رونقوں کو نظر نہ لگے

کانسی میں ڈھلے ہوئے یہ دو شیر ملکہ وکٹوریہ نے اب سے سو برس پہلے کراچی کے چڑیا گھر کو تحفے میں دیے تھے

zahedahina@gmail.com

ولندیزی، پرتگیزی، فرانسیسی اور برطانوی سمندر کے بیٹے تھے، اسی لیے انھوں نے پہلے تجارت اور پھر حکومت کرنے کے لیے ہندوستان کا انتخاب کیا۔ ولندیزی، پرتگیزی اور فرانسیسی پسپا ہوتے گئے لیکن انگریزوں نے ہار نہیں مانی اور وہ ایک کے بعد ایک ہندوستان کی بندرگاہیں، قلعے اور شہر فتح کرتے گئے۔

انھوں نے 1843 ء میں جب سندھ کو فتح کیا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انھیں صرف سندھ ہی نہیں ہندوستان کے تمام مفتوحہ علاقوں سے ایک صدی بعد رخصت ہونا پڑے گا۔ کراچی جو اس زمانے میں ایک چھوٹی سی بندرگاہ تھا، اسے فتح کرنے کے بعد وہ اس شہر پر عاشق ہو گئے۔ وہ سمندرکی لہروں سے کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ سمندر نے ہی انھیں دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا دیا تھا، یہ کمال کی بات ہے کہ سمندر تو ہندوستان کو بھی گھیرے ہوئے تھا لیکن یہاں کے حکمرانوں اور عوام کو کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ بھی بڑے بڑے بیڑے بناتے اور دُنیا فتح کرنے نکلتے۔

اس وقت یہ باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ شہر کراچی میں علمی، ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں کی نئے سرے سے شیرازہ بندی ہو رہی ہے۔ یوں تو اس شہر میں ادبی سرگرمیاں، مشاعرے اورا سٹیج ڈرامے بیسویں صدی کے نصف اول سے شروع ہو گئے تھے، بیسویں صدی کے آخری برسوں میں یہ سرگرمیاں اپنے عروج کو پہنچیں لیکن 70ء کی دہائی سے جس لسانی سیاست نے یہاں زور پکڑا، اس نے شہر کو ایک آسیب زدہ بستی میں بدل دیا۔ گولیوں کی تال پر یہاں روزانہ دس بارہ نوجوانوں کا قتل ہونا ایک معمول کی بات ہو گئی۔ سرِشام یہاں کی سڑکوں پر ویرانی راج کرتی اور شہر خوفزدہ اور نیم جاں رہتا۔ ایسے میں بعض ادبی ادارے تھے جنہوںنے ہمت کی اور یہاں آہستہ آہستہ ادبی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ کراچی آرٹس کونسل ان میں پیش پیش تھی۔

میرے ناول کے انگریزی ترجمے کے اجراء کے موقع پر ، زبان، دلی کی اروشی بوٹا لیا نے مجھے ہندوستان آنے کی دعوت دی اور جے پور لٹریچر فیسٹیول میں میرے اس ناول کی مہورت ہوئی۔ میرے لیے جے پورکا یہ شاندار ادبی میلہ صرف دل خوش کن نہیں تھا بلکہ مجھے حسرت بھی ہوئی کہ کاش کراچی کے حالات ایسے ہوتے اور ہمارے یہاں بھی ادبی میلے منعقد ہو سکتے۔

یہی وہ وقت تھا جب او یو پی کی امینہ سید جے پور گئی ہوئی تھیں اور وہاں سے یہ خیال لے کر واپس آئیں کہ وہ اپنے ادارے کے تحت کراچی ادبی میلے کی شروعات کریں گی۔ ڈاکٹر آصف فرخی جو ایک معروف ادیب اور مترجم ہونے کے ساتھ ہی ایک اچھے منتظم بھی ہیں، وہ بھی امینہ سید کے ساتھ اس ادبی میلے میں سرگرم ہوگئے۔

