یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
میل ملاپ دنیا کے بہت سے ممالک میں چولی دامن کے رشتے سے بھی گہرا نظر آئے گا
میرے ملک پاکستان کے ایک بار وزیر دوبار وزیراعلیٰ اور تین بار وزیراعظم کے عہدوں پر براجمان رہنے والے میاں نواز شریف کو ایک سال کے اندر دوبار عدالتوں سے قید کی سزا ہوئی تو دکھ ہوا۔ایک ڈیڑھ سال قبل میں نے ان بھائیوں کی 9=3+6 باریوں پر ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ''نو باریاں اور نو پٹاریاں'' اور دیکھیے ان برادران کی 9 باریوں کے بعد اب پٹاریاں کھلنے لگی ہیں۔
اگست 2016ء میں لکھے کالم کا پیرا گراف ہے ''کرپشن میں لتھڑے سسٹم کا باغی کرکٹر عمران خاں اب سیاست نگری میں آنے کے بعد چوروں، غاصبوں، ڈکیٹوں اور وارداتیوں کا کھرا تلاش کرنے میں سرگرداں ہے ''شاید لوگ بھول گئے ہوں لہٰذا ان کی یادداشت تازہ کردی جائے کہ سرکاری ملازم کبھی بااصول اور دیانت دار بھی ہوا کرتے تھے۔ تنخواہ پر گزارہ کرتے تھے، سادہ زندی بسر کرتے اور عزت دار کہلاتے تھے۔ رولز ریگولیشنز اور پالیسی کی پابندی کرتے تھے۔ اختلافی نوٹ بھی لکھتے تھے اور سزا پانے بلکہ قلم کی مار کھانے اور کھڈے لائن پوسٹنگ برداشت کرنے کا بھی جگرا رکھتے تھے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے بھی دباؤ، سفارش، مراعات اور حکم کے آگے سرتسلیم خم کرنا شروع کردیا۔''
مارچ 2017ء میں میرا کالم شایع ہوا ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری'' اس کی چند سطور یوں ہیں ''حکمرانوں اور ان کے مصاحبوں جی حضوریوں نے تو اپنی مدت ملازمت اور Extensions پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوجانا ہوتا ہے لیکن اب حکمرانی کو وراثت میں چھوڑنے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ ماضی کی بادشاہتوں میں تو رعایا کو یہ سسٹم مجبوراً قبول کرنا پڑتا تھا لیکن شاعروں نے جمہوریت میں بھی وراثت کا نسخہ معلوم کرلیا ہے۔
آج سیاسی کاروباریوں کے بچے، رشتہ دار اور مصاحب ڈنکے کی چوٹ پر سیاسی کارخانے اور دکانیں چلارہے ہیں جب کہ ملک کے عوام اب ان کے ناموں اور کاروباروں سے خوب واقف ہیں۔ صوبہ سندھ اور پنجاب میں خاندانی جمہوریت نے ڈیرے ڈال کر اچھی روایت قائم نہیں کی۔''
کئی ماہ قبل شایع ہونے والے میرے کالم کی چند سطور یوں تھیں ''دنیا کے حقیقی جمہوری ممالک میں Rule of Law ایک بنیادی اصول کے طور پر نافذ العمل ہوتا ہے لیکن پاکستان جیسی جمہوریتوں میں اس کو الٹ کر Law of Rule کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کا اطلاق اوپر سے نچلی سطح تک ہونے کی وجہ سے حکم حاکم قانون کا درجہ پاکر بدترین ڈکٹیٹر شپ سے لاقانونیت کی سطح تک آگرتا ہے اور پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی شکل اختیار کرتا دیکھا گیا ہے۔ شاید ایسی ہی صورتحال کے اندیشے کے پیش نظر اس یگانہ چنگیزی نے بہت عرصہ قبل کہہ دیا تھا کہ :
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
گزشتہ عام انتخابات سے قبل نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی پارٹی کے خاقان عباسی نے وزیراعظم کے اختیارات سنبھالے تو میاں صاحب نے سارے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر پارٹی جلسے کرنے کے دوران عدلیہ کو نشانہ بناتے ہوئے بہ آواز بلند تابڑ توڑ تقریری حملے شروع کردیے۔ دوسری طرف جناب خاقان نے اپنے سیاسی اور پارٹی خطابات میں میاں صاحب سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر عدلیہ پر گولہ باری شروع کردی۔ میں نے ہر دو کے بیانات و تقاریر کو بنیاد بناکر توہین عدالت کی قانونی تشریح کے ساتھ ان کی تقاریر Quate کرتے ہوئے دو بااثر افراد کو توہین عدالت پر دی گئی سزاؤں پر مبنی کالم لکھا۔
