کوئی ادارہ یا اہلکار اختیار تجاوز کرے تو کارروائی ہوگی اٹارنی جنرل
حبس بے جا پرعدالت کوازخودنوٹس کااختیارہے،فوج کی زیرحراست شخص کوپیش کرنے کاحکم دیاجاسکتاہے،سپریم کورٹ میں بیان
سپریم کورٹ کے جسٹس جوادخواجہ نے کہاکہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وہی طریقہ کار اپنائیں گے جو پنجاب اورخیبر پختونخوامیں اپنایاگیاہے۔
یہ ریمارکس انھوں نے لاپتہ افرادکے بارے مقدمے کی سماعت کے دوران دیے،ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان شکیل احمدبلوچ خود پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ لاپتہ علی اصغربنگلزئی کے بارے میں تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔جسٹس جواد نے کہا کہ ان کے بارے میں توبتایا گیا تھاکہ سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں پھرمزید پیش رفت کیوں نہیں ہو سکی؟فاضل جج نے کہا کہ سیاسی حکومت کے پاس ان لاپتہ افراد کے بارے شایدکوئی دوسرا آپشن ہولیکن ہمارے پاس نہیں،ہم آئین و قانو کی روشنی میں اس کا فیصلہ کریں گے،تب کہیں جاکریہ معاملہ حل ہوگا،لاپتہ افراد کے بارے میں وزیر اعلٰی بلوچستان کے احساسات اورمؤقف سے ہم با خبرہیں اس معاملے کو مزیدزیرالتوا نہیں رکھا جاسکتا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل آفس سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت25جولائی تک ملتوی کر دی۔عدالت نے خانیوال سے لاپتہ غلام سجاد امجد کے بارے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے رپورٹ طلب کی۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ سابق ڈی پی او رائے اعجاز احمد کے مطابق غلام سجاد کو ایجنسیوں نے اٹھایا تھا۔
دریں اثنا عدالت عظمٰی نے حاضرسروس فوجی اہلکاروں کی گرفتاری اوران سے تفتیش کے بارے میں مقدمے کی سماعت فل کورٹ میں کرانے کی استدعامستردکردی ہے تاہم ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے وکیل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگرچاہیں تواس ضمن میں چیف جسٹس کو درخواست دے سکتے ہیں۔جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل بینچ نے ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے وکیل ابراہیم ستی کی طرف سے فیڈریشن کونوٹس جاری کرنے کی استدعابھی مستردکردی اورآبزرویشن دی کہ لاپتہ افرادکے مقدمے میں وفاقی حکومت کی نمائندگی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی صورت میں موجودہے ۔
لہذا الگ سے نوٹس جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے قانون سے اوپرکوئی نہیں جوقانون توڑے گااس کے خلاف کارروائی بھی ہوگی۔اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا ہے کہ بنیادی حقوق کی پابندی ہر شخص اور ادارے پر لازم ہے فوج کواس بارے کوئی استثنٰی حاصل نہیں،اگر کوئی ادارہ یا اہلکار اپنے دائرہ اختیار سے تجاوزکرے گا تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی ہوگی۔ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا آرٹیکل 8اور بنیادی حقوق کا اطلاق مسلح افواج پرنہیں ہوتا،آرمی ایکٹ میں مسلح افواج کوہر قسم کی بیرونی مداخلت سے تحفظ حاصل ہے اوراس قانون کو انسانی حقوق کے نام پر ختم بھی نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس جوادنے کہاکہ ایم آئی کے وکیل نے تودلچسپ مؤقف اپنایاہمارے لیے تویہ بالکل غیر معمولی بات ہے کہ ایک شخص اگرجرم کرے تواس پرنہ تواس کے خلاف ایف آئی آردرج ہوسکے گی نہ ہی وہ گرفتار ہوسکے گا، فاضل جج نے کہا ایک شخص کو قانون سے اوپر نہیں رکھا جاسکتا لوگوں کو زبردستی زیر حراست رکھنا قابل گرفت جرم ہے ، اب تک کسی پر مقدمہ چلانے کا مرحلہ نہیں آیا ہے لیکن اگر تفتیش کے بعد کوئی ملزم ثابت ہے تواس کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔عدالت نے مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔
یہ ریمارکس انھوں نے لاپتہ افرادکے بارے مقدمے کی سماعت کے دوران دیے،ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان شکیل احمدبلوچ خود پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ لاپتہ علی اصغربنگلزئی کے بارے میں تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔جسٹس جواد نے کہا کہ ان کے بارے میں توبتایا گیا تھاکہ سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں پھرمزید پیش رفت کیوں نہیں ہو سکی؟فاضل جج نے کہا کہ سیاسی حکومت کے پاس ان لاپتہ افراد کے بارے شایدکوئی دوسرا آپشن ہولیکن ہمارے پاس نہیں،ہم آئین و قانو کی روشنی میں اس کا فیصلہ کریں گے،تب کہیں جاکریہ معاملہ حل ہوگا،لاپتہ افراد کے بارے میں وزیر اعلٰی بلوچستان کے احساسات اورمؤقف سے ہم با خبرہیں اس معاملے کو مزیدزیرالتوا نہیں رکھا جاسکتا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل آفس سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت25جولائی تک ملتوی کر دی۔عدالت نے خانیوال سے لاپتہ غلام سجاد امجد کے بارے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے رپورٹ طلب کی۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ سابق ڈی پی او رائے اعجاز احمد کے مطابق غلام سجاد کو ایجنسیوں نے اٹھایا تھا۔
دریں اثنا عدالت عظمٰی نے حاضرسروس فوجی اہلکاروں کی گرفتاری اوران سے تفتیش کے بارے میں مقدمے کی سماعت فل کورٹ میں کرانے کی استدعامستردکردی ہے تاہم ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے وکیل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگرچاہیں تواس ضمن میں چیف جسٹس کو درخواست دے سکتے ہیں۔جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل بینچ نے ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے وکیل ابراہیم ستی کی طرف سے فیڈریشن کونوٹس جاری کرنے کی استدعابھی مستردکردی اورآبزرویشن دی کہ لاپتہ افرادکے مقدمے میں وفاقی حکومت کی نمائندگی ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی صورت میں موجودہے ۔
لہذا الگ سے نوٹس جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے قانون سے اوپرکوئی نہیں جوقانون توڑے گااس کے خلاف کارروائی بھی ہوگی۔اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا ہے کہ بنیادی حقوق کی پابندی ہر شخص اور ادارے پر لازم ہے فوج کواس بارے کوئی استثنٰی حاصل نہیں،اگر کوئی ادارہ یا اہلکار اپنے دائرہ اختیار سے تجاوزکرے گا تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی ہوگی۔ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے مؤقف اپنایا آرٹیکل 8اور بنیادی حقوق کا اطلاق مسلح افواج پرنہیں ہوتا،آرمی ایکٹ میں مسلح افواج کوہر قسم کی بیرونی مداخلت سے تحفظ حاصل ہے اوراس قانون کو انسانی حقوق کے نام پر ختم بھی نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس جوادنے کہاکہ ایم آئی کے وکیل نے تودلچسپ مؤقف اپنایاہمارے لیے تویہ بالکل غیر معمولی بات ہے کہ ایک شخص اگرجرم کرے تواس پرنہ تواس کے خلاف ایف آئی آردرج ہوسکے گی نہ ہی وہ گرفتار ہوسکے گا، فاضل جج نے کہا ایک شخص کو قانون سے اوپر نہیں رکھا جاسکتا لوگوں کو زبردستی زیر حراست رکھنا قابل گرفت جرم ہے ، اب تک کسی پر مقدمہ چلانے کا مرحلہ نہیں آیا ہے لیکن اگر تفتیش کے بعد کوئی ملزم ثابت ہے تواس کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔عدالت نے مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