیسے وجود میں آئے
سماجیات اور انسانی نفسیات کے ماہر اس کی تصیح ، تصدیق یا تردید کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
زیر نظر کالم لکھنے کا محرک کراچی سے ملنے والی ایک ای میل ہے ۔ جس میں میرے گزشتہ سے پیوستہ کالم میں ایک خیالی کردار حبیب اللہ زلف تراش کے پیشے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ وہ صاحب کہتے ہیں '' آپ کو پوری دنیا میں صرف '' زلف تراش '' ہی ملا تھا ؟ اس سوال کا جواب بڑا تفصیل طلب تھا ، ان صاحب کا یہ جملہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ برصغیر کے عوام کی اکثریت کی طرح یہ صاحب بھی پیشے اور ذات کا فرق سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ ہم نے دراصل پیشے کو ذات سمجھ رکھا ہے ۔جب کہ ان دونوں کا آپس میں سرے سے کوئی تعلق ہی نہیںہے ۔ اس سلسلے میں، میں ایک تھیوری پیش کرتا ہوں ۔
سماجیات اور انسانی نفسیات کے ماہر اس کی تصیح ، تصدیق یا تردید کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ پیشے کیسے وجود میں آئے ؟ اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان نے ابتدائی زمانے میں مل جل کر گروہ کی صورت میں رہنا کیسے شروع کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو زمین پر اتارا تو جس پہلی چیز سے اس کا تعارف ہوا وہ تھی ''بھوک ''۔ اس بھوک نے اسے خوراک کے حصول کے لیے متحرک ہونے پر مجبور کیا ۔ خوراک حاصل کرنے کے بعد اس خوراک کو کسی طاقتور انسان نے اپنی طاقت کے زور پر اس سے چھینا تو انسان کا تعارف '' خوف '' سے ہوا ۔
یعنی ایک وقت کی خوراک مل جانے کے بعد، دوسرے وقت کی خوراک نہ ملنے کا خوف یا پھر خوراک مل جانے کے بعد کسی طاقتور فرد کے ہاتھوں چھن جانے کا خوف ۔ اس خوف نے کمزور انسانوں کو متحد ہوکر اپنی اجتماعی طاقت کو بروے کار لانے کا راستہ دکھایا ۔ آج جس سماج میں ہم رہ رہے ہیں اس سٹیلائیٹ کے جدید ترین دور تک ہم چند دنوں میں تو نہیں پہنچے ہیں ، یہ صدیوں کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے اور یہ عمل آج بھی مسلسل جاری ہے ۔ آئے دن کی نت نئی ایجادات اور سہولیات ہمیں اس ارتقائی عمل کے تسلسل کی خبر دیتی ہیں۔
پتھر کے دور سے لے کر آگ دریافت کرنے تک کا زمانہ بھی اسی انسان نے کسی نہ کسی طرح گزارا ہی تھا ۔قانون کی حکمرانی سے قبل جنگل کا قانون یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نشانہ بھی یہی انسان بنا اور اس قانون کے تحت ظلم و جبر کرنے والا بھی یہی انسان تھا۔ انسان کی فطرت میں یہ عنصر بھی شامل ہے کہ وہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ یہ گروہ کی صورت میں رہنے پر مجبور ہے۔ اور اپنی جان کی حفاظت کرنا صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہر جاندار کی جبلت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لڑنا جھگڑنا بھی انسانی فطرت میں شامل ہے۔
ابتدائی زمانے سے ہی ایک انسانی گروہ طاقت کے بل بوتے پر دوسرے انسانی گروہ پر بالادستی قائم کرنے اور اسے اپنے زیر نگین لانے کی بھی شدید خواہش رکھتا ہے ۔ دنیا کی تمام جنگیں اسی خواہش کے زیر اثر لڑی گئیں ۔ آج بھی آپ دیکھیں تو افغانستان اور عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی خواہش کا شاخسانہ ہے۔ طاقت جس فرد یا جس قوم کو حاصل ہو جائے تو یہ طاقت اپنا اظہار بھی چاہتی ہے ۔ طاقتورکی نفسیات کمزور سمجھ ہی نہیں سکتا ۔ طاقت کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ '' جو کچھ میں چاہتا ہوں ، وہ ہوکیوں نہیں جاتا ؟ جب کہ میں اسے کرنے پر بھی قادر ہوں''۔
