کرپشن کی غضب کہانی
یہ پیسے اور دیگر اخراجات ان بدعنوان پٹواریوں نے برداشت کیے تھے
آج کچھ کرپشن کے بارے میں 'یہ کیسے ہوتی ہے اس بارے میں ایک واقعہ۔ میں ایک دن پشاور کے ایک تھانے میں اپنے دوست ایس ایچ او کے پاس بیٹھا تھا 'یہ بھلے دنوں کا واقعہ ہے 'ایک صاحب کمرے میں آئے' میری طرف دیکھا تو تھانیدار نے کہا کہ بات کرو یہ اپنا دوست ہے'اس نے دس ہزار روپے جیب سے نکالے اور تھانیدار کی طرف بڑھائے۔یہ کیا ہے؟ایس ایچ او نے پوچھا'اس نے کہا کہ آپ کی ڈیمانڈ میں پوری نہیں کر سکتا اس لیے یہ رقم لایا ہوں'تھانیدار نے غصے سے کہا کہ میری ڈیمانڈ پوری کرو' منت سماجت کام نہیں آئی اور وہ شخص چلا گیا ۔معلوم ہوا کہ ایس پی صاحب کی دو بیٹیوں کی شادی ہے'جہیز کی فہرست کو تھانوں پر تقسیم کیا گیا ہے' ہمارے دوست ایس ایچ او پردو بڑے سائز کے فریج اور دو ائر کنڈیشنڈ کی فراہمی کی ذمے داری ڈالی گئی ہے'اب وہ ان اشیاء کی فراہمی کے لیے دکانداروں سے وصولیاں کر رہے ہیں' بدلے میں دکاندار اور ہوٹل والے جو چاہیں وہ کرتے رہیں۔
اس سلسلے میں وقار خان کا بیان کردہ ایک دلچسپ واقعہ! ایوب خان چکوال کے نواحی قصبہ خان پور کی شکار گاہ کوپسند کرتے تھے'دوران اقتدار ا نہوں نے چودہ مرتبہ یہاں شکا ر کیا'شکار کا پروگرام بنتے ہی ڈپٹی کمشنر جہلم نوابزادہ یعقوب خان ہوتی'محکمہ مال چکوال کو انتظامات کا حکم صادر کرتے اور چکوال کے پٹواری اور تحصیلدار سارے کام چھوڑ کر شکار اور کھانے کے انتظامات میں جت جاتے۔صدر ایوب کا لشکر رفقاء کے ہمراہ صبح سویرے پہنچ جاتے'ڈوہمن ریسٹ ہاؤس میں ناشتہ کرتے 'دن بھر شکار سے لطف اندوز ہوتے کھانا تناول کرتے اور واپس چلے جاتے۔
یہ 1963ء کی بات ہے 'اس وقت گھنی اور نوک دار مونچھوں والا چوہدری شاہ نواز خان نامی ایک تنومند نوجوان موضع خان پور میں پٹواری تعینات تھا'ہمارے دیگر حکمرانوں کی طرح ایوب خان کو بھی ملک سے کرپشن کے خاتمے کا شوق چرایا' اس مقصد کے لیے ان کی قائم کردہ انسپکشن ٹیم کی بڑی دھومیں تھیں 'یہ ٹیم اعلیٰ فوجی و سول افسران اور آڈیٹر جنرل پر مشتمل تھی 'چند غیر ملکی صحافی بھی ان کے ساتھ ہوتے 'یہ سخت مزاج لوگ سرکاری دفاتر میں گھس جاتے اور اپنی چھڑیاں میزوں پر مار مار کر افسران اور اہلکاروں سے سخت باز پرس کرتے اور ان کو بے عزت بھی کرتے 'اس انسپکشن ٹیم نے ملک کے طول و عرض میں کھلی کچہریاں منعقد کیںاور سرکاری ملازمین کو بر سر موقع ذلیل بھی کیا ۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اسی صدارتی شکارگاہ موضع خان پور میں اس کرپشن دشمن ٹیم نے کھلی کچہر ی کا اعلان کردیا'مقامی انتظامیہ کے ہاتھ پیرپھول گئے 'حسب روایت پٹواریوں نے اپنی جیب سے کھلی کچہری اور ٹیم کے کھانے پینے کا بندوبست کیا ۔کھلی کچہری میں پولیس 'محکمہ مال اور دیگر سرکاری اداروں کے خلاف لوگوںنے شکایات کیں۔ بریگیڈیئر مظفر صاحب نے سرکاری افسروں و اہلکاروں کے خوب لتے لیے اور برملا اعلان کیا کہ ہم سب کو سیدھا کردیں گے۔کسی نے پٹواریوں کی شکایت کی تو شاہ نواز خان حلقہ پٹواری کھڑا ہوا 'فاضل اراکین انسپکشن ٹیم نے کورس کی صورت میں پٹواریوں کی شان میں برے الفاظ استعمال کیے اور ان کو چور اور رشوت خور قرار دیااور حکم دیا کہ الزامات کا جواب دو۔ پٹواری نے جواب کے بعد ٹیم سے سوال کیا کہ اب مجھے بتایا جائے کہ مجھے رگڑا کیوں دیا جائے گا؟اس ناقابل یقین صورت حال صورت حال میں انچارج ٹیم اور پٹواری سرکل کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوگئی۔بریگیڈیئر نے حکم دیا ''بیٹھ جاؤ''۔
