لیولا کو پاکستان آجانا چاہیے

انتہائی غربت میں پیدا ہونے والا انسان برازیل جیسے وسیع و عریض اور طاقتور ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچا

raomanzar@hotmail.com

لوئز اناکیو لولا ڈی سلوا(Luiz Inacio Lula Dasilva) برازیل کی تاریخ کا سب سے طاقتور سیاست دان تھا۔ انتہائی غربت میں پیدا ہونے والا انسان برازیل جیسے وسیع وعریض اور طاقتور ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ گیا۔

بچپن میں والدین اسے جوتا تک خرید کر نہیں دے سکتے تھے۔ لیولاکا بچپن ایسا ہی تھا جیسا تیسری دنیا کے غریبوں کا ہوتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو دنیا میں صرف دوطبقے ہیں، امیر اور غریب۔ امیر کے لیے کوئی بھی ملک اہم نہیں ہے۔ وہ ہرخطہ کا شہری بن سکتا ہے۔ ساری دنیا کے غریب اور ان کا طرزِ عمل بھی یکساں ہے۔

جذباتیت، نعروں اور ترقی کے خوابوں سے آراستہ، غریب ازل سے لٹتے آئے ہیں اور اَبد تک ان کا مقدر ایسا ہی رہے گا ۔ یہ ہر بار نئے فریب میں پھنسنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ کبھی مذہب نام پر، کبھی سماجی ترقی کے اور کبھی مساوات کے جھوٹے نعرے پر۔

لیولا کام تلاش کرتا رہا۔ برازیل میں دھات کی طاقتور صنعت ہے۔ لیولا اس کی ورکرز یونین میں شامل ہوگیا۔ کمال کا مقرر تھا۔ وہ آہستہ آہستہ غریب طبقے کی آواز بننے لگا۔ برازیل میں انتہائی دولت مند طبقہ بالادست ہے۔ وہی ایک فیصد طبقہ جو ہر ملک میں حکمرانی کر رہا ہے۔ امیرلوگ شوگرملزاوردیگرصنعتوں کے مالکان تھے۔

لازمی بات ہے کہ جہاں صنعت ہوگی،وہاں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم بھی ہوگی۔وہاں مزدوروں کے حقوق کی پامالی ہوگی۔لیولا انتہائی ذہین انسان تھا۔ سیاست کوسمجھ چکا تھا۔جان چکاتھاکہ اقتدارحاصل کرنے کے لیے غریب طبقے کی حمایت ضروری ہے۔اس نے برازیل کی قومی سیاست میں آنے کافیصلہ کیا۔ورکرزپارٹی میں شمولیت اس کی ابتدا تھی۔ورکرزپارٹی میں بائیں بازوکے دانشور، صحافی، اساتذہ،طلباء اورمزدور شامل تھے۔

لیولانے قومی سیاست میں داخل ہونے کے لیے الیکشن لڑے۔پہلے تینوں الیکشنوں میں شکست ہوئی مگر ہمت نہ ہارا۔معلوم تھاکہ اس کے پاس ایک جاندارخواب ہے جسے بیچ کر ایک دن ملک کے اعلیٰ ترین ایوان تک پہنچ جائے گا۔2002ء میں الیکشن نے اسے برازیل کا صدر بنادیا۔ لیولا،2003ء سے لے کر2011ء تک برازیل کے سیاہ و سفید کامالک رہا۔

اس دور میں برازیل نے بے پناہ ترقی کی۔ لاکھوں لوگوں کوروزگارمہیاکیاگیا۔لوگ اس کے دیوانے تھے۔دوبارصدررہنے کے بعد لیولانے اپنی معتمدخاص ڈلماروسف(Dilma Rousseff) کو صدر بنوا دیا۔ اصل اقتداراسی کے ہاتھ میںرہا۔ڈلماصرف ایک کٹھ پتلی صدرتھی۔پچھلے برس ڈلما بھی ایک کرپشن سکینڈل کی وجہ سے اقتدارسے ہاتھ دھوبیٹھی۔اس طرح لیولاکابیس برس کا اقتدار ختم ہوگیا۔

جیسے ہی لیولاکااقتدارختم ہوا۔تومعلوم ہواکہ موصوف نے اپنے دورمیں خوب مال کمایاہے۔ پیٹروبراس (Petrobras)نام کی قومی تیل کی کمپنی کوذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔پتہ چلاکہ سمندرکے کنارے ایک بلڈنگ میں لیولا نے چھ لاکھ ڈالرکاایک خوبصورت اپارٹمنٹ حاصل کیاہے۔جس کی کوئی منی ٹریل نہیں ہے۔

