تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
وہ لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات لاہور کے گورنر ہاؤس میں ہوئی تھی
اسلم گورداس پوری کی اپنی نئی آپ بیتی '' تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے'' 325 صفحات پر مشتمل ہے۔ اسلم گورداس پوری نے اپنے خاندان کی تاریخ بچپن اور نوجوانی کے حصے کمیونسٹ تحریک سے منسلک ہونے، عوامی رہنما ذوالفقار علی بھٹوکی شخصیت سمیت اورکئی اہم تاریخی واقعات اپنی سوانح عمری میں خوبصورت سلیس اور آسان اردو میں اس کتاب میں منتقل کردیے۔ اسلم گورداس پوری نے کتاب کے پہلے باب '' تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے'' میں اپنا خاندانی پس منظر بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں آٹھ بچوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔ میرے باپ کی کثیر الاود ہونے کی نفسیاتی وجہ بھی تھی وہ وجہ یہ تھی کہ میرے والد میرے دادا کی اکلوتی اولاد تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میرے والد صاحب بہت حسین و جمیل انسان تھے۔ ہمارے گاؤں سات کو ہا کے آس پاس کے دیگر گاؤں میں بھی ان کے حسن کے چرچے تھے۔ میرے دادا عاشق مزاج انسان تھے۔ میرے دادا کے والد کوتوال تھے۔ ہمارا گاؤں سات کوہا ان کے سسرال کا گاؤں تھا ۔ دادا کے والد کے انتقال پر داد ا کو پولیس میں بھرتی کرلیا گیا۔ وہ ایک شاعر طبع انسان تھے اور ہیر وارث شاہ پڑھنے میں کمال رکھتے تھے۔ وہ پٹیالہ کے قریب ایک بزرگ کی درسگاہ یا کسی درویش خانے سے منسلک تھے۔
پاکستانی فلم انڈسٹری میں ککے زئی برادری کا ہمیشہ ہولڈ رہا ہے۔ کئی ایک قریبی رشتے داراس وقت فلم انڈسٹری کا حصہ تھے۔ اس وقت کے فلم ڈائریکٹر اور بہنوئی ملک امین نے مشورہ دیا کہ تم ایکٹنگ کے ساتھ ساتھ ڈائریکشن سیکھو۔ ملک امین نے اپنی فلم ''ماں ، بیٹی'' میں آغا طالش کے ساتھ کردار دیا۔ اس فلم میں اکمل اور مینا کماری فلم کے مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میری ملاقات شاد امرتسری اور شہزاد سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ فلم انڈسٹری تو ان پڑھوں کی ہے مگر ایک ایسا شخص فلم ڈائریکٹ کر رہا ہے جو ملک کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا انسان ہے۔ یوں شاد صاحب ظہیرکاشمیری کے پاس گئے۔ ظہیر صاحب نے کہا ''کیوں صاحبزادے تمہارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے جو اس نو عمری میں اس بربادی کے راستے پر چل نکلے ہو۔'' وہ لکھتے ہیں کہ '' ظہیر کاشمیری کا انقلاب تو گویا ان کا اصل مضمون فلسفہ تھا۔ وہ راگ داری کے علم سے قدرے واقفیت رکھتے تھے۔ تمام بڑے بڑے کلاسیکل گائیک ان کے سامنے سنبھل کرگایا کرتے تھے۔ اسلم نے شاگردی میں آنے کا خوبصورت منظر اس کتاب میں بیان کیا اور ظہیر کاشمیری نے اسلم صاحب سے حلف لیا تھا ۔ اس حلف میں یہ بھی تحریر تھا کہ '' ہر قسم کی بد صورتی سے نفرت کروں گا، ہر طرح کی خوبصورتی سے محبت کروں گا، ہر قسم کے مذہبی تعصب سے پاک زندگی گزاروں گا۔ ہر طرح کے ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھاؤں گا۔ ''
