بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیے
ذرا سی غفلت اور کوتاہی پچھتاوے کا باعث بن سکتی ہے
اپنی اولاد کی بہترین تربیت، تعلیم اور ان کے مستقبل کی فکر کسے نہیں ہوتی۔ والدین اور بزرگ بھی ہمیشہ اپنے بچوں کو نیکی اور اچھائی کا درس دیتے ہیں اور ہر اونچ نیچ سمجھائی جاتی ہے، مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس ساری محنت اور کوششوں کے باوجود اولاد اپنے والدین کے لیے کسی بڑی پریشانی اور دوسروں کے سامنے شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔ ایسے موقع پر والدین سارا ملبا گھر کے باہر کے ماحول یا مخصوص لوگوں پر ڈال کر زمانے سے نظریں بچاتے نظر آتے ہیں جب کہ اس کے ذمہ دار وہ خود بھی ہوتے ہیں۔
وہ سوچتے ہیں کہ ان سے کہاں غلطی یا کوتاہی ہوئی اور پچھتاتے ہیں کہ جس وقت ڈانٹ ڈپٹ، سختی کی ضرورت تھی یا پیار اور شفقت سے کسی بات پر سمجھانا چاہیے تھا تب تو زندگی کے جھمیلوں سے فرصت نہ نکال سکے اور بچوں کو حالات اور ماحول کے حوالے کر دیا تھا۔ باپ نے سوچا ابھی بچوں کے کھیل کود کے دن ہیں ذرا بڑے ہوں گے تو خود ہی اونچ نیچ سمجھ جائیں گے اور ماں گھر کے کاموں یا اپنے بناؤ سنگھار میں اتنی مصروف رہی کہ اولاد کی سرگرمیوں پر نظر نہ رکھ سکی۔ بچے ایک خاص عمر تک خاص طور پر ماں کی نظروں کے سامنے رہتے ہیں۔
ان کا گلی کے کونے تک آنا جانا، کھیل کود کے لیے آنے والے ہم عمر بچے اور اسکول کے دوستوں کا بھی علم ماں کو ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے، مگر جب ایک عورت کی اولین ترجیح گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ اولاد کی تربیت اور ان کو بہتر ماحول فراہم کرنا نہیں ہو گی تو کہیں نہ کہیں کوئی کمی ضرور رہ جائے گی جو کسی بھی قسم کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ بچوں کی تربیت میں غفلت اور کوتاہی انھیں نیک اور درست راستے سے ہٹا سکتی ہے۔ خوش حال گھرانوں میں دیکھا گیا ہے کہ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو اکثر مائیں انھیں آیاؤں اور ملازموں کے سپرد کردیتی ہیں۔کم پڑھی لکھی اور غیر تعلیم یافتہ یہ عورتیں بچوں کی تربیت کے بنیادی اصولوں سے ناواقف ہوتی ہیں۔
ماں کی غیر موجودگی میں وہ انھیں مارتی پیٹتی اور زبردستی کھانا کھلاتی ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت میں کوئی کردار ادا نہیں کرتیں بلکہ وہ اسے اضافی کام اور بوجھ سمجھتی ہیں۔ بچے کی زندگی کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ اس عمر میں شرارتیں اور آزادی سے کھیل کود کا شوق بھی عروج پر ہوتا ہے۔ آپ کا اپنی ذمہ داری سے بھاگنا بچوں کو اپنے ماحول سے فرار کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک عرصے تک آیاؤں کے ساتھ رہنے والے بچے ماں کو کوئی اہمیت بھی نہیں دیتے اور یہی مرحلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایسے بچے والدین سے دور ہو جاتے ہیں اور بعد میں آپ کو پچھتانا پڑتا ہے۔ چھوٹے بچے ہر نئی چیز کو تجسس سے دیکھتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان کے ہاتھ آجائے۔
