چینی سیاسی نظام میرٹ اور جوابدہی کے اصولوں پر استوار ہے

مرکزی حکومت سے لے کر کسی دور افتادہ گاؤں تک کوئی سرکاری اہلکار فرائض سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتا

چین میں کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ بھی سیاسی جماعتیں موجود ہیں‘ چین میں گزرے شب و روز کا دلچسپ احوال

(قسط نمبر (11)
سیاست اور تشہیر کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے تشہیری سرگرمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف سطح کے انتخابات کے موقع پر تواشتہار بازی لازمی ہوتی ہے۔پاکستان میں تو انتخابات کے موقع پر ہونے والی سرگرمیوں کا سب کو علم ہے۔ مگر چین میں ہمیں نہ تو دیواروں پر سیاسی نعرے نظر آئے اور نہ ہی سیاسی جماعتو ں کی وال چاکنگ، چوراہے کسی بھی سیاسی شخصیت کی تصویر سے محروم تھے۔

بیجنگ میں رہتے ہوئے ، سب وے سٹیشن یا مختلف سب ویزمیں سفر کرتے ہوئے،پبلک ٹرانسپورٹ میں گھومتے ہوئے، مختلف بازاروں، مارکیٹس ، محلوں ، کمیونٹیز میں واک کرتے ہوئے کہیں بھی کسی سیاسی شخصیت کی تصویر نظر نہ آئی ۔ ہمارے ہاں تو سیاسی قیادت یا ان سے وابستہ افرا د اپنی خودنمائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے یہاں تک کہ مختلف تاجر تنظیموں یا بازار کی سطح کے انتخاب کے موقع پربھی بڑے سائز کی تصاویر کا کلچر عام ہے۔ لاہور سے راولپنڈی کی جانب جی ٹی روڈ سے سفر کریں تو وقفے وقفے سے مختلف سیاسی و عوامی شخصیات کی تصاویر راستے میںنظرآتی ہیں (اب شاید عدالتی ممانعت ان پرلاگو ہے) مگر چین میں یہ کلچر نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے بہت انوکھا اور حیران کُن تھا اور ہمیں تجسس تھا کہ چین میں کیسا سیاسی نظام رائج ہے اور لوگ یہاں سیاسی سرگرمیوں میں کیسے حصہ لیتے ہیں اور یہاں پر ایک ہی سیاسی جماعت ہے یا ایک سے زائد جماعتیں ہیں۔ اس کے متعلق ہمیں معلومات ایک روز ہماری اردو سروس کی ایک ساتھی Du Jianing جن کا اردو نام تبسم ہے نے فراہم کیں۔

Jianing Du کا تعلق بیجنگ سے ہے اور وہ بیجنگ کی پیکنگ یونیورسٹی (Peking University) کی گریجویٹ ہیں جسے چین کی Oxford یونیورسٹی کادرجہ حاصل ہے۔ Du Jianing کو ایک اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کا تعلق اس نوجوان نسل سے ہے جو کہ چین میں اصلاحات سے ملنے والے ثمرات سمیٹ رہی ہے۔اسی کی دہائی میں چین میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اقدامات کئے گئے اور ون چائلڈ پالیسی کا اطلاق ہوا۔ اس وقت چین کے اربن علاقوں میں رہائش پزیر نوجوانوں کی اکثریت اکلوتی ہے۔ خاندانی سطح پر بہن بھائیوں سے محروم اکلوتوں کی یہ نسل معاشی ثمرات کی اکیلی ہی وارث ہے۔ Du Jianing کی نسل اور عہد سے تعلق رکھنے والے نوجوان چینی مرد و زن کو بالعموم اپنے اپنے خاندان کے چھ افراد کی جانب سے معاشی امداد ملی ہے۔