اپنے دوست عنایت اﷲ خان آتش لدھیانوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ تقریباً 20 سال تک اورینٹل کالج اور پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم رہا۔ ملک غلام یزدانی عمر میں مجھ سے بڑا تھا مگر میری دوستی کا اس کے ساتھ انداز ہم عمروں کی طرح ہی کا تھا۔ 1946ء میں صدر ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے انتخاب کا اعلان ہوا ۔ یزدانی مجھے مسلم لیگ کے دفتر لے گیا، وہاں میری ملاقات حنیف رامے کے ساتھ ہوئی ۔ ان دونوں حضرات کی تعریف وتوصیف نے مجھے ایوب خان کی حمایت میں شعر کہنے پر آمادہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایوب خان کے دورہ چین کی وجہ سے ترقی پسند اور امریکی سامراج کی نظریاتی مخالفت، انقلابی سیاسی جماعتوں نے مادر ملت کے مقابلے میں ایوب خان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ گورداس پوری لکھتے ہیں کہ ان دنوں میری ایسوسی ایشن چین نواز دانشوروں کے ساتھ تھی۔ لہٰذا چین نواز دانشوروں کے فیصلے کے تحت میں بھی ایوب خان کا حامی بن گیا۔ یوں مسلم لیگی رہنما خدا بخش بچہ نے اسلم گورداس پوری کا جنرل ایوب خان سے تعارف کیا اور ان کے جلسے میں ایک نظم پڑھنے پر 2 ہزار روپے ملے،یوں پھر وزیر خوراک خدا بخش بچہ نے انسپکٹر کی نوکری کے تقرر کا پروانہ دے دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں کبھی دفتر نہیں جاتا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات لاہور کے گورنر ہاؤس میں ہوئی تھی۔ گورنر ہاؤس میں ماہ جنوری 1966ء میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو اسٹیج پر جنرل ایوب خان کے ساتھ نہیں بٹھایا گیا۔ بھٹو کو اسٹیج کے ایک طرف کرسی پر بٹھایا گیا۔ گورنر ہاؤس کی نشست بندی کا یہ امتیازی انداز ایوب اور بھٹو کے اختلافات کا بہت نمایاں ثبوت تھا۔ اس تقریب میں ایک مسلم لیگی کارکن محمد حسین نے اس تقریب کا تمام سلسلہ درہم برہم کرتے ہوئے اپنے مخصوص ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں گورنر آف کالا باغ کے حق میں تقریر کرنا شروع کی۔ ایوب خان اٹھ کھڑا ہوا اور غصے کے عالم میں گورنر ہاؤس کی عمارت کی طرف چل دیا۔ کالا باغ بھی بھاگ کر ایوب خان کو گورنر ہاؤس کے اندر لے گیا۔ گورنر ہاؤس کے سبزہ زار پر ذوالفقار علی بھٹو اور عوام باقی رہ گئے۔کچھ لوگوں نے بھٹوکے نعرے لگانے شروع کردیے۔
میں نے بھٹوکوکندھوں پر اٹھا لیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو ان دنوں مکمل شباب کے عالم میں تھے۔ میں نے اس قدر خوش لباس انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنی کشتیاں جلانے کا اعلان بعد میں کیا تھا، مگر میں نے اپنی کشتیاں اس دن ہی جلادی تھیں جس دن ان کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو بنانے کا خیال ابھی بھٹوکے ذہن میں ہی تھا جب ان کے ساتھ دوستی اور محبت کا آغاز ہوا تھا۔ میرے اور ان کے درمیان پیغام رسانی کا سلسلہ مرحوم شیخ صفدر علی کے ذریعے ہی ہوا کرتا تھا۔ شیخ صفدر نے مجھے پیغام دیا کہ بھٹو صاحب ہوٹل میں یاد کررہے ہیں تو میں ان کے پاس ہوٹل پہنچ گیا۔ بھٹو نے اپنی بات کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ '' دنیا میں کوئی تبدیلی اورکوئی انقلاب نوجوانوں کے بغیر نہیں آسکتا'' یوں بھٹو کے ساتھ میرا سیاسی سفر شروع ہوا۔ لارڈ ہوٹل میں ایوب خان کی کتاب کے خلاف نظم پڑھی تو ایوب حکومت کے صبرکا پیمانہ جھلک گیا ۔ میرے پیچھے سی آئی ڈی لگادی گئی۔ جس روز میں اکیلا ہوتا سائیکل والے مجھ سے ٹکرا جاتے ۔اسلم گورداس پوری نے ایوب خان کے خلاف تحریک کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے اس پہلے اجلاس میں شرکت کرنے والے مندوبین کی تعداد بمشکل دو سو افراد پر مشتمل تھی۔
