پنجاب میں شتر مرغ فارمنگ سرکاری توجہ کی منتظر …
بریڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں یہ کاروبار بہت مہنگا تصور کیا جاتا ہے
شتر مرغ زمانہ قدیم کے ان پرندوں میں سے ہے جنہوں نے اپنی نسل کو محفوظ رکھا ہوا ہے، اس کا اصل وطن افریقہ اور عرب کے ریگستان ہیں مگر اب یہ آسڑیلیا، نیوزی لینڈ اور ایشیاء کے بعض ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان تمام ممالک کے شتر مرغ رنگ اور قد کے حوالے سے تھوڑا سا فرق رکھتے ہیں، شتر مرغ کا قد چھ سے آٹھ فٹ تک ہوتا ہے، اس کی لمبائی میں نمایاں حصہ اس کی گردن اور ٹانگوں کا ہوتا ہے، یہ اپنی قامت اور چال ڈھال سے اونٹ کی طرح ہوتا ہے، اس کے باوجود یہ پردار پرندہ ہے۔
یوں تو دنیا بھر میں شتر مرغ کی چھ سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں زیادہ تر سائوتھ افریقہ، بیلجئم اور آسڑیلیا کی نسل کے شتر مرغ پالے جاتے ہیں، ''بلیک آسٹرچ'' نام کی یہ نسل شتر مرغ کی بہترین نسل شمار کی جاتی ہے۔ پاکستان میں شتر مرغ فارمنگ کا رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے، شتر مرغ کا گوشت بھی اپنی طبی افادیت اور غذائیت کی وجہ سے مرغوب غذائوں میں شامل ہوتا جا رہا ہے اس سلسلے میں نوجوانوں کی رغبت اور پسندیدگی خاص اہمیت کی حامل ہے، تاہم ابھی پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ بہت سے مسائل کا شکار ہے۔
اگر اس کاروبار کو حکومتی توجہ مل جائے تو پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اس کاروبار میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں شتر مرغ کی افزائش یا بریڈنگ کا نہ ہونا ہے، اسی وجہ سے پاکستان میں یہ کاروبار بہت مہنگا تصور کیا جاتا ہے، اسی حساب سے شتر مرغ کا گوشت بھی بہت زیادہ مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جو فارمرز یہ کاروبار کر رہے ہیں وہ جنوبی افریقہ، بیلجیم اور آسڑیلیا سے پرندے منگواتے ہیں ایک ماہ کا پرندہ پندرہ ہزار سے سترہ ہزار روپے میں فارم تک پہنچتا ہے بعض صورتوں میں اس سے کم قیمت پر بھی پرندہ دستیاب ہو جاتا ہے، جب ایک پرندہ تیار ہو جاتا ہے تو اس پر خوراک، ادویہ اور دیگر اخراجات ملا کر قریباً 50000 روپے خرچ ہوتے ہیں۔
شتر مرغ کی بریڈنگ سے ایک مکمل شتر مرغ تیار ہونے کے مراحل پر بات کی جائے تو بہت سی دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں، بریڈر انڈے سے شتر مرغ کا بچہ نکلنے کے بعد کچھ دن اسے اپنے پاس رکھتا ہے، اس کے بعد اسے درآمد کنندگان کے ذریعے فارمر کے حوالے کر دیا جاتا ہے، فارمر کے حوالے کیے جانے کے وقت شتر مرغ کا بچہ عموماً 20 دن کا ہوتا ہے جسے درآمد کنندگان ایک ماہ کا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ فارمر کے حوالے کئے جانے کے وقت شتر مرغ کا وزن ایک کلو سے بھی کم ہوتا ہے۔ شتر مرغ کو فارمز میں مرغی کی طرح ہی پالا جاتا ہے۔
انہیں صرف ابتدائی تین ماہ انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد یہ سخت جان پرندے موسمی اثرات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔ شتر مرغ کو فارم میں باڑ لگا کر احاطے میں رکھا جاتا ہے، اگر ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہر گند بلا بھی کھانے لگتے ہیں۔ شتر مرغ کو ابتدائی تین ماہ اس لیے زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہی تین ماہ کے دوران ان پر بیماریوں کے حملے کے خدشات زیادہ ہوتے اور انہی ایام میں وزن بڑھنے سے ان کی ٹانگیں ٹیڑھی ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے، تین ماہ کے بعد شتر مرغ کا وزن 10 سے 12 کلوگرام تک ہو جاتا ہے۔