وہ اسکول میں اپنے دوستوں کے پاس کوئی نئی چیز دیکھتے ہیں تو اسے آنکھ بچا کر اپنے بیگ میں چھپا لیتے ہیں۔ ایک ماں بچے کے اسکول سے گھر آنے پر جب ہوم ورک کروانے کی غرض سے ان کا بیگ کھولتی ہے اور اس میں موجود چیزیں دیکھتی ہے تو اسے فوری سوال کرنا چاہیے کہ یہ کہاں سے آیا۔ اگر وہ اسے نظر انداز کردے اور بچے کی کسی بھی وضاحت کو فورا قبول کرلے تو سمجھ لیں کہ وہ اسے اپنی عادت بنا لے گا۔ اس حوالے سے بالکل بے پروائی نہ برتیں۔ بچے کو پیار سے سمجھائیں اور کہہ دیں کہ یہ بات کبھی بھی اس کی ٹیچر کو معلوم ہو جائے گی اور وہ اسے سزا دیں گی۔ اس لیے آئندہ ایسا مت کرنا۔ اس کے علاوہ بچوں کو مختلف سبق آموز کہانیوں کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے۔ بچوں کے گلی محلے کے دوستوں اور اسکول کے ساتھیوں سے میل جول کو اہمیت دیں۔
یہ ضروری ہے کہ آپ ان کے بارے میں جانتی ہوں۔ مثلاً آپ کے بیٹے یا بیٹی کے احباب میں فلاں بچہ کہاں رہتا ہے، اس کے والدین کون ہیں وغیرہ۔ اگر آپ کا بچہ اپنے کسی ساتھی کی غلطی یا کسی چوری وغیرہ کا قصہ سنائے تو اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کی تفصیل جاننے کی کوشش کریں اور اگر وہ کسی برائی اور اخلاق سوز عمل کی روداد سنائے تو اسے بتائیں کہ آپ کے دوست نے غلط کیا ہے اور آپ کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی بتائیں کہ اس کا انجام برا ہوسکتا ہے۔ اس کی سزا مل سکتی ہے۔ اسی طرح ماؤں کو چاہیے کہ اپنی بچوں، بچیوں کے پیدل اسکول جانے کی صورت میں ان کے راستوں کا علم رکھیں اور اس دوران کون بچے ان کے ہمراہ ہوتے ہیں یہ بھی جاننے کی کوشش کریں۔ آج کل موبائل فون کا استعمال عام ہے۔ بیٹیوں کو فون پر اپنے کسی سہیلی سے بات کرنے کی آزادی ضرور دیں اور اس کا اعتماد بحال رکھیں، مگر اس طرف سے کوتاہی اور غفلت نہ برتیں بلکہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں۔ تاہم بچوں کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ ان کی جاسوسی کر ریہ ہیں۔
بعض اوقات تھوڑی سی سختی بھی اس کا مستقبل داؤ پر لگنے سے بچا سکتی ہے۔ بچوں کی الجھنیں، ان کی شکایات اور عام اور معمولی نوعیت کے مسائل آپ توجہ سے سنیں اور اس کا کوئی حل ضرور بتائیں۔ اس سے بچہ آپ سے اپنی ہر بات شیئر کرنے کا عادی ہو جائے گا اور آپ کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد کسی بھی موقع پر فیصلہ کرنے کے لیے رجوع کرے گا۔ اس طرح آپ اسے اچھے یا برے میں فرق کرنا اور درست سمت میں راہ نمائی کرسکتی ہیں۔ جب بچہ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر کھیلنے کے لیے جائے تو ماں کو چاہیے کہ وہ اس سے جگہ اور مقام کی تفصیل جاننے کے بعد اس کے ان دوستوں کے نام بھی معلوم کر لے جو اس کے ساتھ ہوں گے۔ آپ کے بچے کہاں جاتے ہیں، کس سے ملتے ہیں اور کس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان سب کا آپ کے لیے جاننا بہت ضروری ہے۔ لڑکوں کے گھر سے نکلنے سے پہلے ان کے دوست کا نام اور جگہ جاننے کے ساتھ یہ بھی دریافت کریں کہ ان کی واپسی کب ہو گی۔ تاہم یہ سب پیار اور شفقت بھرے انداز میں کیا جائے تو بچے کا اعتماد بحال رہے گا۔
آج کل چھوٹے بچوں کو موبائل فون تھما کر مائیں بہت خوشی سے دوسروں کو بتاتی ہیں کہ ان کا بچہ موبائل فون کا بہترین استعمال جانتا ہے۔ کیا آپ کو یہ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بچے کی سرگرمیوں سے آگاہ رہیں۔ اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھانا اور درست سمت میں ان کی راہ نمائی کرنا بھی آپ کا ہی کام ہے۔ ماں کے ساتھ ساتھ باپ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی گھر سے باہر سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ ممکن ہو تو ان کے اسکول،کالج سے معلومات حاصل کریں۔ آپ عزیز و اقارب سے ملنے جائیں یا کسی تقریب میں شرکت کرنی ہو بچوں کو گھر میں تنہا مت چھوڑیں۔ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کے لیے والدین کو اپنی مصروفیات اور ذمہ داریوں کے ساتھ کچھ وقت ضرور نکالنا ہو گا ورنہ کسی بگاڑ اور بچے کی غلطی کی ذمہ داری معاشرہ اور ماحول پر ڈال دینا بہت آسان ہے۔
