مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی یاد میں
5 جولائی کا رونا ابھی ’’مکیا‘‘ نہیں تھا کہ 9 جولائی آگئی۔ 5 جولائی کو جنرل ضیا الحق نے جمہوریت پر شب خون مارا۔۔۔
5 جولائی کا رونا ابھی ''مکیا'' نہیں تھا کہ 9 جولائی آگئی۔ 5 جولائی کو جنرل ضیا الحق نے جمہوریت پر شب خون مارا اور آمریت کی طویل رات چھا گئی۔ 9 جولائی کا تعلق بھی ایک حوالے سے فوجی جرنیل فیلڈ مارشل ایوب خان سے بنتا ہے۔ 9 جولائی کے دن بانی پاکستان کی باعمل بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئی تھیں۔ پاکستان پر فوجی راج کی بنیاد رکھنے والے جرنیل ایوب خان سے نجات دلانے کے لیے مادر ملت 1964 کے صدارتی انتخاب کے لیے میدان میں اتری تھیں۔ مگر فیلڈ مارشل نے دھاندلی دھونس اور دھن سے الیکشن جیت لیا اور قائد اعظم کی بہن کو ہرا دیا۔ حبیب جالب قدم بہ قدم مادر ملت کے ساتھ تھا۔ الیکشن کے نتیجے پر جالب نے لکھا تھا۔
دھاندلی' دھونس' دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا
ہمارے اپنے ہر دس سال بعد ہمیں ہی فتح کرکے فتح کے بگل بجاتے رہے اور جمہور آنسو بہاتی رہی، آمر کے حصے دار بن کر ''زمینوں'' اور ''مشینوں'' کے قابض اور مضبوط ہوتے گئے اور ملک اور کمزور ہوتا چلا گیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا تھا اور 1964 میں پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان سے ملک واپس دلانے کے لیے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح میدان عمل میں کودی تھیں، مادر ملت کی للکار کا کیا عالم تھا، ذرا حبیب جالب سے سنیے۔ پورا پاکستان مادر ملت کے ساتھ تھا۔ لاکھوں کے جلسے تھے اور مادر ملت تھیں۔
ایک آواز سے ایوان لرز اٹھے ہیں
لوگ جاگے ہیں تو سلطان لرز اٹھے ہیں
حبیب جالب کے سادہ لفظوں والی شاعری، عوام کے دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی اور مادر ملت کے لیے عوامی جلسوں میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں آتے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اور اس کے حواریوں کو اپنی شکست فاش صاف نظر آرہی تھی۔ یہ سب دیکھ کر حکمران اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے، عوامی شاعر حبیب جالب کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ لاکھوں عوام مادر ملت کی تقریر اور حبیب جالب کی شاعری سننے کے لیے جلسہ گاہوں میں آتے تھے۔ حکومت کے جو بس میں تھا وہ اس نے کر لیا کہ جالب کو اقدام قتل کی دفعہ 207 کے تحت سات سال قید بامشقت سناکر مادر ملت کی تقریر سے پہلے حبیب جالب کی آواز میں ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے نظمیں سنائی جاتیں، جوش و ولولہ اور بھی بڑھتا۔
پورے پاکستان کے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں میں مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین سر شام روشن کردیا جاتا۔ میں نے خود کراچی شہر میں یہ منظر دیکھا ہے کہ برنس روڈ، صدر ، ریگل، سعید منزل،جوبلی، رنچھوڑ لائن، لیاری، لانڈھی، کورنگی، ڈرگ کالونی (اب شاہ فیصل کالونی) محلے محلے لالٹینین گھروں کے دروازوں، کھڑکیوں پر لٹکتی نظر آتی تھیں۔ مادر ملت جس شہر جلسہ کرنے جاتیں، پورا شہر جلسہ گاہ بن جاتا تھا۔ پشاور کا ولی خان، اجمل خٹک، ارباب سکندر خلیل، ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالستار خان نیازی، کوئٹہ کے میر غوث بخش بزنجو اور محمود خان اچکزئی ، لاہور کے میاں محمود علی قصوری، ممتاز محمد خان دولتانہ، ملک غلام جیلانی، بیگم افتخار الدین، محمد حسین چٹھہ، ملتان کے علاقے سے نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ سندھ کے عبدالحمید جتوئی، رسول بخش تالپور، کراچی کے محمود الحق عثمانی، مولانا شاہ احمد نورانی، حسن اے شیخ ایڈووکٹ، چوہدری محمد علی، بنگال سے خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، یہ تمام رہنما، مادرملت کا ساتھ دے رہے تھے۔ باقی تمام ابن الوقت قسم کے لوگ اپنے غنڈوں بدمعاشوں کے ساتھ جنرل ایوب کے حلوے مانڈے کھا رہے تھے۔ حکمرانوں کے ساتھ بندوقیں تھیں، زمینوں، مشینوں والے تھے اور انھوں نے خزانوں کے منہ کھولے ہوئے تھے۔ ادھر قائد کی بہن کے ساتھ تمام صف اول کے نامور سیاسی رہنما تھے اور عوام تھے۔ مگر آمروں، جابروں، غاصبوں نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے شانہ بہ شانہ چلنے والی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ''جھرلو'' کے ذریعے ہرادیا۔ مادر ملت الیکشن ہارگئیں۔ مگر ملک میں ہونے والے عوامی احتجاج نے جنرل ایوب کو بھی چین سے اقتدار کی سند پر نہ بیٹھنے دیا اور پھر ''بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے''۔ جنرل ایوب عوامی احتجاج کے آگے سرنڈر ہو گئے اور اقتدار فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو دے گئے۔
محترمہ فاطمہ جناح نے موچی گیٹ اور باغ جناح لاہور میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ (عبداللہ ملک کی رپورٹ) ''عوام اپنے حقوق کی بحالی کے لیے متحد ہوکر راستے کی تمام رکاوٹیں دور کردیں۔ عوام پھر ایک نازک صورت حال سے دوچار ہیں۔ عوام کو اہم فیصلہ کرنا ہے اور ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ جن سے ان مقاصد اور نظریات کی تکمیل ہوسکے، جن کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔'' مادر ملت نے کہا ''پاکستان معاشی انصاف اور مساوات کے لیے معرض وجود میں آیا ہے عوام بلاخوف و خطر جمہوریت کی جدوجہد میں شریک ہوں ، کوئی قوت جمہوریت کی بحالی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی''۔ انھوں نے حکمرانوں سے کہا ''اگر مجھے شکست دینا اتنا ہی آسان ہے، تو حکمران پریشان کیوں ہیں؟''
مادر ملت کے ارشادات آج بھی عوام کے لیے اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اجالا ہیں۔ ہم مادر ملت کے افکار کی روشنی میں آج بھی یکجا ہوسکتے ہیں۔ اپنے ذہن و دل شفاف آئینہ بناسکتے ہیں، مادر ملت کے انتقال پر حبیب جالب نے فی البدیہہ تین اشعار کہے تھے، پیش خدمت ہیں :
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
دیکھنے کو تو ہزاروں ہیں' مگر کتنے ہیں
ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکانے والے
مر کے بھی مرتے ہیں کب مادر ملت کی طرح
شمع تاریک فضاؤں میں جلانے والے
دھاندلی' دھونس' دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا
ہمارے اپنے ہر دس سال بعد ہمیں ہی فتح کرکے فتح کے بگل بجاتے رہے اور جمہور آنسو بہاتی رہی، آمر کے حصے دار بن کر ''زمینوں'' اور ''مشینوں'' کے قابض اور مضبوط ہوتے گئے اور ملک اور کمزور ہوتا چلا گیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا تھا اور 1964 میں پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان سے ملک واپس دلانے کے لیے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح میدان عمل میں کودی تھیں، مادر ملت کی للکار کا کیا عالم تھا، ذرا حبیب جالب سے سنیے۔ پورا پاکستان مادر ملت کے ساتھ تھا۔ لاکھوں کے جلسے تھے اور مادر ملت تھیں۔
ایک آواز سے ایوان لرز اٹھے ہیں
لوگ جاگے ہیں تو سلطان لرز اٹھے ہیں
حبیب جالب کے سادہ لفظوں والی شاعری، عوام کے دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی اور مادر ملت کے لیے عوامی جلسوں میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں آتے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اور اس کے حواریوں کو اپنی شکست فاش صاف نظر آرہی تھی۔ یہ سب دیکھ کر حکمران اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے، عوامی شاعر حبیب جالب کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ لاکھوں عوام مادر ملت کی تقریر اور حبیب جالب کی شاعری سننے کے لیے جلسہ گاہوں میں آتے تھے۔ حکومت کے جو بس میں تھا وہ اس نے کر لیا کہ جالب کو اقدام قتل کی دفعہ 207 کے تحت سات سال قید بامشقت سناکر مادر ملت کی تقریر سے پہلے حبیب جالب کی آواز میں ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے نظمیں سنائی جاتیں، جوش و ولولہ اور بھی بڑھتا۔