ابتدائی تین ماہ میں یہ پرندے بڑی تیزی سے وزن بڑھاتے ہیں، اس لیے ان میں وزن آجانے کے بعد ان کی ٹانگیں ٹیڑھی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، ابتدائی تین ماہ میں انہیں زیادہ معتدل فضاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ شتر مرغ کے فارمز عموماً کھلے اور وسیع بنائے جاتے ہیں کیونکہ ایک پرندے کو قریباً ایک مرلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فارمز میں انہیں شیڈ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی یہ پرندے زیادہ تر سائے میں بیٹھنا پسند ہی نہیں کرتے، گرمی اور سردی کی راتوں میں بھی باہر بیٹھے رہتے ہیں۔ شتر مرغ کے چھوٹے پرندوں کو بڑے پرندوں سے الگ رکھا جاتا ہے، چھوٹے پرندوں کو 24 گھنٹے ایک نگران کی ضرورت ہے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک ماہر آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے مسائل اور نفسیات کو پیشہ ورانہ طور پر سمجھتا ہو' شتر مرغ ایک سال میں مکمل طور پر تیار ہوجاتا ہے۔
تیار ہوجانے کے بعد اس کا عمومی وزن 80 سے 100 کلو ہوتا ہے، بہتر دیکھ بھال اور خوراک کی وجہ سے اس کا وزن 120 یا 130 کلو بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے پائوں ایک خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں یوں بھی شتر مرغ کی طرف دیکھتے ہی جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے، وہ شتر مرغ کے پائوں ہی ہوتے ہیں۔ اس کے پائوں کھر نما ہوتے ہیں' کہا جاتا ہے شتر مرغ کے چار پیروں میں سے دو ختم ہو چکے ہیں اور دو باقی ہیں' یہ اپنے لمبے اور تیز ناخن سے کسی پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔
اگر اسے گھیر لیا جائے تو یہ اپنے تیز اور نوکیلے ناخنوں سے مقابلہ کرتا ہے۔ شتر مرغ ہر وقت چوکنا رہتا ہے، اس کی گردن اس کے لئے ریڈار کا کام کرتی ہے جسے یہ ہر وقت گھماتا رہتا ہے۔ اس کے پائوں ایک خاص طاقت کے حامل ہوتے ہیں جو اس وزنی پرندے کو سہار کے رکھتے ہیں۔ شتر مرغ کی خوراک' عادات اور مزاج پر بات کی جائے تو ان کی عادات دیسی مرغیوں کی طرح ہوتی ہیں' ویسے تو شتر مرغ کے لئے آسٹرچ فوڈ خصوصی طور پر تیار کی جاتی ہے جو فارمرز کو رفاہ یونیورسٹی سے دستیاب ہوتی ہے۔
عمومی طور پر شتر مرغ برسیم مکئی اور لوسن شوق سے کھاتے ہیں، لوسن ان کی شاہانہ خوراک ہے، برسیم اور لوسن ان کو جتنا مرضی کھلا دیا جائے یہ شوق سے کھاتے ہیں' سردیوں میں انہیں پالک بھی کھلائی جاتا ہے کیونکہ وہ گرم ہوتی ہے۔ ایک شتر مرغ کی روزانہ خوراک اڑھائی کلو سبزہ اور اڑھائی کلو آسٹرچ فوڈ ہوتی ہے۔ شتر مرغ نر اور مادہ زیادہ تر ساتھ ساتھ رہتے ہیں' باڑے میں نر اپنی مادہ کے قریب قریب رہتا ہے جو اپنی مادہ کا خیال بھی کرتا ہے اور دفاع بھی، کمزور پرندے کو دیگر پرندے بری طرح مارتے رہتے ہیں۔ شتر مرغ کو دیگر جانوروں کی نسبت پالنا زیادہ آسان ہوتا ہے' یہ گند اور فضلہ بھی زیادہ نہیں کرتے۔
جنوبی پنجاب اور پاکستان کے دیگر شہروں میں شتر مرغ فارمنگ کا تو ایک کلچر بن چکا ہے، بہت سے فارمرز نہ صرف پیشہ ورانہ انداز میں شتر مرغ کی فارمنگ کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر کے فارمرز سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں بھی ہیں اور ان کے تجربات سے استفادہ بھی کر رہے ہیں، اب پاکستان میں شتر مرغ فارمنگ کے حوالے سے اصل مسئلہ صرف شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ اور کھپت کا رہ گیا ہے۔گورنمنٹ کے اداروں کی طرف سے ہر شہر میں آسٹرچ میٹ شاپس بن جائیں تو اس کی مارکیٹنگ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
اس سلسلہ میں کاروباری لوگوں کو بھی دعوت دی جاسکتی ہے' آسٹرچ میٹ کی ملتان اور جنوبی پنجاب میں کوئی مارکیٹ نہیں ہے، بڑے بڑے ہوٹلز کی بھی ابھی اس طرف توجہ نہیں ہے' کچھ چھوٹے ہوٹلز پر ضرور شتر مرغ کا گوشت کڑاہی اور باربی کیو کی صورت فروخت ہو رہا ہے' ان ہوٹل مالکان نے اپنے طور پر شتر مرغ کے گوشت کی دستیابی کی تشہیر بھی کی ہے' بڑے ہوٹلز کا ابھی اس طرف رجحان اس لئے نہیں ہے کہ گورنمنٹ نے اس کی مارکیٹنگ پر کوئی توجہ نہیں دی' جب تک گورنمنٹ اس طرف توجہ نہیں کرے گی کچھ بھی نہیں ہوگا۔ شتر مرغ فارمرز اپنے طور پر ہی گوشت کی فروخت کرتے ہیں، وہ بھی ڈیمانڈ کی صورت میں اگر 40 کلو سے زائد گوشت کی ڈیمانڈ ہو تو پرندہ ذبح کرا لیا جاتا ہے۔
شتر مرغ کا گوشت
