خارق العادات
تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقوں سے ہر شخص کے باطن میں رفتہ رفتہ ایک انقلاب رونما ہوجاتا ہے.
روحیت پسند حساس، چوکنی، نگران اور چاق و چوبند روح رکھنے والے کو کہتے ہیں۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقیں اس قسم کے لوگوں پر غیر معمولی اثر انداز ہوتی اور ان کی حساسیت اور روحیت کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ صرف لفظوں کے ذریعے ''روحیت پسندی'' کی تشریح ممکن نہیں۔
خارق العادات کی صلاحیت ہر شخص میں کم و بیش موجود ہے جس طرح ہر شخص میں عشق، شاعری، رقص، موسیقی، مصوری، جمالیات پسندی، تصوف اور دوسری صلاحیتیں اور قوتیں کسی نہ کسی درجے میں پائی جاتی ہیں، اسی طرح ہر شخص کو ایک سپر نارمل استعداد بھی ودیعت کی گئی ہے، یہ اور بات ہے کہ کسی کے نفس میں وہ استعداد نمایاں طور پر موجود ہو کسی شخص کے اندر خوابیدہ ہو۔ تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقوں سے ہر شخص کے باطن میں رفتہ رفتہ ایک انقلاب رونما ہوجاتا ہے، کبھی انقلاب واضح یعنی کھلا کھلا ہوتا ہے، کبھی مبہم اور بند بند! جو لوگ پیدائشی طور پر حساس یا سوداوی مزاج کے حامل ہوتے ہیں ان کے اندر تخیل اور واہمہ طرازی (Fantasy) کی قوتیں پوری طرح فعال اور چست ہوتی ہیں، حواس خمسہ کا عمل تیز ہوتا ہے اور وہ بہت جلد اس میدان میں دوسروں سے سبقت لے جاتے ہیں۔
انسانی تصور کی پرواز لامحدود ہے شاید حقیقی دنیا سے بلند تر وسیع تر۔ حساسیت اور ذہانت جڑواں بہنیں ہیں۔ کند ذہن آدمی کے حواس بھی کند ہوا کرتے ہیں۔ ذہین آدمیوں کا المیہ یہ ہے کہ انھیں ان کی ذہانت، خواب کی دنیا کا باسی بنا دیتی ہے۔ وہ اپنے شاندار تخیل کی مدد سے ایک شاندار تصوراتی دنیا بنا لیتے ہیں اور اس دنیا کے تصور میں مگن رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حساس اور ذہین آدمیوں کو جس قدر جلد خارق العادات کی مشق میں روحی ترقی نصیب ہوجاتی ہے، ان کی گمراہی کا خطرہ بھی اتنا شدید ہے۔ ایسے متعدد افراد گزرے ہیں جنھیں ان کی حساسیت اور ذہانت نے تباہ و گم گشتہ راہ کردیا۔
خارق العادات تجربات کی چھان بین یا E.S.P (ادراک ماورائے حواس) کی صلاحیت کی تحقیق کرتے وقت سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جو شخص سپر نارمل ازم کا مدعی ہے اس کی مزاجی کیفیت کیا ہے؟ وہ کسی التباس حواس (مثلاً رسی کو سانپ سمجھ لینا) میں تو مبتلا نہیں۔ درحقیقت سپر نارمل اور ایب نارمل یعنی مجذوب اور مجنون دونوں میں بال برابر کا فرق ہے۔ واسطہ معمول یا Medium ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے خارق العادات مظاہر (مثلاً دوسروں کے دل کی بات بتلا دینا کسی ظاہری وسیلے کے بغیر) نمودار ہوتے ہیں۔
ان لوگوں کا اعصابی اور دماغی نظام بہت پیچیدہ نازک اور حساس ہوتا ہے۔ میڈیم شپ (معمول بننے کی اہلیت) اور ہسٹریا کی علامتیں بھی بعض اوقات ایک دوسرے سی اتنی مشابہہ ہوتی ہیں کہ اکثر مجذوبوں کو مجنون اور مجنونوں کو مجذوب سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارا عام جسمانی نظام سپر نارمل تجربات کا بوجھ نہیں برداشت کرسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ روح کی مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور بروئے کار لانے کے لیے پہلے جسم کو ان تجربات کا اہل بنانا پڑتا ہے۔
