معماران جلیس ایک اہم کتاب
اس حادثے کے بعد سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید کو جمعہ کی نماز میں زاروقطار روتے ہوئے دیکھا گیا
''میرے نام کراچی میں، مفکر اسلام ، مرشدی ، سیدی ، مولانا مودودی صاحب کا خط آیا ہے جس میں انٹرویو کی اجازت بہ شرط '' عدم طوالت '' کے درج ہے، ذکر ہے 1977 کا، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدارکا آخری ماہ تھا۔
خط کیا تھا، یادیں تازہ ہوگئیں،ادھر ملاقات کا زخم شوق پھر ہرا ہوا، ادھر ذہن کے پردہ سیمیں پر ملاقاتوں کے سلسلے کی تصویریں نظر آنے لگیں، جن میں گلوں کی خوشبو ہے، چراغوں کی روشنی ہے، مجاہد کی للکار اور اسلام کی پکار ہے، وقت کا تقاضا ہے، سحرکا پیام ہے یہ بات صدیوں کی نہیں صرف 48 برس قبل کی ہے، یہ 1970ء ہے جب پاکستان میں پہلے قومی انتخابات ہونے کو تھے، میں اپنے دوست سید مظہر الحق کے ہمراہ آغا شورش کاشمیری سے ملاقات کے لیے لاہور جاتا ہوں، ڈاکٹر جاوید اقبال اور میجر جنرل سرفراز خان آپس میں دست وگریباں ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو منصف کی ذمے داریاں سونپ دی جاتی ہیں۔ آغا شورش کاشمیری کو دیکھ رہا ہوں وہ مولانا مودودی کو بہت اہمیت دے رہے ہیں، سب کو مولانا کا خط دکھا رہے ہیں ،اس تنازعے کے بارے میں جو انھوں نے شورش کو لکھا تھا۔ میں مولانا مودودی کے بارے میں آغا شورش سے پوچھتا ہوں کہ وہ کیسے ہیں؟ مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ وہ بڑا آمرانہ ذہن رکھتے ہیں، شورش صاحب مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا تمہاری کبھی مولانا مودودی سے ملاقات ہوئی؟ میں نفی میں سر ہلاتا ہوں۔''
یہ اقتباس حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب معماران جلیس سے اخذ کیا گیا ہے اور اس کے مصنف ممتاز صحافی جلیس سلاسل ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی نامور شخصیات کے حوالے سے بھرپور مضامین لکھے ہیں جن میں کہیں کہیں خاکوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں کہ ''جلیس سلاسل نظریہ پاکستان کی تاریخی اور تعمیری حیثیت سے پوری طرح واقف ہیں، انھوں نے وہی شخصیات منتخب کی ہیں جو نظریہ پاکستان کی کسوٹی پر پورا اترتی ہیں۔
جلیس سلاسل نے اپنی پوری زندگی ایک درویش خدا مست کی طرح بسرکی ہے، اسلام کی بالادستی، نظریہ پاکستان کی روشنی میں پاکستان کی ترقی وخوشحالی، معاشرے میں انصاف کا قیام ان کی شخصیت کے حقیقی مطالبات ہیں۔ ان کے اسی رویے نے ان کو انتشار زدہ معاشرے میں ہر دلعزیزی سے ہمکنارکیا ہے۔''
اس بات سے اہل علم واقف ہیں کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی بڑے مرتبے کے مالک تھے مفسر قرآن، صاحب کتب اور عالم دین تھے کتاب میں شامل دوسرا مضمون مولانا مودودی کے ہی حوالے سے ہے، میں نے اپنے کالم کی ابتدا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے عنوان سے لکھی ہوئی تحریر سے کی تھی اسی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
مصنف کے سوال کے جواب میں شورش مرحوم نے کہا کہ اگر مولانا مودودی سے ملاقات نہیں کی توکسی سے نہیں کی، لہٰذا جلیس صاحب نے اپنی خواہش کے مطابق دو بار ملنے کی کوشش کی، دوسری بار چوہدری رحمت نے کہا کہ آپ میاں طفیل صاحب سے مل لیں، انھیں ان کا یہ مشورہ ناگوار گزرا، لہٰذا ترش لہجے میں گویا ہوئے کہ آپ اپنی غلط فہمی دورکرلیں کہ میں جماعت اسلامی کے امیر سے ملاقات کے لیے نہیں آیا بلکہ سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کی تمنا لے کر آیا ہوں جو تحریک اسلامی کے قائد ہیں، یہ گفتگو مودودی صاحب نے سن لی اور انھوں نے انھیں اندر بلالیا ۔