میرے اپریل 2018ء میں لکھے کالم کا عنوان تھا ''بدنام اگر ہوں گے'' اس کا ایک پیرا گراف یوں تھا ''سیاست، وزارت، شرافت، دیانت، امانت ہم قافیہ الفاظ ضرور ہیں اور اگرچہ پہلے دوکا بعد والے تین سے معانی کے مطابق گہرا تعلق ہونا چاہیے لیکن اپنے یہاں صدا افسوس کہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو سیاست اور وزارت کے ساتھ خیانت کا میل ملاپ دنیا کے بہت سے ممالک میں چولی دامن کے رشتے سے بھی گہرا نظر آئے گا۔
یہی وجہ کہ اگر آپ نیک نام محسن انسانیت، ایماندار، دیندار، اہل سیاست کی فہرست تیار کرنے بیٹھیں تو مشکل میں پڑ جائیں گے لیکن بد، بدنام اور بددیانت کے نام ملکی اور عالمی سطح پر جمع کرنے کا ارادہ کریں تو ایسی شخصیات کی قطاریں لگی ملیں گی۔ اسی غرض سے میں نے انٹرنیٹ سے دس صادق اور امین اور دس کرپٹ حکمرانوں کے نام پوچھے تو دس نیک نام شخصیات وہ تھیں جنہوں نے گوشتہ گمنامی میں رہ کر لوگوں اور ملکوں کے لیے کام کیا تھا۔ اس لیے ان کے نام بھی غیر مشہور تھے جب کہ کرپٹ اور بدنام زمانہ حکمران وہ تھے جن کی اتنی مشہوری تھی کہ ریڑھی، چھابے والے اور عام لوگ بھی ان کے ناموں سے واقف تھے۔ یعنی وہی بات کہ ''بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا''
مہاتیر محمد جس نے ملائشیا کو زمین سے اٹھا کر معاشی، تعلیمی، صحت مندی اور ایمانداری کی بلندیوں تک پہنچایا سیاست ترک کرکے آنے والے حکمرانوں کے کرتوت پندرہ سال تک دیکھتا رہا لیکن پھر برداشت نہ کرسکا اور گزشتہ ملکی انتخابات میں کرپٹ گدی نشینوں کو شکست دے کر پیرانہ سالی میں کرپٹ مافیا سے نبرد آزما ہوگیا ہے۔ ادھر ہمارے سابق حکمرانوں کو بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ دنیا عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے۔
اگست 2016ء میں لکھے کالم کا پیرا گراف ہے ''کرپشن میں لتھڑے سسٹم کا باغی کرکٹر عمران خاں اب سیاست نگری میں آنے کے بعد چوروں، غاصبوں، ڈکیٹوں اور وارداتیوں کا کھرا تلاش کرنے میں سرگرداں ہے ''شاید لوگ بھول گئے ہوں لہٰذا ان کی یادداشت تازہ کردی جائے کہ سرکاری ملازم کبھی بااصول اور دیانت دار بھی ہوا کرتے تھے۔ تنخواہ پر گزارہ کرتے تھے، سادہ زندی بسر کرتے اور عزت دار کہلاتے تھے۔ رولز ریگولیشنز اور پالیسی کی پابندی کرتے تھے۔ اختلافی نوٹ بھی لکھتے تھے اور سزا پانے بلکہ قلم کی مار کھانے اور کھڈے لائن پوسٹنگ برداشت کرنے کا بھی جگرا رکھتے تھے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے بھی دباؤ، سفارش، مراعات اور حکم کے آگے سرتسلیم خم کرنا شروع کردیا۔''
مارچ 2017ء میں میرا کالم شایع ہوا ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری'' اس کی چند سطور یوں ہیں ''حکمرانوں اور ان کے مصاحبوں جی حضوریوں نے تو اپنی مدت ملازمت اور Extensions پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوجانا ہوتا ہے لیکن اب حکمرانی کو وراثت میں چھوڑنے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ ماضی کی بادشاہتوں میں تو رعایا کو یہ سسٹم مجبوراً قبول کرنا پڑتا تھا لیکن شاعروں نے جمہوریت میں بھی وراثت کا نسخہ معلوم کرلیا ہے۔