جسم کو روحی مظاہر کا آلہ کار بنانے کے سلسلے میں کردار سازی و تنظیم شخصیت کی مشقیں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں، اسی کے ساتھ روزہ، ترک حیوانات، قلب غذا، تفکر، کم گوئی، کم خوابی، تنہائی تجرد اور ضبط نفس کے ذریعے ہم اپنے غدودی نظام اور جسم میں ایسی مناسب کیمیاوی تبدیلیاں پیدا کرسکتے ہیں کہ ہمارے حواس کی سطح بلند تر ہوجائے اور براہ راست خارق العادات سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ ہم جو بار بار مابعدالنفسیات کے طلبا اور طالبات سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ یہ مشقیں کسی تجربہ کار شخص کی نگرانی میں شروع کریں تو صرف اس لیے کہ وہم اور حقیقت سپر نارمل اور ایب نارمل گڈ مڈ نہ ہوجائیں۔
اہم واقعات کو ان کے واقع ہونے سے پہلے ظہور پذیر ہوتے ہوئے دیکھ لینا بھی روحیت پسندی اور خارق العادات صلاحیت ہی کا مظہر ہے، کبھی مستقبل کا کشف خواب میں ہوتا ہے۔ احقر میں خود بچپن میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ پیش آنے والے کئی واقعات کا پہلے سے علم ہوجایا کرتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اور توجہ نہ دینے پر یہ صلاحیت دب ضرور گئی ہے لیکن اب بھی بسا اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو چند دن پہلے خواب میں نظر آچکے ہوتے ہیں۔ کشف بذریعہ خواب ہزاروں افراد کا ذاتی تجربہ ہے، بچے چونکہ حساس واقع ہوتے ہیں اس لیے اکثر بچوں میں پیش بینی کی یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے، اگر ان کی صحیح انداز میں تربیت کی جائے تو یہ صلاحیت بڑے ہونے کے بعد بھی بدرجہ اتم موجود رہے گی۔
انسانی ذہن زماں و مکاں کی وسعتوں پر غالب آسکتا ہے۔ کیا یہ کہنا سچ نہیں کہ خود زمان و مکان بھی اسی طرح انسانی ذہن کی خصوصیتیں ہیں، جس طرح رنگ و بو، حسن، بدصورتی، ذائقہ وغیرہ۔ اگر اس تمام مادی کائنات کو نچوڑا جائے، چھانا جائے، ریزہ ریزہ کرکے اس مادی عالم کی تحقیق اور چھان پھٹک کی جائے تو یہ تمام کائنات چھنتے چھنتے ایسے برق پاروں کا مجموعہ بن کر رہ جائے گی، جن میں نہ رنگ پایا جاتا ہے، نہ خوشبو، نہ ذائقہ نہ ناطقہ، نہ شاعری نہ موسیقی، نہ رقص، نہ فلسفہ، نہ طبیعات، نہ کوئی علم، نہ فن... یہ تمام چیزیں ایسے اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں جو انسانی ذہن نے کائنات پر کیا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے زمان مثلاً آج 14 جولائی ہے، کل 15 تاریخ ہوگی اور مکان مثلاً یہ کراچی ہے اور وہ لاہور... یہ ساری خصوصیتیں بھی ذہن نے ہی پیدا کی ہیں، بجائے خود برق پاروں (الیکٹران) سے بنی ہوئی کائنات میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں۔
اکثر لوگ یہ شکوہ کرتے پائے گئے کہ پہلے ان کی پیش بینی اور وجدان کی جو صلاحیتیں موجود تھیں، وہ رفتہ رفتہ نابود ہوگئیں، اب وہ کورے کاغذ کی طرح سادہ اور اسپاٹ ہو کر رہ گئے ہیں۔ خارق العادات کی عملی تحقیق اور سائنٹفک چھان بین میں یہ ''نقطہ'' غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
میں نے درجنوں افراد کو دیکھا کہ ذہنی طور پر ان کی اٹھان بے حد شاندار اور روحی استعداد، حیرت انگیز طور پر قوی تھی، پھر آہستہ آہستہ کشف، وجدان اور القا کی تمام قوتیں مرجھا کر رہ گئیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب دینا مشکل ہے لیکن اگلے کالم میں ہم اسے کچھ مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
اور اب اپنی بات... فیس بک پر ایک ریڈر نے اعتراض کیا ہے کہ رئیس امروہوی کی کتاب سے اقتباسات شامل کرنے کے بجائے اپنے واقعات و تجربات پیش کروں۔ یقیناً یہ اعتراض بجا ہے لیکن ہمارا مطمع نظر نفسیات کے طالب علموں کی پیاس بجھانا ہے، دوم رئیس امروہوی کی کتابوں میں جن خطوط کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ عام قارئین کے تجربات ہیں جو ان خارق العادات مظاہر سے گزر رہے تھے، چونکہ اب تک ہمارے کسی قاری نے ایسا کوئی تجربہ نہیں بھیجا اس لیے ہم رئیس صاحب کی کتاب سے وہ تجربات آپ تک پہنچا رہے ہیں۔ باقی رہا ہماری مشقوں کا احوال تو وہ بھی ساتھ ساتھ پیش کی جارہی ہیں۔