ان میں دادا ، دادی ،نانا نانی اور اپنے والدین شامل ہیں۔ چونکہ اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والے بچے اکیلے تھے اس لیے یہی بچے خاندان بھر کی آنکھ کا تارا تھے۔ یہ نسل صحیح معنوں میںایک جدید، خوشحال، ترقی یافتہ چین کی عکاس ہے۔ایک روز دفترمیں پاکستان کے سیاسی حالات پر بات چیت ہورہی تھی تو میں نےing Du Jian (تبسم) سے چین کے سیاسی بندوبست کے متعلق پوچھ لیا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ بتا کر حیران کیا کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ بھی دیگر سیاسی جماعتیں ہیں۔ ہم ان کی اس بات پر فوری طور پر یقین کو تیار نہ ہوئے اس کی وجہ ہمارا اپنا مشاہدہ تھا۔ ہماری اس بے یقینی کو دور کرنے اور اپنی بات کی تصدیق کے لیے انہوں نے سیاسی جماعتوں کے نام بھی بتائے ۔ nig Du Jian (تبسم) نے بتایا کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے علاوہ سیاسی سرگرمیاں سرا نجام دینے والی جماعتوں میں سے ایک جماعت ریوولوشنری کمیٹی آف دی چائینز کومن تانگ (Revolutionary Committee of the Chinese Kuomintang) ہے۔اس کے ممبران کی تعداد 81000 کے لگ بھگ ہے۔

اس کے علاوہ چین کے شہر چھونگ چھنگ میں چالیس کی دہائی میں قائم ہونے والی چائنہ ڈیموکرٹیک لیگ (China Democratic League) بھی ہے ۔اس پارٹی میں زیادہ تر ادب، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ اس کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ اکیاسی ہزارہے۔ جیوسن سوسائٹی (Jiusan Society) بھی سیاسی نوعیت کی سرگرمیاں سرا نجام دیتی ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ نمایاں اور ممتاز افراد اس کے رکن ہیں۔اس کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ پانچ ہزار سے زائد ہے۔ انیس سو پینتالیس میں قائم ہونے والی چائنہ ڈیموکرٹیک نیشنل کنسڑکشن ایسوسی ایشن (China Democratic National Construction Association) کا شمار بھی چین کی پرانی سیاسی پار ٹی میں ہوتا ہے۔ اس پارٹی میں زیادہ تر کاروباری افراد شامل ہیں۔ اس کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ آٹھ ہزار ہے۔ شنگھائی میں تشکیل پانے والی چائنہ ایسوسی ایشن فار پروموٹنگ ڈیموکریسی (China Association for Promoting Democracy) بھی ایک الگ سیاسی شناخت رکھتی ہے ۔ اس پارٹی میں زیادہ تر ثقافت،تعلیم اور اشاعت سے متعلق سینیئرلوگ شامل ہیں۔اس کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ہے۔

چائینز پیزنٹس اینڈ ورکررز ڈیموکرٹیک پارٹی ،(Chinese Peasant's and Worker's Democratic Party) بھی اپنا سیاسی وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ چین کے شعبہ طب سے وابستہ نمایاں افراد اس پارٹی سے وابستہ ہیں۔اس کے ممبران کی تعداد ننانوے ہزار سے زائد ہے۔ بیرون ملک سے واپس آنے والے چین کے متوسط اور بالائی طبقے کے لیے پسندیدہ سیاسی پڑائو چائنہ چی گانگ پارٹی (China Zhi Gong Party) ہے۔اس کے ممبران کی تعداد اٹھائیس ہزار سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ تائیوان ڈیموکرٹیک سیلف گورنمنٹ لیگ (Taiwan Democratic Self-Government Leuague) نامی پارٹی بھی سیاسی منظر نامے پر موجود ہے۔ یہ دو ہزار ایک سو سے زائد ممبران پر مشتمل ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ ان تمام محب وطن سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہترین جمہوری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔چین کے آئین میںدرج حقوق کے مطابق ان جماعتوں کو اپنی سیاسی سرگرمیاں رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ جماعتیں سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ چین کی سوشلسٹ تعمیر میں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ چین میں مختلف سطح کی عوامی کانگریسوںمیں ان کے مندوبین منتخب ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کے بہت سے ارکان مختلف ریاستی اداروں میں ذمہ دار عہدوں پر بھی فائز ہیں یہ جان کر ہم بہت حیران ہوئے کہ چین میں اتنی سیاسی جماعتیں اپنا وجود رکھے ہوئے ہیں۔ Du Jianing کے ساتھ ہماری بات چیت جاری تھی کہ ہماری اردو سروس کی ایک اور ساتھی Wang Qianting جن کا اردو نام مسرت ہے وہ بھی ہمارے ساتھ آ شامل ہوئیں۔ Wang Qianting پاکستان میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر چکی ہیںا ور پاکستان کے سیاسی حالات و شخصیات سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں سیاست سے خاصی دلچسپی ہے اور وہ سی پی سی کی ممبر بھی ہیں۔ نہایت شائستہ اورمہذب لہجے میں گفتگو کرنے اور ہر دم مسکرانے والی Wang Qianting نے بتایا کہ چین میں مختلف سیاسی جماعتوں کے بارے میں توآپ کو معلوم ہو ہی گیا مگر چین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ ہے جو کہ حکمران جماعت ہے۔ بیرونی دنیا میں چین کو 'ون پارٹی' یا یک جماعتی نظام حکومت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے قیام اوراس کے تاریخی پس منظر کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایاکہ یہ پارٹی انیس سو اکیس میں قائم ہوئی ۔ پارٹی کی پہلی کانگریس کے انعقاد کے وقت اس کے ارکان کی تعداد ستر (70) تھی۔ اس وقت چین میں سیاسی جدوجہد کا عمل جاری تھا اور مختلف جماعتیں اس میںشریک تھیں ۔ کمیونسٹ پارٹی کی متحدہ قیادت میں چین میں انقلاب کی جدوجہد بھی تیز ہوگئی۔اور کمیونسٹ پارٹی کے ارکان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔

انیس سو ستائیس میں اس کے ارکان کی تعداد ستاون ہزار نو سو تک جا پہنچی۔ جدوجہد کے دوران اس کو مختلف اندورنی شورشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اسی عمل کے دوران کمیونسٹ پارٹی نے مشہور لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں چین میں پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا۔ Wang Qianting نے بتایا کہ کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ میں زُن ای (Zunyi) شہر وہی اہمیت حاصل ہے جو لاہور کو قرار داد پاکستان کی منظوری کے باعث حاصل ہے۔ چین میں جاری لانگ مارچ کے دوران کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی ایک کانفرنس زُن ای (Zunyi) میں منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں لانگ مارچ کے حوالے سے حکمت عملی کاجائزہ لیا گیا اور ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ حکمت عملی میں تبدیلی کے بعد چینی کمیونسٹ پارٹی کو اپنی جدوجہد میں فتوحات ملناشرو ع ہوئیں ۔ آج کا موجودہ چین زُن ای کانفرنس اور اس میں کیے گیے فیصلوںکا نتیجہ ہے۔

ہمیں ایک صحافتی وفدکے ہمراہ اس شہر جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ اُس عمارت کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں یہ تاریخ ساز اجلاس منعقد ہوا تھا۔ یہ چین کے روایتی طرز تعمیر کی حامل دو منزلہ عمارت ہے۔ اجلاس میں شریک بیس رہنمائوں کی تصاویر، ان کے زیر استعمال فرنیچر، ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں اور ان سے وابستہ دیگراشیاء کو یہاں محفوظ رکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ یہاں ایک میوزیم بھی ہے جہاں اُن بیس رہنمائو ں کے مجسمے نصب ہیں۔اس کے علاوہ چینی لانگ مارچ کی جدوجہد کے مختلف مراحل، اس کے لیے اپنائے گئے راستے کا نقشہ، لانگ مارچ کے دوران استعمال ہونے والا اسلحہ ، روزمرہ استعمال کی اشیاء کو محفوظ رکھا گیا ہے۔

یہاں پروفیشنل گائیڈز کی موجودگی اس میوزیم کے دورے کو بہت یاد گار بناتی ہے ۔ جب ہم نے اس میوزیم کا دورہ کیا تھا تو ایک نوعمر طالب علم انتہائی جوش اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سیاحوں کو لانگ مارچ کی جدوجہد سے آگاہ کر رہا تھا۔ہمار ے دورے کے اختتام پر ہمیں ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی جس میں جدید تھری ڈی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے بیس رکنی اجلاس میں شریک رہنمائوں کے درمیان ہونے والے تبادلہ خیال کو پیش کیا گیا ۔ اس فلم کو دیکھنا ایک بہت ہی مسحور کن تجربہ تھا۔اس کے علاوہ زن ای ہی میں واقع ایک گائوں گوبا Gouba جس کو Red Army Village کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اعلی رہنمائوں نے اپنی جدوجہد کے دوران یہاں قیام کیا تھا اورکئی اہم نوعیت کے سیاسی و انتظامی فیصلے کیے تھے۔

 

