اعظم سواتی کے اثاثوں کی تحقیقات کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کا حکم
اختیارات کے ناجائز استعمال پر اعظم سواتی کے خلاف فوجداری کارروائی کے علاوہ نیب قانون بھی لاگو ہوتا ہے،عدالتی معاون
سپریم کورٹ نےتحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی کے اثاثوں کی تحقیقات کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوا دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت کی، اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ گزشتہ سماعت پرعدالت نے پوچھا تھا کہ کیا ایکشن لیا گیا ہے،اعظم سواتی وزارت سے استعفی دے چکے ہیں لیکن ان کا استعفی منظور نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ استعفی وزارت سے دیا گیا ہے، ابھی بھی وزارت پر اعظم سواتی کا نام چل رہا ہے، کیا اعظم سواتی رکن اسمبلی رہنے کے اہل ہیں؟، اعظم سواتی میرے جانے کے دن گن رہے ہیں، عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت اہلیت دیکھنا ہے، عدالت 184/3 میں کئی ارکان پارلیمنٹ کو نااہل کر چکی ہے۔ کیا ہمسایوں کو گرفتار کروانے والا دیانتدار اور راست باز ہو سکتا ہے؟
اعظم سواتی نے چیف جسٹس کی جانب سے ان کے امریکا میں انٹری بند ہونے سے متعلق استفسار پر بتایا کہ امریکی شہریت چھوڑ چکا ہوں، امریکا جانے پر کوئی پابندی نہیں، ویزے کے لئے اپلائی کیا ہوا ہے، امریکا میں وسیع کاروبار ہے جو ظاہر کر چکا ہوں۔ اعظم سواتی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ امریکا سے سب سے زیادہ زرمبادلہ اعظم سواتی لائے ہیں ،اعظم سواتی خود پر لگے دھبے صاف کروانا چاہتے ہیں۔
عدالت کے استفسار پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی اور چار دیگر کے خلاف مقدمات درج ہیں، ملزمان کی ضمانت منسوخی کیلئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سارا کیا دھرا اعظم سواتی کا ہے، آئی جی کو ٹیلی فون اعظم سواتی نے کئے تھے، جے آئی ٹی رپورٹ بھی اعظم سواتی کے خلاف ہے، آپ کو کس نے آئی جی بنایا ہے، آپ اعظم سواتی کو بچانے کے لئے بیٹھے ہیں۔ اگر لوگوں کو انصاف نہیں دینا تو کس چیز کے آئی جی لگے ہیں،غریب لوگوں کو مارا پیٹا گیا، آپ سے کہا داد رسی کریں لیکن آپ بھی مل گئے، ہمیں پولیس سے شرم آرہی ہے،آئی جی اسلام آباد کے حوالے سے عدالت کا تاثر اچھا نہیں، بات نہ سننے والا ٹرانسفر ہو جائے گا اور بات ماننے والا تعینات ہوجائے گا۔ ہم مثال قائم کرنا چاہتے ہیں بڑے آدمی چھوٹوں کو روند نہیں سکتے، یہاں پر سزا بھی ملے گی۔ ہم اعظم سواتی کو 62 ون ایف کا نوٹس کر دیتے ہیں کیونکہ پولیس نے تو پرچہ درج کرنا نہیں۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ کو بتایا جے آئی ٹی کے مطابق اعظم سواتی کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں، انہوں نے 101 کنال اراضی بھی ظاہر نہیں کی،اثاثوں میں اضافے کا بھی ٹھوس جواب نہیں دیا گیا، اختیارات کے ناجائز استعمال پر فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے اور نیب قانون بھی لاگو ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی کے مطابق آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی نے نہیں کروایا لیکن واقعاتی شہادت سے لگتا ہے آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی کی شکایت پر ہوا۔ کیا الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی ایسا فورم ہے جہاں اس معاملے کو بھیجا جائے؟'