ایک اور گھربھی سامنے آیا۔جس کی مالیت تقریباًساٹھ ہزارڈالرتھی۔یہ بھی معلوم ہواکہ لیولانے اپنی سیاسی پارٹی کے مختلف اہم ارکان کو کمیشن لینے کی اجازت دے رکھی تھی۔صنعت کاراورسرمایہ دار،ورکرزپارٹی کوبے دریغ چندہ دیتے رہے تھے۔ان انکشافات کی غیرجانبدارانہ تفتیش ہوئی اورمقدمہ عدالت میں پیش کردیاگیا۔ضلعی سطح کی عدالت نے لیولاکونوسال قید کی سزاسنائی۔اپیل میں سزاکوبڑھاکربارہ سال کردیا گیا۔

لیولانے عدالت میں گھنٹوں اپنے حق میں دلائل دیے۔وہ یہی کہتاتھاکہ اس کااصل جرم غریب عوام کے لیے ترقی کے دروازے کھولناہے۔وہ بے گناہ ہے اوراسے پھنسایا جا رہا ہے۔مگرجب استغاثہ کے وکلاء پوچھتے تھے کہ اس کے پاس سرمایہ کدھرسے آیاتووہ خاموش ہوجاتاتھا۔یہ بھی پتہ چلاکہ لیولا نے اکیس ملین ڈالرز اپنی پارٹی کے اکابرین کوصنعتی کمپنیوں سے رشوت وصول کرکے فراہم کیے۔


ٹھوس الزامات کا لیولاکے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔سزاکے بعد،اس کی سیاسی پارٹی نے جلسے اورنعرے بازی کی،مگرحکومتی اداروں نے یہ احتجاج ختم کرادیا۔لیولااب صرف ایک بات کہہ رہاہے کہ ساراانتظام اسے سیاست سے باہررکھنے کے لیے ہوا ہے۔ اسے تیسری بارصدربننے سے روکاجارہاہے۔عوام کے ووٹ کی طاقت کورسواکیاجارہاہے۔یہ تقاریراوربیانیہ جاری وساری ہے لیکن عملاً لیولا برازیل کی سیاست سے باہر ہوچکا ہے۔

پاکستان اوربرازیل کادرمیانی فاصلہ سترہ ہزار، سات سوکلومیٹرہے۔مگراس کاسیاسی نقشہ اورسیاستدانوں کی ریاکاریاں حددرجہ یکساں ہیں۔وہی لوٹ مار، خدمت کے دعوے، پارسائی کے اعلانات،وہی ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہونے پرسیاست چھوڑنے کے ادنیٰ دعوے،کمیشن نہ لینے کی دروغ گوئی،یعنی ہر عنصر اور ہر سیاسی المیہ ایک جیساہے۔اس پرکوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔تیسری دنیاکے تمام ملک ایک جیسے جبراورمشکل حالات کے تسلسل سے گزررہے ہیں۔

ہمارے ہاں کیونکہ سچ بولناعلانیہ طور پر ممنوع ہے لہذایہاں،ان مسائل کے ساتھ ساتھ کمال منافقت بھی شامل ہوچکی ہے۔ایسی منافقت جس نے پورے سماج کوگرفت میں لیاہواہے۔قومی سیاست کی طرف نظردوڑائیے تویہ سیاہ کاری حددرجہ مضبوط معلوم ہوتی ہے۔

پیپلزپارٹی سندھ حکومت کی مسلسل مالک ہے۔قومی سطح پر مسلم لیگ ن صرف تین چارماہ پہلے ایوان اقتدارسے باہر ہوئی ہے۔ مگرمعاملات وہی ہیں جو برازیل کے ہیں۔ پیپلز پارٹی کابیانیہ ہے کہ وہ غریب عوام کی آوازہے۔ یہ بات سرسری طورپرتوٹھیک ہے۔ذوالفقارعلی بھٹونے عوامی شعور جگایا۔ ترقی پسندوں کی آوازبنا مگراس کے بعد کیا ہوا۔

کیاواقعی سندھ تک سکڑجانے والی پارٹی کے اکابراین اپنی دولت کے ذرایع بتاسکتے ہیں۔جتنی خوفناک بدعنوانی سندھ میں جاری وساری ہے،کیااسے نعروں کی چادرمیں چھپایا جا سکتا ہے۔کیاسندھ حکومت کی سطح پر منی لانڈرنگ کودرست قراردے دیاجائے۔کیازرداری صاحب اوران کے حوارین اپنے امیرانہ لائف اسٹائل کے ذرایع بتاسکتے ہیں؟ کیاپیپلزپارٹی کے اعلیٰ ترین دماغ جے آئی ٹی رپورٹ کی جزئیات کادلیل سے جواب دے سکتے ہیں۔