ان افراد کی آزادانہ اجتماعی جمہوری رائے کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئر پرسن ، جے اے رحیم کو سیکریٹری جنرل، پنجاب کا صدر شیخ محمد رشید کو بنایا گیا ۔ اسی اجلاس میں مجھے چیئرمین بھٹو نے ''شاعر عوام'' کا خطاب دیا تھا ۔ وہ لکھتے ہیںکہ شہید بھٹوکا سب سے بڑا کارنامہ عام لوگوں کو ان کے حقوق اور ان کی ذات کے شعورکا احساس دلانا تھا ۔ بھٹو خاندانی طور پر مورثی طور پر سیاسی طور پر اور فطری طور پر ایک جاگیردار حاکمانہ طبیعت کے انسان تھے۔ اپنی علم و لیاقت کے اعتبار سے خود پسند انسان تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک حادثاتی اور اتفاقی اقتدار مل جانے کی وجہ سے پارٹی کے کردار وعمل کی صورت حال ہی تبدیل ہوگئی۔ اسلم لکھتے ہیں کہ معراج محمد خان کے کہنے پر بھٹو سے کہا کہ '' سر مجھے پارٹی کا کوئی عہدہ دیا جائے۔'' انھوں نے کہا کہ ''میں قائد عوام تم شاعر عوام ہو، اس سے بڑا تمہیں کیا عہدہ چاہیے'' مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کا کوئی جاگیردار پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر بننے کو تیار نہیں تھا تو مجھے صدر بنایا گیا۔ رانا شوکت محمود میرے ساتھ پنجاب کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر کام کرتے رہے جس کی پاداش میں انھیں اور ان کی بیگم ناصرہ شوکت کو شاہی قلعے میں قید رکھا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب بھٹو کو پھانسی دی جانے والی تھی تو اسلم گورداس پوری نے اپنی جدوجہد کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسلم صاحب 1988ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت میاں نواز شریف کو پورا موقع دیا گیاکہ وہ اپنی حکومت بنالے۔ اس کتاب میں کئی اہم رہنماؤں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ لارنس گارڈن کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور ایک باب تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے حوالے سے بھی ہے اور پھر اس کتاب میں پسندیدہ لوگوں کی فہرست بھی منسلک ہے۔ یہ کتاب ایک ایسے شخص کی سوانح عمری ہے جس نے ہمیشہ علم اور سچائی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور ہر کام سچے دل سے کیا۔ فکشن ہاؤس لاہور نے یہ کتاب شایع کی ہے، اس کی قیمت 800 روپے ہے۔
پاکستانی فلم انڈسٹری میں ککے زئی برادری کا ہمیشہ ہولڈ رہا ہے۔ کئی ایک قریبی رشتے داراس وقت فلم انڈسٹری کا حصہ تھے۔ اس وقت کے فلم ڈائریکٹر اور بہنوئی ملک امین نے مشورہ دیا کہ تم ایکٹنگ کے ساتھ ساتھ ڈائریکشن سیکھو۔ ملک امین نے اپنی فلم ''ماں ، بیٹی'' میں آغا طالش کے ساتھ کردار دیا۔ اس فلم میں اکمل اور مینا کماری فلم کے مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میری ملاقات شاد امرتسری اور شہزاد سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ فلم انڈسٹری تو ان پڑھوں کی ہے مگر ایک ایسا شخص فلم ڈائریکٹ کر رہا ہے جو ملک کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا انسان ہے۔ یوں شاد صاحب ظہیرکاشمیری کے پاس گئے۔ ظہیر صاحب نے کہا ''کیوں صاحبزادے تمہارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے جو اس نو عمری میں اس بربادی کے راستے پر چل نکلے ہو۔'' وہ لکھتے ہیں کہ '' ظہیر کاشمیری کا انقلاب تو گویا ان کا اصل مضمون فلسفہ تھا۔ وہ راگ داری کے علم سے قدرے واقفیت رکھتے تھے۔ تمام بڑے بڑے کلاسیکل گائیک ان کے سامنے سنبھل کرگایا کرتے تھے۔ اسلم نے شاگردی میں آنے کا خوبصورت منظر اس کتاب میں بیان کیا اور ظہیر کاشمیری نے اسلم صاحب سے حلف لیا تھا ۔ اس حلف میں یہ بھی تحریر تھا کہ '' ہر قسم کی بد صورتی سے نفرت کروں گا، ہر طرح کی خوبصورتی سے محبت کروں گا، ہر قسم کے مذہبی تعصب سے پاک زندگی گزاروں گا۔ ہر طرح کے ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھاؤں گا۔ ''
اپنے دوست عنایت اﷲ خان آتش لدھیانوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ تقریباً 20 سال تک اورینٹل کالج اور پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم رہا۔ ملک غلام یزدانی عمر میں مجھ سے بڑا تھا مگر میری دوستی کا اس کے ساتھ انداز ہم عمروں کی طرح ہی کا تھا۔ 1946ء میں صدر ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے انتخاب کا اعلان ہوا ۔ یزدانی مجھے مسلم لیگ کے دفتر لے گیا، وہاں میری ملاقات حنیف رامے کے ساتھ ہوئی ۔ ان دونوں حضرات کی تعریف وتوصیف نے مجھے ایوب خان کی حمایت میں شعر کہنے پر آمادہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایوب خان کے دورہ چین کی وجہ سے ترقی پسند اور امریکی سامراج کی نظریاتی مخالفت، انقلابی سیاسی جماعتوں نے مادر ملت کے مقابلے میں ایوب خان کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ گورداس پوری لکھتے ہیں کہ ان دنوں میری ایسوسی ایشن چین نواز دانشوروں کے ساتھ تھی۔ لہٰذا چین نواز دانشوروں کے فیصلے کے تحت میں بھی ایوب خان کا حامی بن گیا۔ یوں مسلم لیگی رہنما خدا بخش بچہ نے اسلم گورداس پوری کا جنرل ایوب خان سے تعارف کیا اور ان کے جلسے میں ایک نظم پڑھنے پر 2 ہزار روپے ملے،یوں پھر وزیر خوراک خدا بخش بچہ نے انسپکٹر کی نوکری کے تقرر کا پروانہ دے دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں کبھی دفتر نہیں جاتا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات لاہور کے گورنر ہاؤس میں ہوئی تھی۔ گورنر ہاؤس میں ماہ جنوری 1966ء میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو اسٹیج پر جنرل ایوب خان کے ساتھ نہیں بٹھایا گیا۔ بھٹو کو اسٹیج کے ایک طرف کرسی پر بٹھایا گیا۔ گورنر ہاؤس کی نشست بندی کا یہ امتیازی انداز ایوب اور بھٹو کے اختلافات کا بہت نمایاں ثبوت تھا۔ اس تقریب میں ایک مسلم لیگی کارکن محمد حسین نے اس تقریب کا تمام سلسلہ درہم برہم کرتے ہوئے اپنے مخصوص ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں گورنر آف کالا باغ کے حق میں تقریر کرنا شروع کی۔ ایوب خان اٹھ کھڑا ہوا اور غصے کے عالم میں گورنر ہاؤس کی عمارت کی طرف چل دیا۔ کالا باغ بھی بھاگ کر ایوب خان کو گورنر ہاؤس کے اندر لے گیا۔ گورنر ہاؤس کے سبزہ زار پر ذوالفقار علی بھٹو اور عوام باقی رہ گئے۔کچھ لوگوں نے بھٹوکے نعرے لگانے شروع کردیے۔