ان کا کہنا ہے کہ مودودی صاحب کو دیکھ کر چند لمحے تک میری زبان گنگ ہوگئی لیکن جلد ہی اپنے حواسوں پر قابو پالیا اور پھر یہ صاحب علم مجھے کسی فرشتے کی طرح معلوم ہوئے پھر میں نے کہا کہ کیا مولانا آپ ''پوپ'' ہیں کہ کوئی آپ سے مل نہیں سکتا؟ آپ سے بالمشافہ رہنمائی حاصل نہیں کرسکتا۔ ان کی شفقت و محبت کی حدت کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے لاڈ سے کہا کہ آپ کو خط لکھتا ہوں تو آپ کے معتمد جواب دیتے ہیں اگر آپ کی طبیعت صحیح ہو تو جوابات آپ ہی دیں گے اپنے دستخط کے ساتھ۔ مولانا صاحب نے اپنے معتمد کو اسی وقت بلایا اور ہدایت جاری کردی کہ جلیس صاحب کے خطوط مجھے دیا کریں۔
مصنف نے اسی مضمون میں ایک المناک واقعے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس واقعے کے وہ خود چشم دید گواہ ہیں، وہ آغا شورش کاشمیری کے ساتھ سیروتفریح کے لیے نکلے پہلے احسان دانش سے آغا صاحب نے ملاقات کروائی پھر اس کے بعد مینار پاکستان کی طرف گئے جہاں سربراہ کانفرنس کو آنا تھا، اس لیے زبردست پہرہ لگا ہوا تھا۔
ابھی وہاں پہنچے ہی تھے ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر نے بتایا کہ بنگلہ دیش منظور ہوگیا ہے، بس اتنا سننا تھا کہ شورش کاشمیری نے کہا کہ چلو مزار اقبال چلو، مزار پر کافی دیر تک وہ ساکت کھڑے رہے جلیس صاحب کے پوچھنے پر کہ سر آپ کیا سوچ رہے ہیں، قائد صحافت ، مرد آہن آغا شورش کاشمیری کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور زیر لب اتنا کہا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ آج علامہ اقبال کی قبر تو شق نہیں ہوگئی، اتنا کہا اور تیزی سے باہر نکل گئے اور پھر جلیس سے کہا کہ تم مولانا مودودی کے پاس جاکر معلوم کرو کہ کیا وہ بھی اس جرم میں شریک تھے؟ پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ فروری 1974 میں دوسری مسلم سربراہ کانفرنس ہو رہی تھی۔
اس کے میزبان پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے، کانفرنس میں سعودی عرب کے فرمان روا شاہ فیصل شہید، لیبیا کے معمر قذافی اور بنگلہ دیش کے وزیر اعظم مجیب الرحمن بھی شامل تھے، اجلاس میں مولانا مودودی کو اس وقت بلایا گیا جب شاہ فیصل نے ان کی غیر موجودگی پر سوال اٹھایا۔ اس لیے تاخیر سے پہنچے لیکن جب بنگلہ دیش کے بارے میں سنا تو وہ یہ خبر سن کر اسمبلی ہاؤس (پنجاب) کی سیڑھیوں سے واپس اترگئے کہ بنگلہ دیش منظور ہوگیا ہے یہ سنتے ہی گورنر مصطفیٰ کھر اور دوسرے دو وزرا کی گرفت مولانا کے بازوؤں سے ڈھیلی پڑگئی، یہی حضرات سہارا دے کر اوپر چڑھا رہے تھے۔
اس حادثے کے بعد سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید کو جمعہ کی نماز میں زاروقطار روتے ہوئے دیکھا گیا، یہ وہ موقع تھا جب لاہور میں دوسری مسلم سربراہ کانفرنس ہورہی تھی۔ مصنف نے اس بات پر بھی فخرکیا ہے کہ مولانا مودودی کا یہ فرمانا کہ آپ کی تحریریں میں ہفت روزہ ''چٹان'' میں پڑھتا رہتا ہوں اس لیے آپ کو جانتا ہوں کہ آپ کیسا لکھتے ہیں؟ میرے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس بات پر میں فخر کیوں نہ کروں؟
ہر مضمون کی ابتدا بہت خوبصورت اور دل نشیں فقروں کے ساتھ ہوئی ہے۔ معنی خیزی، تاریخی حقائق اور پاکستان کی قابل فخر شخصیات کا اعلیٰ ترین اخلاق وکردارکو اجاگر کرنے کی کامیاب ترین کوشش ہے۔ جلیس سلاسل کے مضامین کی خاصیت یہ ہے کہ انھوں نے شخصیات کے اسم گرامی کے حوالے سے ہی عنوانات تجویزکیے ہیں۔ انھوں نے بے حد محنت، لگن اور محبتوں کے ساتھ خاکے نما مضامین تحریرکیے ہیں، ان کی تحریروں کو جرأت، بے باکی اور سچ بولنے کی قوت نے گرما دیا ہے، قارئین تحریرکی صداقت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