(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)
خارق العادات کی صلاحیت ہر شخص میں کم و بیش موجود ہے جس طرح ہر شخص میں عشق، شاعری، رقص، موسیقی، مصوری، جمالیات پسندی، تصوف اور دوسری صلاحیتیں اور قوتیں کسی نہ کسی درجے میں پائی جاتی ہیں، اسی طرح ہر شخص کو ایک سپر نارمل استعداد بھی ودیعت کی گئی ہے، یہ اور بات ہے کہ کسی کے نفس میں وہ استعداد نمایاں طور پر موجود ہو کسی شخص کے اندر خوابیدہ ہو۔ تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقوں سے ہر شخص کے باطن میں رفتہ رفتہ ایک انقلاب رونما ہوجاتا ہے، کبھی انقلاب واضح یعنی کھلا کھلا ہوتا ہے، کبھی مبہم اور بند بند! جو لوگ پیدائشی طور پر حساس یا سوداوی مزاج کے حامل ہوتے ہیں ان کے اندر تخیل اور واہمہ طرازی (Fantasy) کی قوتیں پوری طرح فعال اور چست ہوتی ہیں، حواس خمسہ کا عمل تیز ہوتا ہے اور وہ بہت جلد اس میدان میں دوسروں سے سبقت لے جاتے ہیں۔
انسانی تصور کی پرواز لامحدود ہے شاید حقیقی دنیا سے بلند تر وسیع تر۔ حساسیت اور ذہانت جڑواں بہنیں ہیں۔ کند ذہن آدمی کے حواس بھی کند ہوا کرتے ہیں۔ ذہین آدمیوں کا المیہ یہ ہے کہ انھیں ان کی ذہانت، خواب کی دنیا کا باسی بنا دیتی ہے۔ وہ اپنے شاندار تخیل کی مدد سے ایک شاندار تصوراتی دنیا بنا لیتے ہیں اور اس دنیا کے تصور میں مگن رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حساس اور ذہین آدمیوں کو جس قدر جلد خارق العادات کی مشق میں روحی ترقی نصیب ہوجاتی ہے، ان کی گمراہی کا خطرہ بھی اتنا شدید ہے۔ ایسے متعدد افراد گزرے ہیں جنھیں ان کی حساسیت اور ذہانت نے تباہ و گم گشتہ راہ کردیا۔
خارق العادات تجربات کی چھان بین یا E.S.P (ادراک ماورائے حواس) کی صلاحیت کی تحقیق کرتے وقت سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جو شخص سپر نارمل ازم کا مدعی ہے اس کی مزاجی کیفیت کیا ہے؟ وہ کسی التباس حواس (مثلاً رسی کو سانپ سمجھ لینا) میں تو مبتلا نہیں۔ درحقیقت سپر نارمل اور ایب نارمل یعنی مجذوب اور مجنون دونوں میں بال برابر کا فرق ہے۔ واسطہ معمول یا Medium ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کے ذریعے خارق العادات مظاہر (مثلاً دوسروں کے دل کی بات بتلا دینا کسی ظاہری وسیلے کے بغیر) نمودار ہوتے ہیں۔
ان لوگوں کا اعصابی اور دماغی نظام بہت پیچیدہ نازک اور حساس ہوتا ہے۔ میڈیم شپ (معمول بننے کی اہلیت) اور ہسٹریا کی علامتیں بھی بعض اوقات ایک دوسرے سی اتنی مشابہہ ہوتی ہیں کہ اکثر مجذوبوں کو مجنون اور مجنونوں کو مجذوب سمجھ لیتے ہیں۔ ہمارا عام جسمانی نظام سپر نارمل تجربات کا بوجھ نہیں برداشت کرسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ روح کی مخفی صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور بروئے کار لانے کے لیے پہلے جسم کو ان تجربات کا اہل بنانا پڑتا ہے۔
جسم کو روحی مظاہر کا آلہ کار بنانے کے سلسلے میں کردار سازی و تنظیم شخصیت کی مشقیں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں، اسی کے ساتھ روزہ، ترک حیوانات، قلب غذا، تفکر، کم گوئی، کم خوابی، تنہائی تجرد اور ضبط نفس کے ذریعے ہم اپنے غدودی نظام اور جسم میں ایسی مناسب کیمیاوی تبدیلیاں پیدا کرسکتے ہیں کہ ہمارے حواس کی سطح بلند تر ہوجائے اور براہ راست خارق العادات سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ ہم جو بار بار مابعدالنفسیات کے طلبا اور طالبات سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ یہ مشقیں کسی تجربہ کار شخص کی نگرانی میں شروع کریں تو صرف اس لیے کہ وہم اور حقیقت سپر نارمل اور ایب نارمل گڈ مڈ نہ ہوجائیں۔