میں نے بھٹوکوکندھوں پر اٹھا لیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو ان دنوں مکمل شباب کے عالم میں تھے۔ میں نے اس قدر خوش لباس انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بھٹو صاحب نے اپنی کشتیاں جلانے کا اعلان بعد میں کیا تھا، مگر میں نے اپنی کشتیاں اس دن ہی جلادی تھیں جس دن ان کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو بنانے کا خیال ابھی بھٹوکے ذہن میں ہی تھا جب ان کے ساتھ دوستی اور محبت کا آغاز ہوا تھا۔ میرے اور ان کے درمیان پیغام رسانی کا سلسلہ مرحوم شیخ صفدر علی کے ذریعے ہی ہوا کرتا تھا۔ شیخ صفدر نے مجھے پیغام دیا کہ بھٹو صاحب ہوٹل میں یاد کررہے ہیں تو میں ان کے پاس ہوٹل پہنچ گیا۔ بھٹو نے اپنی بات کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ '' دنیا میں کوئی تبدیلی اورکوئی انقلاب نوجوانوں کے بغیر نہیں آسکتا'' یوں بھٹو کے ساتھ میرا سیاسی سفر شروع ہوا۔ لارڈ ہوٹل میں ایوب خان کی کتاب کے خلاف نظم پڑھی تو ایوب حکومت کے صبرکا پیمانہ جھلک گیا ۔ میرے پیچھے سی آئی ڈی لگادی گئی۔ جس روز میں اکیلا ہوتا سائیکل والے مجھ سے ٹکرا جاتے ۔اسلم گورداس پوری نے ایوب خان کے خلاف تحریک کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے اس پہلے اجلاس میں شرکت کرنے والے مندوبین کی تعداد بمشکل دو سو افراد پر مشتمل تھی۔
ان افراد کی آزادانہ اجتماعی جمہوری رائے کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئر پرسن ، جے اے رحیم کو سیکریٹری جنرل، پنجاب کا صدر شیخ محمد رشید کو بنایا گیا ۔ اسی اجلاس میں مجھے چیئرمین بھٹو نے ''شاعر عوام'' کا خطاب دیا تھا ۔ وہ لکھتے ہیںکہ شہید بھٹوکا سب سے بڑا کارنامہ عام لوگوں کو ان کے حقوق اور ان کی ذات کے شعورکا احساس دلانا تھا ۔ بھٹو خاندانی طور پر مورثی طور پر سیاسی طور پر اور فطری طور پر ایک جاگیردار حاکمانہ طبیعت کے انسان تھے۔ اپنی علم و لیاقت کے اعتبار سے خود پسند انسان تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک حادثاتی اور اتفاقی اقتدار مل جانے کی وجہ سے پارٹی کے کردار وعمل کی صورت حال ہی تبدیل ہوگئی۔ اسلم لکھتے ہیں کہ معراج محمد خان کے کہنے پر بھٹو سے کہا کہ '' سر مجھے پارٹی کا کوئی عہدہ دیا جائے۔'' انھوں نے کہا کہ ''میں قائد عوام تم شاعر عوام ہو، اس سے بڑا تمہیں کیا عہدہ چاہیے'' مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کا کوئی جاگیردار پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر بننے کو تیار نہیں تھا تو مجھے صدر بنایا گیا۔ رانا شوکت محمود میرے ساتھ پنجاب کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر کام کرتے رہے جس کی پاداش میں انھیں اور ان کی بیگم ناصرہ شوکت کو شاہی قلعے میں قید رکھا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب بھٹو کو پھانسی دی جانے والی تھی تو اسلم گورداس پوری نے اپنی جدوجہد کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسلم صاحب 1988ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت میاں نواز شریف کو پورا موقع دیا گیاکہ وہ اپنی حکومت بنالے۔ اس کتاب میں کئی اہم رہنماؤں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ لارنس گارڈن کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور ایک باب تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے حوالے سے بھی ہے اور پھر اس کتاب میں پسندیدہ لوگوں کی فہرست بھی منسلک ہے۔ یہ کتاب ایک ایسے شخص کی سوانح عمری ہے جس نے ہمیشہ علم اور سچائی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور ہر کام سچے دل سے کیا۔ فکشن ہاؤس لاہور نے یہ کتاب شایع کی ہے، اس کی قیمت 800 روپے ہے۔