پٹواری نے کہا ''نہیں بیٹھتا''۔انچارج ٹیم نے پوچھا''کیا کروگے''اس نے جواب دیا کہ''شکایت کروں گا'' ۔آپ بدعنوانی کے خلاف میری ایک شکایت نوٹ کریں'بریگیڈیئر صاحب نے پوچھا کہ تم کس کے خلاف شکایت کروگے' پٹواری سرکل نے بم پھوڑا۔''صدر ایوب کے خلاف''کرخت لہجے میں پوچھا گیا۔''کیا صدر صاحب کرپٹ ہیں''۔پٹواری نے کہا کہ ''جی ہاں 'وہ بدعنوان ہیں'وہ بل نہیں دیتے'وہ اب تک بارہ مرتبہ یہاں شکار کے لیے آچکے ہیں ' ایک مرتبہ ان کو کھانا سردار خضر حیات خان نے دیا اور بقول ان کے آٹھ ہزار روپے اس زمانے میں صرف کھانے پر خرچ آیا تھا 'مجھے بتایا جائے کہ باقی گیارہ دفعہ آٹھ'آٹھ ہزار روپے کہاں سے آئے؟۔کیا صدر مملکت ساتھ لائے تھے یا کسی سرکاری ادارے نے دیے تھے؟ اگر آپ کو نہیں معلوم تو میں بتاتا ہوں'کہ کھانے کے یہ پیسے اور دیگر اخراجات ان بدعنوان پٹواریوں نے برداشت کیے تھے''۔
شاہنواز خان نے مزید کہا کہ ہمیں یہ اخراجات کرنے کا حکم اوپر سے آتا ہے 'آپ کب سے رشوت رشوت کی رٹ لگا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں'صاف بات یہ ہے کہ پٹواری چھوٹے چور ہیںاور اعلیٰ افسران بڑے چور ہیں'ہم مشکل سے جمع کرتے ہیں اور سب سے بڑا چور صدر سب کچھ ہڑپ کر جاتا ہے۔لوگوں نے اس پر حکومت کے خلاف نعرے لگانے شروع کردیے 'جب پٹواری سے ثبوت کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ہوٹلوں کے سارے بل میرے نام پر ہیں اور میں کسی بھی فورم پر ان کو پیش کرنے کو تیار ہوں'انسپکشن ٹیم کرپشن کے الزام سے بچنے کے لیے کھانا کھائے بغیر چلی گئی' اس گستاخی کے بعد پٹواری پر جو گزری وہ الگ کہانی ہے۔
اب ایک اور واقعہ۔ قدرت اللہ شہاب نے ''ڈپٹی کمشنر کی ڈائری''میں عیدو نامی سائل کی داستان بیان کی ہے' انبالہ سے ہجرت کرکے جھنگ میں آباد ہونے والے اس مہاجر کو متروکہ اراضی الاٹ ہوئی تھی 'جس پر کاشتکاری کے ذریعے وہ اپنے خاند ان کی کفالت کر رہا تھا'مگر اس دوران کسی بے رحم پٹواری نے الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی دھمکی دی 'تو اس نے گورنر پنجاب 'وزیراعلیٰ'وزیر بحالیات' کمشنر' ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام کودرخواست بھجوا دی۔لاٹ صاحب' وزیراعلیٰ 'وزیر بحالیات و دیگر حکام کے دفاتر کا طواف کرنے کے بعد یہ درخواستیں ''برائے مناسب کارروائی''سرکاری افسروں کی میز پر آتی گئیں اور فرض شناس افسر رپورٹ طلب کرنے کے لیے اسے ماتحت حکام کی طرف بھجواتے چلے گئے۔
