بالی وڈ کی رجحان ساز فلم ثابت ہوپائے گی

بھاری بجٹ سے تخلیق پانے والی غیر روایتی فلم شوبز حلقوں میں موضوع بحث بن گئی

بھاری بجٹ سے تخلیق پانے والی غیر روایتی فلم شوبز حلقوں میں موضوع بحث بن گئی رانا نسیم

ABBOTTABAD:
کوئی وقت تھا، جب آرٹسٹ اور موسیقی شوبز کی جان تھے، ان سے بڑھ کر کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی تھی، لیکن پھر تیزی سے بدلتے رجحانات نے ان کی افادیت کو جیسے دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ آج یہ کہنا شائد غلط نہ ہو گا کہ شوبز کی دنیا میں جتنی اہمیت پیسے کی ہے، اتنی کسی فنکار کی ہے نہ موسیقی کی۔

تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ شوبز میں پیسے کے بہتات نے اس انڈسٹری کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ کبھی فلم چند لاکھ روپے میں بن جاتی تھی، لیکن آج کروڑ بھی اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس کا عملی نمونہ ہمیں ہندی فلم انڈسٹری سے ملتا ہے، جہاں اربوں روپے میں فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ آج بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے والا ملک ہے، جہاں تقریباً 16 سو فلمیں ہر سال بنائی جاتی ہیں اور ان پر اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ دنیا کی دوسری قدیم فلم انڈسٹری ہونے کا اعزاز رکھنے والے ملک بھارت کی فلم انڈسٹری کئی زبانوں پر مشتمل ہے، یعنی یہاں صرف ہندی ہی نہیں بلکہ آسامی، بنگالی، گجراتی، کنڑا، ملیالم، مراٹھی، پنجابی، تیلگو اور تمل زبانوں میں بھی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔

انہی زبانوں میں سے ایک تمل زبان ہے، جس کو ہندوستان کی فلمی دنیا میں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس زبان میں حال ہی میں اب تک کی مہنگی ترین فلم بنائی گئی ہے، جس کا نام 2.0 ہے۔ 543 کروڑ بھارتی روپیہ کے بجٹ کے ساتھ 29 نومبر 2018ء میں ریلیز ہونے والی اس سائنس فکشن فلم کے ہدایت کار اور مصنف ایس شنکر جبکہ پروڈیوسر اے شوبھاسکرن ہیں۔ لائیکا پروڈکشن کے بینر تلے بننے والی یہ فلم دراصل 2010ء کی بلاک باسٹر فلم اینتھیرن (ربورٹ) کا سیکوئل ہیں، جس نے 3 سو کروڑ روپے کے قریب کمائی کی۔

عام شائقین کے نزدیک روبو 2.0 کی سب سے خاص بات اس فلم کے ستارے ہیں، جن میں جنوبی ہندوستان فلم انڈسٹری کے میگاسٹار رجنی کانت اور بالی وڈ کے کھلاڑی اکشے کمار کے ساتھ بدیشی حسینہ ایمی جیکسن ہیں۔ بھارتی فلم انڈسٹری کی پہلی تھری ڈی فلم میں رجنی کانت اور اکشے کمار بھی پہلی بار اکٹھے جلوہ گر ہوئے ہیں۔ فلم کی کاسٹ کی کہانی بھی دلچسپی سے خالی نہیں، ہدایت کار اور مصنف ایس شنکر نے فلم میں کام کے لئے سب سے پہلے عامر خان، کمال حسن اور وکرم سے بات کی، تاہم ان تینوں اداکاروں کے انکار کے بعد معروف امریکی اداکار آرنلڈ شوارتزنگر کے سامنے فلم کا سکرپٹ رکھا گیا تو انہوں نے سخت شرائط کے بعد کام کرنے کی حامی بھر لی، لیکن یہ حامی فلم میکروں کی سکت سے زیادہ تھی۔

لہذا وہ بھی اس پراجیکٹ کا حصہ نہ بن سکے، تاہم بعدازاں آرنلڈ شوارتزنگر کا کردار اکشے کمار نے نبھایا۔ برطانوی اداکارہ ایمی جیکسن نے اکتوبر 2015ء جبکہ رجنی کانت نے نومبر 2015ء کے اواخر میں فلم کو سائن کیا، جس کے بعد 16 دسمبر 2015ء کو چنائی میں 2.0 کی شوٹنگ کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ یہ فلم تمل، ہندی، تیلگو، جاپانی، کورین اور چائنیز سمیت 15 زبانوں کے ساتھ بھارت میں 6ہزار 9 سو جبکہ دنیا بھر میں 2 ہزار سے زائد سینماؤں میں پیش کی گئی۔ پہلے دن کی کمائی 80 کروڑ بھارتی روپے کے ساتھ یہ فلم تادمِ تحریر (تقریباً ایک ماہ) 750 کروڑ روپے سے زائد کما کر کامیابیوں کے نئے ریکارڈ مرتب کر رہی ہے۔ فلم کے لئے عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گائیک اے آر رحمان نے میوزک کمپوز کیا جبکہ فلم کے گانے تمل، ہندی اور تیلگو میں جاری کیے گئے۔