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 184/3 میں عدالت کو براہ راست کارروائی کا مکمل اختیار ہے، مزید تفصیلات عدالتی حکم میں جاری کریں گے، عدالت نے اعظم سواتی کا معاملہ متعلقہ اداروں کو بھجوانے کا حکم دے دیا، ادارے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں دیں گے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت کی، اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ گزشتہ سماعت پرعدالت نے پوچھا تھا کہ کیا ایکشن لیا گیا ہے،اعظم سواتی وزارت سے استعفی دے چکے ہیں لیکن ان کا استعفی منظور نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ استعفی وزارت سے دیا گیا ہے، ابھی بھی وزارت پر اعظم سواتی کا نام چل رہا ہے، کیا اعظم سواتی رکن اسمبلی رہنے کے اہل ہیں؟، اعظم سواتی میرے جانے کے دن گن رہے ہیں، عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت اہلیت دیکھنا ہے، عدالت 184/3 میں کئی ارکان پارلیمنٹ کو نااہل کر چکی ہے۔ کیا ہمسایوں کو گرفتار کروانے والا دیانتدار اور راست باز ہو سکتا ہے؟
اعظم سواتی نے چیف جسٹس کی جانب سے ان کے امریکا میں انٹری بند ہونے سے متعلق استفسار پر بتایا کہ امریکی شہریت چھوڑ چکا ہوں، امریکا جانے پر کوئی پابندی نہیں، ویزے کے لئے اپلائی کیا ہوا ہے، امریکا میں وسیع کاروبار ہے جو ظاہر کر چکا ہوں۔ اعظم سواتی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ امریکا سے سب سے زیادہ زرمبادلہ اعظم سواتی لائے ہیں ،اعظم سواتی خود پر لگے دھبے صاف کروانا چاہتے ہیں۔
عدالت کے استفسار پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی اور چار دیگر کے خلاف مقدمات درج ہیں، ملزمان کی ضمانت منسوخی کیلئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سارا کیا دھرا اعظم سواتی کا ہے، آئی جی کو ٹیلی فون اعظم سواتی نے کئے تھے، جے آئی ٹی رپورٹ بھی اعظم سواتی کے خلاف ہے، آپ کو کس نے آئی جی بنایا ہے، آپ اعظم سواتی کو بچانے کے لئے بیٹھے ہیں۔ اگر لوگوں کو انصاف نہیں دینا تو کس چیز کے آئی جی لگے ہیں،غریب لوگوں کو مارا پیٹا گیا، آپ سے کہا داد رسی کریں لیکن آپ بھی مل گئے، ہمیں پولیس سے شرم آرہی ہے،آئی جی اسلام آباد کے حوالے سے عدالت کا تاثر اچھا نہیں، بات نہ سننے والا ٹرانسفر ہو جائے گا اور بات ماننے والا تعینات ہوجائے گا۔ ہم مثال قائم کرنا چاہتے ہیں بڑے آدمی چھوٹوں کو روند نہیں سکتے، یہاں پر سزا بھی ملے گی۔ ہم اعظم سواتی کو 62 ون ایف کا نوٹس کر دیتے ہیں کیونکہ پولیس نے تو پرچہ درج کرنا نہیں۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ کو بتایا جے آئی ٹی کے مطابق اعظم سواتی کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں، انہوں نے 101 کنال اراضی بھی ظاہر نہیں کی،اثاثوں میں اضافے کا بھی ٹھوس جواب نہیں دیا گیا، اختیارات کے ناجائز استعمال پر فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے اور نیب قانون بھی لاگو ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی کے مطابق آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی نے نہیں کروایا لیکن واقعاتی شہادت سے لگتا ہے آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی کی شکایت پر ہوا۔ کیا الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی ایسا فورم ہے جہاں اس معاملے کو بھیجا جائے؟'
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 184/3 میں عدالت کو براہ راست کارروائی کا مکمل اختیار ہے، مزید تفصیلات عدالتی حکم میں جاری کریں گے، عدالت نے اعظم سواتی کا معاملہ متعلقہ اداروں کو بھجوانے کا حکم دے دیا، ادارے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں دیں گے۔