گرمیاں اور کارِ طفلاں

ماہ جولائی کے ابتدائی دن تھے، سورج سوا نیزے پرتھا، میں مارکیٹ کے ایک اسٹور سے کچھ خرید کر باہر نکلا تو دیکھا...

h.sethi@hotmail.com

ماہ جولائی کے ابتدائی دن تھے، سورج سوا نیزے پرتھا، میں مارکیٹ کے ایک اسٹور سے کچھ خرید کر باہر نکلا تو دیکھا کہ دو نوجوان ایک دوسرے پر گھونسوں کی بارش کر رہے ہیں اور چند لوگ خود کو ان سے بچانے اور انھیں ایک دوسرے سے چھڑانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تماش بین توہم سب ہی ٹھہرے، میں نے بھی وجہ تصادم جاننے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ ایک نوجوان نے گردن گھما کر دوسرے جوان کو گزرتے ہوئے بلاوجہ گھورا تو دوسرے نے درشتی سے پوچھا ''سالے تمہیں کوئی تکلیف ہے۔''

گھور کر گزرنے والے کو یہ رشتہ گالی بن کر لڑا اور اس نے جواباً زیادہ نا پسندیدہ رشتے کے ذریعے جواب دینا پسند کیا، بس پھر کیا تھا بغیر وقت ضایع کیے دونوں نوجوان ایک دوسرے پر حملہ آور ہو گئے۔ جب ان نوجوانوں سے کئی گنا طاقتور رہگیر نے دونوں کو ایک ایک تھپڑ رسید کر کے لڑائی ختم کرا کے ان سے اتنی گرمجوش مارکٹائی کا ماخذ معلوم کیا تو عقدہ کھلا کہ وہ شدید گرمی اور حبس سے تنگ آئے ہوئے تھے اور وہ اپنا اپنا موسم سے بیزاری کا غصہ مخواہ مخواہ ہی سہی ایک دوسرے پر اتارنے لگے تھے۔

موسم اور مزاج کے باہمی تعلق سے تو ہر باشعور بخوبی واقف ہے، اس کا عملی مظاہرہ ہر شخص سے غیر ارادی طور پر بھی ہوتا رہتا ہے، گو اس پر غور ہر کوئی نہیں کرتا۔ ایک موٹی مثال قابل ملاحظہ ہے کہ گرم ممالک کے حکمران گرمیوں میں سرد اور معتدل موسموں والے ممالک کے دورے تواتر سے کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ امراء اور کرپٹ بیورو کریٹ جن میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ دونوں کو شامل کیا جا سکتا ہے، اپنے غیر ممالک میں زیر تعلیم اور ملازم بچوں سے ملنے کثرت سے جاتے ہیں۔ وہاں فیملی گیٹ ٹو گیدر بھی ہو جاتی ہے اور اچھے موسم کا مزہ بھی لے لیا جاتا ہے۔ ایک دلچسپ حقیقت ہر کسی کے علم میں ہو گی کہ پاکستان کا غریب اور بے حیثیت شخص عموماً خراب موسم کی شکایت نہیں کرتا، شاید اس نے اکثر ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوا یہ فقرہ پڑھا ہوتا ہے ''پاس کر یا برداشت کر'' پاس وہ کر نہیں سکتے، اس لیے ان میں برداشت کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں ہوتا۔

گرم موسموں کے لوگ برائون کالے اور سیاہ کالے ہوتے ہیں، سرد موسم کے علاقوں میں رہنے والوں کے پاس زیادہ ورائٹی نہیں ہوتی، وہ اکثر سفید یا چتکبرے ہوتے ہیں جب کہ گرم علاقوں کے کئی لوگ گورے بھی ہوتے ہیں ، اس لحاظ سے گرم خطوں میں انسانی رنگوں کی ورائٹی زیادہ ہے۔ ظاہر ہے علاقے گرم ہوں تو وہاں کے باشندوں کی رگوں میں دوڑنے والا لہو بھی گرم ہو گا اور لوگ گرم مزاج اور شدت پسند ہوں گے، ان کے ماتھے پر غصہ آنکھوں میں لالی منہ پر گالی اور جیب یا ڈب میں دونالی ہونا کچھ بعید از قیاس نہ ہو گا۔