پورے پاکستان کے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں میں مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین سر شام روشن کردیا جاتا۔ میں نے خود کراچی شہر میں یہ منظر دیکھا ہے کہ برنس روڈ، صدر ، ریگل، سعید منزل،جوبلی، رنچھوڑ لائن، لیاری، لانڈھی، کورنگی، ڈرگ کالونی (اب شاہ فیصل کالونی) محلے محلے لالٹینین گھروں کے دروازوں، کھڑکیوں پر لٹکتی نظر آتی تھیں۔ مادر ملت جس شہر جلسہ کرنے جاتیں، پورا شہر جلسہ گاہ بن جاتا تھا۔ پشاور کا ولی خان، اجمل خٹک، ارباب سکندر خلیل، ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالستار خان نیازی، کوئٹہ کے میر غوث بخش بزنجو اور محمود خان اچکزئی ، لاہور کے میاں محمود علی قصوری، ممتاز محمد خان دولتانہ، ملک غلام جیلانی، بیگم افتخار الدین، محمد حسین چٹھہ، ملتان کے علاقے سے نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ سندھ کے عبدالحمید جتوئی، رسول بخش تالپور، کراچی کے محمود الحق عثمانی، مولانا شاہ احمد نورانی، حسن اے شیخ ایڈووکٹ، چوہدری محمد علی، بنگال سے خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی، یہ تمام رہنما، مادرملت کا ساتھ دے رہے تھے۔ باقی تمام ابن الوقت قسم کے لوگ اپنے غنڈوں بدمعاشوں کے ساتھ جنرل ایوب کے حلوے مانڈے کھا رہے تھے۔ حکمرانوں کے ساتھ بندوقیں تھیں، زمینوں، مشینوں والے تھے اور انھوں نے خزانوں کے منہ کھولے ہوئے تھے۔ ادھر قائد کی بہن کے ساتھ تمام صف اول کے نامور سیاسی رہنما تھے اور عوام تھے۔ مگر آمروں، جابروں، غاصبوں نے تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے شانہ بہ شانہ چلنے والی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ''جھرلو'' کے ذریعے ہرادیا۔ مادر ملت الیکشن ہارگئیں۔ مگر ملک میں ہونے والے عوامی احتجاج نے جنرل ایوب کو بھی چین سے اقتدار کی سند پر نہ بیٹھنے دیا اور پھر ''بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے''۔ جنرل ایوب عوامی احتجاج کے آگے سرنڈر ہو گئے اور اقتدار فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو دے گئے۔
محترمہ فاطمہ جناح نے موچی گیٹ اور باغ جناح لاہور میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ (عبداللہ ملک کی رپورٹ) ''عوام اپنے حقوق کی بحالی کے لیے متحد ہوکر راستے کی تمام رکاوٹیں دور کردیں۔ عوام پھر ایک نازک صورت حال سے دوچار ہیں۔ عوام کو اہم فیصلہ کرنا ہے اور ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ جن سے ان مقاصد اور نظریات کی تکمیل ہوسکے، جن کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔'' مادر ملت نے کہا ''پاکستان معاشی انصاف اور مساوات کے لیے معرض وجود میں آیا ہے عوام بلاخوف و خطر جمہوریت کی جدوجہد میں شریک ہوں ، کوئی قوت جمہوریت کی بحالی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی''۔ انھوں نے حکمرانوں سے کہا ''اگر مجھے شکست دینا اتنا ہی آسان ہے، تو حکمران پریشان کیوں ہیں؟''
مادر ملت کے ارشادات آج بھی عوام کے لیے اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اجالا ہیں۔ ہم مادر ملت کے افکار کی روشنی میں آج بھی یکجا ہوسکتے ہیں۔ اپنے ذہن و دل شفاف آئینہ بناسکتے ہیں، مادر ملت کے انتقال پر حبیب جالب نے فی البدیہہ تین اشعار کہے تھے، پیش خدمت ہیں :
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
دیکھنے کو تو ہزاروں ہیں' مگر کتنے ہیں
ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکانے والے
مر کے بھی مرتے ہیں کب مادر ملت کی طرح
شمع تاریک فضاؤں میں جلانے والے