آج سیاسی کاروباریوں کے بچے، رشتہ دار اور مصاحب ڈنکے کی چوٹ پر سیاسی کارخانے اور دکانیں چلارہے ہیں جب کہ ملک کے عوام اب ان کے ناموں اور کاروباروں سے خوب واقف ہیں۔ صوبہ سندھ اور پنجاب میں خاندانی جمہوریت نے ڈیرے ڈال کر اچھی روایت قائم نہیں کی۔''
کئی ماہ قبل شایع ہونے والے میرے کالم کی چند سطور یوں تھیں ''دنیا کے حقیقی جمہوری ممالک میں Rule of Law ایک بنیادی اصول کے طور پر نافذ العمل ہوتا ہے لیکن پاکستان جیسی جمہوریتوں میں اس کو الٹ کر Law of Rule کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کا اطلاق اوپر سے نچلی سطح تک ہونے کی وجہ سے حکم حاکم قانون کا درجہ پاکر بدترین ڈکٹیٹر شپ سے لاقانونیت کی سطح تک آگرتا ہے اور پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی شکل اختیار کرتا دیکھا گیا ہے۔ شاید ایسی ہی صورتحال کے اندیشے کے پیش نظر اس یگانہ چنگیزی نے بہت عرصہ قبل کہہ دیا تھا کہ :
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
گزشتہ عام انتخابات سے قبل نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی پارٹی کے خاقان عباسی نے وزیراعظم کے اختیارات سنبھالے تو میاں صاحب نے سارے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر پارٹی جلسے کرنے کے دوران عدلیہ کو نشانہ بناتے ہوئے بہ آواز بلند تابڑ توڑ تقریری حملے شروع کردیے۔ دوسری طرف جناب خاقان نے اپنے سیاسی اور پارٹی خطابات میں میاں صاحب سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر عدلیہ پر گولہ باری شروع کردی۔ میں نے ہر دو کے بیانات و تقاریر کو بنیاد بناکر توہین عدالت کی قانونی تشریح کے ساتھ ان کی تقاریر Quate کرتے ہوئے دو بااثر افراد کو توہین عدالت پر دی گئی سزاؤں پر مبنی کالم لکھا۔
میرے اپریل 2018ء میں لکھے کالم کا عنوان تھا ''بدنام اگر ہوں گے'' اس کا ایک پیرا گراف یوں تھا ''سیاست، وزارت، شرافت، دیانت، امانت ہم قافیہ الفاظ ضرور ہیں اور اگرچہ پہلے دوکا بعد والے تین سے معانی کے مطابق گہرا تعلق ہونا چاہیے لیکن اپنے یہاں صدا افسوس کہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو سیاست اور وزارت کے ساتھ خیانت کا میل ملاپ دنیا کے بہت سے ممالک میں چولی دامن کے رشتے سے بھی گہرا نظر آئے گا۔
یہی وجہ کہ اگر آپ نیک نام محسن انسانیت، ایماندار، دیندار، اہل سیاست کی فہرست تیار کرنے بیٹھیں تو مشکل میں پڑ جائیں گے لیکن بد، بدنام اور بددیانت کے نام ملکی اور عالمی سطح پر جمع کرنے کا ارادہ کریں تو ایسی شخصیات کی قطاریں لگی ملیں گی۔ اسی غرض سے میں نے انٹرنیٹ سے دس صادق اور امین اور دس کرپٹ حکمرانوں کے نام پوچھے تو دس نیک نام شخصیات وہ تھیں جنہوں نے گوشتہ گمنامی میں رہ کر لوگوں اور ملکوں کے لیے کام کیا تھا۔ اس لیے ان کے نام بھی غیر مشہور تھے جب کہ کرپٹ اور بدنام زمانہ حکمران وہ تھے جن کی اتنی مشہوری تھی کہ ریڑھی، چھابے والے اور عام لوگ بھی ان کے ناموں سے واقف تھے۔ یعنی وہی بات کہ ''بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا''
مہاتیر محمد جس نے ملائشیا کو زمین سے اٹھا کر معاشی، تعلیمی، صحت مندی اور ایمانداری کی بلندیوں تک پہنچایا سیاست ترک کرکے آنے والے حکمرانوں کے کرتوت پندرہ سال تک دیکھتا رہا لیکن پھر برداشت نہ کرسکا اور گزشتہ ملکی انتخابات میں کرپٹ گدی نشینوں کو شکست دے کر پیرانہ سالی میں کرپٹ مافیا سے نبرد آزما ہوگیا ہے۔ ادھر ہمارے سابق حکمرانوں کو بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ یہ دنیا عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے۔