یہاں تک یہ تمام درخواستیں ''افسر مجاز''یعنی اس پٹواری کے پاس جا پہنچیں جو اس غریب سائل کی اراضی ہڑپ کرنے کے درپے تھا۔گویا اسی ''عطار کے لونڈے''کو مسیحائی کرنے کا کہہ دیا گیا جس کے سبب بیمار ہوئے تھے' اس نے سائل عیدو کو پٹوار خانے طلب کیا اور ان درخواستوں کا پلندہ اس کے منہ پر دے مارا۔قدرت اللہ شہاب کے بقول اس پٹواری نے لگی لپٹی رکھے بغیرتنک کر کہا کہ ''اب تم یہ درخواستیں ملتان'جھنگ یا لاہور لے جاؤاور ان کو اپنے سالے باپوں کو دے آؤ''۔عیدو اس تذلیل و تحقیر کے بعد بھی کوئے داد رسی کے طواف سے باز نہیں آیا اور سرکاری دفاتر کی خاک چھانتا رہا'اس دوران پٹواری نے اس کی الاٹمنٹ منسوخ کردی اور ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے بعد رپورٹ تحریر فرمائی کہ ''جناب عالی ! سائل مسمی عیدو فضول درخواست ہائے دینے کا عادی ہے ' اسے متعدد بار سمجھایا گیا کہ اس طرح حکام بالا کا وقت ضایع کرنا درست نہیں'لیکن سائل اپنی عادت سے مجبور ہے' سائل کا چال چلن بھی مشتبہ ہے اور اس کا اصل ذریعہ معاش فرضی گوائیاں دینا ہے۔
مشرقی پنجاب میں اس کے پاس کوئی زمین نہیںتھی 'بمراد حکم مناسب رپورٹ ہذا پیش حضور انور ہے''۔گرداور اور قانون گو نے یہ لکھ کر درخواستیں تحصیلدار کے دفتر بھجوادیں کہ ''رپورٹ پٹواری مفصل ہے''۔ درخواستیں اسی گول دائرے میں گھومتی ہوئی ان اعلیٰ حکام کے پاس واپس آگئیں جنہوں نے برائے ''مناسب کارروائی'' مارک کیا تھا 'اس دوران ہر سرکاری افسر نے ایک ہی جملے کا اضافہ کیا کہ ''رپورٹ پٹواری مفصل ہے''۔ عمران خان نے وزیر اعظم بنتے ہی جدید تقاضوں کے عین مطابق ''سٹیزن پورٹل ''کے نام سے ایک موبائل اپلیکیشن متعارف کروائی' جس کے ذریعے پاکستانی شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے براہ راست وزیر اعظم سے رجوع کر سکتے ہیں'ایک خبر کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں'جن میں اکثر پرمناسب کارروائی ہو رہی ہے اور کچھ نمٹا دی گئی ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق اب بھی مسائل کے حل کے لیے ''رپورٹ پٹواری مفصل ہے''کا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جو قابل افسوس اور سائل کو ٹرخانے والا طریقہ ہے۔
اس سلسلے میں وقار خان کا بیان کردہ ایک دلچسپ واقعہ! ایوب خان چکوال کے نواحی قصبہ خان پور کی شکار گاہ کوپسند کرتے تھے'دوران اقتدار ا نہوں نے چودہ مرتبہ یہاں شکا ر کیا'شکار کا پروگرام بنتے ہی ڈپٹی کمشنر جہلم نوابزادہ یعقوب خان ہوتی'محکمہ مال چکوال کو انتظامات کا حکم صادر کرتے اور چکوال کے پٹواری اور تحصیلدار سارے کام چھوڑ کر شکار اور کھانے کے انتظامات میں جت جاتے۔صدر ایوب کا لشکر رفقاء کے ہمراہ صبح سویرے پہنچ جاتے'ڈوہمن ریسٹ ہاؤس میں ناشتہ کرتے 'دن بھر شکار سے لطف اندوز ہوتے کھانا تناول کرتے اور واپس چلے جاتے۔