طاقت کے اس ظلم و جبر کا راستہ روکنے کے لیے قانون کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔ قانون کی نظر میں سب انسان برابر تھے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کمزور افراد کی اکثریت نے قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے اپنے گروہ میں سب سے زیادہ طاقتور فرد یعنی ایسے انسان کو جس کی جسمانی طاقت پورے گروہ میں سب سے زیادہ ہوگی ، اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔ اور اس سے درخواست کی کہ وہ گروہ کے دیگر طاقتور لوگوں کی چیرہ دستیوں سے انھیں بچائے ۔ اس کام کے عوض ہر فرد نے سربراہ کے لیے حاصل کردہ خوراک میں سے کچھ حصہ اس کی نذر کرنے کی حامی بھری ہوگی اس طرح شاہی خزانہ وجود میں آیا ۔ سربراہ کی حیثیت رفتہ رفتہ بادشاہ کی حیثیت اختیار کر گئی ۔ لیکن کمزور افراد کو جان و مال کا تحفظ بھی حاصل ہوگیا ۔
دوسرے گروہ سے جنگ کی صورت میں گروہ کے طاقتور افراد پر مشتمل ایک فوج بھی تشکیل دے دی گئی ۔ جس کے اخراجات گروہ کے ہر فرد پر ٹیکس لگا کر پورے کیے جانے لگے۔ جب کمزور افراد کو قانون کی طاقت میسر آگئی اور انھیں اس قانون کے تحت انصاف بھی ملنے لگا تو گروہ کے لوگوں نے ہنسی خوشی یہ معمولی سا ٹیکس دینا گوارہ کرلیا۔ پھر کسی نیک دل سربراہ یا بادشاہ نے اس ٹیکس کے ذریعے جمع شدہ مال سے اپنے گروہ کی فلاح و بہبود اور ان کی حفاظت کے لیے فلاحی منصوبے شروع کردیے ۔ مثلاً گروہ کی رہائش گاہوں کے ارد گرد کوئی حفاظتی دیوار وغیرہ قائم کی ہوگی ۔ اسی طرح گروہ کے دیگر لوگوں کے لیے روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوگئے۔
ایسے گروہ کو امن و سکون اور قانون کی حکمرانی کے زیر سایہ رہتے دیکھ کر دیگر انسانی گروہ کے کمزور افراد نے بھی اس گروہ میں شمولیت اختیار کرلی ہوگی ۔ اس طرح ایک ایسی ریاست کے خدوخال ابھرنے لگے ، جہاں انسان بھوک اور خوف سے بے نیاز ہوکر اپنی زندگی گزار سکتا تھا ۔ ارتقاء کا یہ عمل مزید آگے بڑھا اور انسان زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانے کے قابل ہوگیا ۔ اناج کی صورت میں انسان کی خوراک کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوگیا تو اس اناج کو ذخیرہ کرنے کے لیے موسموں سے محفوظ جگہ کی ضرورت پیش آئی لہذا گھروں کی طرز پر گودام تعمیر کیے گئے ہوں گے ۔ اشاروں کی زبان ترقی کر کے الفاظ میں ڈھلی تو اپنی بات کہنا اور دوسرے کی بات سمجھنا آسان ہوگیا۔
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی ہنر یا صلاحیت عطا کی ہے ۔ اس صلاحیت کے مطابق گروہ کے ہر شخص نے کوئی نہ کوئی کام اپنے ذمہ لے لیا ۔ مثلاً ترکھان درخت کی لکڑی سے گھریلو اشیأ اور مکان تیار کرنے لگا ۔ معاوضہ اناج کی صورت میں مل جاتا ہوگا ۔ جس شخص نے پہلی مرتبہ کسی جانور کی کھال سے انسانی پیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے جوتے تیار کیے وہ موچی کہلایا۔ جس نے رضاکارانہ طور پر کپڑا بنانے کا کام اپنے ذمے لیا وہ جولاہا کہلایا ۔ جس نے لوہے کی اشیا تیار کرنے کا کام شروع کیا اسے لوہار کہا گیا اور جس نے لوگوں کے بال تراشنے کا کام شروع کیا وہ حجام کہلایا ۔ اس طرح دنیا کی اس پہلی ریاست کا نظام چل پڑا ۔ ہر خدمت اور کام کا معاوضہ اناج یا خوراک کی صورت میں ملنے لگا۔ پھر تقسیم کار کا نظام اور پھر بارٹر سسٹم وجود میں آیا ۔ یعنی اگر گوشت کا کام کرنے والے کو جوتوں کی ضرورت ہے تو اس نے گوشت کے عوض جوتے حاصل کرلیے ۔ کھیتوں میں سبزی اگانے والے کو اگر اپنے بال ترشوانا ہیں تو اس نے سبزی کے عوض اپنے بال ترشوالیے۔