شتر مرغ کے گوشت میں آئرن بہت زیادہ ہوتا ہے، دوسرا یہ مٹن اور بیف سے ذائقے اور غذائیت میں بہت بہتر ہوتا ہے، یوں تو دنیا بھر میں شتر مرغ کا گوشت بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے لیکن اسلامی ممالک سعودی عرب، ایران اور ترکی میں اس کے گوشت کی بہت زیادہ مانگ ہے، ایک امریکن ریسرچ کے مطابق امراض قلب شوگر اور بلڈ پریشر کے لیے شتر مرغ کا گوشت بہت زیادہ مفید ہے، دل، شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض اگر ماہانہ 5 سے 6 کلو گوشت باقاعدگی سے کھائیں تو ان کی صحت پر بہت خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کولیسٹرول لیول بھی کم ہو سکتا ہے۔ شتر مرغ کی چربی کا تیل مختلف ادویہ میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ شتر مرغ کو اونٹ کی طرح ہی ذبح کیا جاتا ہے جس طرح اونٹ کو گردن پر تین مقامات سے ذبح کیا جاتا ہے شتر مرغ کو بھی اسی طرح ذبح کیا جاتا ہے، پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ کے حوالے سے گورنمنٹ کی پالیسی نہایت سست ہے، سست اس طرح سے ہے کہ نہ تو سرکار نے شتر مرغ کو ذبح کرنے کے لیے کوئی سلاٹر ہائوس بنایا ہے نہ ہی گوشت کی سپلائی اور کھپت کے لیے سیل پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔
گورنمنٹ کی طرف سے فارمرز کو نہ تو کوئی امداد مل رہی ہے نہ ہی تعاون کیا جا رہا ہے، گوشت کی فروخت کے حوالے سے فارمرز اپنے طور پر کوشش کرتے ہیں حکومت کو چاہیے شتر مرغ کے گوشت کے استعمال کے حوالے سے اشتہاری مہم شروع کرے جیسے اونٹنی کے دودھ کی مارکیٹنگ کی گئی ہے، اس اشتہاری مہم میں شتر مرغ کے گوشت کی افادیت، طبی خصائص کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ یوں لوگوں میں تجسس پیدا ہو گا اور وہ ضرور ایک بار شتر مرغ کے گوشت کو آزمائیں گے، اس سلسلے میں ڈاکٹرز اور علماء کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں شتر مرغ کے گوشت سے عدم رغبت کی ایک وجہ حلال حرام کا تصور بھی ہے۔
اگر ڈاکٹر اور علماء لوگوں کو اس کے بارے میں معلومات دیں تو لوگوں کو پتہ چلے گا کہ شتر مرغ حلال پرندوں میں شامل ہے جس طرح تمام حلال پرندوں کے دو پوٹ ہوتے ہیں شتر مرغ کے بھی دو پوٹ ہوتے ہیں۔ 100 کلو کے پرندے میں سے 60 کلو گوشت نکل آتا ہے۔ شتر مرغ کی کھال بھی خاصی قیمتی ہوتی ہے' لیکن پاکستان میں ابھی شتر مرغ کی کھال کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے' باہر کے ملکوں میں ضرور اس کی ڈیمانڈ ہے لیکن باہر بھیجنے کے لئے پورا کنٹینر چاہئے' شتر مرغ کی کھال 30 ہزار سے زائد میں فروخت ہو سکتی ہے۔
ویسے شتر مرغ کی کھال پر پاکستان میں بھی کام ہورہا ہے کراچی کی ایک فیکٹری جو لیدر کی اشیاء بناتی ہے وہ آسٹرچ لیدر کے شوز اور ہینڈ بیگ بنانے میں دلچٖسپی رکھتی ہے' شتر مرغ کے پر ویسٹ میں چلے جاتے ہیں لیکن اس کے ناخن اور چربی بھی فروخت ہوتی ہے' شتر مرغ کا گوشت اس وقت مارکیٹ میں 1500 روپے سے 2000 روپے تک فروخت ہو رہا ہے گوشت کے ساتھ ساتھ شتر مرغ کے پائے بھی کھائے جاتے ہیں جو بکرے کے پائے سے بھی زیادہ مقوی ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق شتر مرغ کے پائے شوگر کے مریضوں کے لئے بہت زیادہ مفید ہیں۔ ایک شتر مرغ سے دو کلو کے قریب کلیجی بھی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں شتر مرغ کا گوشت زیادہ تر کڑاہی اور باربی کیو میں استعمال کیا جاتا ہے۔
شتر مرغ کی بیماریاں اور علاج
جب پاکستان میں یہ کاروبار شروع ہوا تو فارمرز کو اس حوالے سے نہ تو زیادہ معلومات تھیں نہ ہی کسی نے ہوم ورک کر رکھا تھا کچھ عرصہ پہلے تک محکمہ لائیوسٹاک کی طرف سے بہتر سہولیات مل رہی تھیں، مقررہ دنوں میں لائیوسٹاک کا عملہ آتا اور پرندوں کی ویکسی نیشن کر جاتا تھا، اگر ان پر کوئی بیماری کا حملہ ہو جاتا تو ڈاکٹر کو خصوصی طور پر بلا لیا جاتا تھا جب سے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق اس محکمہ سے الگ ہوئے ہیں اب ڈاکٹرز آنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ پہلے ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر شہروں میں یہ پرندے رانی کھیت کی بیماری کا شکار ہوئے، ہم نے لائیو سٹاک والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ شتر مرغ کو یہ بیماری متاثر نہیں کرتی، اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف فارمز پر پرندے مرنا شروع ہو گئے۔