میگاسٹار رجنی کانت کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کی ہر فلم کا موضوع اپنے اندر کوئی نہ کوئی سبق سموئے ہوتا ہے، ان کی فلموں میں معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرکے ان کی اصلاح کا پرچار کیا جاتا ہے اور یہی کچھ 2.0 میں بھی کیا گیا۔ اس فلم میں معاشرے کے اس منفی پہلو پر زور دیا گیا ہے، جس کے بارے میں شائد جلدی بات تک نہیں کی جاتی کہ اس سے کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری اور بزنس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فلم میں موبائل ٹاورز کے سگنلز کی فریکوئنسی مقررہ حد سے تجاوز کرنے کے باعث پیدا ہونے والی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے کہ اس فریکوئنسی سے پرندوں کی اموات ہو رہی ہیں، جن کی بروقت روک تھام نہایت ضروری ہے۔ فلم کی کہانی کی بات کی جائے تو اس کا پہلا سین اپنے موضوع کے عین مطابق کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک آدمی سیل فون ٹاور پر چڑھ کر خودکشی کر لیتا ہے اور پرندے اس کی نعش کے اردگرد منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر وسیگرن (رجنی کانت) اپنی لیب میں طالب علموں کو اپنی نئی ایجاد ایک انسانی روبوٹ نیلا (ایمی جیکسن)کو دکھاتا ہے۔


ان طالب علموں میں سے ایک موٹر سائیکل پر واپس جاتے ہوئے فون پر گفتگو کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کا موبائل فون چھوٹ جاتا ہے اور وہ بائیک سمیت پھسل جاتا ہے۔ وہ طالب علم جب پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس کا سیل فون ہوا میں معلق ہے، جو جلد ہی آسمان کی طرف اڑان بھر لیتا ہے اور اسی طرح شہر بھر میں تمام لوگوں کے موبائل فون ایک ایک کرکے تیزی کے ساتھ پرواز کر جاتے ہیں۔ اس افراتفری کے دوران تمل ناڈو کا ہوم منسٹر (عادل حسین) سائنسدانوں اور دیگر افراد کے درمیان ایک اجلاس میں اس واقعہ کی وجہ پوچھتا ہے تو ڈاکٹر وسیگرن بتاتا ہے کہ یہ سب روایتی سائنس سے باہر ہے، جس سے نمٹنے کے لیے اس سے بھی زیادہ طاقت ور چیز کی ضرورت ہے، جس کے لئے وہ منسٹر سے چِٹّی روبوٹ (رجنی کانت) دوبارہ واپس لانے کی اپیل کرتا ہے، لیکن یہ درخواست مسترد کر دی جاتی ہے، تاہم بعدازاں حالات زیادہ خراب ہونے اور کسی طرف سے کوئی مدد نہ مل پانے پر چٹّی روبوٹ کو دوبارہ بنانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر وسیگرن اپنی اسسٹنٹ روبوٹ نیلا کی مدد سے چٹّی کے پارٹس حاصل کرکے اسے دوبارہ تیار کرتا ہے، اب شہر میں چٹّی روبوٹ اور موبائلز سے بنے پراسرار پرندے پکشی راجن کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوتی ہے، جس میں چٹّی کو کامیابی حاصل ہوتی ہے اور پُراسرار پرندے کے اندر کا انسان پکشی راجن باہر نکل آتا ہے۔ پکشی راجن چٹّی کو اپنی زندگی کی کہانی بتاتا ہے کہ وہ وہی شخص ہے، جس نے فلم کے آغاز میں خود کو پھانسی دی تھی۔ پکشی راجن پرندوں سے محبت کرنے والا اور ان پر تحقیق کرنے والا ایک ریسرچر ڈاکٹر رچرڈ/کرومین (اکشے کمار) تھا، لیکن موبائل فونز کمپنی کے چند عہدے داروں کی طرف سے موبائل ٹاورز کے سگنلز کی فریکوئنسی مقررہ مقدار سے بڑھانے کی وجہ سے پرندوں کی اموات ہونے لگیں تو اس نے اعلیٰ افسران اور عدالت تک رسائی حاصل کی مگر کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔ چٹّی کے کہانی سننے کے دوران ہی ڈاکٹر وسیگرن اور نیلا پکشی راجن کو ایک ڈیوائس میں قید کر لیتے ہیں۔ تاہم بعدازاں فلم کے منفی کردار بوہرا کا بیٹا دہیندرا بوہرا حسد کی آگ جلتے ہوئے رات کی تاریکی میں پکشی راجن کو آزاد کردیتا ہے۔

