بھارتی جج کا موقف

اعتدال پسندوں کی یہ ذمے داری ہو کہ وہ اعتدال پسندی کی ہر قدم پر حمایت کریں تاکہ انتہا پسند حلقے حقائق کی طرف آئیں

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

بھارت میں گائے کو ایک ایسا سنگین عقائدی مسئلہ بنادیا گیا ہے کہ اب تک گائے کے احترام کے نام پر سیکڑوں انسانوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا ہے پسماندہ ملکوں میں عقائدی مسئلہ دراصل جہالتی مسئلہ بن گیا ہے یا بنادیا گیا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ بے سروپا کہانیوں کو مذہب سے جوڑ کر مسئلے کو اس قدر سنگین بنادیا گیا ہے کہ پڑھا لکھاآدمی جہاں اسے یہ مسئلہ نظر آتا ہے اس سے کوسوں دور سے نکل جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پسماندہ ملکوں کا عقائدی نظام حقائق سے بہت دور ہے لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ باشعور لوگ بھی جو حقائق کو سمجھتے ہیں اس مسئلے کے حوالے سے اس قدر خوفزدہ رہتے ہیں کہ نہ سچ بول سکتے ہیں نہ جاہلانہ روایات کے خلاف اسٹینڈ لیتے ہیں کیونکہ اس مسئلے پر تعلیم یافتہ لوگ بھی بہت محتاط ہوتے ہیں۔

اس خوف اور دہشت کی وجہ جہلا معاشرے کو اس قدر دہشت ناک بنا چکے ہیں کہ کوئی شریف آدمی خوفزدہ رہتے ہیں۔اس مسئلے کی سنگینی کو نظرانداز کرکے بھارت کے سابق سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس (ر) مرکنڈے نے کہا کہ گائے کو ماتا ماننے والے گدھے ہیں۔

جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ سرکار کے متعلق مت پوچھیئے اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ پچھلے چار برس سے اس کے طرز عمل نے بھارت کی ناک ہی کٹوا دی، میں امریکا میں چار ماہ رہ کر آیا ہوں، لوگ ہم پر ہنستے ہیں کہ یہ کیسے پاگل لوگ ہیں کسی کو پکڑ کر مار ڈالا کیونکہ وہ گائے کاٹ رہا تھا۔چار برسوں سے یہ پاگل پن جاری ہے، اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جسٹس مرکنڈے نے کہا کہ میں سائنسی آدمی ہوں۔ گائے کو ماتا نہیں مانتا۔گھوڑے اور کتے کی طرح گائے کو بھی ایک جانور سمجھتا ہوں۔ اگر مذہبی انتہا پسند گدھا بنے رہنا چاہتے ہیں تو بنے رہیں۔ مسلمانوں کو کھلے میدانوں میں نماز پڑھنے سے روکنا آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ آر ایس ایس کے لوگ کھلی جگہوں میں اجتماع کرتے ہیں انھیں تو کوئی نہیں روکتا۔ جمعے کی نماز پڑھ لی تو کیا ہوگیا۔ نماز پڑھنے والوں نے کیا کسی کا سر کاٹ لیا کسی کا پیر کاٹ لیا ہوتا ہے؟


جسٹس (ر) مرکنڈے ایک تعلیم یافتہ انسان ہیں، وہ نہ صرف سائنس وادی ہیں بلکہ سائنس کے حقائق اور مضمرات کو سمجھتے بھی ہیں۔ اب تک ہزاروں افراد اس جہل کی نظر ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نارمل لوگ جب تک ان انتہا پسندوں کے خلاف جسٹس مرکنڈے کی طرح سچ بولنے کی جرأت نہیں کریں گے جہل اور جاہلوں کو خون خرابے سے کون روکے گا، بھارت کا حکمران طبقہ ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس ظلم کو ناپسند کرتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو جاہلوں کے ہاتھوں مرتے دیکھ کر دکھی ہوتے ہیں لیکن جہل ہمیشہ علم پر حاوی رہے گا۔