پھر فارمرز نے ایران کے ایک ماہر آسٹرچ فارمر سے رابطہ کیا، اس نے پرندوں کی ویڈیو منگوائی اور اسے دیکھ کر کہا کہ ان پرندوں کو سو فیصد رانی کھیت کی بیماری ہے پھر ان کی ویکسی نیشن کی، پانی میں ملا کر ادویہ دی گئیں اس دن کے بعد سے کوئی پرندہ بیمار نہیں ہوا۔ دیکھا جائے تو محکمہ لائیو سٹاک کے ڈاکٹرز نے فارمرز کو ویکسی نیشن کے حوالے سے مس گائیڈ کیا اور مختلف ادویہ دی گئیں ایک پرندے کی دوائی کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپے تھی جس سے اخراجات بہت بڑھ گئے پرندے مرنے سے الگ نقصان ہوا بعد ازاں اس وقت کے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق نے بھی اس بات کو ایڈمٹ کیا کہ شتر مرغ کی ویکسی نیشن کے حوالے سے امپورٹرز اور لائیو سٹاک کے ڈاکٹرز کی طرف سے مجھے بھی غلط بریفنگ دی گئی کہ ان پرندوں کو رانی کھیت کا مسئلہ ہوتا ہی نہیں۔
شتر مرغ فارمنگ کے مسائل
پاکستان میں شتر مرغ کی بڑے پیمانے پر بریڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پرندے بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتے ہیں، اس سلسلے میں پہلے درآمد کنندگان سے رابطہ کرنا پڑتا ہے اور اپنی ڈیمانڈ بتانا پڑتی ہے۔ پرندے زیادہ تر بیلجئم، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سے منگوائے جاتے ہیں۔ ایک ماہ کا پرندہ سترہ ہزار روپے کا پڑتا ہے، پرندوں کی عمر کے حوالے سے بھی فارمرز کو مس گائیڈ کیا جاتا ہے۔ ملتان میں آسٹرچ فارمنگ کا آغاز کرنے و الے فارمر ذیشان خواجہ نے ہمیں بتایا کہ ایکسپورٹرز فارمرز سے بالکل بھی تعاون نہیں کرتے، جب میں نے دوسری بار پرندوں کے لیے بکنگ کرائی تو ایک ہفتہ بعد ڈیلیوری کا کہا گیا لیکن پرندے آنے میں 8 ماہ لگ گئے، 8مہینے بعد بھی میں نے اس وقت کے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق سے رابطہ کیا تو دوسرے دن ہی سپلائی مل گئی۔
ذیشان خواجہ نے بتایا کہ پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی فارمرز کو اس کا صحیح طور پر منافع بھی نہیں مل رہا، کھپت ٹھیک ہو جائے تو منافع ہو سکتا ہے، جو بھی نیا فارمر یہ کاروبار شروع کرتا ہے، اسے پہلے فلاک میں نقصان ہی ہوتا ہے اس میں بھی زیادہ تر سرکاری محکموں کی غفلت شامل ہوتی ہے۔ پہلے حکومت شتر مرغ فارمرز کو 10 ہزار روپے فی پرندہ خوراک کی مد میں سبسڈی دے رہی تھی جس سے فارمرز کچھ سہولت میں تھے۔
پنجاب میں شتر مرغ فارمنگ ایسوسی ایشن رواں سال کے ابتداء میں تشکیل پائی اور بوریوالہ سے تعلق رکھنے والے فارمر رانا خالد اس کے صدر منتخب ہوئے، شتر مرغ فارمنگ ایسوسی ایشن کے صدر رانا خالد نے بتایا کہ نئی حکومت نے ابھی تک شتر مرغ فارمنگ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، ہم نے اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان کو خط بھی لکھا ہے اور سیکرٹری لائیو سٹاک سے بھی مسائل کے حل کے لیے ملاقات کی تاہم ابھی تک اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، حکومت پہلے فارمرز کو جو سبسڈی دے رہی تھی اس کی ادائی بھی تعطل کا شکار ہے، فارمرز کو یہ سبسڈی تین اقساط کی صورت میں دی جاتی ہے، سیکرٹری لائیو سٹاک کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ہمارے پاس اتنا بجٹ نہیں ہے کہ فارمرز کو سبسڈی کی ادائی کی جائے، پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنے طور پر سعودی عرب کی پارٹیز سے معاہدہ کر رہے ہیں تاکہ اپنے پرندے وہاں بیچ سکیں۔ ابھی گوشت کی پیکنگ کے کچھ مسائل ہیں۔