ابھی موسم کی تمازت میں حبس بھی شامل ہونا شروع ہوا ہے، اس لیے اس شعر کی نوبت نہیں آئی کہ لوگ حبس کی وجہ سے لو کی دعا مانگنا شروع کر دیں لیکن ان دنوں سوئی گیس کا بل اور جن گھروں میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی صرف جانے کے لیے آتی ہے ماہانہ بل کم آئے گا اور نہانے کے لیے گیزر چلائے بغیر گرم پانی ملے گا۔ بعض گھروں میں تو کیتلی میں نل کے پانی سے فی الفور چائے بھی بن سکتی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال کڑاکے دار اور عرق نچوڑ گرمی پڑے گی، آثار تو ایسے ہی ہیں لیکن پاکستان میں ایک معقول تعداد کے ہاں گرمی اور حبس نہیں آتے وہ ٹھنڈے گھروں سے باہر نکل کر ایئر کنڈیشنڈ کار میں پھر اپنے ٹھنڈے دفتر میں منتقل ہوتے اور جون جولائی کے مہینوں کو نزدیک پھٹکنے نہیں دیتے، اسی طرح دسمبر جنوری بھی ان سے کترا کے گزر جاتے ہیں۔

میں یہ کالم تحریر کرتے ہوئے اچانک لوڈ شیڈنگ کے باعث گرمی اور حبس کے علاوہ تاریکی کا شکار ہو گیا لیکن بجلی آنے پر ٹی وی آن کیا تو اسکرین سے ٹھنڈی خوشگوار ہوا کا جھونکا نکلتا دیکھ کر مسحور ہو گیا، سامنے UNO کا ہال تھا جہاں پاکستان کی بیٹی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں دہشت گردی کا نشانہ بن کر موت کو شکست دینے کے بعد صحت یاب ہو کر اپنی جدوجہد کا عزم دہرا رہی تھی۔ اس کی سولہویں سالگرہ کا یہ یاد گار دن تھا اور وہ کہہ رہی تھی کہ اسلام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کرنے والے اپنی خواتین اور ملک کی بچیوں کو تعلیم کے حصول سے روکنے والے بزدل، خدا اور اس کے رسول کے احکامات کی خلاف ورزی کے گنہگار ہیں اور وہ اسے اپنے انسانی اور دینی مشن سے نہیں روک سکتے، ملالہ کی سولہویں سالگرہ کی اس انوکھی تقریب سے نہیں روک سکتے، ملالہ کی سولہویں سالگرہ کی اس انوکھی تقریب سے ہمارے ملک کے حکمرانوں کو بچوں کی بطور خاص تعلیم سرکاری اسکولوں کی حالت زار اور استادوں کی اپنی اہلیت و تربیت کے علاوہ ان کی معاشی بہتری کے لیے توجہ دینی چاہیے۔ لوگوں نے دیکھ لیا کہ عزم و ارادہ راسخ ہو تو اللہ یقین اور ایمان رکھنے والوں کو بے دست و پا نہیں چھوڑتا۔


ابتدائی تعلیم و تربیت چونکہ میرے نزدیک ایک لازمی و بنیادی ضرورت ہے اس لیے آج کل کے سرکاری اسکولوں کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ سعدی شیرازی کا شعر یاد آجاتا ہے

گرہمی مکتب وہمی ملا

کار طفلاں تمام خواہدشد

میں نے بعض دوستوں کو اس میں تحریف کر کے یوں پڑھتے پایا ہے

گرہمی رہبرو ہمی ایوان

کار نسلاں تمام خواہد شد

باقی رہ گئی گرم موسم کی بات تو؎

گرمیاں تو ہوتی ہیں گرمیوں کے موسم میں
Load Next Story