امریکا ہی نہیں چند اسلامی ملکوں پر بھی نظر ڈال لیں

وزیر خزانہ نے ٹوٹا ہوا کشکول جوڑا اور IMF کے آگے پھیلا دیا۔ آیندہ ستمبر تک یہ کشکول 5 ارب ڈالر اکٹھے کر لے گا۔

nusrat.javeed@gmail.com

1980ء کی دہائی کے بعد سے سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں کی اکثریت کو شاید علم ہی نہ ہو کہ امریکا کو سامراج دکھا کر دُنیا کی ہر برائی کا ذمے دار ثابت کرنے کا دھندا ان سے پہلے کی ان نسلوں نے شروع کیا تھا جن کے پڑھے لکھے لوگوں کی زیادہ تعداد خود کو ترقی پسند یا سوشلسٹ کہا کرتی تھی۔ قصہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاری ہونے والی نام نہاد سرد جنگ سے شروع ہوتا ہے جب دُنیا کو بڑے ہی سادہ انداز میں دو کیمپوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک کا سربراہ سرمایہ دارانہ نظام کا سرپرست امریکا تھا اور دوسرے کیمپ کی قیادت سوویت یونین کے پاس تھی۔ پاکستان کی جغرافیائی حوالے سے اس جنگ میں بڑی اہمیت تھی۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اس اہمیت کا بھرپور انداز میں فائدہ اٹھانا چاہا۔

مختلف دفاعی معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اس نے اپنی سپاہ کو کمیونزم کے خلاف ایک بڑی جنگ کے لیے تیار کرنے کے نام پر امریکا سے معاشی اور فوجی امداد حاصل کی۔ 1965ء میں لیکن اسے کشمیر آزاد کرانے کا خیال آ گیا اور ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گیا کہ کسی زمانے میں وہ بھارت کو کمیونزم کے خلاف مشترکہ دفاعی نظام قائم کرنے کی دعوتیں دیتا رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ چین سے 1962ء کی جنگ میں شکست کھا جانے کے بعد بھارت شاید اپنے قبضے میں لیے کشمیر کا دل جمعی سے دفاع نہ کرنا چاہے گا۔ ہوا اس کے بالکل برعکس۔ جنگ کو بجائے کشمیر تک محدود رکھنے کے بھارت نے لاہور پر چڑھائی کر دی۔ 17 روزہ جنگ کے بعد دونوں ملکوں نے تاشقند جا کر صلح کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان صلح کا معاہدہ ہو جانے کے باوجود امریکا اس شک میں مبتلا ہو گیا کہ پاکستان ان سے معاشی اور فوجی امداد تو کمیونزم کے خلاف لڑنے کے نام پر حاصل کرتا ہے، مگر اس کے حتمی ارادے ایک دن بھارت کے ساتھ تخت یا تختہ والا یُدھ کرنے کے ہیں۔ انھوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ ایوب خان نے ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی'' والی کتاب الطاف گوہر سے لکھوا کر اپنے نام سے شایع کرا دی۔ نواز شریف بھی آج کل طائر لا ہوتی بننے کی لگن میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسی لیے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلا دورہ چین کا کیا ہے۔ ہمارے ہر صدر اور وزیر اعظم کی طرح ان کا یہ دورہ بھی تاریخی اور بڑا کامیاب رہا ہے۔

اگرچہ اس کے ثمرات سے لطف اٹھانے کے موسم کچھ عرصے بعد نمودار ہوں گے۔ اس وقت تک مگر خزانہ تو خالی نہیں رکھا جا سکتا۔ روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے پر مستحکم رکھنے کے لیے ہمارے اسٹیٹ بینک میں غیر ملکی زرمبادلہ ایک خاص حد سے گر کر نیچے نہیں آنا چاہیے۔ اسی لیے طائر وزیر اعظم تو چین کو پرواز کر گئے مگر ہماری ریاست کے لیے روزمرہّ کا دانہ ڈھونڈنے کے کام پر متعین اسحاق ڈار کو اسلام آباد چھوڑ گئے۔ وزیر خزانہ نے ٹوٹا ہوا کشکول جوڑا اور IMF کے آگے پھیلا دیا۔ آیندہ ستمبر تک یہ کشکول 5 ارب ڈالر اکٹھے کر لے گا۔ اور ہماری ریاست کا کاروبار چلتا رہے گا۔


اللہ تعالیٰ جنرل ضیاء الحق کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ انھوں نے ایوب خان کے دنوں سے امریکی ذہنوں اور دلوں میں بیٹھی بدگمانی کو دور کیا۔ سوویت فوجیں افغانستان میں آ گئیں تو انھوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے جہاد کا اعلان کر دیا۔ امریکا اور روس کے درمیان برسوں سے جاری جنگ سرد کے بجائے گرم ہو گئی۔ پورا یورپ اور امریکا لیکن اس سے بالکل محفوظ رہے۔ ساری تباہی افغانستان کے حصے میں آئی۔ پھر سوویت یونین یہ جنگ ہار کر پاش پاش ہو گیا تو جنگ سے تباہ شدہ اس ملک کو بھلا دیا گیا۔