اگر یہ مسائل حل ہو گئے تو جلد سعودی عرب کو سپلائی دی جائیگی۔ رانا خالد نے بتایا کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں شتر مرغ کی فارمنگ ہو رہی ہے بہت سے نوجوان اس کاروبار کی طرف آئے ہیں جنہوں نے بہت مہنگا چوزہ خریدا لیکن شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے سب پریشان ہیں۔ پنجاب میں درآمد کنندگان کی مناپلی بھی فارمرز کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے جو اکثر فارمرز کو بی کلاس چوزہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں شتر مرغ کا گوشت مہنگا ہونے کی وجہ بھی یہی ہے اسے بیرونی ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے اگر پاکستان میں شتر مرغ کی نیچرل پراسس سے بریڈنگ ہونا شروع ہو جائے تو اس کاروبار میں بہت بہتری آسکتی ہے۔
یوں تو دنیا بھر میں شتر مرغ کی چھ سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں زیادہ تر سائوتھ افریقہ، بیلجئم اور آسڑیلیا کی نسل کے شتر مرغ پالے جاتے ہیں، ''بلیک آسٹرچ'' نام کی یہ نسل شتر مرغ کی بہترین نسل شمار کی جاتی ہے۔ پاکستان میں شتر مرغ فارمنگ کا رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے، شتر مرغ کا گوشت بھی اپنی طبی افادیت اور غذائیت کی وجہ سے مرغوب غذائوں میں شامل ہوتا جا رہا ہے اس سلسلے میں نوجوانوں کی رغبت اور پسندیدگی خاص اہمیت کی حامل ہے، تاہم ابھی پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ بہت سے مسائل کا شکار ہے۔
اگر اس کاروبار کو حکومتی توجہ مل جائے تو پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اس کاروبار میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں شتر مرغ کی افزائش یا بریڈنگ کا نہ ہونا ہے، اسی وجہ سے پاکستان میں یہ کاروبار بہت مہنگا تصور کیا جاتا ہے، اسی حساب سے شتر مرغ کا گوشت بھی بہت زیادہ مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جو فارمرز یہ کاروبار کر رہے ہیں وہ جنوبی افریقہ، بیلجیم اور آسڑیلیا سے پرندے منگواتے ہیں ایک ماہ کا پرندہ پندرہ ہزار سے سترہ ہزار روپے میں فارم تک پہنچتا ہے بعض صورتوں میں اس سے کم قیمت پر بھی پرندہ دستیاب ہو جاتا ہے، جب ایک پرندہ تیار ہو جاتا ہے تو اس پر خوراک، ادویہ اور دیگر اخراجات ملا کر قریباً 50000 روپے خرچ ہوتے ہیں۔
شتر مرغ کی بریڈنگ سے ایک مکمل شتر مرغ تیار ہونے کے مراحل پر بات کی جائے تو بہت سی دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں، بریڈر انڈے سے شتر مرغ کا بچہ نکلنے کے بعد کچھ دن اسے اپنے پاس رکھتا ہے، اس کے بعد اسے درآمد کنندگان کے ذریعے فارمر کے حوالے کر دیا جاتا ہے، فارمر کے حوالے کیے جانے کے وقت شتر مرغ کا بچہ عموماً 20 دن کا ہوتا ہے جسے درآمد کنندگان ایک ماہ کا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ فارمر کے حوالے کئے جانے کے وقت شتر مرغ کا وزن ایک کلو سے بھی کم ہوتا ہے۔ شتر مرغ کو فارمز میں مرغی کی طرح ہی پالا جاتا ہے۔
انہیں صرف ابتدائی تین ماہ انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد یہ سخت جان پرندے موسمی اثرات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔ شتر مرغ کو فارم میں باڑ لگا کر احاطے میں رکھا جاتا ہے، اگر ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہر گند بلا بھی کھانے لگتے ہیں۔ شتر مرغ کو ابتدائی تین ماہ اس لیے زیادہ نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہی تین ماہ کے دوران ان پر بیماریوں کے حملے کے خدشات زیادہ ہوتے اور انہی ایام میں وزن بڑھنے سے ان کی ٹانگیں ٹیڑھی ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے، تین ماہ کے بعد شتر مرغ کا وزن 10 سے 12 کلوگرام تک ہو جاتا ہے۔
ابتدائی تین ماہ میں یہ پرندے بڑی تیزی سے وزن بڑھاتے ہیں، اس لیے ان میں وزن آجانے کے بعد ان کی ٹانگیں ٹیڑھی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، ابتدائی تین ماہ میں انہیں زیادہ معتدل فضاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ شتر مرغ کے فارمز عموماً کھلے اور وسیع بنائے جاتے ہیں کیونکہ ایک پرندے کو قریباً ایک مرلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فارمز میں انہیں شیڈ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی یہ پرندے زیادہ تر سائے میں بیٹھنا پسند ہی نہیں کرتے، گرمی اور سردی کی راتوں میں بھی باہر بیٹھے رہتے ہیں۔ شتر مرغ کے چھوٹے پرندوں کو بڑے پرندوں سے الگ رکھا جاتا ہے، چھوٹے پرندوں کو 24 گھنٹے ایک نگران کی ضرورت ہے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک ماہر آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے مسائل اور نفسیات کو پیشہ ورانہ طور پر سمجھتا ہو' شتر مرغ ایک سال میں مکمل طور پر تیار ہوجاتا ہے۔
