ہم تو شرمندہ ہیں…
جب ہمارے سیاستدان حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی
ہم نے گزشتہ اظہاریے میں اپنی کچھ قومی خوبیوں کے ساتھ حکمرانوں کی بھی ایک دو عالمگیر تو نہیں البتہ ملک گیر خوبیوں کا بھی تذکرہ کیا تھا۔ اب کالم تو کالم ہی ہوتا ہے کتاب یا پی ایچ ڈی کا مقالہ نہیں کہ ہر خوبی پر تفصیلی نظر ڈالی جائے، ہر زاویے اور ہر پہلو سے ان ''صفات'' کا پس منظر و پیش منظر۔ اس صفت کے ہونے کا منطقی جواز اور نہ ہونے کے نقصانات پر مکمل روشنی ڈالی جائے۔ اس لیے ہم ''قومی اور حکمرانی'' خوبیوں پر تو مزید روشنی نہیں ڈالیں گے البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ ''کچھ تذکرہ سیاستدانوں کا بھی ہو جائے'' ویسے تو سیاستدان کوئی الگ ''چیز'' نہیں ہوتے ۔ اس عجیب قوم کے ہی افراد ہوتے ہیں نہ ان کے سر پر سینگھ ہوتے ہیں اور نہ پَر، مگر بے پَر کی اڑانے اور اپنے سینگھوں پر ہرکسی کو اٹھا کر پٹخنے میں قوم کے دیگر افراد سے بہرحال مختلف ہوتے ہیں۔ یہ کبھی برسر اقتدار ہوتے ہیں اور کبھی برسر اختلاف ۔ ہمارے یہاں برسر اقتدار اور برسر اختلاف کی باریاں شاید قانونی بلکہ آئینی طور پر نہ صرف لگتی ہیں بلکہ ان کو مکمل جائز سمجھ کر ہر بار تحفظ بھی دیا جاتا ہے۔
جب ہمارے سیاستدان حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی، جو ان میں موجود نہ ہو عموماً ان پر مقدمے چلتے رہتے ہیں ، سزا ہوجاتی ہے ، نااہل قرار پاتے ہیں مگر کسی بھی صورتحال میں حکومت کے خلاف نعرے لگانے سے، مظاہرے اور احتجاج، دھرنوں سے انھیں کوئی روک نہیں سکتا ۔ حزب مخالف کا فرض اولین صاحبان حکومت کو ناکوں چنے چبوانا، ہر وقت مسند اقتدار کو پاؤں تلے سے کھینچنے کی کوشش کرنا، ہر منصوبے میں کیڑے ڈالنا ، حکمران جماعت کے ہر فرد کے بیان کو ملک کے خلاف سازش اور ہر عمل کو غیر آئینی بلکہ غیر اخلاقی قرار دینے کے لیے ایسے ایسے نکات سامنے لانا کہ عقل انسانی حیران رہ جائے۔ اس تمام صورتحال میں یہ واضح ہے کہ صاحبان اقتدار سے کئی گنا بڑھ کر حزب اختلاف سرگرم اور ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔
ملک و قوم کی فکر میں نہ رات کو سوتے ہیں اور نہ دن میں لمحہ بھرکو آرام کرتے ہیں۔ غرض حکمرانوں کو اتنا پریشان کرتے ہیں کہ وہ سوائے حکومت کرنے کے اورکچھ بھی نہیں کر پاتے۔ حزب مخالف اگر زیادہ ہی من چلی ہو تو حکومت مقررہ مدت عموماً مکمل نہیں کر پاتی یا پھر ایک ہی دور اقتدار میں دوکبھی تین وزیر اعظم جیسے تیسے مدت اقتدار پوری کرتے ہیں اور یوں ہنگاموں، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور احتجاج ہی میں اگلے انتخابات کا وقت آ جاتا ہے۔ نگران حکومت کا دورانیہ بے حد ہنگامہ خیز ہوتا ہے۔ اقتدار سے باہر آنے اور اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے دونوں اپنی کوئی خوبی یا اقتدار میں آکر کچھ کرنے کے بارے میں کچھ بتانے کے بجائے اپنے مخالفین کی بدعنوانی، ملک و قوم سے بدسلوکی اور اقتدار کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں عوام یعنی ووٹر کو بتاتے ہیں اور خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی بہترین کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہوتے ہیں، فرشتہ تو خیر محاورتاً ہوتے ہیں البتہ ایسے مومن اور اعلیٰ صنف انسان کہ ''دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضو کریں'' ملک و قوم کی خاطر خود پر دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر لیتے ہیں۔