خط کیا تھا، یادیں تازہ ہوگئیں،ادھر ملاقات کا زخم شوق پھر ہرا ہوا، ادھر ذہن کے پردہ سیمیں پر ملاقاتوں کے سلسلے کی تصویریں نظر آنے لگیں، جن میں گلوں کی خوشبو ہے، چراغوں کی روشنی ہے، مجاہد کی للکار اور اسلام کی پکار ہے، وقت کا تقاضا ہے، سحرکا پیام ہے یہ بات صدیوں کی نہیں صرف 48 برس قبل کی ہے، یہ 1970ء ہے جب پاکستان میں پہلے قومی انتخابات ہونے کو تھے، میں اپنے دوست سید مظہر الحق کے ہمراہ آغا شورش کاشمیری سے ملاقات کے لیے لاہور جاتا ہوں، ڈاکٹر جاوید اقبال اور میجر جنرل سرفراز خان آپس میں دست وگریباں ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو منصف کی ذمے داریاں سونپ دی جاتی ہیں۔ آغا شورش کاشمیری کو دیکھ رہا ہوں وہ مولانا مودودی کو بہت اہمیت دے رہے ہیں، سب کو مولانا کا خط دکھا رہے ہیں ،اس تنازعے کے بارے میں جو انھوں نے شورش کو لکھا تھا۔ میں مولانا مودودی کے بارے میں آغا شورش سے پوچھتا ہوں کہ وہ کیسے ہیں؟ مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ وہ بڑا آمرانہ ذہن رکھتے ہیں، شورش صاحب مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا تمہاری کبھی مولانا مودودی سے ملاقات ہوئی؟ میں نفی میں سر ہلاتا ہوں۔''
یہ اقتباس حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب معماران جلیس سے اخذ کیا گیا ہے اور اس کے مصنف ممتاز صحافی جلیس سلاسل ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی نامور شخصیات کے حوالے سے بھرپور مضامین لکھے ہیں جن میں کہیں کہیں خاکوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں کہ ''جلیس سلاسل نظریہ پاکستان کی تاریخی اور تعمیری حیثیت سے پوری طرح واقف ہیں، انھوں نے وہی شخصیات منتخب کی ہیں جو نظریہ پاکستان کی کسوٹی پر پورا اترتی ہیں۔
جلیس سلاسل نے اپنی پوری زندگی ایک درویش خدا مست کی طرح بسرکی ہے، اسلام کی بالادستی، نظریہ پاکستان کی روشنی میں پاکستان کی ترقی وخوشحالی، معاشرے میں انصاف کا قیام ان کی شخصیت کے حقیقی مطالبات ہیں۔ ان کے اسی رویے نے ان کو انتشار زدہ معاشرے میں ہر دلعزیزی سے ہمکنارکیا ہے۔''
اس بات سے اہل علم واقف ہیں کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی بڑے مرتبے کے مالک تھے مفسر قرآن، صاحب کتب اور عالم دین تھے کتاب میں شامل دوسرا مضمون مولانا مودودی کے ہی حوالے سے ہے، میں نے اپنے کالم کی ابتدا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے عنوان سے لکھی ہوئی تحریر سے کی تھی اسی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
مصنف کے سوال کے جواب میں شورش مرحوم نے کہا کہ اگر مولانا مودودی سے ملاقات نہیں کی توکسی سے نہیں کی، لہٰذا جلیس صاحب نے اپنی خواہش کے مطابق دو بار ملنے کی کوشش کی، دوسری بار چوہدری رحمت نے کہا کہ آپ میاں طفیل صاحب سے مل لیں، انھیں ان کا یہ مشورہ ناگوار گزرا، لہٰذا ترش لہجے میں گویا ہوئے کہ آپ اپنی غلط فہمی دورکرلیں کہ میں جماعت اسلامی کے امیر سے ملاقات کے لیے نہیں آیا بلکہ سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کی تمنا لے کر آیا ہوں جو تحریک اسلامی کے قائد ہیں، یہ گفتگو مودودی صاحب نے سن لی اور انھوں نے انھیں اندر بلالیا ۔
