فارورڈ بلاک نہیں بن سکتا وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ہی رہیں گے پیپلز پارٹی

ہارس ٹریڈنگ نہیں ، پی پی ارکان خود رابطے میں ہیں، تحریک انصاف

سندھ میں سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے صوبائی اسمبلی میں موجود پارٹیوں کے نمائندوں کا ایکسپریس فورم میں اظہار خیال

ملک کی تاریخ کے بڑے جعلی بینک اکانٹس ( منی لانڈرنگ) ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن (جے آئی ٹی ) کی رپورٹ آنے کے بعد سندھ کا سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری ، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، فریال تالپور ، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سمیت کئی افراد کے نام شامل ہیں۔ ایک جانب وفاقی حکومت نے ان شخصیات کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل )میں شامل کر دیے تو دوسری جانب پی ٹی آئی نے سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو تبدیلی کرنے کیلیے اپنی سیاسی کوششوں کا آغاز کیا اور یہ اطلاعات زیر گردش ہیں کہ تحریک انصاف سندھ میں پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک کے قیام کیلیے متحرک ہے۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی نے جی ڈی اے کے اہم رہنما اور گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی علی گوہر خان مہر کے ساتھ مل کراپنے سیاسی رابطوں کا آغاز کیا۔ اطلاعات کے مطابق ان سیاسی رابطوں میں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کے کم سے کم 30 سے زائد ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ ملا کر سندھ میں نیا وزیر اعلی اپوزیشن سے نامزد کیا جائے۔

اگر سندھ اسمبلی کی موجودہ نشستوں کا جائزہ لیا جائے تو سندھ اسمبلی کا ایوان 168 ارکان پر مشتمل ہے جس میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 99 ہے۔سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے 30 ، ایم کیو ایم پاکستان کے 20 ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 14 ، تحریک لبیک پاکستان کے 3 ارکان اور متحدہ مجلس عمل کا ایک رکن ہے۔ اس طرح سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے کُل ارکان کی تعداد 68 ہے ۔ سندھ اسمبلی کی ایک نشست ایم کیو ایم پاکستان کے رکن محمد وجاہت کے انتقال کے باعث خالی ہے۔

سندھ میں حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت کے پاس کم از کم 85 ارکان ہونے چاہئیں۔ اگر تحریک انصاف کے ساتھ تمام اپوزیشن جماعتیں مل بھی جائیں تو ان کے ووٹوں کی تعداد 67بنتی ہے اور حکومت سازی کے لیے ان کو کم از کم18 سے 20 ارکان کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان، جی ڈی اے، ایم ایم اے اور تحریک لبیک پاکستان نے پی ٹی آئی کے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی تبدیلی کے فارمولے کی تاحال باضابطہ حمایت نہیں کی ہے۔ اسی لیے پی ٹی آئی پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک کے قیام میں متحرک نظر آتی ہے اور تحریک انصاف کے کئی رہنما یہ دعوے کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے کئی ارکان اسمبلی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔ فی الحال پی ٹی آئی کا اِن ہاؤس تبدیلی کا فارمولا کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ اگر آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی کی کوئی اہم شخصیت گرفتار ہوئی تو پھر سندھ میں سیاسی حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔

سندھ میں گورنر راج لگانے کا آپشن پی ٹی آئی کے حلقوں میں زیر بحث تو ہے تاہم وفاقی حکومت نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ اس معاملے میں کئی آئینی رکاوٹیں حائل ہیں اور 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد کسی بھی صوبے میں طویل عرصے تک وفاق صوبے میں گورنر راج نہیں لگاسکتا اور اسی ترمیم کے سبب فارورڈ بلاک بنانا بھی مشکل ترین مرحلہ ہے۔

اسی لیے پی ٹی آئی کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ ازخود مستعفی ہوجائیں یا پیپلز پارٹی کی قیادت از خود مراد علی شاہ کو وزیر اعلی سندھ کے منصب سے ہٹا کر اپنے کسی دوسرے رکن سندھ اسمبلی کو صوبے کا نیا وزیر اعلیٰ نامزد کرے۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ سندھ کے سیاسی حالات آئندہ دنوں میں کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے سیاسی معاملات پی ٹی آئی نے تیز ترین اور بغیر منصوبہ بندی کے سیاسی حکمت عملی اختیار کی۔ اسی لیے سندھ کے سیاسی محاذ پر انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے ''ایکسپریس فورم''میں سندھ اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں سے گفتگو کی گئی جو نذر قارئین ہے۔

خرم شیر زمان
(رہنما تحریک انصاف۔رکن سندھ اسمبلی)

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سندھ میں گورنر راج لگانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے جے آئی ٹی رپورٹ میں آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری ، فریال تالپور ، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور دیگر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے نام سامنے آئے ہیں۔