اس طرح یہ تمام پیشے وجود میں آئے۔ گروہ کے بادشاہ نے اپنے بیٹے کو رموز حکمرانی سکھائے اور فوجی نے اپنے بیٹے کو سپہ گری کے فن میں طاق کیا ۔ ترکھان اور حجام کے بیٹے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے باپ کی مدد کرتے کرتے یہ فن سیکھ گئے ۔ اس طرح ہر فن اور ہر کام نسل در نسل منتقل ہوتا چلا گیا ۔ جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس طرح یہ ثابت ہوا کہ حجام(زلف تراش ، ہیر ڈریسر) ، قصائی ، موچی ، ترکھان ، لوہار اور سبزی فروخت کرنے والا اس پیشے سے وابستہ ہو کر محنت اور حق حلال سے اپنی روزی کما رہا ہے اور یہ صرف اس کا پیشہ ہے ، ذات ہرگز نہیں۔ انھیں اپنے پیشے پر فخر کرنا چاہیے کہ وہ محنت کر کے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں حتیٰ کہ صفائی کرنے والا جمعدار بھی قابل احترام ہے ۔ جو آپکی گندگی کو صاف کرتا ہے ۔
میں خود ایک کسان کا بیٹا ہوں جو کھیتوں میں لکڑی کا ہل چلایا کرتا تھا اور مجھے اس پر فخر ہے میں اسے چھپاتا بھی نہیں ۔ تو زلف تراش کا پیشہ ہرگز باعث شرم نہیں ہے ۔ آخر میں اہم بات کہ زلف تراش ، اسی وقت تک تراش کہلائے گا جب تک وہ اس پیشے سے وابستہ ہے اگر وہ زلف تراشی کا پیشہ چھوڑ کر لوہار کا کام شروع کردیتا ہے تو اب وہ لوہار کہلائے گا ۔ کیونکہ اس نے اپنا پیشہ تبدیل کرلیا ہے ۔اِس لوہار کو کام کرتے دیکھ کر اگر کوئی پڑھا لکھا یا تعلیم یافتہ شخص یہ کہتا ہے کہ ''یہ شخص جو لوہار کا کام کر رہا ہے دراصل ذات کا حجام ہے ۔''توآپ خود سوچیں کہ ایسا شخص کتنا تعلیم یافتہ ہوگا ؟ دراصل ہم صدیوں سے ہندوؤں کے ساتھ رہتے چلے آئے ہیں ۔ جہاں ذات پات کا نظام آج بھی قائم ہے ۔ یہ اسی کے اثرات کا نتیجہ ہے کہ ہم پیشے کو ذات بنا دیتے ہیں ۔ ؎
قیس ہو، کوہکن ہو یا حالی
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں
سماجیات اور انسانی نفسیات کے ماہر اس کی تصیح ، تصدیق یا تردید کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ پیشے کیسے وجود میں آئے ؟ اس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان نے ابتدائی زمانے میں مل جل کر گروہ کی صورت میں رہنا کیسے شروع کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو زمین پر اتارا تو جس پہلی چیز سے اس کا تعارف ہوا وہ تھی ''بھوک ''۔ اس بھوک نے اسے خوراک کے حصول کے لیے متحرک ہونے پر مجبور کیا ۔ خوراک حاصل کرنے کے بعد اس خوراک کو کسی طاقتور انسان نے اپنی طاقت کے زور پر اس سے چھینا تو انسان کا تعارف '' خوف '' سے ہوا ۔
یعنی ایک وقت کی خوراک مل جانے کے بعد، دوسرے وقت کی خوراک نہ ملنے کا خوف یا پھر خوراک مل جانے کے بعد کسی طاقتور فرد کے ہاتھوں چھن جانے کا خوف ۔ اس خوف نے کمزور انسانوں کو متحد ہوکر اپنی اجتماعی طاقت کو بروے کار لانے کا راستہ دکھایا ۔ آج جس سماج میں ہم رہ رہے ہیں اس سٹیلائیٹ کے جدید ترین دور تک ہم چند دنوں میں تو نہیں پہنچے ہیں ، یہ صدیوں کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے اور یہ عمل آج بھی مسلسل جاری ہے ۔ آئے دن کی نت نئی ایجادات اور سہولیات ہمیں اس ارتقائی عمل کے تسلسل کی خبر دیتی ہیں۔