بعدازاں پکشی راجن ڈاکٹر وسیگرن کے جسم پر قبضہ کر کے لوگوں کو سیل فون کے استعمال سے روکتا اور پیٹتا ہے۔ چٹی روبوٹ وہاں پہنچتا ہے لیکن پکشی راجن کو مارنے سے ہچکچاتا ہے کیوں کہ وہ ڈاکٹر وسیگرن کے جسم میں ہے، اس بات کا کا فائدہ اٹھا کر پکشی راجن چٹی کے پارٹس الگ کر دیتا ہے، لیکن نیلا اسے لیب لے جاکر دوبارہ بناتی ہے اور اسے ڈاکٹر وسیگرن کے نئے پراجیکٹ روبوٹ 2.0 کا نام دیتی ہے۔ اس دوران پکشی راجن ہزاروں لوگوں سے بھرے ایک فٹ بال اسٹیڈیم کو گھیر لیتا ہے اور سارے موبائل ٹاورز کی فریکوئنسی وہاں لاکر لوگوں کو بھسم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو چٹّی ناکام بناتے ہوئے اسے ہی ختم کر دیتا ہے۔ فلم کے اختتام میں ڈاکٹر وسیگرن فلم کے موضوع کی روشنی میں ہوم منسٹر سے اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پکشی راجن کا طریقہ غلط تھا مگر بات صحیح تھی، چنانچہ اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ موبائل ٹاورز سے کسی بھی حیات کو نقصان نہ پہنچے۔

2.0 کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور بزنس کو سامنے رکھتے ہوئے مجموعی طور پر اسے ایک کامیاب فلم قرار دیا جا رہا ہے، لیکن فلمی ناقدین کے تجزیے میں اسے کسی نہ 5 میں سے 5 تو کسی نے 3 سٹارز دیئے ہیں، کیوں کہ پرفیکشن انسان کے بس کی بات نہیں۔ ناقدین کے مطابق اگرچہ یہ فلم ویژوال افیکٹس اور تھری ڈی کے باعث تفریح کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن سائنس فکشن کی وجہ سے کچھ چیزیں بہت ہی غیرحقیقی پیش کی گئی ہیں اور فلم کے پہلے ہاف میں کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ یہاں کچھ بالکل الگ ہونے والا ہے، یعنی سپنس کا فقدان اور فلم سست روئی کا شکار رہی۔ امریکن فلم ریویو ویب سائٹ روجرای برٹ نے 2.0 کو 5 میں سے ساڑھے تین سٹارز دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ 2.0 کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اس میں بہت ساری چیزیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں، جو عقل سلیم سے ماورا ہیں۔ عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کی ایک لکھاری شلپا جمکھاندیکر کے مطابق عمومی نظر میں یہ ایک بڑی فلم ہے، جسے شائقین میں پذیرائی مل رہی ہے۔

ایک اور امریکن ویب سائٹ پولی جون کے رائٹر رافیل موٹمیئر فلم کو 5 میں سے 5 سٹارز دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2.0 میں اگر کوئی خامی ہے تو وہ اس کی ویژوال افیکٹس کا بہترین استعمال ہے، یعنی اس میں انہیں کوئی کمزوری نظر نہیں آئی۔ رافیل کا کہنا ہے کہ یہ فلم 2 سو ملین امریکن ڈالر کلب میں شامل ہونے کی تمام تر صلاحیتیں رکھتی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کے معروف فلمی ناقد جنانی کے نے اس فلم کو 5 میں سے 3 نمبر دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ فلم کا موضوع بہت اچھا ہے، لیکن اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا، موبائل ٹاور کی فریکوئنسی سے پیدا ہونے والے مسائل جیسے بہترین موضوع کو خودنمائی یا نمائشی کے بجائے دلچسپ بنایا جانا چاہیے تھا۔ انڈین ایکسپریس کے معروف رائٹر شوبھارا گپتا نے 2.0کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے 5 میں سے صرف 2 سٹارز دیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم کا پہلا ہاف دلچسپی اور سپنس سے عاری تھا، تاہم دوسرے ہاف میں رجنی کانت اور اکشے کمار کی اداکاری نے اسے کچھ بہتر بنا دیا۔

اگرچہ سائنس فکشن پر مبنی اس فلم میں کہانی، ڈائیلاگ، منظر کشی، کرداروں اور تکنیکس کے اعتبار سے کچھ خامیاں موجود ہیں، جن کا فلمی ناقدین نے برملا اظہار بھی کیا ہے، لیکن فلم کے موضوع کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، جو بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کی بھرمار کے دور میں ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے۔
Load Next Story