یہ 1963ء کی بات ہے 'اس وقت گھنی اور نوک دار مونچھوں والا چوہدری شاہ نواز خان نامی ایک تنومند نوجوان موضع خان پور میں پٹواری تعینات تھا'ہمارے دیگر حکمرانوں کی طرح ایوب خان کو بھی ملک سے کرپشن کے خاتمے کا شوق چرایا' اس مقصد کے لیے ان کی قائم کردہ انسپکشن ٹیم کی بڑی دھومیں تھیں 'یہ ٹیم اعلیٰ فوجی و سول افسران اور آڈیٹر جنرل پر مشتمل تھی 'چند غیر ملکی صحافی بھی ان کے ساتھ ہوتے 'یہ سخت مزاج لوگ سرکاری دفاتر میں گھس جاتے اور اپنی چھڑیاں میزوں پر مار مار کر افسران اور اہلکاروں سے سخت باز پرس کرتے اور ان کو بے عزت بھی کرتے 'اس انسپکشن ٹیم نے ملک کے طول و عرض میں کھلی کچہریاں منعقد کیںاور سرکاری ملازمین کو بر سر موقع ذلیل بھی کیا ۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اسی صدارتی شکارگاہ موضع خان پور میں اس کرپشن دشمن ٹیم نے کھلی کچہر ی کا اعلان کردیا'مقامی انتظامیہ کے ہاتھ پیرپھول گئے 'حسب روایت پٹواریوں نے اپنی جیب سے کھلی کچہری اور ٹیم کے کھانے پینے کا بندوبست کیا ۔کھلی کچہری میں پولیس 'محکمہ مال اور دیگر سرکاری اداروں کے خلاف لوگوںنے شکایات کیں۔ بریگیڈیئر مظفر صاحب نے سرکاری افسروں و اہلکاروں کے خوب لتے لیے اور برملا اعلان کیا کہ ہم سب کو سیدھا کردیں گے۔کسی نے پٹواریوں کی شکایت کی تو شاہ نواز خان حلقہ پٹواری کھڑا ہوا 'فاضل اراکین انسپکشن ٹیم نے کورس کی صورت میں پٹواریوں کی شان میں برے الفاظ استعمال کیے اور ان کو چور اور رشوت خور قرار دیااور حکم دیا کہ الزامات کا جواب دو۔ پٹواری نے جواب کے بعد ٹیم سے سوال کیا کہ اب مجھے بتایا جائے کہ مجھے رگڑا کیوں دیا جائے گا؟اس ناقابل یقین صورت حال صورت حال میں انچارج ٹیم اور پٹواری سرکل کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوگئی۔بریگیڈیئر نے حکم دیا ''بیٹھ جاؤ''۔
پٹواری نے کہا ''نہیں بیٹھتا''۔انچارج ٹیم نے پوچھا''کیا کروگے''اس نے جواب دیا کہ''شکایت کروں گا'' ۔آپ بدعنوانی کے خلاف میری ایک شکایت نوٹ کریں'بریگیڈیئر صاحب نے پوچھا کہ تم کس کے خلاف شکایت کروگے' پٹواری سرکل نے بم پھوڑا۔''صدر ایوب کے خلاف''کرخت لہجے میں پوچھا گیا۔''کیا صدر صاحب کرپٹ ہیں''۔پٹواری نے کہا کہ ''جی ہاں 'وہ بدعنوان ہیں'وہ بل نہیں دیتے'وہ اب تک بارہ مرتبہ یہاں شکار کے لیے آچکے ہیں ' ایک مرتبہ ان کو کھانا سردار خضر حیات خان نے دیا اور بقول ان کے آٹھ ہزار روپے اس زمانے میں صرف کھانے پر خرچ آیا تھا 'مجھے بتایا جائے کہ باقی گیارہ دفعہ آٹھ'آٹھ ہزار روپے کہاں سے آئے؟۔کیا صدر مملکت ساتھ لائے تھے یا کسی سرکاری ادارے نے دیے تھے؟ اگر آپ کو نہیں معلوم تو میں بتاتا ہوں'کہ کھانے کے یہ پیسے اور دیگر اخراجات ان بدعنوان پٹواریوں نے برداشت کیے تھے''۔
شاہنواز خان نے مزید کہا کہ ہمیں یہ اخراجات کرنے کا حکم اوپر سے آتا ہے 'آپ کب سے رشوت رشوت کی رٹ لگا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں'صاف بات یہ ہے کہ پٹواری چھوٹے چور ہیںاور اعلیٰ افسران بڑے چور ہیں'ہم مشکل سے جمع کرتے ہیں اور سب سے بڑا چور صدر سب کچھ ہڑپ کر جاتا ہے۔لوگوں نے اس پر حکومت کے خلاف نعرے لگانے شروع کردیے 'جب پٹواری سے ثبوت کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ہوٹلوں کے سارے بل میرے نام پر ہیں اور میں کسی بھی فورم پر ان کو پیش کرنے کو تیار ہوں'انسپکشن ٹیم کرپشن کے الزام سے بچنے کے لیے کھانا کھائے بغیر چلی گئی' اس گستاخی کے بعد پٹواری پر جو گزری وہ الگ کہانی ہے۔
