یہ ہے ہمارا بلوچستان سَونے کی دھرتی مگر

بیرونی مداخلت، دہشت گردی، قبائلی اور سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے پاکستان معاشی فوائد سے محروم.

بیرونی مداخلت، دہشت گردی، قبائلی اور سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے پاکستان معاشی فوائد سے محروم

قدرتی معدنیات سے مالامال پاکستان کا صوبہ بلوچستان اپنے مخصوص محل وقوع اور قبائلی نظام کی وجہ سے ہمیشہ سے مسائل سے دوچار چلا آ رہا ہے ۔

مگر گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی، بیرونی مداخلت ، فرقہ واریت اور قبائلی شورشوں نے پورے صوبے کو آتش فشاں کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، حالانکہ بلوچستان کی بنجر سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے اتنے وسائل سے نواز ہے کہ اسے سونے کی دھرتی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6 فیصد حصہ بنتا ہے ۔ اس وقت صوبے کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق90لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے جس میں سے 1.3فیصد یعنی ایک لاکھ دس ہزار غیر مسلم ہیں،ان میں آدھے ہندو یا شیڈول کاسٹ ہیں جن کی سب سے بڑی آبادی جعفر آباد اور نصیر آباد میں ہے، صوبے کی دوسری سب سے بڑی غیر مسلم آبادی مسیحی ہے ، جو تقریباًچالیس ہزار افراد پر مشتمل ہے، ان کی اکثریت کوئٹہ میں آباد ہے ۔ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع میں اہم ترین صوبہ ہے اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خیبر پختون خوا، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ و پنجاب اور مغرب میں ایران واقع ہے۔ اس کی 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔

قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خوا کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ 1947 ء تک بلوچستان، قلات، خاران، مکران اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا۔ قلات کی ریاست جو کہ ان میں سب سے بڑی ریاست تھی اس کے حکمران خان قلات میراحمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔

پاکستان کے ساتھ خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا لیکن یہ سب پاکستان کی آزادی کے معاہدے کے خلاف تھا اس لئے پاکستان نے خان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کاروائی کی، آخر کار مئی 1948ء میں بلوچستان کو پاکستان میں باقاعدہ شامل کر لیا گیا۔ 1973ء تک بلوچستان گورنر جنرل کے براہ راست کنٹرول میں رہا، 1956ء کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا۔ 1970ء میں جب عام انتخابات ہوئے اس میں پہلی بار بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور 1972ء میں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی۔ یوں بلوچستان کو باقاعدہ قومی دھارے میں شامل کر لیا گیا ۔

بلوچستان کے اضلاع
صوبہ بلوچستان کو تیس اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے
کوئٹہ، چاغی اور نوشکی:کوئٹہ بلوچستان کا صدر مقام ہے اور آبادی کے لحاظ سے سے بڑا ضلع ہے، یہ چاروں جانب کوہ چلتن، کوہ مردان زرغون اور کوہ مسلخ جیسے خشک پہاڑی سلسلوں سے گھرا قلعہ نما علاقہ ہے، یہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔ضلع چاغی پاک ایران بارڈر پر واقع ہے، اسے دووجہ سے شہرت حاصل ہوئی ایک تو ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے، دوسری وجہ شہرت سینڈک پراجیکٹ ہے۔

ضلع نوشکی کے ایک طرف چٹیل پہاڑ اور دوسری طرف بڑا صحرائی علاقہ ہے، ان تینوں اضلاع کی آبادی13لاکھ 37ہزار ہے، صنفی فرق 100 کے مقابلے میں 85 ہے، 89فیصد افراد اپنے مکانوں میں اور آٹھ فیصد کرائے دار ہیں،62 فیصد کو بجلی میسر ہے جبکہ38 فیصد اس سہولت سے محروم ہیں،65فیصد گھروں کو گیس کی سہولت میسر ہے،46 فیصد آبادی کو واٹر سپلائی کی سہولت میسر ہے، تین شہروں اور ایک سو سینتیس دیہات کی آبادی کے لئے آٹھ ہپستالوں، نو دیہی مراکز صحت سمیت 94ڈسپنسریا ں ہیں،کوئٹہ میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد 30 فیصد، نوشکی میں 9فیصد جبکہ چاغی میں صرف دس فیصد ہے، ہر تیس طلبہ کو ایک استاد میسر ہے۔