اس گائوں میں رہنمائوں کے زیر استعمال کمروں کو بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔یہاں ایک دکان ہے جہاں پر مختلف قسم کے سووینیئرز، ٹوپیاں، لالٹینز، مائوزے تنگ کی تصاویر اور پارٹی کا لڑیچر دستیا ب ہے۔ اس گائوں میں ایک بزرگ چینی شہری سے بھی ملاقات ہوئی جو لانگ مارچ کی جدوجہد کے وقت بارہ،تیرہ برس کے تھے۔ تب انہیں اپنے بزرگوں اور گائوں کے لوگوں سے معلوم ہوا تھا کہ یہاں کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنما ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ صوبہ گوئچو میں موجود ان دونوں مقاما ت پر چینی شہری بڑی تعداد میں آتے ہیں اور اپنے رہنمائوں کی سیاسی جدوجہد ، ان کی سادہ طرز زندگی، جدوجہد کے دوران عام دیہاتی گھروں میں قیام وطعام کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنی قیادت کے خلوص، وژن کے معترف ہوتے ہیں۔

کمیونسٹ پارٹی کا رُکن بننے کے لیے ایک بالغ شہری جس کی عمر اٹھارہ سال ہے باضابطہ طور پر درخواست دیتا ہے۔ پارٹی ممبر بننے کے لیے تعلیمی و پیشہ ورانہ قابلیت کا بھی ایک کوٹہ ہوتا ہے۔ درخواست کی منظوری ملنے کی صور ت میں پارٹی ممبر بننے والا ایک حلف اُٹھاتا ہے۔پارٹی ممبر ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے پروبیشن پر ہوتا ہے۔ اس دوران نہ تووہ ووٹ دے سکتا ہے اورنہ ہی کسی الیکشن میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایک سال کے بعد وہ ووٹ دینے اور الیکشن میں امیدوار بننے کا اہل ہوتا ہے۔ پارٹی ممبران کی تربیت کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے۔پارٹی کے قواعد کے مطابق ایک ممبر کو پارٹی کا وفادار، نظم وضبط کا پابند رہنا پڑتا ہے۔پارٹی ممبر پارٹی میٹنگز میں شریک ہو سکتا ہے۔ متعلقہ پارٹی دستاویزات پڑھ سکتا ہے۔ پارٹی کے اندر ہونے والے بحث مباحثوں میں شرکت کر سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی زیربحث مسئلے پر اپنی رائے کا کُھل کر اظہار کر سکتا ہے اور کسی بھی پارٹی پالیسی یا پارٹی ممبر پر منطقی تنقید بھی کرسکتا ہے یہاں تک کہ کسی بھی سینئر رہنما سے بھی اختلافِ رائے کر سکتا ہے۔

پارٹی ممبران کے لیے سوشلسٹ افکار و خیالات کے حوالے سے تربیتی نشستوں کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین موجود ہیں۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ چونکہ چین کی حکمران جماعت ہے اس ناطے اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسی لیے پارٹی میں مختلف سطح پر ذمہ داریاں نبھانے کے لیے پارٹی ممبران کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے۔ اس کے لیے پارٹی سکول بھی موجود ہیں ۔ ان پارٹی سکولوں کا احوال ہمیں گوئچو کے صحافتی دورے کے دوران Ran Hao (رین ہائو) نے بتایا ۔نوجوان Ran Hao (رین ہائو) کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی سنٹرل کمیٹی کے پارٹی سکول کے شعبہ سائنٹفک سوشلز م سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں۔


وہ زیادہ تر سوشلزم کی ترویج اور قومی گورننس کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سنڑل پارٹی سکول اعلی تعلیمی ادارہ ہے۔جہاں پر سینئر اور درمیانے درجے کے ممتاز پارٹی رہنمائوں کو تربیت دی جاتی ہے اورمارکسزم کے نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے۔سی پی سی کی سنڑل کمیٹی کے براہ راست زیر کنٹرول یہ پارٹی سکول مارکسزم کے مطالعے اور اس کے پھیلائو ، مائو زے تنگ افکار (Mao Zedong Thought)، چینی خصوصیات کی حامل سوشلزم کی تھیوریز اور پارٹی سپرٹ کے فروغ کا بہت اہم مرکز ہے۔پارٹی سکول تربیت کے ساتھ ساتھ فلسفے کی تحقیق کا بھی ایک مرکز ہے۔