وہ سوچتے ہیں کہ ان سے کہاں غلطی یا کوتاہی ہوئی اور پچھتاتے ہیں کہ جس وقت ڈانٹ ڈپٹ، سختی کی ضرورت تھی یا پیار اور شفقت سے کسی بات پر سمجھانا چاہیے تھا تب تو زندگی کے جھمیلوں سے فرصت نہ نکال سکے اور بچوں کو حالات اور ماحول کے حوالے کر دیا تھا۔ باپ نے سوچا ابھی بچوں کے کھیل کود کے دن ہیں ذرا بڑے ہوں گے تو خود ہی اونچ نیچ سمجھ جائیں گے اور ماں گھر کے کاموں یا اپنے بناؤ سنگھار میں اتنی مصروف رہی کہ اولاد کی سرگرمیوں پر نظر نہ رکھ سکی۔ بچے ایک خاص عمر تک خاص طور پر ماں کی نظروں کے سامنے رہتے ہیں۔
ان کا گلی کے کونے تک آنا جانا، کھیل کود کے لیے آنے والے ہم عمر بچے اور اسکول کے دوستوں کا بھی علم ماں کو ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے، مگر جب ایک عورت کی اولین ترجیح گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ اولاد کی تربیت اور ان کو بہتر ماحول فراہم کرنا نہیں ہو گی تو کہیں نہ کہیں کوئی کمی ضرور رہ جائے گی جو کسی بھی قسم کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ بچوں کی تربیت میں غفلت اور کوتاہی انھیں نیک اور درست راستے سے ہٹا سکتی ہے۔ خوش حال گھرانوں میں دیکھا گیا ہے کہ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو اکثر مائیں انھیں آیاؤں اور ملازموں کے سپرد کردیتی ہیں۔کم پڑھی لکھی اور غیر تعلیم یافتہ یہ عورتیں بچوں کی تربیت کے بنیادی اصولوں سے ناواقف ہوتی ہیں۔
ماں کی غیر موجودگی میں وہ انھیں مارتی پیٹتی اور زبردستی کھانا کھلاتی ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت میں کوئی کردار ادا نہیں کرتیں بلکہ وہ اسے اضافی کام اور بوجھ سمجھتی ہیں۔ بچے کی زندگی کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ اس عمر میں شرارتیں اور آزادی سے کھیل کود کا شوق بھی عروج پر ہوتا ہے۔ آپ کا اپنی ذمہ داری سے بھاگنا بچوں کو اپنے ماحول سے فرار کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک عرصے تک آیاؤں کے ساتھ رہنے والے بچے ماں کو کوئی اہمیت بھی نہیں دیتے اور یہی مرحلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ایسے بچے والدین سے دور ہو جاتے ہیں اور بعد میں آپ کو پچھتانا پڑتا ہے۔ چھوٹے بچے ہر نئی چیز کو تجسس سے دیکھتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان کے ہاتھ آجائے۔
وہ اسکول میں اپنے دوستوں کے پاس کوئی نئی چیز دیکھتے ہیں تو اسے آنکھ بچا کر اپنے بیگ میں چھپا لیتے ہیں۔ ایک ماں بچے کے اسکول سے گھر آنے پر جب ہوم ورک کروانے کی غرض سے ان کا بیگ کھولتی ہے اور اس میں موجود چیزیں دیکھتی ہے تو اسے فوری سوال کرنا چاہیے کہ یہ کہاں سے آیا۔ اگر وہ اسے نظر انداز کردے اور بچے کی کسی بھی وضاحت کو فورا قبول کرلے تو سمجھ لیں کہ وہ اسے اپنی عادت بنا لے گا۔ اس حوالے سے بالکل بے پروائی نہ برتیں۔ بچے کو پیار سے سمجھائیں اور کہہ دیں کہ یہ بات کبھی بھی اس کی ٹیچر کو معلوم ہو جائے گی اور وہ اسے سزا دیں گی۔ اس لیے آئندہ ایسا مت کرنا۔ اس کے علاوہ بچوں کو مختلف سبق آموز کہانیوں کے ذریعے سمجھایا جاسکتا ہے۔ بچوں کے گلی محلے کے دوستوں اور اسکول کے ساتھیوں سے میل جول کو اہمیت دیں۔