اس حوالے سے ڈر خوف لازمی ہے لیکن جو لوگ اس ظلم کو انسانیت کی توہین اور خلاف ورزی سمجھتے ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ جسٹس (ر) مرکنڈے کی طرح اس گدھے پن اور جہالت کے خلاف آواز اٹھائیں اس حقیقت کو سامنے رکھیں کہ اگر عام لوگ جسٹس (ر) مرکنڈے کی جرأت کا مظاہرہ کریں تو جہل ہار جائے گا اور علم و عقل جیت جائیں گے۔ دنیا کو اس جہل اور ظلم سے پاک کرنا ہر تعلیم یافتہ اور باشعور انسان کا فرض ہے خواہ اس جہل کا مظاہرہ بھارت میں ہو یا کسی اور ملک میں۔ بھارت کے حوالے سے اس قسم کے اقدامات زیادہ قابل مذمت ہیں کہ بھارتی حکام بھارت کو ایک سیکولر ملک کہتے ہیں اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت میں اظہار خیال کی آزادی کی وجہ بھارتی عوام اظہار خیال میں نسبتاً زیادہ آزاد ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1947ء میں مشترکہ ہندوستان کے وحشی درندوں نے 22 لاکھ انسانوں کو جن میں ہندو اور سکھ بھی تھے اور مسلمان جس بربریت سے قتل کیا گیا، اس بڑے المیے کے حوالے سے اعتدال پسند ہندو اور اعتدال پسند مسلمان اس بربریت کے خلاف کوئی دن مناتے ہیں؟ چونکہ بھارت ایک سیکولر ملک کہلاتا ہے لہٰذا اس کی زیادہ ذمے داری ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھائے۔

لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ بھارت میں سرکاری طور پر مذہبی انتہا پسندی کی تائید کی جاتی ہے، یہ کس قدر شرم ناک اور المناک حقیقت ہے کہ بھارت کی برسر اقتدار جماعت مذہبی انتہا پسندی کی نہ صرف حمایت کرتی ہے بلکہ اس کو بھارت کا غیر سرکاری طور پر نظریہ بنا لیا گیا ہے۔ بھارت میں 22 کروڑ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسان رہتے ہیں ،کیا وہ مذہبی انتہا پسندی کی زد میں نہیں ہیں؟ بھارت کا میڈیا آزاد ہے اس کی زیادہ ذمے داری ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بھرپور آواز ہی نہیں بھرپور مہم چلائے۔

پچھلے کچھ برسوں سے پاکستان میں ایک اچھی اور دوستانہ روایت کی سرپرستی کی جا رہی ہے جس کی بھرپور حمایت کی جانی چاہیے، وہ روایت یہ ہے کہ ہندوؤں کے تہواروں میں مسلمان شریک ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی عیدوں اور مذہبی تہواروں پر ہندو شامل ہو رہے ہیں۔ اس میل جول سے دونوں ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کی مذمت اور مذہبی میل جول کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بھارتی جج جسٹس (ر) مرکنڈے مذہبی انتہا پسندوں کے درمیان بیٹھ کر مذہبی انتہا پسندی کی مذمت کر رہے ہیں اس کے حوالے سے دونوں ملکوں کے اعتدال پسندوں کا فرض ہے کہ وہ مذہبی یکجہتی اور رواداری کی بھرپور حمایت کریں۔

پاکستان کوکٹر مذہبی ملک کہہ کر اس کی شہرت کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ نسبتاً اعتدال پسند ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عام انتخابات میں پاکستانی عوام نے مذہبی انتہا پسندوں کی کبھی حمایت نہیں کی، ہمیشہ اعتدال پسندوں کی حمایت کی۔ اب جب کہ ساری دنیا کا کلچر اعتدال پسند ہو رہا ہے اور دنیا کے انسان انتہا پسندی کے خلاف اور اعتدال پسندی کے حق میں آگے آرہے ہیں ۔ اعتدال پسندوں کی یہ ذمے داری ہونی چاہیے کہ وہ اعتدال پسندی کی ہر قدم پر حمایت کریں تاکہ انتہا پسند حلقے حقائق کی طرف آئیں ۔
Load Next Story