صحافتی دور ے کے دوران مختلف مقامات کادورہ کرتے ہوئے Ran Hao (رین ہائو) کے ساتھ کافی وقت گزرا۔ متعلقہ مقام تک پہنچنے اور وہاں سے واپسی کے درمیانی وقت میں ہم دونوں کے درمیان کافی گپ شپ رہی۔Ran Hao (رین ہائو) روانی سے انگلش بولتے ہیں سو ہم نے بھی ان سے چینی حکومتی نظام کے متعلق کئی سوالات پوچھ ڈالے۔ Ran Hao (رین ہائو) نے بتایا کہ چین میں حکومتی نظام میں ہر سطح پر عوام کی مختلف انداز میں شمولیت ہے۔عام چینی شہری سیاسی مشاورت اور جمہوری نظام کے ذریعے سیاسی امور میں شامل ہے۔انہوں نے بتایا کہ جمہوری مشاورت کا نظا م شہریوں کی الیکشن کے ذریعے یا عوامی اجتماعی مباحثوں میں شمولیت کے ذریعے سیاسی عمل میں حصہ لینے کو یقینی بناتا ہے۔

دیہی علاقوں میں رہنے والے ہر تین سال بعد اپنے لیڈرکا انتخاب ووٹ کے ذریعے سادہ اکثریت سے کرتے ہیںا ور وہ افراد جو اربن ایریاز میں رہائش پذیر ہیںوہ اپنے اپنے اضلاع میں مسائل کے حل کے لیے منعقدہ مشاورتی عمل کے ذریعے اپنی رائے کا اظہارکرتے ہیں۔اسی طرح چین کی چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس ( Chinese Peoples Political Consultative Conference) کے لیے نمائندوں کا چنائو بھی کیا جاتا ہے۔ سی پی پی سی سی میں مختلف سیاسی جماعتوں ، تنظیموں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ سی پی پی سی سی قومی سطح کی پالیسیاں بناتی ہے۔Ran Hao (رین ہائو) نے مغربی تصورجمہوریت اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلز م کو دو الگ اور مختلف تصورات قرار دیا۔ چین میں پارٹی سکول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین کی کئی نامور شخصیات جن میں موجودہ صدر شی جن پھنگ اور سابق صدر ہوجن تائو کے علاوہ کئی مرکزی رہنما شامل ہیں وہ پارٹی سکول کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

ہم اکثر چھٹی کے روز کہیں نہ کہیں گھومنے نکل جاتے تھے۔ ایک روز ہم بیجنگ کی یونیورسٹی آف جیو سائنسز میں اپنے دوست آفتاب عالم کے پاس تھے کہ وہاں کچھ اور پاکستانی احباب بھی آگئے۔ آفتاب عالم یونیورسٹی میں جیو سائنسز کے ایک شعبے میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور پاکستان کے ایک اہم ادارے سے وابستہ بھی ہیں۔دیارِ غیر میں جب پاکستانی ایک صحافی کے گرد اکٹھے ہو جا ئیں تو پھر سیاست پر بات نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ اُن دنوں پاکستان میں الیکشن مہم بھی زوروں پر تھی۔ سو وہاں بھی پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والے مختلف طلباء اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کے حق میں دلائل دینے لگے۔ باتوں باتوں میں بحث کارخ چین میں قانون سازوں اور قانون سازی کے معاملات تک جا پہنچا۔ بحث میں شریک طلباء کی اکثریت اس خیال کی حامی تھی کہ ہمارے ملک میں عوامی اہمیت کے مسائل اور ان پر قانون سازی سے متعلق مسائل قانون سازوں کی ترجیح میں شامل نہیں ہیں۔ جبکہ چین میں قانون ساز عوامی اہمیت کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے ہیں۔

وہیں محفل میں پاکستان کے ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ظفر حسین بھی موجود تھے جو کہ چین کی ایک یونیورسٹی سے ابلاغِ عامہ کے مضمون میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور گزشتہ پانچ برس سے چین میں مقیم ہیں۔ انہوں نے چین کے سیاسی نظام اور اس میں عوام کی شمولیت کے متعلق بتایا کہ چین میں سب سے بڑا ریاستی ادارہ نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) ہے۔یہ قانون وآئین ساز ادار ہ ہے۔یہ پاکستان کی قومی اسمبلی، امریکہ کے ایوانِ نمائندگان اور برطانوی دارالعوام کی مانند ہے۔این پی سی کے ممبران کا انتخاب پانچ سال کے لیے کیا جاتا ہے۔اور اس کے ممبران کو ڈیپٹیز Deputies کہا جاتا ہے۔ اس میں چین کے مختلف صوبوں، ریجنز، میونسپیلیٹیز ،خو د اختیار علاقوں اور آرمڈ فورسز کی نمائندگی ہوتی ہے۔ یہ چین کے صدر اور وزیراعظم کا انتخاب کرتی ہے۔پیپلز سپریم کورٹ کے صدر، سپریم پیپلز پروکیوریٹوریٹ کے پروکیوریٹر جنرل کا انتخاب، خصوصی ریجنز کے قیام اور نظام کی منظوری بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔

اس کے علاوہ آئین یا قانون میں ترمیم کی منظوری بھی این پی سی ہی میں دی جا سکتی ہے۔ انیس سو اسی میں چین میں صدارتی عہدے کے حوالے سے دو ٹرمز کی پابندی متعارف کروائی گئی مگر رواں برس این پی سی کے اجلاس میں اس پابندی کاخاتمہ کر دیا گیا۔ این پی سی کا سالانہ اجلاس ہر سال مارچ میں ہوتا ہے۔ اس اجلاس میں چین کا وزیراعظم سالانہ ورک رپورٹ پیش کرتا ہے۔ این پی سی میں ہی چین کے اعلی انتطامی عہدوں پر تقرر کی منظوری دی جاتی ہے۔ چین کے سنٹرل ملٹری کمیشن کے چیئرمین کا انتخاب، بجٹ ، قومی اقتصادی اور سماجی ترقی کے منصوبوںکا جائزہ اور ان کی منظوری دینا، فوجداری، دیوانی معاملات، ریاستی اداروں اور دیگر معاملات سے متعلق معاملات کے متعلق بنیادی قوانین وضع اور ان میں ترمیم کرنا بھی این پی سی کے دائرہ کار میں ہے۔

این پی سی ممبران مختلف مسائل اور ان کے حل کے لیے اپنی اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ این پی سی کی سٹینڈنگ کمیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ سٹینڈنگ کمیٹیاں این پی سی کا مستقل ادارہ ہیں۔ اس کے ارکان کا انتخاب ہر کانگریس کے پہلے اجلاس میں ہوتا ہے۔یہ کانگریس کو جوابدہ ہوتی ہے اور کام کی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ سٹینڈنگ کمیٹی ایک چیئر مین، وائس چیئر مینز، سیکرٹری جنرل اور دیگر اراکین پر مشتمل ہے۔ این پی سی میں مختلف شعبوں کی نمایاں شخصیات کو بطور ممبر نامزد کیا جاتا ہے ۔ موجودہ این پی سی کے ممبران کی تعداد لگ بھگ تین ہزار کے قریب ہے۔ ان ممبران کو مختلف تہہ در تہہ (Multi-Tiered)نمائندگی کے نظام کے تحت متعلقہ پروونشل پیپلز اسمبلییز منتخب کرتی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر حسین کی گفتگو کے تسلسل کو کھانے کے اعلان نے توڑا ۔ سب احباب صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی دوست شاہ نواز اریسر کے کمرے میں چلے گئے۔ وہاں موجود کھانے میں روایتی سندھی بریانی اور مٹر قیمہ نے پاکستان کی یاد تازہ کردی۔ ڈاکٹر ظفر حسین نے چائے کی نشت پر گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ چین کے سیاسی نظام میں چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس (سی پی پی سی سی) کی بھی بہت اہمیت ہے۔ یہ چین میں اعلی سطح کی سیاسی مشاورتی باڈی ہے۔اس کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں ہے۔ ا س میں مختلف سماجی امور پر مشاورت ہوتی ہے۔ چین کی این پی سی اور سی پی پی سی سی کا اجلاس مارچ میں ہوتا ہے ۔ اس کو Two Sessions کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