تیار ہوجانے کے بعد اس کا عمومی وزن 80 سے 100 کلو ہوتا ہے، بہتر دیکھ بھال اور خوراک کی وجہ سے اس کا وزن 120 یا 130 کلو بھی ہوجاتا ہے۔ اس کے پائوں ایک خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں یوں بھی شتر مرغ کی طرف دیکھتے ہی جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے، وہ شتر مرغ کے پائوں ہی ہوتے ہیں۔ اس کے پائوں کھر نما ہوتے ہیں' کہا جاتا ہے شتر مرغ کے چار پیروں میں سے دو ختم ہو چکے ہیں اور دو باقی ہیں' یہ اپنے لمبے اور تیز ناخن سے کسی پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔
اگر اسے گھیر لیا جائے تو یہ اپنے تیز اور نوکیلے ناخنوں سے مقابلہ کرتا ہے۔ شتر مرغ ہر وقت چوکنا رہتا ہے، اس کی گردن اس کے لئے ریڈار کا کام کرتی ہے جسے یہ ہر وقت گھماتا رہتا ہے۔ اس کے پائوں ایک خاص طاقت کے حامل ہوتے ہیں جو اس وزنی پرندے کو سہار کے رکھتے ہیں۔ شتر مرغ کی خوراک' عادات اور مزاج پر بات کی جائے تو ان کی عادات دیسی مرغیوں کی طرح ہوتی ہیں' ویسے تو شتر مرغ کے لئے آسٹرچ فوڈ خصوصی طور پر تیار کی جاتی ہے جو فارمرز کو رفاہ یونیورسٹی سے دستیاب ہوتی ہے۔
عمومی طور پر شتر مرغ برسیم مکئی اور لوسن شوق سے کھاتے ہیں، لوسن ان کی شاہانہ خوراک ہے، برسیم اور لوسن ان کو جتنا مرضی کھلا دیا جائے یہ شوق سے کھاتے ہیں' سردیوں میں انہیں پالک بھی کھلائی جاتا ہے کیونکہ وہ گرم ہوتی ہے۔ ایک شتر مرغ کی روزانہ خوراک اڑھائی کلو سبزہ اور اڑھائی کلو آسٹرچ فوڈ ہوتی ہے۔ شتر مرغ نر اور مادہ زیادہ تر ساتھ ساتھ رہتے ہیں' باڑے میں نر اپنی مادہ کے قریب قریب رہتا ہے جو اپنی مادہ کا خیال بھی کرتا ہے اور دفاع بھی، کمزور پرندے کو دیگر پرندے بری طرح مارتے رہتے ہیں۔ شتر مرغ کو دیگر جانوروں کی نسبت پالنا زیادہ آسان ہوتا ہے' یہ گند اور فضلہ بھی زیادہ نہیں کرتے۔
جنوبی پنجاب اور پاکستان کے دیگر شہروں میں شتر مرغ فارمنگ کا تو ایک کلچر بن چکا ہے، بہت سے فارمرز نہ صرف پیشہ ورانہ انداز میں شتر مرغ کی فارمنگ کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر کے فارمرز سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں بھی ہیں اور ان کے تجربات سے استفادہ بھی کر رہے ہیں، اب پاکستان میں شتر مرغ فارمنگ کے حوالے سے اصل مسئلہ صرف شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ اور کھپت کا رہ گیا ہے۔گورنمنٹ کے اداروں کی طرف سے ہر شہر میں آسٹرچ میٹ شاپس بن جائیں تو اس کی مارکیٹنگ کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
اس سلسلہ میں کاروباری لوگوں کو بھی دعوت دی جاسکتی ہے' آسٹرچ میٹ کی ملتان اور جنوبی پنجاب میں کوئی مارکیٹ نہیں ہے، بڑے بڑے ہوٹلز کی بھی ابھی اس طرف توجہ نہیں ہے' کچھ چھوٹے ہوٹلز پر ضرور شتر مرغ کا گوشت کڑاہی اور باربی کیو کی صورت فروخت ہو رہا ہے' ان ہوٹل مالکان نے اپنے طور پر شتر مرغ کے گوشت کی دستیابی کی تشہیر بھی کی ہے' بڑے ہوٹلز کا ابھی اس طرف رجحان اس لئے نہیں ہے کہ گورنمنٹ نے اس کی مارکیٹنگ پر کوئی توجہ نہیں دی' جب تک گورنمنٹ اس طرف توجہ نہیں کرے گی کچھ بھی نہیں ہوگا۔ شتر مرغ فارمرز اپنے طور پر ہی گوشت کی فروخت کرتے ہیں، وہ بھی ڈیمانڈ کی صورت میں اگر 40 کلو سے زائد گوشت کی ڈیمانڈ ہو تو پرندہ ذبح کرا لیا جاتا ہے۔
شتر مرغ کا گوشت