سبی،کوہلو،ڈیرہ بگٹی اور ہرنائی: ان چاروں اضلاع کی آبادی 688000 ہے، صنفی تناسب سو مردوں کے مقابلے میں زنانہ آبادی84 ہے۔78فیصد آبادی کے پاس اپنے گھر جبکہ دو فیصد کرائے پر اور17فیصد مزارعے ہیں،33 فیصد کو بجلی کی سہولت میسر نہیں، صرف بیس فیصد گھروں کو گیس کی سہولت میسر ہے،558دیہات کے لئے چار ہسپتالوں، نو دیہی مراکز صحت سمیت 156ڈسپنسریاں ہیں ، یوں 2392 مریضوں کے لئے ایک بیڈ ہے، سبی میں میٹرک تک پہنچنے والے بچوں کی تعداد انیس فیصد، ہرنائی میں انتالیس فیصد، ڈیرہ بگٹی میں صفر فیصد اور کوہلو میں چار فیصد ہے، ہر اٹھارہ طلبہ کو ایک استاد میسر ہے۔

زیارت اور پشین:ان دونوں اضلاع کی کل آبادی 477931 ہے،95 فیصد کو مکان میسر ہے ، دو فیصد کرائے پر رہتے ہیں، ایک فیصد مزارع ہیں ،96 فیصد گھروں کو بجلی میسر ہے جبکہ باقی چار فیصد اس سہولت سے محروم ہیں،58فیصد آبادی کو واٹرسپلائی کی سہولت میسر ہے،83فیصد کو گیس کی سہولت میسر ہے،دو شہروں اور چار سو پندرہ گاؤں کے لئے دو ہسپتالوں،دس دیہی مراکز صحت سمیت 94ڈسپنسریاں ہیں،3124 افراد کے لئے ایک بستر ہے۔ پشین میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد 36 فیصد اور زیارت میں چوبیس فیصد ہے، ہر29طلبہ کو ایک استاد میسر ہے۔

گوادر اور کیچ:ان دونوں اضلاع کی آبادی832190 ہے،96 فیصد افراد مالک مکان ہیں ، ایک فیصد کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ، چارفیصد مزارع ہیں، پچاس فیصد خاندان بجلی کی سہولت سے محروم ہیں ،42 فیصد گھروں کو واٹر سپلائی کی سہولت میسر ہے،95 فیصد گھر قدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہیں، پانچ شہروں اور چار سو دیہاتوں کے لئے تین ہسپتال،14دیہی مراکز اور 117 ڈسپنسریا ں ہیں،2073افراد کے لئے ایک بیڈ ہے،کیچ میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد چھ فیصد جبکہ گوادر میں تین فیصد ہے، ہر چالیس طلبہ کے لئے ایک استاد ہے۔

لورالائی ، موسٰی خیل اور بارکھان:ان تینوں اضلاع کی آبادی 679000 ہے،91 فیصد افراد کے اپنے مکان ہیں جبکہ تین فیصد کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں، چار فیصد مزارع ہیں، 22فیصد گھر بجلی کی سہولت سے محروم ہیں،9 فیصد گھروں کو بجلی کی سہولت میسر ہے، صرف تین فیصد گھروں کو قدرتی گیس میسر ہے، پانچ شہروں اور 521دیہات کے لئے چار ہسپتال،تین دیہی مراکز صحت اور 111ڈسپنسریاں ہیں، ہر 2408افراد کے لئے ایک بیڈ ہے، لورالائی میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد سولہ فیصد، بارکھان میں صفر فیصد اور موسیٰ خیل میں دو فیصد ہے۔

