رسائی روشنی تک
نعت کا دربار ایسا ہے کہ بقول شاعر<br />
ادب گاہ ہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر<br />
نفَس گُم کردہ می آید جُنید و بایزید ایں جا
KHAIRPUR:
نعت کا دربار ایسا ہے کہ بقول شاعر
ادب گاہ ہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفَس گُم کردہ می آید جُنید و بایزید ایں جا
یوں تو اسلامی تاریخ میں نعت کا آغاز رسول کریمؐ کے زمانے میں ہی نہ صرف ہو گیا تھا بلکہ اس میں کچھ ایسے گراں قدر صحابہ کے اسمائے گرامی بھی شامل ہیں جن کی نعتیہ شاعری کے علاوہ اُن کا کہا ہوا کوئی اور کلام یا تو موجود نہیں یا محفوظ نہیں۔ عربی سے یہ روایت فارسی اور ترکی نژاد زبانوں سے ہوتی ہوئی برصغیر میں آئی اور پھر یہاں کی مختلف زبانوں اور بولیوں کے ساتھ ساتھ اُس مخلوط زبان تک آئی جسے فی زمانہ اُردو کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جدید ریسرچ کے مطابق نعت کی صنف میں شاعری برصغیر کی بہت سی ایسی زبانوں میں بھی کی گئی ہے جن کے بارے میں عام لوگوں کو تو کیا بہت سے ادبی موٗرخین اور محققین کو بھی واضح اور باقاعدہ معلومات نہیں ہیں۔یہ زبانیں زیادہ تر اُن علاقوں کی ہیں جن میں مسلمان کبھی اکثریت میں نہیں رہے، مثال کے طور پر تمل ناڈ، کنٹر، تیلیگو، ملیالم، گجراتی اور اُڑی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
جہاں تک اُردو میں نعت کی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ یہ زبان خود ہے یہ اور بات ہے کہ اس میں تسلسل اور باقاعدگی اُنیسویں صدی میں اور مقداری اعتبار سے وسعت اور پھیلاؤ بیسویں صدی میں پیدا ہوئے اور اب گزشتہ نصف صدی سے تو گویا اِس مقدس اور محبوب صنفِ سخن پر بہار کا موسم چل رہا ہے کہ نعتیہ مجموعے نہ صرف دھڑا دھڑ چَھپ رہے ہیں بلکہ معیاری اعتبار سے بھی بالعموم اُن تقاضوں کو پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کا یہ موضوع مکلّف بھی ہے اور متقاضی بھی۔
''رسائی روشنی تک'' حمیر ا راحت کا اوّلین مجموعہ نعت ہے مگر اُن کا نام ادبی حلقوں کے لیے نیا نہیں کہ اُن کا شمار جدید نسل کی معتبر اور باصلاحیت شاعرات میں ہوتا ہے اور گزشتہ کم و بیش بیس برس سے ان کا کلام ادبی رسائل میں باقاعدگی سے نہ صرف چھپتا رہا ہے بلکہ بہت توجہ اور دلچسپی سے پڑھا بھی جاتا ہے اور ان کے ایک سے زیادہ شعری مجموعے بھی شائع ہو کر مقبولت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ تصوف اور بالخصوص مولانا روم کے حوالے سے ''پیام رُومی'' کی باقاعدہ اشاعت جن رجحانات کی نشاندہی کر رہی تھی، یہ نعتیہ مجموعہ ''رسائی روشنی تک'' گویا اُن کی عملی تفسیر ہے۔ محسن اعظم محسن ملیح آبادی اس کتاب کے فلیپ میں شاعرہ کو یوں دادِ سُخن دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ
''اُن کے یہاں فکر و اسلوب کے اعتبار سے تازگی کا احساس ملتا ہے ۔۔۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی نعت کا ہر شعر نیا پن لیے ہوئے ہو۔۔۔ حمیرا راحت بحیثیتِ مجموعی ایک زیرک شاعرہ ہیں۔ اُن میں اُپج کی رُمق نظر آتی ہے ۔۔۔ اُن کی نعتوں کی فکری اور اسلوبی رُوح متحرک ہے وہ ایک زندہ معاشرے کی حسّاس شاعرہ ہیں''
حسن اکبر کمال اپنی رائے کا یُوں اظہار کرتے ہیں''اُن کی نعت عقیدت، محبت، خلوصِ فکر اور شدّتِ احساس سے معمور ہے۔ سادہ بیانی اس کا زیور ہے، پُر تاثیر لفظیات حسنِ ہُنر اور نئی زمینوں میں ثنا گزاری تخلیقی صلاحیت کی عکاّس، مجھے یقین ہے کہ حمیرا راحت خوبصورت نعتیں لکھنے کا یہ سعادت آغاز سفر جاری رکھیں گی اور ان کا پہلا ہی مجموعہٗ حمد و نعت ادبی حلقوں میں پذیرائی سے نوازا جائے گا''
خود میں اس کتاب سے پہلے بھی ان کے ایک مجموعہ نظم و غزل کے لیے فلیپ لکھ چکا ہوں اور اس حوالے سے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے شعری مضامین اور پیرائیہ اظہار دونوں کے حوالے سے وہ مصّدقہ اور مروّجہ شعری معیارات پر پورا اُترتی ہیں، اپنی غزل اور نظم میں بھی وہ ایک لڑکی سے زیادہ ایک عورت بلکہ ''خاتون کے لہجے میں بات کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔گریز، رکھ رکھاؤ اور یہ سنبھلا ہوا انداز بیک وقت فطری بھی ہے اور اُس تربیت کا عکاس بھی جو ذہنی اور معاشرتی طور پر اُن کے خاندان، ماحول اور خود ان کی اپنی ذات کے اندرونی ٹھہراؤ کی وجہ سے انھیں حاصل ہوئی ہے، ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ جدید شعرا میں ( مرد اور عورت کا تقسیم سے قطع نظر) یہ فکری توازن ایسا ہے جو جلد یا بدیر کسی شاعر کو خارج سے باطن اور دنیا سے دین کی طرف لے جاتا ہے۔
حمیرا راحت کی نعتیہ شاعری میں اُن کی حرمین شریفین اور ان سے متعلق دیگر مقامات کی زیارات کے حوالے بہت نمایاں ہیں اور بلا شبہ یہ ایسا رُوح پَرور تجربہ ہے کہ جو انسان کی کایا پلٹ دیتا ہے اور اگر زائر حمیرا راحت جیسا ہو کہ جو حضوری سے قبل ہی اس کی کیفیتوں کے تصور سے سرشار رہے تو بات کچھ اور ہو جاتی ہے۔ نورِ ازل سے پُھوٹنے والی جس روشنی تک رسائی کی رُوداد اس مجموعے میں قلم بند کی گئی ہے اُس کے رُوپ دیکھنے والی آنکھوں کی تعداد اور استعداد سے کہیں زیادہ ہیں شائد اسی لیے غالبؔ نے کہا تھا کہ
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
آخر میں میں حمیر ا کی وہ نظم جو اس کتاب کا ایک نا مکمل اختتامیہ بھی ہے درج کرتا ہوں کہ یہ ''آرزو'' ایسی ہے جو نکلی تو ایک دل سے ہے مگر اس پر ''آمین'' کہنے والوں کی تعداد شمار سے باہر ہے۔
آنسوؤں کو لباس کرتے ہوئے
اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے
آج آئی ہوں آپؐ کے در پر
ڈگمگاتی ہوئی، جھکائے سر
اک نظر آپؐ کی اگر مل جائے
مہربانی میں یہ اگر ڈَھل جائے
دل میں اپنے میں روشنی بَھر لوں
عہد خود اپنے آپ سے کر لُوں
سچ کے اُس راستے پہ چلنے کا
جو مری عاقبت سدھارے گا
ساری دُنیا کو چھوڑ آئی ہُوں
سارے رشتوں کو توڑ آئی ہوں
اپنی نگری میں ایک گھر دے دیں
یا مجھے ایسا اک سفر دے دیں