ان سیشنز میں شریک افراد کسی نہ کسی سیاسی سرگرمی اور طریقہ کار کے تحت منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اس بارے میں Du Jianing (تبسم) نے بتایا کہ چین میں مرکزی اور مقامی سطح پر عوامی کانگریس (Peoples Congress) کی تعداد پانچ ہے۔ ان تمام کانگریسز کو جمہوری طریقہ کار کے تحت قائم کیا جاتا ہے۔Du Jianing (تبسم)نے چین میں ووٹ ڈالنے کے عمل کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ چین کے اٹھارہ سال اور زائد عمر کے تما م شہریوں کو ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے۔ اس آئینی حق میں کوئی نسلی یا لسانی پس منظر، جنس ، پیشہ، مذہبی عقیدہ یا تعلیمی معیار رکاوٹ نہیں ہے۔اضلاع میں غیر منقسم شہروں، میونسپل اضلاع، کائونٹیز،خود اختیارکائونٹیز، ٹائون شپس، اقلیتی نسلی ٹائونشپس اور ٹائونزکی پیپلز کانگریسز کے ڈیپٹیز کا انتخاب براہ راست ان کے حلقہ انتخاب کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ نیشنل پیپلز کانگریس اور صوبوں، خود اختیار ریجنز، مرکزی حکومت کے براہ راست کنڑول میں میونسپیلیٹیز،اضلاع میں منقسم شہروں اور خوداختیار پریفیکچرز کی پیپلز کانگریسز کے لیے ڈیپٹیز کا انتخاب ان سے نچلے درجے کی پیپلز کانگریسز کرتی ہیں۔تمام سیاسی جماعتیں یا عوامی تنظیمیں یا تو مشترکہ طور پر یا الگ الگ امیدواروں کو بطورڈیپٹیز نامزد کر سکتی ہیں۔

براہ راست انتخاب کی صورت میں ایک امیدوار کو دس رائے دہندگان کی جانب سے جبکہ بالواسطہ انتخاب کی صورت میںدس ڈیپٹیز (Deputies) کی جانب سے نامزدگی کی ضرورت ہوتی ہے۔براہ راست یا بالواسطہ انتخاب دونوں صورتوں میں امیدواروں کی تعداد کو متعلقہ پُرکی جانے والے نشستوں سے زیادہ ہونا چاہیے۔براہ راست انتخاب کی صورت میں یہ تعداد سو کے مقابلے میں ایک تہائی جبکہ بالواسطہ چنائو کی صورت میں بیس سے پچاس فیصد زیادہ ہونی چاہیے۔انتخابی عمل کو مسابقتی ہوناچا ہیے۔رائے دہندگان کسی بھی امیدوار کے حق یا مخالفت میں ووٹ دے سکتے ہیں یا انتخابی عمل سے غیرحاضر رہ سکتے ہیں۔براہ راست انتخاب کی صورت میںایک الیکشن ضلع میں انتخابات کے Valid ہونے کے لیے اہل ووٹرز کی تعداد میں سے نصف کاووٹ ڈالنا ضروری ہے۔اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار منتخب ہوجاتے ہیں۔بالواسطہ انتخاب کی صورت میں وہ امیدوار جو ووٹ کے اہل ڈیپٹیز کے اکثریتی ووٹ حاصل کرلیتے ہیں وہ کامیا ب قرار پاتے ہیں۔

چین کے انتخابی عمل اورانتظامی ڈھانچے کے متعلق کچھ مزید معلومات ہمارے ساتھ ایک پاکستانی ڈاکٹر محمو د حسین نے شیئر کیں۔ ان سے ہماری ملاقات بیجنگ کے ایک ویزہ آفس میں ہوئی تھی۔ اپنی باری کے انتظارمیں بیٹھے بیٹھے ان سے گپ شپ شروع ہو گئی تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹرمحمود حسین نے چین کے صوبے جی لین (Jilin) کے شہر چھانگ چھن (Changchun) میں واقع Jilin University of China کے سکول آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز سے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔انہوں نے چین کے انتظامی ڈھانچے کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ چین میں صوبے، خود اختیار علاقے ، مرکزی حکومت کے براہ راست کنڑول کے تحت میونسپیلیٹیز،خود اختیار پریفیکچرز، کائونٹیاں ، شہر ، قصبے اور دیگر انتظامی یونٹس ہیں۔ہر سطح پر عوامی کانگریس ہوتی ہے۔ ہر سطح پر ہونے والے انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ الیکشن کے عمل کی نگرانی کرنے والی کمیٹی تمام طریقہ کار کی نگرانی کرتی ہے اور کسی بھی نوعیت کی بے ضابطگی پر نظر رکھتی ہے اور اس کا تدارک بھی کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صوبوں، مرکزی حکومت کے براہ راست کنڑول کے تحت میونسپیلیٹیز اور اضلاع میں منقسم شہروں میں عوامی کانگریس کی مدت پانچ سال ہوتی ہے جبکہ دیگر جگہوں پرموجود عوامی کانگریس کی میعاد تین سال ہے۔ مختلف سطحوں کی مقامی عوامی کانگریس اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں آئین و قانون کے نفاذ کو یقینی بناتے ہیں۔ اقتصادی ترقی اور عوامی سہولت کے منصوبوں کی منظوری دیتی ہیں اور ثقافتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیتی ہیں۔ کاونٹی یا ا س سے بالاتر سطح پر مقامی عوامی کانگریس کی مجلس ِ قائمہ (Standing Comittee) ایک مستقل ادارے کے طور پر کام کرتی ہیں۔ مقامی عوامی حکومتیں، اپنی سطح کی مقامی عوامی کانگریسوںاور اپنے سے بالائی سطح کے ریاستی اداروں کو جوابدہ ہوتی ہیں۔ یہ چین کی ریاستی کونسل کی نگرانی میں کام کرتی ہیں اور زیر انتظام علاقوں میں شہری امور، خاندانی منصوبہ بندی سمیت تمام انتظامی امور سرا نجام دیتی ہیں۔ مختلف نوعیت کے انتظامی اہلکاروں کا تقرر، ان کی تربیت و برطرفی بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔

چین میں مرکزی سطح پر تمام انتطامی نوعیت کے فیصلے اور اقدامات ریاستی کونسل سرا نجام دیتی ہے۔ اسے ہمارے ہاں کی وفاقی کابینہ کے مساوی سمجھ لیں۔اس کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے ۔ یہ این پی سی کو جوابدہ ہوتی ہے۔اس میں وزیراعظم کے علاوہ نائب وزرائے اعظم،ریاستی کونسلرز، وزارتوں کے انچارج وزراء،مختلف کمیشنز کے انچارج وزراء، آڈیٹر جنرل اور سیکرٹری جنرل شامل ہوتے ہیں۔ ریاستی کونسل قانون اور متعلقہ ضوابط کے مطابق انتظامی فیصلے اور اقدامات کرتی ہے۔ یہ این پی سی یا اس کی سٹینڈنگ کمیٹی کو مختلف امور کے حوالے سے تجاویز بھی دیتی ہے۔ غرضیکہ جو اختیارات ہمارے ہاں کی وفاقی کابینہ کے پاس ہیں وہی اختیارات ریاستی کونسل کو بھی حاصل ہیں۔ چین کے سیاسی بندوبست کی سب سے بڑی خوبی میرٹ ہے۔ گائوں کی سطح پر منتخب ہونے والا اہلکار اپنی محنت ،لگن اور کارکردگی کی بنیاد پر اس سیاسی بندوبست کے اگلے درجے یا مراحل تک پہنچ جاتا ہے۔اس کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی اس کو بتدریج کاونٹی، ضلعی،صوبائی اور قومی سطح کے پالیسی ساز اداروں میںمنتخب کیا جاتا ہے۔

چین کے سیاسی بندوبست میں چین کے چھپن نسلی گروہوں کی ہر سطح پر نمائندگی اور موجودگی ہے۔ اس کے علاوہ چین میں انتظامی ڈھانچہ دارالحکومت سے لیکر کسی دور افتادہ گائوں تک بھی اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہا ہے۔ہر جگہ اور ہر سطح پر جواہدہی کا نظام موجود ہے۔کہیں بھی ریاستی و انتظامی اہلکار اپنے متعین فرائض سے روگردانی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم سے ایک ارب سے زائد شہری مستفید ہو ر ہے ہیں۔روس اور دیگر کمیونسٹ ممالک میں تو یہ نظام عوامی خواہشات و تقاضوں کا ادارک نہ کر سکا مگر چین کے حکمرانوں کو داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے بدلتے رجحانات کے ساتھ اپنے نظام میں تبدیلیاں کیں اورچین کو ایک جدید سوشلسٹ ملک بنا دیا جہاں شہری رائے دہی اورفیصلہ سازی کے عمل میں برابر کے شریک ہیں ۔چین میں ہر شہری کو سسٹم پر مکمل اعتماد ہے۔ ملک کے تمام نسلی و لسانی گروہ باہمی طور پر ایک سیاسی وحدت ہیں ۔ یہی چین کے نظام کی خوبی ہے کہ یہاں کوئی اپنے آپ کو مرکزی دھارے سے الگ اور حکمرانوں کو اجنبی نہیں سمجھتا۔ (جاری ہے)

محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل ، اردو سروس بیجنگ
Load Next Story