نصیر آباد اور جعفر آباد:ان دونوں اضلاع کی آبادی 943408 ہے،72فیصد لوگ مالک مکان ہیں جبکہ ایک فیصد کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ، 16فیصد مزارع ہیں، بارہ فیصد گھر بجلی کی سہولت سے محروم ہیں ، پندرہ فیصد افراد کو واٹر سپلائی کی سہولت میسر ہے، تین شہروں اور 389دیہات کے لئے چار ہسپتال، چار دیہی مراکز صحت اور 82ڈسپنسریاں ہیں، 3841 افراد کے لئے صرف ایک بیڈ میسر ہے، جعفر آباد میں میٹرک تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد بارہ فیصد اور نصیر آباد میں پندرہ فیصد ہے۔ ہر اکتیس طلبہ کے لئے ایک استاد ہے۔


یہ بلوچستان کے 16اضلاع کی صورتحال پیش کی گئی ہے ، دوسرے 14اضلاع بولان، جھل مگسی، ژوب، شیرانی، قلعہ سیف اللہ، آواران، لسبیلہ ، خاران، واشک، پنجگور، قلعہ عبداللہ اور خضدار میں بھی ایسے ہی حالات ہیں ، جبکہ انفراسٹرکچر کی صورتحال اس سے بھی زیادہ ناقص ہے، اکثر علاقوں کو سڑکیں بھی میسر نہیں ہیں ۔

بلوچستان کے قبائل اور زبانیں
بلوچستان میں کل 231قبائل آباد ہیں جن میں سے بڑے قبائل کی تعداد 132ہے ۔ ان میں سے بزنجو، بگٹی، رئیسانی، رند ، لغاری ، محمد حسنی، مری، مینگل،کرد، نوتکانی یا ننکانی اور جنگوانی قبائل زیادہ مشہور ہیں ۔
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بلوچستان میں علاقائی سطح پر تمام افراد بلوچی بولتے ہیں اور یہ تصور اس لئے پایا جاتا ہے کیونکہ اس صوبے کا نام بلوچستان ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں جس طرح پنجاب میں پنجابی کے علاوہ بھی زبانیں بولی جاتی ہیں ایسے ہی بلوچستان میں بھی پشتو، سندھی، پنجابی سرائیکی اور دیگر زبانیں بولی جاتی ہیں۔

ان میں سے بلوچی بولنے والے کل آبادی کا 55 فیصد، پشتو بولنے والے 30 فیصد، پنجابی یا سرائیکی بولنے والے5 فیصد جبکہ دیگر زبانیں بولنے چار فیصد ہیں ۔ بلوچستان کے9 شمالی اضلاع میں پشتون مقامی آبادی کا نوے فیصد کے قریب ہیں، دس جنوبی اضلاع میں بلوچوں کی آبادی نوے فیصد سے زائد ہے اور مزید سات میں بھی وہ اکثریت میں ہیں، صوبے کے بڑے شہروں کوئٹہ اور سبی میں پشتون اکثریت میں ہیں ، شہروں میں پنجابی اور اردو بولنے والے بھی کافی تعداد میں ہیں ۔ یوں بلوچستان زیادہ رقبے اور کم آبادی کے باوجود مختلف زبانیں بولنے والوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔

قدرتی وسائل اور معدنیات
بلوچستان کو قدرت نے بے پناہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے نوازا ہے ، یہاں کی زمین دیکھنے میں بنجر مگر اپنے اندر بے پناہ خزانے چھپائے ہوئے ہے ۔ اسی وجہ سے اسے دنیا بھر میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ ضلع کوہلو اور کوئٹہ کے قریب کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ مسلم باغ ، قلعہ سیف اللہ ، لسبیلہ، خضدار، خاران اور چاغی میںکرومائیٹ کا وسیع ذخیرہ ہے۔ خضدار کے نزدیک بیرٹس کے دو ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ ضلع چاغی کے علاقے کوہ سلطان میں سلفر پایا جاتا ہے۔

اسی طرح ضلع چاغی ، زردکان، سیاچنگ ، جھولی، پتکوک ،مسکیچاھ، زہ، چلغیزی اور بٹک میں ماربل کے ذخائر پائے جاتے ہیں ، ماربل کی ایک اعلیٰ قسم اونیکس کے ذخائر بولان، لس بیلہ اور خضدار میں دریافت ہوئے ہیں۔ کوئٹہ، قلات، ہرنائی،سور رینج اور سپنتنگی کے علاقوں میں چونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ چاغی میں لوہے کے تیس ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں ، اس کے علاوہ تانبا، سونے، سلور اور لیڈ کے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں۔ ان معدنیات سے سالانہ 1.5ارب ڈالر ریونیو اکٹھا ہو تا ہے۔