ایساہونا ناممکن ہے۔ تبصرہ کی ضرورت نہیں۔سندھ کے اَبتر حالات ایک چارج شیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پارٹی کی ملک کے دیگر صوبوں میں عبرتناک شکست کیا حقیقت نہیں ہے۔ مگر سبحان اللہ،جواب ہے کہ اٹھارویں ترمیم کوختم کرنے کی سازش ہورہی ہے۔صوبائی خودمختاری کوداؤپر لگایا جارہا ہے۔گزارش ہے کہ کیاکھربوں روپے کی کرپشن کایہ جواب واقعی تسلی بخش ہے۔ ہرگز ہرگز نہیں۔کلفٹن کے کسی باسی سے پوچھ لیجیے۔ بلاول ہاؤس کے اردگرد،قیمتی ترین گھر کیسے خریدے گئے۔

صفائی کرنے والے صوبائی ادارے، گھر فروخت کرنے میں لیت ولعل کرنے والے کے گھرکے سامنے کچرے کا ڈھیرلگادیتے تھے۔بدبواورآلائش سے تنگ آکر اکثر لوگ اپنے قیمتی گھروں کوآدھی قیمت پر فروخت کرکے جان کی امان پاتے تھے۔یہ کھیل دس سال سے بغیر روک ٹوک سے جاری تھا۔ریاستی ادارے اگر تھوڑا ساایکشن لیں تواٹھارویں ترمیم اورصوبائی حقوق کی اسموگ اسکرین کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔مگر انصاف توہوکررہے گا۔

بالکل اسی طرح،ن لیگ کی چیخ وپکارصرف اورصرف ناجائزدولت کوچھپانے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔یہ اَمربھی درست ہے کہ ہرسیاسی پارٹی کی طرح،ن لیگ میں ایمانداراورمنجھے ہوئے لوگ موجودہیں۔مگرسب جانتے ہیں کہ انھیں کسی طرح کی اہمیت حاصل نہیں ہے۔سرکردہ لوگ وہی ہیں جوکروڑوں روپے چندہ دے سکتے ہیں۔

عوامی جلسوں پرپانی کی طرح روپیہ بہاسکتے ہیں۔گزشتہ دس برسوں میں جنکی معاشی تقدیربدل چکی ہے۔جنہوں نے اپنی بستیاں،گاؤں اورشہروں پر تسلط قائم کیاہے۔نام نہیں لیناچاہتا مگراپنے اقتدارمیں،ن لیگ کے چندمحترم اکابرین ہرطرح کی بے ضابطگی میں شامل رہے ہیں۔کوئی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔وسطی پنجاب میں کسی کے متعلق غیرجانبدارانہ تحقیق کرلیں۔آپ کونتیجہ سامنے ملے گا۔رونے پیٹنے کی بلند آوازوں پرنہ جائیے۔

کیاواقعی محترم نوازشریف صاحب اپنی بے شماردولت کاجائزذریعہ بتاسکتے ہیں؟ چلیے سب الزامات غلط ہیں۔ مگران کے بیٹے عدالت میں پیش ہوکر بے گناہی ثابت کیوں ثابت نہیں کررہے۔برادرخورد الزامات کامقابلہ کیوں نہیں کررہے؟ مراعات کیونکر حاصل ہورہی ہیں۔درست ہے کہ ان کے دورِحکومت میں انفرااسٹرکچرمیں ترقی ہوئی ہے۔مگراس کی قیمت اس قدرزیادہ کیسے ہے۔کسی بھی بات کاکوئی جواب نہیں۔مگرصرف یہ باربارکہناکہ ہم سارے انتقامی سیاست کاشکار ہیں۔یہ مکمل سچ معلوم نہیں ہوتا۔

عمران خان کاتوانتخابی نعرہ ہی احتساب کاتھا۔کرپشن کوروکنے کاتھا۔اس نے تواحتساب سے بازنہیں آنا۔بے لاگ تجزیے کے مطابق تواحتساب ابھی شروع ہی نہیں ہوپایا۔عجیب بات ہے کہ ہمارے مقتدرطبقے اوربرازیل کے سزایافتہ صدرلیولاکے بیانات بالکل ایک جیسے ہیں۔ مشورہ ہے کہ لیولاکوپاکستان آجانا چاہیے کیونکہ وہ ہماری سیاست کے لیے موزوں ترین کردارہے یاپھر ہمارے مقتدرطبقے کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے برازیل بھیج دینا چاہیے۔
Load Next Story