یہ ضروری ہے کہ آپ ان کے بارے میں جانتی ہوں۔ مثلاً آپ کے بیٹے یا بیٹی کے احباب میں فلاں بچہ کہاں رہتا ہے، اس کے والدین کون ہیں وغیرہ۔ اگر آپ کا بچہ اپنے کسی ساتھی کی غلطی یا کسی چوری وغیرہ کا قصہ سنائے تو اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کی تفصیل جاننے کی کوشش کریں اور اگر وہ کسی برائی اور اخلاق سوز عمل کی روداد سنائے تو اسے بتائیں کہ آپ کے دوست نے غلط کیا ہے اور آپ کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی بتائیں کہ اس کا انجام برا ہوسکتا ہے۔ اس کی سزا مل سکتی ہے۔ اسی طرح ماؤں کو چاہیے کہ اپنی بچوں، بچیوں کے پیدل اسکول جانے کی صورت میں ان کے راستوں کا علم رکھیں اور اس دوران کون بچے ان کے ہمراہ ہوتے ہیں یہ بھی جاننے کی کوشش کریں۔ آج کل موبائل فون کا استعمال عام ہے۔ بیٹیوں کو فون پر اپنے کسی سہیلی سے بات کرنے کی آزادی ضرور دیں اور اس کا اعتماد بحال رکھیں، مگر اس طرف سے کوتاہی اور غفلت نہ برتیں بلکہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں۔ تاہم بچوں کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ ان کی جاسوسی کر ریہ ہیں۔
بعض اوقات تھوڑی سی سختی بھی اس کا مستقبل داؤ پر لگنے سے بچا سکتی ہے۔ بچوں کی الجھنیں، ان کی شکایات اور عام اور معمولی نوعیت کے مسائل آپ توجہ سے سنیں اور اس کا کوئی حل ضرور بتائیں۔ اس سے بچہ آپ سے اپنی ہر بات شیئر کرنے کا عادی ہو جائے گا اور آپ کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد کسی بھی موقع پر فیصلہ کرنے کے لیے رجوع کرے گا۔ اس طرح آپ اسے اچھے یا برے میں فرق کرنا اور درست سمت میں راہ نمائی کرسکتی ہیں۔ جب بچہ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر کھیلنے کے لیے جائے تو ماں کو چاہیے کہ وہ اس سے جگہ اور مقام کی تفصیل جاننے کے بعد اس کے ان دوستوں کے نام بھی معلوم کر لے جو اس کے ساتھ ہوں گے۔ آپ کے بچے کہاں جاتے ہیں، کس سے ملتے ہیں اور کس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان سب کا آپ کے لیے جاننا بہت ضروری ہے۔ لڑکوں کے گھر سے نکلنے سے پہلے ان کے دوست کا نام اور جگہ جاننے کے ساتھ یہ بھی دریافت کریں کہ ان کی واپسی کب ہو گی۔ تاہم یہ سب پیار اور شفقت بھرے انداز میں کیا جائے تو بچے کا اعتماد بحال رہے گا۔
آج کل چھوٹے بچوں کو موبائل فون تھما کر مائیں بہت خوشی سے دوسروں کو بتاتی ہیں کہ ان کا بچہ موبائل فون کا بہترین استعمال جانتا ہے۔ کیا آپ کو یہ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بچے کی سرگرمیوں سے آگاہ رہیں۔ اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھانا اور درست سمت میں ان کی راہ نمائی کرنا بھی آپ کا ہی کام ہے۔ ماں کے ساتھ ساتھ باپ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی گھر سے باہر سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ ممکن ہو تو ان کے اسکول،کالج سے معلومات حاصل کریں۔ آپ عزیز و اقارب سے ملنے جائیں یا کسی تقریب میں شرکت کرنی ہو بچوں کو گھر میں تنہا مت چھوڑیں۔ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کے لیے والدین کو اپنی مصروفیات اور ذمہ داریوں کے ساتھ کچھ وقت ضرور نکالنا ہو گا ورنہ کسی بگاڑ اور بچے کی غلطی کی ذمہ داری معاشرہ اور ماحول پر ڈال دینا بہت آسان ہے۔