جو مجھے سب سے دُور لے جائے
میرے ربّ کے حضور لے جائے
ابرِ رحمت ملے مدینے میں
قبر میر ی بنے مدینے میں
نعت کا دربار ایسا ہے کہ بقول شاعر
ادب گاہ ہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفَس گُم کردہ می آید جُنید و بایزید ایں جا
یوں تو اسلامی تاریخ میں نعت کا آغاز رسول کریمؐ کے زمانے میں ہی نہ صرف ہو گیا تھا بلکہ اس میں کچھ ایسے گراں قدر صحابہ کے اسمائے گرامی بھی شامل ہیں جن کی نعتیہ شاعری کے علاوہ اُن کا کہا ہوا کوئی اور کلام یا تو موجود نہیں یا محفوظ نہیں۔ عربی سے یہ روایت فارسی اور ترکی نژاد زبانوں سے ہوتی ہوئی برصغیر میں آئی اور پھر یہاں کی مختلف زبانوں اور بولیوں کے ساتھ ساتھ اُس مخلوط زبان تک آئی جسے فی زمانہ اُردو کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جدید ریسرچ کے مطابق نعت کی صنف میں شاعری برصغیر کی بہت سی ایسی زبانوں میں بھی کی گئی ہے جن کے بارے میں عام لوگوں کو تو کیا بہت سے ادبی موٗرخین اور محققین کو بھی واضح اور باقاعدہ معلومات نہیں ہیں۔یہ زبانیں زیادہ تر اُن علاقوں کی ہیں جن میں مسلمان کبھی اکثریت میں نہیں رہے، مثال کے طور پر تمل ناڈ، کنٹر، تیلیگو، ملیالم، گجراتی اور اُڑی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
جہاں تک اُردو میں نعت کی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ یہ زبان خود ہے یہ اور بات ہے کہ اس میں تسلسل اور باقاعدگی اُنیسویں صدی میں اور مقداری اعتبار سے وسعت اور پھیلاؤ بیسویں صدی میں پیدا ہوئے اور اب گزشتہ نصف صدی سے تو گویا اِس مقدس اور محبوب صنفِ سخن پر بہار کا موسم چل رہا ہے کہ نعتیہ مجموعے نہ صرف دھڑا دھڑ چَھپ رہے ہیں بلکہ معیاری اعتبار سے بھی بالعموم اُن تقاضوں کو پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کا یہ موضوع مکلّف بھی ہے اور متقاضی بھی۔
''رسائی روشنی تک'' حمیر ا راحت کا اوّلین مجموعہ نعت ہے مگر اُن کا نام ادبی حلقوں کے لیے نیا نہیں کہ اُن کا شمار جدید نسل کی معتبر اور باصلاحیت شاعرات میں ہوتا ہے اور گزشتہ کم و بیش بیس برس سے ان کا کلام ادبی رسائل میں باقاعدگی سے نہ صرف چھپتا رہا ہے بلکہ بہت توجہ اور دلچسپی سے پڑھا بھی جاتا ہے اور ان کے ایک سے زیادہ شعری مجموعے بھی شائع ہو کر مقبولت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ تصوف اور بالخصوص مولانا روم کے حوالے سے ''پیام رُومی'' کی باقاعدہ اشاعت جن رجحانات کی نشاندہی کر رہی تھی، یہ نعتیہ مجموعہ ''رسائی روشنی تک'' گویا اُن کی عملی تفسیر ہے۔ محسن اعظم محسن ملیح آبادی اس کتاب کے فلیپ میں شاعرہ کو یوں دادِ سُخن دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ
''اُن کے یہاں فکر و اسلوب کے اعتبار سے تازگی کا احساس ملتا ہے ۔۔۔ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی نعت کا ہر شعر نیا پن لیے ہوئے ہو۔۔۔ حمیرا راحت بحیثیتِ مجموعی ایک زیرک شاعرہ ہیں۔ اُن میں اُپج کی رُمق نظر آتی ہے ۔۔۔ اُن کی نعتوں کی فکری اور اسلوبی رُوح متحرک ہے وہ ایک زندہ معاشرے کی حسّاس شاعرہ ہیں''