پتھر کے دور سے لے کر آگ دریافت کرنے تک کا زمانہ بھی اسی انسان نے کسی نہ کسی طرح گزارا ہی تھا ۔قانون کی حکمرانی سے قبل جنگل کا قانون یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نشانہ بھی یہی انسان بنا اور اس قانون کے تحت ظلم و جبر کرنے والا بھی یہی انسان تھا۔ انسان کی فطرت میں یہ عنصر بھی شامل ہے کہ وہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ یہ گروہ کی صورت میں رہنے پر مجبور ہے۔ اور اپنی جان کی حفاظت کرنا صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہر جاندار کی جبلت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لڑنا جھگڑنا بھی انسانی فطرت میں شامل ہے۔
ابتدائی زمانے سے ہی ایک انسانی گروہ طاقت کے بل بوتے پر دوسرے انسانی گروہ پر بالادستی قائم کرنے اور اسے اپنے زیر نگین لانے کی بھی شدید خواہش رکھتا ہے ۔ دنیا کی تمام جنگیں اسی خواہش کے زیر اثر لڑی گئیں ۔ آج بھی آپ دیکھیں تو افغانستان اور عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی خواہش کا شاخسانہ ہے۔ طاقت جس فرد یا جس قوم کو حاصل ہو جائے تو یہ طاقت اپنا اظہار بھی چاہتی ہے ۔ طاقتورکی نفسیات کمزور سمجھ ہی نہیں سکتا ۔ طاقت کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ '' جو کچھ میں چاہتا ہوں ، وہ ہوکیوں نہیں جاتا ؟ جب کہ میں اسے کرنے پر بھی قادر ہوں''۔
طاقت کے اس ظلم و جبر کا راستہ روکنے کے لیے قانون کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔ قانون کی نظر میں سب انسان برابر تھے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کمزور افراد کی اکثریت نے قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے اپنے گروہ میں سب سے زیادہ طاقتور فرد یعنی ایسے انسان کو جس کی جسمانی طاقت پورے گروہ میں سب سے زیادہ ہوگی ، اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔ اور اس سے درخواست کی کہ وہ گروہ کے دیگر طاقتور لوگوں کی چیرہ دستیوں سے انھیں بچائے ۔ اس کام کے عوض ہر فرد نے سربراہ کے لیے حاصل کردہ خوراک میں سے کچھ حصہ اس کی نذر کرنے کی حامی بھری ہوگی اس طرح شاہی خزانہ وجود میں آیا ۔ سربراہ کی حیثیت رفتہ رفتہ بادشاہ کی حیثیت اختیار کر گئی ۔ لیکن کمزور افراد کو جان و مال کا تحفظ بھی حاصل ہوگیا ۔
دوسرے گروہ سے جنگ کی صورت میں گروہ کے طاقتور افراد پر مشتمل ایک فوج بھی تشکیل دے دی گئی ۔ جس کے اخراجات گروہ کے ہر فرد پر ٹیکس لگا کر پورے کیے جانے لگے۔ جب کمزور افراد کو قانون کی طاقت میسر آگئی اور انھیں اس قانون کے تحت انصاف بھی ملنے لگا تو گروہ کے لوگوں نے ہنسی خوشی یہ معمولی سا ٹیکس دینا گوارہ کرلیا۔ پھر کسی نیک دل سربراہ یا بادشاہ نے اس ٹیکس کے ذریعے جمع شدہ مال سے اپنے گروہ کی فلاح و بہبود اور ان کی حفاظت کے لیے فلاحی منصوبے شروع کردیے ۔ مثلاً گروہ کی رہائش گاہوں کے ارد گرد کوئی حفاظتی دیوار وغیرہ قائم کی ہوگی ۔ اسی طرح گروہ کے دیگر لوگوں کے لیے روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوگئے۔