اب ایک اور واقعہ۔ قدرت اللہ شہاب نے ''ڈپٹی کمشنر کی ڈائری''میں عیدو نامی سائل کی داستان بیان کی ہے' انبالہ سے ہجرت کرکے جھنگ میں آباد ہونے والے اس مہاجر کو متروکہ اراضی الاٹ ہوئی تھی 'جس پر کاشتکاری کے ذریعے وہ اپنے خاند ان کی کفالت کر رہا تھا'مگر اس دوران کسی بے رحم پٹواری نے الاٹمنٹ منسوخ کرنے کی دھمکی دی 'تو اس نے گورنر پنجاب 'وزیراعلیٰ'وزیر بحالیات' کمشنر' ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام کودرخواست بھجوا دی۔لاٹ صاحب' وزیراعلیٰ 'وزیر بحالیات و دیگر حکام کے دفاتر کا طواف کرنے کے بعد یہ درخواستیں ''برائے مناسب کارروائی''سرکاری افسروں کی میز پر آتی گئیں اور فرض شناس افسر رپورٹ طلب کرنے کے لیے اسے ماتحت حکام کی طرف بھجواتے چلے گئے۔
یہاں تک یہ تمام درخواستیں ''افسر مجاز''یعنی اس پٹواری کے پاس جا پہنچیں جو اس غریب سائل کی اراضی ہڑپ کرنے کے درپے تھا۔گویا اسی ''عطار کے لونڈے''کو مسیحائی کرنے کا کہہ دیا گیا جس کے سبب بیمار ہوئے تھے' اس نے سائل عیدو کو پٹوار خانے طلب کیا اور ان درخواستوں کا پلندہ اس کے منہ پر دے مارا۔قدرت اللہ شہاب کے بقول اس پٹواری نے لگی لپٹی رکھے بغیرتنک کر کہا کہ ''اب تم یہ درخواستیں ملتان'جھنگ یا لاہور لے جاؤاور ان کو اپنے سالے باپوں کو دے آؤ''۔عیدو اس تذلیل و تحقیر کے بعد بھی کوئے داد رسی کے طواف سے باز نہیں آیا اور سرکاری دفاتر کی خاک چھانتا رہا'اس دوران پٹواری نے اس کی الاٹمنٹ منسوخ کردی اور ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے بعد رپورٹ تحریر فرمائی کہ ''جناب عالی ! سائل مسمی عیدو فضول درخواست ہائے دینے کا عادی ہے ' اسے متعدد بار سمجھایا گیا کہ اس طرح حکام بالا کا وقت ضایع کرنا درست نہیں'لیکن سائل اپنی عادت سے مجبور ہے' سائل کا چال چلن بھی مشتبہ ہے اور اس کا اصل ذریعہ معاش فرضی گوائیاں دینا ہے۔
مشرقی پنجاب میں اس کے پاس کوئی زمین نہیںتھی 'بمراد حکم مناسب رپورٹ ہذا پیش حضور انور ہے''۔گرداور اور قانون گو نے یہ لکھ کر درخواستیں تحصیلدار کے دفتر بھجوادیں کہ ''رپورٹ پٹواری مفصل ہے''۔ درخواستیں اسی گول دائرے میں گھومتی ہوئی ان اعلیٰ حکام کے پاس واپس آگئیں جنہوں نے برائے ''مناسب کارروائی'' مارک کیا تھا 'اس دوران ہر سرکاری افسر نے ایک ہی جملے کا اضافہ کیا کہ ''رپورٹ پٹواری مفصل ہے''۔ عمران خان نے وزیر اعظم بنتے ہی جدید تقاضوں کے عین مطابق ''سٹیزن پورٹل ''کے نام سے ایک موبائل اپلیکیشن متعارف کروائی' جس کے ذریعے پاکستانی شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے براہ راست وزیر اعظم سے رجوع کر سکتے ہیں'ایک خبر کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں'جن میں اکثر پرمناسب کارروائی ہو رہی ہے اور کچھ نمٹا دی گئی ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق اب بھی مسائل کے حل کے لیے ''رپورٹ پٹواری مفصل ہے''کا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جو قابل افسوس اور سائل کو ٹرخانے والا طریقہ ہے۔