یہ ادبی میلہ ان دونوں کے زیر انتظام خوب پروان چڑھا اور اب امینہ اور آصف ''ادب فیسٹیول '' پاکستان کے نام سے فروری میں ایک جشن ادب منا رہے ہیں۔ اس نئے سالانہ ادبی میلے کی شروعات فروری 2019ء سے ہونے والی ہے۔ چند دنوں پہلے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اس جشن ادب کا اعلان کیا گیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں حسب سابق آکسفورڈ لٹریچر فیسٹیول بھی منعقد ہو گا۔

شہر میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں جس قدر زیادہ ہوں، وہ اس لیے مسرت کی بات ہے کہ ہم نے گزشتہ دو دہائیوں میں بندوق اور بارود کی جتنی ستیزہ کاریاں سہی ہیں، اس پس منظر میں اس نوعیت کے جشن بڑی بات ہیں۔ اس بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جب ان میلوں کا آغاز ہوا تو یہ شہر والے تھے جو حبس اور جبر کی فضا سے تنگ آئے ہوئے تھے اور انہو ں نے ان میں اپنے گھر والوں کے ساتھ شرکت کر کے جان کا خطرہ مول لیا اور وہ دہشتگرد جو کہیں بے چہرہ اور کہیں نام رکھتے تھے، انھیں چیلنج کیا کہ تم اپنی سی کرو، ہم جو کمزور اور بے بضاعت ہیں، ہم بھی اپنی سی کریں گے اور اس شہرکو تمہارے نرغے سے چھڑائیں گے۔ شہر میں اب بھی دہشت اور وحشت کرنے والوں کے ٹھکانے ہیں لیکن آہستہ آہستہ وہ پسپا ہو رہے ہیں۔

یہی شہر تھا جہاں کسی زمانے میں پرانی کتابوں کے ہفتہ وار بازار لگتے تھے اور کتابوں کے جویا ان بازاروں کے پھیرے لگاتے تھے، اپنی من پسند کتابیں چن کر لے جاتے تھے لیکن یہ دہشتگردی کی لہر تھی جس نے کتابوں کے ٹھیلے اور ٹھیلے لگانے والوں کو اور ان کے گاہکوں کو مجبور کیا کہ وہ گھر بیٹھیں اور اس دن کا انتظار کریں جب حالات بہتر ہوں اور زندگی میں کتابوں کی خریداری کا موسم پھر لوٹ آئے۔


یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ وہ موسم لوٹ آیا ہے۔ کراچی کے مختلف محلوں میں ایک بار پھر پرانی کتابوں کے بازار سجنے لگے ہیں۔ سب سے خوشی کی بات تو یہ ہے کہ شہرکا قدیم اور خوبصورت سبزہ زار جو فرئیر ہال کے نام سے مشہور ہے، وہاں بہت دنوں سے ہر اتوارکو پرانی کتابوں کے اسٹال لگتے تھے لیکن شہر کے حالات نے کتاب فروشوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کام سے ہاتھ اٹھا لیں۔

اب وہاں پھر سے ہر اتوار کو کتاب بازار لگنا شروع ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں کتب فروش موجودہ کمشنر کراچی افتخار احمد شلوانی کے شکرگزار ہیں، جن کی توجہ سے فرئیر ہال کے سبزہ زار پر ایک بار پھر یہ سلسلہ شروع ہوا۔ اتوارکی اس شام فرئیر ہال کے سبزہ زار پر لگے ہوئے 40 اسٹالوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے مجھے وہ زمانے یاد آتے رہے جب صدر کے علاقے میں افسانہ نگار حمید کاشمیری اپنے اسٹال پر موجود ہوتے تھے اور ان کے ساتھ اسٹول پر کوئی معروف ادیب یا شاعر بیٹھا ہوا باتیں کرتا تھا۔