''جہاد'' کو اپنے دشمن کے خلاف خوب استعمال کرنے کے بعد اسے بھلا دینے کے ان دنوں سے پہلے پاکستان میں فوجی حکومتوں کے تمام مخالف ''غدار اور کمیونسٹ'' قرار دیے جاتے تھے۔ جیلیں، کوڑے، بے روزگاری اور جلاوطنی ان کا مقدر ہوا کرتی تھی۔ افغان جہاد کے حامی دیندار کہلاتے اور نظریہ پاکستان کے محافظ بھی۔ امریکا کی طرف سے افغانستان کو بھلا دینے کے بعد ان کی پہچان یہی رہی۔ مگر اب وہ امریکی سامراج کے سب سے کٹر مخالف ہونے کے دعوے دار بھی بن بیٹھے ہیں۔ وہ جنھیں ''غدار اور کمیونسٹ'' وغیرہ کہا جاتا تھا تھک ہار کر کسی نہ کسی NGO میں جا کر نوکریاں کرنے لگے ہیں اور روس کی تباہی کے بعد امریکا کے ایجنٹ کہلاتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دنوں میں یہ تفریق کھل کر سامنے آ گئی۔ ابھی تک ہمارا میڈیا اس تفریق کا یرغمالی بنا ہوا ہے۔ مجھے اس تفریق سے ذاتی طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

میری عاجزانہ خواہش تو صرف اتنی ہے کہ امریکا کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے ہمیں مسلم اُمہ کے کچھ طاقتور ملکوں پر بھی نظر ڈال لینا چاہیے جنھیں قدرت نے تیل کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے اور وہ اس دولت کے بل بوتے پر عالمی سیاست اور خاص طور پر اسلامی ملکوں کی اندرونی سیاست میں ''امریکی سامراج'' سے کہیں زیادہ بڑا موثر اور کچھ حوالوں سے تقریباََ کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور قطر ان ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔

میری بات سمجھنے کے لیے صرف مصر کو دیکھ لیجیے۔ اخوان المسلمون کے مرسی جب اس ملک کے صدر بنے تو قطر نے ان کی دل کھول کر مدد کی۔ ان کی ایک سالہ مدتِ صدارت میں 8 ارب ڈالر کی گرانقدر رقم ان کی نذر کی۔ اس کے مقابلے میں امریکا بڑی کوششوں کے باوجود اس ایک سال میں صرف ایک ارب ڈالر کی امداد نہیں قرضہ دینے پر تیار ہوا۔ مرسی اور ان کی جماعت کو سعودی عرب پسند نہیں کرتا۔ مرسی کو مصر کے نام نہاد آزاد خیال اور ترقی پسند لوگ بھی پسند نہیں کرتے۔ مرسی صاحب کو منیر نیازی کی طرح ظالموں کے شہر میں مرنے کا شوق بھی تھا۔ جمہوریت کے متوالوں اور نام نہاد آزاد خیالوں نے سڑکوں پر رونق لگا دی تو مصر کی فوج نے مرسی کی چھٹی کرا دی۔ ایک ''منتخب حکومت'' کی فوجیوں کے ہاتھوں یوں برطرفی جمہوریت کے چیمپئن بنے امریکا کے لیے برسرِعام ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔

وہ اسے قابل قبول بنانے کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ لیکن مصر کی فوجی حکومت کو اپنے ملک پرقبضہ مستحکم کرنے اور وہاں کے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے فوری طورپر بھاری رقم درکار ہے۔ اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مل کر اسے 8 ارب ڈالر یک مشت مہیا کر دیے ہیں۔ اس رقم کی فراہمی کے بعد مصر کے لوگ رمضان کے بابرکت مہینے میں سستی روٹی اور پٹرول حاصل کرنے کی وجہ سے تھوڑے اطمینان کے ساتھ روزے رکھ سکیں گے۔ عبادت کریں گے اور پھر عید کی خوشیاں منائیں گے۔ مصر کی فوجی حکومت کو ایک پورا مہینہ اطمینان کا مل گیا ہے جس کے دوران وہ اخوان المسلمون کے کٹر لوگوں کو بے اثر بنا کر اس جماعت کے ''معتدل اور پریکٹیکل'' لوگوں کے ساتھ کوئی NRO کرلے گی اور پھر راوی اس کے لیے چین ہی چین لکھے گا۔
Load Next Story