شتر مرغ کے گوشت میں آئرن بہت زیادہ ہوتا ہے، دوسرا یہ مٹن اور بیف سے ذائقے اور غذائیت میں بہت بہتر ہوتا ہے، یوں تو دنیا بھر میں شتر مرغ کا گوشت بڑی رغبت سے کھایا جاتا ہے لیکن اسلامی ممالک سعودی عرب، ایران اور ترکی میں اس کے گوشت کی بہت زیادہ مانگ ہے، ایک امریکن ریسرچ کے مطابق امراض قلب شوگر اور بلڈ پریشر کے لیے شتر مرغ کا گوشت بہت زیادہ مفید ہے، دل، شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض اگر ماہانہ 5 سے 6 کلو گوشت باقاعدگی سے کھائیں تو ان کی صحت پر بہت خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کولیسٹرول لیول بھی کم ہو سکتا ہے۔ شتر مرغ کی چربی کا تیل مختلف ادویہ میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ شتر مرغ کو اونٹ کی طرح ہی ذبح کیا جاتا ہے جس طرح اونٹ کو گردن پر تین مقامات سے ذبح کیا جاتا ہے شتر مرغ کو بھی اسی طرح ذبح کیا جاتا ہے، پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ کے حوالے سے گورنمنٹ کی پالیسی نہایت سست ہے، سست اس طرح سے ہے کہ نہ تو سرکار نے شتر مرغ کو ذبح کرنے کے لیے کوئی سلاٹر ہائوس بنایا ہے نہ ہی گوشت کی سپلائی اور کھپت کے لیے سیل پوائنٹ بنائے گئے ہیں۔
گورنمنٹ کی طرف سے فارمرز کو نہ تو کوئی امداد مل رہی ہے نہ ہی تعاون کیا جا رہا ہے، گوشت کی فروخت کے حوالے سے فارمرز اپنے طور پر کوشش کرتے ہیں حکومت کو چاہیے شتر مرغ کے گوشت کے استعمال کے حوالے سے اشتہاری مہم شروع کرے جیسے اونٹنی کے دودھ کی مارکیٹنگ کی گئی ہے، اس اشتہاری مہم میں شتر مرغ کے گوشت کی افادیت، طبی خصائص کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ یوں لوگوں میں تجسس پیدا ہو گا اور وہ ضرور ایک بار شتر مرغ کے گوشت کو آزمائیں گے، اس سلسلے میں ڈاکٹرز اور علماء کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں شتر مرغ کے گوشت سے عدم رغبت کی ایک وجہ حلال حرام کا تصور بھی ہے۔
اگر ڈاکٹر اور علماء لوگوں کو اس کے بارے میں معلومات دیں تو لوگوں کو پتہ چلے گا کہ شتر مرغ حلال پرندوں میں شامل ہے جس طرح تمام حلال پرندوں کے دو پوٹ ہوتے ہیں شتر مرغ کے بھی دو پوٹ ہوتے ہیں۔ 100 کلو کے پرندے میں سے 60 کلو گوشت نکل آتا ہے۔ شتر مرغ کی کھال بھی خاصی قیمتی ہوتی ہے' لیکن پاکستان میں ابھی شتر مرغ کی کھال کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے' باہر کے ملکوں میں ضرور اس کی ڈیمانڈ ہے لیکن باہر بھیجنے کے لئے پورا کنٹینر چاہئے' شتر مرغ کی کھال 30 ہزار سے زائد میں فروخت ہو سکتی ہے۔
ویسے شتر مرغ کی کھال پر پاکستان میں بھی کام ہورہا ہے کراچی کی ایک فیکٹری جو لیدر کی اشیاء بناتی ہے وہ آسٹرچ لیدر کے شوز اور ہینڈ بیگ بنانے میں دلچٖسپی رکھتی ہے' شتر مرغ کے پر ویسٹ میں چلے جاتے ہیں لیکن اس کے ناخن اور چربی بھی فروخت ہوتی ہے' شتر مرغ کا گوشت اس وقت مارکیٹ میں 1500 روپے سے 2000 روپے تک فروخت ہو رہا ہے گوشت کے ساتھ ساتھ شتر مرغ کے پائے بھی کھائے جاتے ہیں جو بکرے کے پائے سے بھی زیادہ مقوی ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق شتر مرغ کے پائے شوگر کے مریضوں کے لئے بہت زیادہ مفید ہیں۔ ایک شتر مرغ سے دو کلو کے قریب کلیجی بھی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں شتر مرغ کا گوشت زیادہ تر کڑاہی اور باربی کیو میں استعمال کیا جاتا ہے۔
شتر مرغ کی بیماریاں اور علاج
جب پاکستان میں یہ کاروبار شروع ہوا تو فارمرز کو اس حوالے سے نہ تو زیادہ معلومات تھیں نہ ہی کسی نے ہوم ورک کر رکھا تھا کچھ عرصہ پہلے تک محکمہ لائیوسٹاک کی طرف سے بہتر سہولیات مل رہی تھیں، مقررہ دنوں میں لائیوسٹاک کا عملہ آتا اور پرندوں کی ویکسی نیشن کر جاتا تھا، اگر ان پر کوئی بیماری کا حملہ ہو جاتا تو ڈاکٹر کو خصوصی طور پر بلا لیا جاتا تھا جب سے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق اس محکمہ سے الگ ہوئے ہیں اب ڈاکٹرز آنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ پہلے ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر شہروں میں یہ پرندے رانی کھیت کی بیماری کا شکار ہوئے، ہم نے لائیو سٹاک والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ شتر مرغ کو یہ بیماری متاثر نہیں کرتی، اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف فارمز پر پرندے مرنا شروع ہو گئے۔