ملکی دولت کو قوم کی امانت سمجھ کر اس کی پائی پائی (جو اب ہوتی ہی نہیں) کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ بس ذرا ملکی وقار بڑھانے کے لیے دوسرے ممالک میں بڑی بڑی جائیدادیں بناتے ہیں ملک میں کیونکہ دولت محفوظ نہیں قوم کے چور اچکوں کی طرف سے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے، اس لیے وہ ملکی دولت کو بڑی خاموشی اور رازداری سے دوسرے ممالک منتقل کر کے ان چوروں سے بچا لیتے ہیں اور ملکی ضروریات کے لیے بین الاقوامی اداروں سے قرض لے کر کام چلاتے ہیں۔ دوستوں کی دوستی کو '' امداد '' یا قرض حسنہ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، جو زیادہ قرض زیادہ سے زیادہ ''سخت شرائط'' پر دے وہی ہمارے حکمرانوں بلکہ ہمارے ملک کا سب سے مخلص دوست ہوتا ہے۔ وہ ہمارے سارے مسائل اپنے مسائل سمجھ کر حل کرنے پرکمر بستہ ہوتا ہے اور حکمران ان پر بھروسہ کرکے سکھ کا سانس لیتے ہیں اور دوست ممالک حق دوستی ادا کرتے ہوئے اپنے ملک کے بیروزگاروں کو ہمارے ملک میں روزگار فراہم کرتے ہیں۔
وہ تمام منصوبے اپنے محنتی اور محب وطن افراد کے ذریعے مکمل کرواتے ہیں اور اپنے ملک میں بیروزگاری کا مسئلہ احسن طریقے سے حل کر لیتے ہیں جب کہ وطن عزیز کے ہنرمند اور مزدوروں کو یہ خوشخبری ہی کافی ہوتی ہے کہ جب فلاں منصوبے کا آغاز ہوگا تو اتنے کروڑ افراد پر روزگار کے دروازے کھل جائیں گے اور وہ اس خوشخبری سے پیٹ بھر کر ہی جیتے رہتے اور حکمرانوں کو دعائیں دیتے رہتے ہیں۔ حکمران معاشی مسائل کی طرف مطمئن ہو کر اپنے مخالفین کا جینا دوبھر کرنے کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
اگر کسی صوبے میں باوجود تمام ترکوشش کے حزب اختلاف کی حکومت قائم ہوجائے تو اس کو گرانے کے لیے ''قانونی و آئینی'' بلکہ ماورائے آئین بھی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ کیونکہ ملک و قوم کی فکر سے تو وہ آزاد ہوچکے ہوتے ہیں البتہ پورے ملک پر اپنا اقتدار مسلط کرنے کا کام ہی باقی رہ جاتا ہے جو ہر حال میں اسی مقررہ مدت میں پورا کرنا ہوتا ہے تاکہ آیندہ مزید طاقتور ہوکر کرسی اقتدار پر براجمان ہوسکیں اور یوں کئی سال تک ملک میں فاتح بن کر پوری قوم پر حکمرانی کے مزے لوٹ سکیں۔ وفاق صوبے کی اور صوبے وفاق کی حکومت ایک ہفتے بلکہ ایک دن میں ختم کرنے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ آج کل ملک کی یہ صورتحال سب کے سامنے ہے یعنی بکری و شیر ایک گھاٹ پانی پی رہے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے زیادہ معتبر اور محب وطن ثابت ہو رہے ہیں۔ عوام بے چاروں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر ملک کا دشمن کون ہے ملک اس حال کو کیوں اور کیسے پہنچا ؟
جب ہمارے سیاستدان حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی، جو ان میں موجود نہ ہو عموماً ان پر مقدمے چلتے رہتے ہیں ، سزا ہوجاتی ہے ، نااہل قرار پاتے ہیں مگر کسی بھی صورتحال میں حکومت کے خلاف نعرے لگانے سے، مظاہرے اور احتجاج، دھرنوں سے انھیں کوئی روک نہیں سکتا ۔ حزب مخالف کا فرض اولین صاحبان حکومت کو ناکوں چنے چبوانا، ہر وقت مسند اقتدار کو پاؤں تلے سے کھینچنے کی کوشش کرنا، ہر منصوبے میں کیڑے ڈالنا ، حکمران جماعت کے ہر فرد کے بیان کو ملک کے خلاف سازش اور ہر عمل کو غیر آئینی بلکہ غیر اخلاقی قرار دینے کے لیے ایسے ایسے نکات سامنے لانا کہ عقل انسانی حیران رہ جائے۔ اس تمام صورتحال میں یہ واضح ہے کہ صاحبان اقتدار سے کئی گنا بڑھ کر حزب اختلاف سرگرم اور ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔
ملک و قوم کی فکر میں نہ رات کو سوتے ہیں اور نہ دن میں لمحہ بھرکو آرام کرتے ہیں۔ غرض حکمرانوں کو اتنا پریشان کرتے ہیں کہ وہ سوائے حکومت کرنے کے اورکچھ بھی نہیں کر پاتے۔ حزب مخالف اگر زیادہ ہی من چلی ہو تو حکومت مقررہ مدت عموماً مکمل نہیں کر پاتی یا پھر ایک ہی دور اقتدار میں دوکبھی تین وزیر اعظم جیسے تیسے مدت اقتدار پوری کرتے ہیں اور یوں ہنگاموں، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور احتجاج ہی میں اگلے انتخابات کا وقت آ جاتا ہے۔ نگران حکومت کا دورانیہ بے حد ہنگامہ خیز ہوتا ہے۔ اقتدار سے باہر آنے اور اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے دونوں اپنی کوئی خوبی یا اقتدار میں آکر کچھ کرنے کے بارے میں کچھ بتانے کے بجائے اپنے مخالفین کی بدعنوانی، ملک و قوم سے بدسلوکی اور اقتدار کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں عوام یعنی ووٹر کو بتاتے ہیں اور خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی بہترین کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہوتے ہیں، فرشتہ تو خیر محاورتاً ہوتے ہیں البتہ ایسے مومن اور اعلیٰ صنف انسان کہ ''دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضو کریں'' ملک و قوم کی خاطر خود پر دن کا چین اور رات کی نیند حرام کر لیتے ہیں۔
ملکی دولت کو قوم کی امانت سمجھ کر اس کی پائی پائی (جو اب ہوتی ہی نہیں) کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرتے ہیں۔ بس ذرا ملکی وقار بڑھانے کے لیے دوسرے ممالک میں بڑی بڑی جائیدادیں بناتے ہیں ملک میں کیونکہ دولت محفوظ نہیں قوم کے چور اچکوں کی طرف سے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے، اس لیے وہ ملکی دولت کو بڑی خاموشی اور رازداری سے دوسرے ممالک منتقل کر کے ان چوروں سے بچا لیتے ہیں اور ملکی ضروریات کے لیے بین الاقوامی اداروں سے قرض لے کر کام چلاتے ہیں۔ دوستوں کی دوستی کو '' امداد '' یا قرض حسنہ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، جو زیادہ قرض زیادہ سے زیادہ ''سخت شرائط'' پر دے وہی ہمارے حکمرانوں بلکہ ہمارے ملک کا سب سے مخلص دوست ہوتا ہے۔ وہ ہمارے سارے مسائل اپنے مسائل سمجھ کر حل کرنے پرکمر بستہ ہوتا ہے اور حکمران ان پر بھروسہ کرکے سکھ کا سانس لیتے ہیں اور دوست ممالک حق دوستی ادا کرتے ہوئے اپنے ملک کے بیروزگاروں کو ہمارے ملک میں روزگار فراہم کرتے ہیں۔
وہ تمام منصوبے اپنے محنتی اور محب وطن افراد کے ذریعے مکمل کرواتے ہیں اور اپنے ملک میں بیروزگاری کا مسئلہ احسن طریقے سے حل کر لیتے ہیں جب کہ وطن عزیز کے ہنرمند اور مزدوروں کو یہ خوشخبری ہی کافی ہوتی ہے کہ جب فلاں منصوبے کا آغاز ہوگا تو اتنے کروڑ افراد پر روزگار کے دروازے کھل جائیں گے اور وہ اس خوشخبری سے پیٹ بھر کر ہی جیتے رہتے اور حکمرانوں کو دعائیں دیتے رہتے ہیں۔ حکمران معاشی مسائل کی طرف مطمئن ہو کر اپنے مخالفین کا جینا دوبھر کرنے کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
اگر کسی صوبے میں باوجود تمام ترکوشش کے حزب اختلاف کی حکومت قائم ہوجائے تو اس کو گرانے کے لیے ''قانونی و آئینی'' بلکہ ماورائے آئین بھی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ کیونکہ ملک و قوم کی فکر سے تو وہ آزاد ہوچکے ہوتے ہیں البتہ پورے ملک پر اپنا اقتدار مسلط کرنے کا کام ہی باقی رہ جاتا ہے جو ہر حال میں اسی مقررہ مدت میں پورا کرنا ہوتا ہے تاکہ آیندہ مزید طاقتور ہوکر کرسی اقتدار پر براجمان ہوسکیں اور یوں کئی سال تک ملک میں فاتح بن کر پوری قوم پر حکمرانی کے مزے لوٹ سکیں۔ وفاق صوبے کی اور صوبے وفاق کی حکومت ایک ہفتے بلکہ ایک دن میں ختم کرنے کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ آج کل ملک کی یہ صورتحال سب کے سامنے ہے یعنی بکری و شیر ایک گھاٹ پانی پی رہے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے زیادہ معتبر اور محب وطن ثابت ہو رہے ہیں۔ عوام بے چاروں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر ملک کا دشمن کون ہے ملک اس حال کو کیوں اور کیسے پہنچا ؟