زرداری کا گیم پلان اور ن لیگ

لیکن شاید کوئی فائدہ نہیں اب (ن) لیگ کسی ایسے موڈ میں نہیں

msuherwardy@gmail.com

آصف زرداری کے لیے دن بدن مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ان مشکلات سے نبٹنے کے لیے وہ سیاسی محاذ پر گیم کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ ن لیگ کو ساتھ ملانے کی کوشش میں ہیں لیکن ان کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوںگی، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ادھر مولانا فضل الرحمٰن بار بار کہہ رہے ہیں کہ کیا اپوزیشن تب متحد ہو گی جب ساری اپوزیشن جیل میں ہوگی لیکن شاید ن لیگ، زرداری اور فضل الرحمٰن کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔

ن لیگ بھی ٹھیک سوچ رہی ہے کہ ہم تو جیلوں میں پہنچ گئے ہیں۔ اب ان کی باری ہے۔ جب ہماری باری تھی تب زرداری صاحب تماشا دیکھ رہے تھے بلکہ ہمارے خلاف سر گرم تھے۔ اب جب ان کی باری ہے تو ہم ان کی کیوں مدد کریں۔ آج ن لیگ خاموش ہے۔ زرداری اور بلاول وہی زبان بول رہے ہیں جو نواز شریف اور مریم ایک وقت میں بول رہے تھے۔

آج ن لیگ خاموش مفاہمت کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ایک وقت میں زرداری کر رہے تھے۔ نواز شریف جیل میں ہیں لیکن انھیں باہر آنے کی امید ہے۔ ایسے میں وہ زرداری کی لڑائی لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ نواز شریف کا موقف ہے کہ زرداری نے پاکستان میں سول بالا دستی کے لیے عملی اقدامات کے سنہری مواقعے ضایع کر دیے ہیں۔ اب اکٹھے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔

دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن اور آصف زرداری ایک اور کھیل کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے پاس عمران خان کو اتارنے کے لیے ووٹ پورے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب ووٹ پورے ہیں تو عدم اعتماد پیش کرنی چاہیے۔ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے فارمولے کے مطابق نئے وزیر اعظم کے لیے سردار اختر مینگل کا نام پیش کیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سردار اختر مینگل کا نام کوئی نیا نہیں۔

جب سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا مواخذہ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا تو ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان سردار اختر مینگل کو صدر بنانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ بعد میں مشرف کو ہٹانے کے بعد آصف زرداری نے خود صدر بننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یوں دیکھا جائے تو نواز شریف اور زرداری کے درمیان سردار اختر مینگل کے نام پر پہلے اتفاق ہو چکا ہے، اب دوبارہ بھی اس نام پر اتفاق ہو سکتا ہے۔

اس نئے فارمولے میں یہ بھی ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں پی پی پی اور ن لیگ کی مدد سے نئی حکومت تو بن جائے لیکن یہ دونوں جماعتیں بے شک شراکت اقتدار نہ ہوں۔ بے شک وزارتیں بھی نہ لی جائیں۔ اقتدار سے باہر بیٹھ کر ایک حکومت بنائی جائے۔ اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم احتساب کے عمل کو روک نہیں رہے ہیں۔ لیکن عدم اعتماد ایک جمہوری عمل ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔


اگر قومی اسمبلی کی کاروائی کا جائزہ لیا جائے تو سردار ختر مینگل حکومت کے اتحادی ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کے معاملے پر انھوں نے سات دن اپوزیشن کے ساتھ ایوان کا بائیکاٹ کیااور حکومت کو مجبور کرنے میں مدد دی کہ وہ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرے۔

اسی طرح اپوزیشن نے چیئرمین نیب کو جو خط لکھا اس پر بھی سردار اختر مینگل نے دستخط کیے ہیں۔ اس طرح سردار اختر مینگل حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ چل رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے ابھی حکومتی بنچ چھوڑے نہیں ہیں۔آصف زرداری کے اس نئے فارمولے میں وہ وزیر اعظم کے امیدوار ہیں۔

اسی لیے آصف زرداری جہاں اداروں کے خلاف بولنا شروع ہو گئے ہیں۔ وہاں وہ سینیٹ میں عدم اعتماد کے لیے قدم نہیں اٹھا رہے بلکہ وہ سینیٹ کے بجائے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی رائے میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لانا ایک گناہ بے لذت سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے اگر عدم اعتماد لانی ہے تو قومی اسمبلی میں لائی جائے۔

قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں آج ن لیگ اس کے لیے تیار نہیں۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ اس طرح عمران خان سیاسی شہید بن جائے گا۔ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی ویسے ہی بہت بری جا رہی ہے۔ عوام عمران خان سے بد ظن ہو رہے ہیں۔ اس کے دعووں کا پول کھل رہا ہے۔ تبدیلی کے غبارے میں سے ہوا نکل رہی ہے۔ معاشی حالات خر اب ہو رہے ہیں۔یہ حکومت ملک نہیں چلا سکتی اس لیے عمران خان کو وقت دینا چاہیے۔

اس وقت حکومت گرانے کی کوشش عمران خان کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ دے گی۔ اس ضمن میں پہلے ن لیگ کا موقف تھا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جائے لیکن آصف زرداری کو جلدی تھی تا ہم ن لیگ نے وقت گزار دیا۔ اب چیف جسٹس بھی ریٹائر ہو رہے ہیں لیکن ن لیگ پھر بھی نہیں تیار۔ایک رائے یہ ہے کہ نواز شریف اپنی اور شہباز شریف کی ضمانت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ضمانت سے قبل کوئی ایڈ ونچر نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن آصف زرداری کو خدشہ ہے کہ اگر دیرکی گئی تو ان کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس لیے ابھی قدم اٹھانا چاہیے ورنہ وہ جیل جا سکتے ہیں۔

ادھر پیپلز پارٹی ماضی کی غلطیوں کو دھونے کی کوشش کررہی ہے۔ میاں شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمینی سے لے کر ہر اہم مسئلہ پر ن لیگ کے ساتھ چل رہی ہے ۔ بلاول نے شہباز شریف کے لیے پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ ٹھکرا دی۔لیکن ن لیگ کو زرداری پر اعتبار نہیں۔ نواز شریف کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ اگر زرداری وقت پر ساتھ دے دیتے تو وہ یہ جنگ ہار نہیں سکتے تھے۔ ان کی جیت یقینی تھی۔

اب ان کے پا س کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ اس لیے زرداری کو بچانے کے لیے وہ میدان میں کیوں آئیں۔ اب زرداری کو بھی اپنے انجام کو پہنچنا چاہیے۔ ان کو زرداری پر اعتماد نہیں۔ نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ یہ زرداری کی مرضی نہیں ہو سکتی کہ کب اکٹھے ہونا اور کب لڑنا ہے۔ ہم ان کے اشاروں پر نہیں ناچ سکتے۔

اس تناظر میں مستقبل قریب میں اپوزیشن کے اکٹھے ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ ن لیگ نے اس حکومت کو وقت دینے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ا س لیے وہ کسی بھی عدم اعتماد اور حکومت کو گرانے کی کسی بھی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مارچ اپریل تک حالات کو ایسے ہی چلانے کا فیصلہ ہے۔ اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن زرداری مارچ اپریل تک انتظار کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ فوری کوئی فیصلہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے مولانا فضل الرحمٰن سے بات کر رہے ہیں۔ لیکن شا یدکوئی فائدہ نہیں۔ اب ن لیگ کسی ایسے موڈ میں نہیں۔
Load Next Story