حسن اکبر کمال اپنی رائے کا یُوں اظہار کرتے ہیں''اُن کی نعت عقیدت، محبت، خلوصِ فکر اور شدّتِ احساس سے معمور ہے۔ سادہ بیانی اس کا زیور ہے، پُر تاثیر لفظیات حسنِ ہُنر اور نئی زمینوں میں ثنا گزاری تخلیقی صلاحیت کی عکاّس، مجھے یقین ہے کہ حمیرا راحت خوبصورت نعتیں لکھنے کا یہ سعادت آغاز سفر جاری رکھیں گی اور ان کا پہلا ہی مجموعہٗ حمد و نعت ادبی حلقوں میں پذیرائی سے نوازا جائے گا''
خود میں اس کتاب سے پہلے بھی ان کے ایک مجموعہ نظم و غزل کے لیے فلیپ لکھ چکا ہوں اور اس حوالے سے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے شعری مضامین اور پیرائیہ اظہار دونوں کے حوالے سے وہ مصّدقہ اور مروّجہ شعری معیارات پر پورا اُترتی ہیں، اپنی غزل اور نظم میں بھی وہ ایک لڑکی سے زیادہ ایک عورت بلکہ ''خاتون کے لہجے میں بات کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔گریز، رکھ رکھاؤ اور یہ سنبھلا ہوا انداز بیک وقت فطری بھی ہے اور اُس تربیت کا عکاس بھی جو ذہنی اور معاشرتی طور پر اُن کے خاندان، ماحول اور خود ان کی اپنی ذات کے اندرونی ٹھہراؤ کی وجہ سے انھیں حاصل ہوئی ہے، ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ جدید شعرا میں ( مرد اور عورت کا تقسیم سے قطع نظر) یہ فکری توازن ایسا ہے جو جلد یا بدیر کسی شاعر کو خارج سے باطن اور دنیا سے دین کی طرف لے جاتا ہے۔
حمیرا راحت کی نعتیہ شاعری میں اُن کی حرمین شریفین اور ان سے متعلق دیگر مقامات کی زیارات کے حوالے بہت نمایاں ہیں اور بلا شبہ یہ ایسا رُوح پَرور تجربہ ہے کہ جو انسان کی کایا پلٹ دیتا ہے اور اگر زائر حمیرا راحت جیسا ہو کہ جو حضوری سے قبل ہی اس کی کیفیتوں کے تصور سے سرشار رہے تو بات کچھ اور ہو جاتی ہے۔ نورِ ازل سے پُھوٹنے والی جس روشنی تک رسائی کی رُوداد اس مجموعے میں قلم بند کی گئی ہے اُس کے رُوپ دیکھنے والی آنکھوں کی تعداد اور استعداد سے کہیں زیادہ ہیں شائد اسی لیے غالبؔ نے کہا تھا کہ
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
آخر میں میں حمیر ا کی وہ نظم جو اس کتاب کا ایک نا مکمل اختتامیہ بھی ہے درج کرتا ہوں کہ یہ ''آرزو'' ایسی ہے جو نکلی تو ایک دل سے ہے مگر اس پر ''آمین'' کہنے والوں کی تعداد شمار سے باہر ہے۔
آنسوؤں کو لباس کرتے ہوئے
اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے
آج آئی ہوں آپؐ کے در پر
ڈگمگاتی ہوئی، جھکائے سر
اک نظر آپؐ کی اگر مل جائے
مہربانی میں یہ اگر ڈَھل جائے
دل میں اپنے میں روشنی بَھر لوں
عہد خود اپنے آپ سے کر لُوں
سچ کے اُس راستے پہ چلنے کا
جو مری عاقبت سدھارے گا
ساری دُنیا کو چھوڑ آئی ہُوں
سارے رشتوں کو توڑ آئی ہوں
اپنی نگری میں ایک گھر دے دیں
یا مجھے ایسا اک سفر دے دیں
جو مجھے سب سے دُور لے جائے
میرے ربّ کے حضور لے جائے
ابرِ رحمت ملے مدینے میں
قبر میر ی بنے مدینے میں