اسی علاقے میں انگریزی کی اعلیٰ کتابیں پاک امریکن اور تھامس اینڈ تھامس سے ملتی تھیں، ٹٹ بٹ سے ہم لوگ چار آنے اور آٹھ آنے میں پرانی کتابیں خریدتے تھے اور خوش خوش گھر کو جاتے تھے۔ اس علاقے کی سب سے بڑی پہچان ''کتاب محل'' تھی۔ اردو کی اعلیٰ ادبی کتابیں وہیں سے ملتی تھیں اور وہاں جائیے تو کسی نہ کسی بڑے ادیب سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ مشہور شاعر آغا قزلباش کا خانوادہ جب کراچی آیا تو ان کے بیٹوں آغا آفتاب اور آغا سرخوش نے ''کتاب محل'' کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ''کتاب محل'' اعلیٰ ادبی کتابوں کی پہچان بن گیا۔

سبط حسن، شوکت صدیقی، ہاجرہ مسرور، جمیل الدین عالی کون تھا جو اس کے پھیرے نہیں لگاتا تھا۔ آغا شاعر کی اکلوتی بیٹی سحاب قزلباش سے بھی وہاں ملاقات ہو جاتی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب ادب کے پارکھ موجود تھے اور ادیبوں کی توقیر کی جاتی تھی، وہ زمانے گزر گئے لیکن اب یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ادب اور کتابوں کی جستجو کے دن ایک بار پھر ہمارے شہر میں پھیرے ڈال رہے ہیں۔

ایک دلچسپ خبر یہ بھی ہے کہ کراچی کے چڑیا گھر میں کانسی کے بنے ہوئے وہ دو شیر بھی لوٹ آئے ہیں جنھیں ہم میں سے ہزاروں نے اپنے بچپن یا نو عمری میں دیکھا تھا۔ سالہا سال پہلے ان کو چھوکر محسوس کرنے کی خوشی آج بھی مجھے یاد ہے۔ کانسی میں ڈھلے ہوئے یہ دو شیر ملکہ وکٹوریہ نے اب سے سو برس پہلے کراچی کے چڑیا گھر کو تحفے میں دیے تھے جو اس میں بہت اہتمام سے نصب کر دیے گئے تھے۔

ان کو ڈرتے ڈرتے چھونا اور جب یقین ہو جائے کہ یہ سچ مچ کے شیر نہیں تو پھر خوشی سے قہقہے لگانا، ان پر چڑھ کر اچھلنا اور اگر کسی بڑے کے پاس کیمرا ہو (اس زمانے میں موبائل کیمرے کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا) تو اس کے ساتھ تصویر اتروانا اور برسوں تک اس تصویر کو سنبھال کر رکھنا ، یہ سب اس شہر کے بے شمار باسیوں کی یادوں کا سرمایہ ہیں۔

یہ دونوں شیر اپنی جگہ سے ہٹا کر کسی گودام میں حفاظت سے رکھ دیے گئے تھے۔ شاید کسی کو خیال آیا ہو کہ یہ بت پرستی کی علامت ہیں۔ تو کیوں نہ انھیں نقصان پہنچایا جائے۔ اب ایسا کوئی خطرہ نہیں رہا، اسی لیے یہ دونوں اس خفیہ مقام سے نکال کر ایک بار پھر چڑیا گھر پہنچا دیے گئے ہیں۔ انھوں نے آسمان کے نیچے دھوپ اور کھلی فضامیں سکھ کا سانس لیا ہو گا۔

ہمیں بھی اسے ایک نیک شگون سمجھنا چاہیے کہ ملکہ وکٹوریہ نے شہر کو کانسی کے جن شیروں کا تحفہ دیا تھا، وہ شہر کی حفاظت کے لیے واپس آ گئے ہیں۔ اب شہر میں کانسی کے دو شیر ہیں، فرئیر ہال کے سبزہ زار پر کتابوں کا ہفت روزہ بازار ہے اور ادبی جشن پھل پھول رہے ہیں۔ شہر شاد آباد رہے اور اس کی رونقوں کو کسی کی نظر نہ لگے۔
Load Next Story