اس معاملے میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ تحریک انصاف ملک میں جمہوری نظام کی حامی ہے۔ اگر ہم جمہوری نظام کے حامی نہیں ہوتے تو انتخابات میں حصہ کیوں لیتے۔ ہم نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کا احترام کیا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ پر جے آئی ٹی رپورٹ میں جو الزامات لگے ہیں ، اس کا انہیں سامنا کرنا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ سندھ اسمبلی آکر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ہم ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پیپلز پارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کروارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جو ارکان سندھ اسمبلی ہم سے رابطے میں ہیں ، وہ ازخود پی ٹی آئی قیادت سے رابطے میں آئے ۔ تحریک انصاف کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ازخود مستعفی ہو جائیں یا پیپلز پارٹی کی قیادت ان سے استعفیٰ لے کر اپنے کسی اور رکن اسمبلی کو وزیر اعلیٰ سندھ کیلیے نامزد کرے۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا سندھ میں گورنر راج لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اگر وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ نہیں دیا تو پھر تحریک انصاف ان ہاؤس تبدیلی کیلیے اپنی کوششوں کو تیز کرے گی۔ پی ٹی آئی کے ایم کیو ایم پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور دیگر جماعتوں سے رابطے ہیں۔ سیاسی رابطے کرنا ہر جماعت کا حق ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ سندھ کی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سندھ کی ترقی کیلیے جلد مزید پیکیجز کا اعلان کریں گے۔ ہم عدالتی احکام اور فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ ہم جمہوری انداز میں سندھ میں اِن ہاؤس تبدیلی کیلیے اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔ پیپلز پارٹی کے جو ارکان سندھ اسمبلی ہم سے رابطے میں ہیں ، ان کے ناموں کے بارے میں فی الحال میڈیا کو نہیں بتا سکتا۔

وقار مہدی
(پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری )

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کو گرانے یا ہٹانے کے لیے کوئی سازش نہیں کر رہا۔ پی ٹی آئی کے وزرا اور رہنماؤں کے اقدامات خود ایسے ہیں کہ انہیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت بمشکل اپنی مدت پوری کر پائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا ایجنڈا عوام کے مسائل حل کرنا نہیں بلکہ اپوزیشن خاص طور پر پیپلز پارٹی کو انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو پیپلز پارٹی نے مسترد کر دیا ہے۔

اس رپورٹ میں آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری ، فریال تالپور اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ سمیت پیپلز پارٹی کے جن رہنماؤں پر الزامات عائد کیے گئے ہیں ، وہ مفروضوں پر مبنی ہیں۔ ہم ان تمام الزامات کا سامنا عدالتوں میں کریں گے۔ پیپلز پارٹی عدالتوں کا احترام کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے جیالے گرفتاریوں اور جیلوں سے ڈرنے والے نہیں، ہم نے ہر آمریت کا سامنا کیا ہے۔ اب بھی پی ٹی آئی کی انتقامی کارروائیوں کا مقابلہ ہم جمہوری اور قانونی سطح پر کریں گے۔ 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت کے لیے کسی صوبے میں گورنر راج لگانا آسان نہیں۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت نے سندھ میں گورنر راج لگایا تو ہم قانونی جنگ لڑیں گے۔ تحریک انصاف سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنا سکتی۔


سندھ اسمبلی میں ہمارے 99 ارکان ہیں، یہ تمام ارکان شہید بھٹو اور شہید بی بی کے سپاہی ہیں اور یہ سب ارکان سندھ اسمبلی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں متحد ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ جے آئی ٹی میں نام آنے سے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ یا پیپلز پارٹی کا کوئی رہنما مجرم یا ملزم نہیں بن گیا۔جے آئی ٹی رپورٹ کی قانونی سطح پر کوئی اہمیت نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر بھی الزامات لگے ہیں ، اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی والے اپوزیشن کے خلاف شور مچانے کے بجائے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ اگر پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کو بلا جواز گرفتار کیا گیا تو ہم بھرپور احتجاج کریں گے۔

امین الحق
(رہنماایم کیو ایم پاکستان ، رکن قومی اسمبلی)

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ملک میں آئین اور جمہوری نظام کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ ہم سندھ میں گورنر راج کی کبھی حمایت نہیں کریں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان چاہتی ہے کہ ملک میں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں۔ ایم کیو ایم پاکستان وفاق میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہے۔ ہم سندھ میں اپوزیشن میں ہیں۔ سندھ میں موجودہ سیاسی ہلچل میں ایم کیو ایم پاکستان کا کوئی کردار نہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوری سسٹم چلتا رہے اور عوام کے مسائل حل ہوں۔ احتساب بلاتفریق ہونا چاہیے، اس سے ملک میں گڈ گورننس کا نظام قائم ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ہر سیاسی جماعت کا آئینی، قانونی اور جمہوری حق ہے۔ تحریک انصاف جب وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے گی تو پھر اس کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کرے گی۔ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے ابھی تک وزیر اعلیٰ سندھ کے استعفے کا مطالبہ کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔

مراد علی شاہ کو استعفیٰ دینا چاہیے یا نہیں اس کا فیصلہ ہم نے نہیں ، پیپلز پارٹی کی قیادت کو کرنا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اپنے منشور کے مطابق عوام کی خدمت میں مگن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں بلدیاتی نظام مضبوط ہو تاکہ عوام کے مسائل یونین کونسلز کی سطح پر حل ہو سکیں۔ کراچی ، حیدر آباد سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کی ترقی کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت کو بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی میں کوئی رابطہ نہیں ہے، تحریک انصاف کے ساتھ ہمارا اتحاد ہے۔ سندھ کی موجودہ سیاسی صورت حال پر پی ٹی آئی نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ کچھ معاملات پر رابطہ کمیٹی میں مشاورت ہوئی ہے تاہم ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ سندھ میں کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ ہم ہارس ٹریڈنگ کی کبھی حمایت نہیں کریں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان صرف آئینی اور قانونی آپشنز کی حمایت کرتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے سندھ کے سیاسی معاملات پر نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ حالات کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے ہم اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔



نصرت سحر عباسی
( رہنما گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، رکن سندھ اسمبلی)

گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) میں شامل جماعتیں آئین اور جمہوری نظام کی پاسداری پریقین رکھتی ہیں۔ جی ڈی اے کسی ایسے غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کرے گاجس سے سندھ اسمبلی یا جمہوری نظام کو خطرہ ہو۔ ہم سندھ میں گورنر راج لگانے کے مخالف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں جمہوری عمل جاری رہے اور سندھ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں کئی مرتبہ برسراقتدار رہی ہے۔ اب بھی صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے لیکن اتنا عرصہ حکومت کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی نے سندھ کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ آج کی پیپلز پارٹی بھٹو کی پارٹی نہیں بلکہ زرداری کی پارٹی بن گئی ہے اور اس پارٹی کا صرف ایک ہی ویژن ہے کہ مال کماؤ۔اب پیپلز پارٹی کا احتساب شروع ہوا ہے تو ان کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ جنہوں نے لوٹ مار کی ہے ، ان کا کڑا احتساب ہونا چاہیے اور لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لا کر اسے قومی خزانے میں جمع کروایا جائے۔جے آئی ٹی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 2008 سے لوٹ مار کے معاملے میں مبینہ طور پر سہولت کاری کا کردار ادا کیا ہے اور سابق صدر آصف زرداری زرداری کے قریبی دوست کی کمپنی اومنی گروپ کو بالواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو اپنے اوپر پر لگائے گئے الزامات کا جواب دینا پڑے گا۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ازخود مستعفی ہو جائیں۔ تحریک انصاف سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے )کے رابطے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کیلیے پی ٹی آئی اپنی حکمت عملی کا اعلان جب کرے گی تو پھر حالات کو دیکھ کر حمایت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ میرا مشورہ ہے کہ پیپلز پارٹی مراد علی شاہ کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ سندھ کیلیے نامزد کر دے،اس سے ایک اچھی جمہوری روایت قائم ہو گی۔ جی ڈی اے اپنی حکمت عملی کا اعلان آنے والے دنوں میں کرے گا۔ ہم پیپلز پارٹی کی کرپشن کے خلاف ایوانوں سمیت ہر فورم پر آواز بلند کریں گے۔ یہ بات طے ہے کہ ہم سندھ کے حق پر کسی کو ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے۔

محمد یونس سومرو
(رہنما تحریک لبیک پاکستان۔رکن سندھ اسمبلی)

ٹی ایل پی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ میں گورنر راج لگانے یا پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی تبدیلی کے کسی بھی عمل کاحصہ بنے گی نہ ہی سندھ کی سطح پر تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے کسی بھی غیر آئینی اقدام کی حمایت کی جائے گی ۔ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سندھ اسمبلی میں اپوزیشن میں ہے اور ہم حزب اختلاف میں رہ کر ہی عوام کے مسائل کے حل کیلیے جدوجہد کریں گے ۔

سید عبدالرشید
(رہنما متحدہ مجلس عمل ۔ رکن سندھ اسمبلی)

ایم ایم اے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے کے کسی بھی عمل کا حصہ نہیں بنے گی ۔ ہم سندھ میں گورنر راج لگانے کے عمل کی بھی حمایت نہیں کریں گے ۔ایم ایم اے ملک میں پارلیمان اور جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ احتساب بلاتفریق ہونا چاہیے۔
Load Next Story