ان کا کہنا ہے کہ مودودی صاحب کو دیکھ کر چند لمحے تک میری زبان گنگ ہوگئی لیکن جلد ہی اپنے حواسوں پر قابو پالیا اور پھر یہ صاحب علم مجھے کسی فرشتے کی طرح معلوم ہوئے پھر میں نے کہا کہ کیا مولانا آپ ''پوپ'' ہیں کہ کوئی آپ سے مل نہیں سکتا؟ آپ سے بالمشافہ رہنمائی حاصل نہیں کرسکتا۔ ان کی شفقت و محبت کی حدت کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے لاڈ سے کہا کہ آپ کو خط لکھتا ہوں تو آپ کے معتمد جواب دیتے ہیں اگر آپ کی طبیعت صحیح ہو تو جوابات آپ ہی دیں گے اپنے دستخط کے ساتھ۔ مولانا صاحب نے اپنے معتمد کو اسی وقت بلایا اور ہدایت جاری کردی کہ جلیس صاحب کے خطوط مجھے دیا کریں۔
مصنف نے اسی مضمون میں ایک المناک واقعے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس واقعے کے وہ خود چشم دید گواہ ہیں، وہ آغا شورش کاشمیری کے ساتھ سیروتفریح کے لیے نکلے پہلے احسان دانش سے آغا صاحب نے ملاقات کروائی پھر اس کے بعد مینار پاکستان کی طرف گئے جہاں سربراہ کانفرنس کو آنا تھا، اس لیے زبردست پہرہ لگا ہوا تھا۔
ابھی وہاں پہنچے ہی تھے ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر نے بتایا کہ بنگلہ دیش منظور ہوگیا ہے، بس اتنا سننا تھا کہ شورش کاشمیری نے کہا کہ چلو مزار اقبال چلو، مزار پر کافی دیر تک وہ ساکت کھڑے رہے جلیس صاحب کے پوچھنے پر کہ سر آپ کیا سوچ رہے ہیں، قائد صحافت ، مرد آہن آغا شورش کاشمیری کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور زیر لب اتنا کہا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ آج علامہ اقبال کی قبر تو شق نہیں ہوگئی، اتنا کہا اور تیزی سے باہر نکل گئے اور پھر جلیس سے کہا کہ تم مولانا مودودی کے پاس جاکر معلوم کرو کہ کیا وہ بھی اس جرم میں شریک تھے؟ پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ فروری 1974 میں دوسری مسلم سربراہ کانفرنس ہو رہی تھی۔
اس کے میزبان پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے، کانفرنس میں سعودی عرب کے فرمان روا شاہ فیصل شہید، لیبیا کے معمر قذافی اور بنگلہ دیش کے وزیر اعظم مجیب الرحمن بھی شامل تھے، اجلاس میں مولانا مودودی کو اس وقت بلایا گیا جب شاہ فیصل نے ان کی غیر موجودگی پر سوال اٹھایا۔ اس لیے تاخیر سے پہنچے لیکن جب بنگلہ دیش کے بارے میں سنا تو وہ یہ خبر سن کر اسمبلی ہاؤس (پنجاب) کی سیڑھیوں سے واپس اترگئے کہ بنگلہ دیش منظور ہوگیا ہے یہ سنتے ہی گورنر مصطفیٰ کھر اور دوسرے دو وزرا کی گرفت مولانا کے بازوؤں سے ڈھیلی پڑگئی، یہی حضرات سہارا دے کر اوپر چڑھا رہے تھے۔
اس حادثے کے بعد سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید کو جمعہ کی نماز میں زاروقطار روتے ہوئے دیکھا گیا، یہ وہ موقع تھا جب لاہور میں دوسری مسلم سربراہ کانفرنس ہورہی تھی۔ مصنف نے اس بات پر بھی فخرکیا ہے کہ مولانا مودودی کا یہ فرمانا کہ آپ کی تحریریں میں ہفت روزہ ''چٹان'' میں پڑھتا رہتا ہوں اس لیے آپ کو جانتا ہوں کہ آپ کیسا لکھتے ہیں؟ میرے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس بات پر میں فخر کیوں نہ کروں؟
ہر مضمون کی ابتدا بہت خوبصورت اور دل نشیں فقروں کے ساتھ ہوئی ہے۔ معنی خیزی، تاریخی حقائق اور پاکستان کی قابل فخر شخصیات کا اعلیٰ ترین اخلاق وکردارکو اجاگر کرنے کی کامیاب ترین کوشش ہے۔ جلیس سلاسل کے مضامین کی خاصیت یہ ہے کہ انھوں نے شخصیات کے اسم گرامی کے حوالے سے ہی عنوانات تجویزکیے ہیں۔ انھوں نے بے حد محنت، لگن اور محبتوں کے ساتھ خاکے نما مضامین تحریرکیے ہیں، ان کی تحریروں کو جرأت، بے باکی اور سچ بولنے کی قوت نے گرما دیا ہے، قارئین تحریرکی صداقت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