بلوچستان میں تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں، صرف گیس سے سالانہ اربوں روپے ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔ جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق بلوچستان میں گیس کے 19ٹریلین کیوبک فٹ اور تیل کے 6ٹریلین بیرل ذخائر موجود ہیں ۔ پنجگور، لسبیلہ، خاران ، قلات اور مری میں بھی تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ۔ اگر ان تمام ذخائر سے مکمل استفادہ کیا جائے تو روزانہ 140ملین ڈالر ریونیو اکٹھا ہو سکتا ہے۔

گوادر پورٹ
بلوچستان میں گوادر پورٹ کی تعمیر سے نہ صرف صوبے بلکہ ملک وقوم کے لئے ترقی کے نئے راستے کھلے ہیں، یہاں سے افغانستان ، وسطی ایشیائی ریاستوں اور چین تک آسانی سے رسائی ہو سکتی ہے۔ اس خوبصورت اور وسیع عریض بندر گاہ کی تیرہ برتھ ہیں جن میں سے ہر ایک 200میٹر طویل ہے ۔

جب یہ بندر گاہ مکمل طور پر کام شروع کر دے گی تو اس سے سالانہ اربوں ڈالر ریونیو اکٹھا ہو گا ۔ پاکستان نے حال ہی میں اس کا سارا انتظام چین کو ٹھیکے پر دے دیا ہے، جس سے چین سے دوستی گہری ہونے کے علاوہ دفاعی طور پر بھی بہت فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں ماہی گیری بھی بہت منافع بخش کاروبار ہے کیونکہ سات سو کلومیٹر سے زائد طویل سمندری ساحل کی وجہ سے اس کاروبار میں کافی آسانیاں ہیں۔ بلوچستان کے سمندری ساحلوں پر 60 قسم کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، بلوچستان میں ماہی گیری کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ کروڑوں روپے ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔

بلوچستان کے جتنے زیادہ وسائل ہیں اتنے ہی زیادہ مسائل نے اسے اپنے نرغے میں لیا ہو ا ہے، دہشت گردی، قبائلی لڑائیوں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی طاقتیں یہاں اپنا کھیل، کھیل رہی ہیں ، یوں پاکستان سونے جیسی اس دھرتی سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا، اگر پاکستان نے ایشین ٹائیگر بننا ہے تو بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے عوام کی محرومیوں کا بھی ازالہ کرنا ہو گا۔

کوئٹہ کے ہزارہ

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے سینکڑوں خاندان آباد ہیں ، مذہبی حوالے سے ان کا تعلق مسلمانوں کے شیعہ مکتبہ فکر سے ہے۔

یہ نسلاً یہاں کے رہنے والے نہیں ہیں، 19ویںصدی میں جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت قائم تھی تو یہ قبیلہ افغانستان کے مرکزی علاقے ہزارہ سے ہجرت کر کے یہاں آ کر آباد ہوا ۔ اس قبیلے کے یہاں آ کر آباد ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں افغان امیر عبدالرحمان خان نے ہزارہ آبادی پر مظالم ڈھانے شروع کر دئیے تو یہ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے یہاں آ گئے۔ ہزارہ افراد کے خدو خال منگولوں جیسے ہیں اس لئے یہ دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے کوئٹہ میں آباد ہزارہ قبیلے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

اب تک اس قبیلے کے دوہزار سے زائد افراد جان بحق اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں ۔ رواں سال ہزارہ قبیلے پر چار بڑے جان لیوا حملے کئے گئے جن میں 300 کے قریب افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام حملوں کی ذمہ داری ایک کالعدم مذہبی تنظیم نے قبول کی ہے جس سے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے، مگر ملک وقوم کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم انتہا پسندوں کو اس کی کیا پرواہ، انتہاپسندی کی آگ میں جلتے ہوئے یہ لوگ دانستگی یا نا دانستگی میں گویا پاکستان کے دشمنوں کے مذموم مقاصد کے لئے کام کر رہے ہیں ۔
Load Next Story