پھر فارمرز نے ایران کے ایک ماہر آسٹرچ فارمر سے رابطہ کیا، اس نے پرندوں کی ویڈیو منگوائی اور اسے دیکھ کر کہا کہ ان پرندوں کو سو فیصد رانی کھیت کی بیماری ہے پھر ان کی ویکسی نیشن کی، پانی میں ملا کر ادویہ دی گئیں اس دن کے بعد سے کوئی پرندہ بیمار نہیں ہوا۔ دیکھا جائے تو محکمہ لائیو سٹاک کے ڈاکٹرز نے فارمرز کو ویکسی نیشن کے حوالے سے مس گائیڈ کیا اور مختلف ادویہ دی گئیں ایک پرندے کی دوائی کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپے تھی جس سے اخراجات بہت بڑھ گئے پرندے مرنے سے الگ نقصان ہوا بعد ازاں اس وقت کے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق نے بھی اس بات کو ایڈمٹ کیا کہ شتر مرغ کی ویکسی نیشن کے حوالے سے امپورٹرز اور لائیو سٹاک کے ڈاکٹرز کی طرف سے مجھے بھی غلط بریفنگ دی گئی کہ ان پرندوں کو رانی کھیت کا مسئلہ ہوتا ہی نہیں۔
شتر مرغ فارمنگ کے مسائل
پاکستان میں شتر مرغ کی بڑے پیمانے پر بریڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پرندے بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتے ہیں، اس سلسلے میں پہلے درآمد کنندگان سے رابطہ کرنا پڑتا ہے اور اپنی ڈیمانڈ بتانا پڑتی ہے۔ پرندے زیادہ تر بیلجئم، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سے منگوائے جاتے ہیں۔ ایک ماہ کا پرندہ سترہ ہزار روپے کا پڑتا ہے، پرندوں کی عمر کے حوالے سے بھی فارمرز کو مس گائیڈ کیا جاتا ہے۔ ملتان میں آسٹرچ فارمنگ کا آغاز کرنے و الے فارمر ذیشان خواجہ نے ہمیں بتایا کہ ایکسپورٹرز فارمرز سے بالکل بھی تعاون نہیں کرتے، جب میں نے دوسری بار پرندوں کے لیے بکنگ کرائی تو ایک ہفتہ بعد ڈیلیوری کا کہا گیا لیکن پرندے آنے میں 8 ماہ لگ گئے، 8مہینے بعد بھی میں نے اس وقت کے سیکرٹری لائیو سٹاک نسیم صادق سے رابطہ کیا تو دوسرے دن ہی سپلائی مل گئی۔
ذیشان خواجہ نے بتایا کہ پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی فارمرز کو اس کا صحیح طور پر منافع بھی نہیں مل رہا، کھپت ٹھیک ہو جائے تو منافع ہو سکتا ہے، جو بھی نیا فارمر یہ کاروبار شروع کرتا ہے، اسے پہلے فلاک میں نقصان ہی ہوتا ہے اس میں بھی زیادہ تر سرکاری محکموں کی غفلت شامل ہوتی ہے۔ پہلے حکومت شتر مرغ فارمرز کو 10 ہزار روپے فی پرندہ خوراک کی مد میں سبسڈی دے رہی تھی جس سے فارمرز کچھ سہولت میں تھے۔
پنجاب میں شتر مرغ فارمنگ ایسوسی ایشن رواں سال کے ابتداء میں تشکیل پائی اور بوریوالہ سے تعلق رکھنے والے فارمر رانا خالد اس کے صدر منتخب ہوئے، شتر مرغ فارمنگ ایسوسی ایشن کے صدر رانا خالد نے بتایا کہ نئی حکومت نے ابھی تک شتر مرغ فارمنگ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، ہم نے اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان کو خط بھی لکھا ہے اور سیکرٹری لائیو سٹاک سے بھی مسائل کے حل کے لیے ملاقات کی تاہم ابھی تک اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، حکومت پہلے فارمرز کو جو سبسڈی دے رہی تھی اس کی ادائی بھی تعطل کا شکار ہے، فارمرز کو یہ سبسڈی تین اقساط کی صورت میں دی جاتی ہے، سیکرٹری لائیو سٹاک کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ہمارے پاس اتنا بجٹ نہیں ہے کہ فارمرز کو سبسڈی کی ادائی کی جائے، پاکستان میں شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنے طور پر سعودی عرب کی پارٹیز سے معاہدہ کر رہے ہیں تاکہ اپنے پرندے وہاں بیچ سکیں۔ ابھی گوشت کی پیکنگ کے کچھ مسائل ہیں۔
اگر یہ مسائل حل ہو گئے تو جلد سعودی عرب کو سپلائی دی جائیگی۔ رانا خالد نے بتایا کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں شتر مرغ کی فارمنگ ہو رہی ہے بہت سے نوجوان اس کاروبار کی طرف آئے ہیں جنہوں نے بہت مہنگا چوزہ خریدا لیکن شتر مرغ کے گوشت کی مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے سب پریشان ہیں۔ پنجاب میں درآمد کنندگان کی مناپلی بھی فارمرز کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے جو اکثر فارمرز کو بی کلاس چوزہ دیتے ہیں۔ پاکستان میں شتر مرغ کا گوشت مہنگا ہونے کی وجہ بھی یہی ہے اسے بیرونی ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے اگر پاکستان میں شتر مرغ کی نیچرل پراسس سے بریڈنگ ہونا شروع ہو جائے تو اس کاروبار میں بہت بہتری آسکتی ہے۔