اہم واقعات کو ان کے واقع ہونے سے پہلے ظہور پذیر ہوتے ہوئے دیکھ لینا بھی روحیت پسندی اور خارق العادات صلاحیت ہی کا مظہر ہے، کبھی مستقبل کا کشف خواب میں ہوتا ہے۔ احقر میں خود بچپن میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ پیش آنے والے کئی واقعات کا پہلے سے علم ہوجایا کرتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اور توجہ نہ دینے پر یہ صلاحیت دب ضرور گئی ہے لیکن اب بھی بسا اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو چند دن پہلے خواب میں نظر آچکے ہوتے ہیں۔ کشف بذریعہ خواب ہزاروں افراد کا ذاتی تجربہ ہے، بچے چونکہ حساس واقع ہوتے ہیں اس لیے اکثر بچوں میں پیش بینی کی یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے، اگر ان کی صحیح انداز میں تربیت کی جائے تو یہ صلاحیت بڑے ہونے کے بعد بھی بدرجہ اتم موجود رہے گی۔
انسانی ذہن زماں و مکاں کی وسعتوں پر غالب آسکتا ہے۔ کیا یہ کہنا سچ نہیں کہ خود زمان و مکان بھی اسی طرح انسانی ذہن کی خصوصیتیں ہیں، جس طرح رنگ و بو، حسن، بدصورتی، ذائقہ وغیرہ۔ اگر اس تمام مادی کائنات کو نچوڑا جائے، چھانا جائے، ریزہ ریزہ کرکے اس مادی عالم کی تحقیق اور چھان پھٹک کی جائے تو یہ تمام کائنات چھنتے چھنتے ایسے برق پاروں کا مجموعہ بن کر رہ جائے گی، جن میں نہ رنگ پایا جاتا ہے، نہ خوشبو، نہ ذائقہ نہ ناطقہ، نہ شاعری نہ موسیقی، نہ رقص، نہ فلسفہ، نہ طبیعات، نہ کوئی علم، نہ فن... یہ تمام چیزیں ایسے اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں جو انسانی ذہن نے کائنات پر کیا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے زمان مثلاً آج 14 جولائی ہے، کل 15 تاریخ ہوگی اور مکان مثلاً یہ کراچی ہے اور وہ لاہور... یہ ساری خصوصیتیں بھی ذہن نے ہی پیدا کی ہیں، بجائے خود برق پاروں (الیکٹران) سے بنی ہوئی کائنات میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں۔
اکثر لوگ یہ شکوہ کرتے پائے گئے کہ پہلے ان کی پیش بینی اور وجدان کی جو صلاحیتیں موجود تھیں، وہ رفتہ رفتہ نابود ہوگئیں، اب وہ کورے کاغذ کی طرح سادہ اور اسپاٹ ہو کر رہ گئے ہیں۔ خارق العادات کی عملی تحقیق اور سائنٹفک چھان بین میں یہ ''نقطہ'' غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
میں نے درجنوں افراد کو دیکھا کہ ذہنی طور پر ان کی اٹھان بے حد شاندار اور روحی استعداد، حیرت انگیز طور پر قوی تھی، پھر آہستہ آہستہ کشف، وجدان اور القا کی تمام قوتیں مرجھا کر رہ گئیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب دینا مشکل ہے لیکن اگلے کالم میں ہم اسے کچھ مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کریں گے۔
اور اب اپنی بات... فیس بک پر ایک ریڈر نے اعتراض کیا ہے کہ رئیس امروہوی کی کتاب سے اقتباسات شامل کرنے کے بجائے اپنے واقعات و تجربات پیش کروں۔ یقیناً یہ اعتراض بجا ہے لیکن ہمارا مطمع نظر نفسیات کے طالب علموں کی پیاس بجھانا ہے، دوم رئیس امروہوی کی کتابوں میں جن خطوط کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ عام قارئین کے تجربات ہیں جو ان خارق العادات مظاہر سے گزر رہے تھے، چونکہ اب تک ہمارے کسی قاری نے ایسا کوئی تجربہ نہیں بھیجا اس لیے ہم رئیس صاحب کی کتاب سے وہ تجربات آپ تک پہنچا رہے ہیں۔ باقی رہا ہماری مشقوں کا احوال تو وہ بھی ساتھ ساتھ پیش کی جارہی ہیں۔
(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)