ایسے گروہ کو امن و سکون اور قانون کی حکمرانی کے زیر سایہ رہتے دیکھ کر دیگر انسانی گروہ کے کمزور افراد نے بھی اس گروہ میں شمولیت اختیار کرلی ہوگی ۔ اس طرح ایک ایسی ریاست کے خدوخال ابھرنے لگے ، جہاں انسان بھوک اور خوف سے بے نیاز ہوکر اپنی زندگی گزار سکتا تھا ۔ ارتقاء کا یہ عمل مزید آگے بڑھا اور انسان زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانے کے قابل ہوگیا ۔ اناج کی صورت میں انسان کی خوراک کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوگیا تو اس اناج کو ذخیرہ کرنے کے لیے موسموں سے محفوظ جگہ کی ضرورت پیش آئی لہذا گھروں کی طرز پر گودام تعمیر کیے گئے ہوں گے ۔ اشاروں کی زبان ترقی کر کے الفاظ میں ڈھلی تو اپنی بات کہنا اور دوسرے کی بات سمجھنا آسان ہوگیا۔
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی ہنر یا صلاحیت عطا کی ہے ۔ اس صلاحیت کے مطابق گروہ کے ہر شخص نے کوئی نہ کوئی کام اپنے ذمہ لے لیا ۔ مثلاً ترکھان درخت کی لکڑی سے گھریلو اشیأ اور مکان تیار کرنے لگا ۔ معاوضہ اناج کی صورت میں مل جاتا ہوگا ۔ جس شخص نے پہلی مرتبہ کسی جانور کی کھال سے انسانی پیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے جوتے تیار کیے وہ موچی کہلایا۔ جس نے رضاکارانہ طور پر کپڑا بنانے کا کام اپنے ذمے لیا وہ جولاہا کہلایا ۔ جس نے لوہے کی اشیا تیار کرنے کا کام شروع کیا اسے لوہار کہا گیا اور جس نے لوگوں کے بال تراشنے کا کام شروع کیا وہ حجام کہلایا ۔ اس طرح دنیا کی اس پہلی ریاست کا نظام چل پڑا ۔ ہر خدمت اور کام کا معاوضہ اناج یا خوراک کی صورت میں ملنے لگا۔ پھر تقسیم کار کا نظام اور پھر بارٹر سسٹم وجود میں آیا ۔ یعنی اگر گوشت کا کام کرنے والے کو جوتوں کی ضرورت ہے تو اس نے گوشت کے عوض جوتے حاصل کرلیے ۔ کھیتوں میں سبزی اگانے والے کو اگر اپنے بال ترشوانا ہیں تو اس نے سبزی کے عوض اپنے بال ترشوالیے۔
اس طرح یہ تمام پیشے وجود میں آئے۔ گروہ کے بادشاہ نے اپنے بیٹے کو رموز حکمرانی سکھائے اور فوجی نے اپنے بیٹے کو سپہ گری کے فن میں طاق کیا ۔ ترکھان اور حجام کے بیٹے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے باپ کی مدد کرتے کرتے یہ فن سیکھ گئے ۔ اس طرح ہر فن اور ہر کام نسل در نسل منتقل ہوتا چلا گیا ۔ جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس طرح یہ ثابت ہوا کہ حجام(زلف تراش ، ہیر ڈریسر) ، قصائی ، موچی ، ترکھان ، لوہار اور سبزی فروخت کرنے والا اس پیشے سے وابستہ ہو کر محنت اور حق حلال سے اپنی روزی کما رہا ہے اور یہ صرف اس کا پیشہ ہے ، ذات ہرگز نہیں۔ انھیں اپنے پیشے پر فخر کرنا چاہیے کہ وہ محنت کر کے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں حتیٰ کہ صفائی کرنے والا جمعدار بھی قابل احترام ہے ۔ جو آپکی گندگی کو صاف کرتا ہے ۔
میں خود ایک کسان کا بیٹا ہوں جو کھیتوں میں لکڑی کا ہل چلایا کرتا تھا اور مجھے اس پر فخر ہے میں اسے چھپاتا بھی نہیں ۔ تو زلف تراش کا پیشہ ہرگز باعث شرم نہیں ہے ۔ آخر میں اہم بات کہ زلف تراش ، اسی وقت تک تراش کہلائے گا جب تک وہ اس پیشے سے وابستہ ہے اگر وہ زلف تراشی کا پیشہ چھوڑ کر لوہار کا کام شروع کردیتا ہے تو اب وہ لوہار کہلائے گا ۔ کیونکہ اس نے اپنا پیشہ تبدیل کرلیا ہے ۔اِس لوہار کو کام کرتے دیکھ کر اگر کوئی پڑھا لکھا یا تعلیم یافتہ شخص یہ کہتا ہے کہ ''یہ شخص جو لوہار کا کام کر رہا ہے دراصل ذات کا حجام ہے ۔''توآپ خود سوچیں کہ ایسا شخص کتنا تعلیم یافتہ ہوگا ؟ دراصل ہم صدیوں سے ہندوؤں کے ساتھ رہتے چلے آئے ہیں ۔ جہاں ذات پات کا نظام آج بھی قائم ہے ۔ یہ اسی کے اثرات کا نتیجہ ہے کہ ہم پیشے کو ذات بنا دیتے ہیں ۔ ؎
قیس ہو، کوہکن ہو یا حالی
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں